نیتوں کا فتور

نیتوں کا فتور۔۔۔۔ یہ عذاب بڑھتا ہی جا رہا ہے اور قدرت کی جانب سے ہم گڑھتے ہی جا رہے ہیں

'' ابھی عید کی دعوت پر ہمارے یہاں مہمان چھ آموں کا ایک پیکٹ لائے۔'' ہمارے یہاں آم اس قدر مہنگے ہیں کہ بائیس پونڈ کے چھ آم ہیں اور نہ پوچھو کہ مزہ تو بالکل بھی ویسا نہیں جیسا پاکستانی آم کا ہوتا ہے۔ مٹھاس تو اتنی کم، خوشبو سے احساس ہوتا کہ آم ہیں پتا نہیں کیا بات ہے شاید یہ کچے اتار کر پکا لیتے ہیں اسی لیے ایسے ہیں۔''

''انگلینڈ میں آم اس قدر مہنگا اور حیرت کی بات یہ ہے کہ وہاں بھی میٹھے آم ابھی تک نہیں پہنچے، ہم سمجھے کہ سارا اچھا آم باہر ایکسپورٹ کر دیا ہے۔''

''نہیں نہیں، بالکل بھی وہ مزہ نہیں، دراصل سارا اچھا آم تو سعودیہ اور دبئی وغیرہ چلا جاتا ہے وہاں سے انگلینڈ تک آتے آتے اس قدر مہنگا ہو جاتا ہے، ظاہر ہے کہ فاصلہ زیادہ ہے۔ ٹرانسپورٹ کے بھی پیسے زیادہ بڑھ جاتے ہیں تو مہنگے ہو ہی گئے پر ایسے پھیکے آم خریدنے کا فائدہ۔''

''حیرت کی بات یہ ہے کہ ابھی پچھلے برس ہی اتنا اچھا میٹھا آم تھا بلکہ ہمیں تو گلہ ہوتا ہے کہ اچھا پھل باہر ایکسپورٹ کر دیتے ہیں اور خراب پھل پاکستان میں بھی مہنگے داموں بیچتے ہیں۔''

''انگلینڈ میں ہر چیز ہر فروٹ، سبزی دستیاب ہے لیکن مہنگی ہوتی ہے۔''

''میرا خیال ہے کہ یہ نیتوں کا فتور ہے کہ آم کے موسم میں کیلے میٹھے مل رہے ہیں اور موسم کا فروٹ پھیکا۔''

سوال جواب ہو رہے ہیں اور یو اے ای میں آم چار درہم فی کلو کے حساب سے دستیاب ہیں۔ خوب صورت شکل کے آم، خوشبودار بھی لیکن ذائقہ۔۔۔۔


پھل ہر موسم کی بہار ہوتے ہیں، لوگ شدت سے آم جیسے میٹھے، خوشبودار اور مختلف اقسام میں دستیاب کا انتظار کرتے ہیں۔ بڑے بوڑھوں کو یہ کہتے بھی سنا ہے کہ سخت گرمی پڑے گی تو آم پکیں گے، اب کیا پکتا ہے اور کیا لگتا ہے لیکن اس وقت پاکستان کی اقتصادی حالت بھی 2024 کے بہار کی پکی ہوئی ہے یعنی پاکستان کا ہر شہری اب دو لاکھ اسی ہزار روپے کا مقروض ہوگیا ہے۔ نیتوں کا فتور اس بات کا بجٹ سے کیا تعلق بنتا ہے۔ سمجھ نہیں آتا پھر بھی لوگوں کو کہتے سن رہے ہیں۔

اس برس قربانی کے جانور مہنگے دستیاب تھے، عام سوکھا سا بکرا بھی پینتیس ہزار سے بولی لے کر شروع ہوتا تھا اور بڑے جانور کی شروعات ایک لاکھ ، لیکن سنت ابراہیمی کرنے والے دل رکھتے ہیں لہٰذا پیچھے نہیں ہٹے۔ دلچسپ ویڈیوز تو قربانی کے سیزن کے اوائل میں ہی نظر آگئی تھیں۔ جانوروں کی خوبصورتی اور ان کی پیاری اداؤں کی نہیں بلکہ دن دیہاڑے ان کی چوریوں کی، جب چند نوجوان بظاہر ڈھنگ کے پڑھے لکھے گن پوائنٹ پر ایک نوجوان سے دو بکرے لوٹ کر لے جاتے ہیں۔

پچھلے برس کی وہ ویڈیو تو یاد ہی ہوگی جب جانوروں کے چلتے ٹرک سے بکرے یوں چلتی روڈ پر گرائے جا رہے تھے جیسے منے کی جیب سے کبھی ریوڑیاں گرا کرتی تھیں، آج منے کی جیب بھی بڑی ہوگئی ہے اور اس کی ریوڑیاں۔۔۔۔ جب بھی نیتوں کا فتور اور حالیہ دور کی خبر یہ کہ پورا کا پورا ٹرک ہی جانوروں سے لدا پھندا لوٹ ڈالا، شاید پچھلے برس جانور اتنی اونچائی سے گرانے پر زخمی ہوئے تھے۔ اس بار تو جانوروں کی کھلے عام ڈکیتیاں ایسے سننے کو ملیں کہ یہاں سے پکڑا اور لوٹ مار کرکے فلاں پل کے پاس چھوڑ دیا۔ اس مخصوص پل کے بھی کیا کہنے جہاں کراچی کے دور پار کے علاقوں سے لوٹ مار کرکے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ نیتوں کا فتور۔۔۔۔

ہم سب نیتوں کے عذاب میں جیسے گھرتے ہی جا رہے ہیں کراچی جیسا روشنیوں کا شہر جسے اب بجلی والوں کے فہم و فراست کے باعث اندھیروں کا باسی کہنا مناسب لگتا ہے۔ ایسی ایسی سچی کہانیاں، دکھ درد کی داستانیں بھری پڑی ہیں کہ جنھیں سن کر روح لرز اٹھتی ہے۔ ہمارے اور آپ کے درمیان ایسے ایسے لوگ سانس لے رہے ہیں اور چل پھر رہے ہیں جو ہمارے ہی جیسے انسانوں کے لیے خوف و خطرے کی علامات ہی نہیں بلکہ ظلم و جبر کا ثبوت ہیں۔ ایسے ایسے نجی عقوبت خانے سسک رہے ہیں کیا ہم ان سب سے واقف ہیں، کراچی کا دائرہ پھیل رہا ہے، پھیل چکا ہے۔ ایسا ہی تھا، پورا ملک اسی عذاب میں گھر رہا ہے، گھر چکا ہے، ایسا ہی تھا۔ کیا ہم ان سب سے واقف ہیں؟

نیتوں کا فتور۔۔۔۔ یہ عذاب بڑھتا ہی جا رہا ہے اور قدرت کی جانب سے ہم گڑھتے ہی جا رہے ہیں، ابھی پھیکے اور بے ذائقہ آموں کی دہائی ابھری ہے، یہاں عجیب و غریب بیماریاں جنم لے رہی ہیں، گھروں میں جرائم پنپ رہے ہیں، ہم سب نیتوں کے اس فتور میں جکڑے جا رہے ہیں۔ ہم نے اپنے رب سے تعلق کو بھی کمرشلائز کر لیا ہے۔ اب دعا مانگنے والی زبانیں بھی پھیکے آموں کی مانند بے اثر ہو چکی ہیں، سب ایک دائرے میں گھومتے گھومتے قیامت کے منتظر ہیں۔ کیا واقعی ہم قیامت کے ہی منتظر ہیں۔ ہم جھوٹے، سودخور، منافق، نااہل، غیر ذمے دار ساری برائیاں ہمارے اپنے دامن میں محفوظ ہیں۔

''ارے نہیں، ایسا نہیں ہے کہ قیامت قریب ہے۔ کیا تم نے فرعون کے انجام کو نہیں سنا؟ کیا تم نے ان کے حنوط شدہ اجسام نہیں دیکھے، ایسا پہلے بھی قوموں کے ساتھ ہوا ہے۔ قوم لوط، قوم عاد و ثمود اور ایسی ہی کئی حقیقتیں قرآن میں سب تحریر ہیں، جو قوم گمراہی اور نافرمانی میں حد سے زیادہ بڑھ جاتی تھی رب العزت ان کو تباہ و برباد کر دیتے تھے یہ ان کے لیے قیامت ہی تھی (ذرا مسکرا کر) اور شاید ہم انتظار میں ہیں۔

ایک حقیقت یا ابہام بہرحال نیتوں کا فتور خوفناک ہے بظاہر تو سب ہی اچھا صاف ستھرا لیکن دل و دماغ میں جیسے سیکڑوں سانپ بچھو رینگتے ہیں کس قدر اذیت ناک ہے یہ نیتوں کا فتور، ہم کبھی سمجھ بھی سکیں گے؟
Load Next Story