محبت کے تقاضے

ترکی مغربی انداز میں پلنے لگا، مغربی ممالک کو بہت سی برائیوں کا سہرا پہنایا جاتا ہے

shehla_ajaz@yahoo.com

لاہور:
ابھی کچھ عرصہ پہلے ایک خبر نظر سے گزری جس میں سعودی عرب نے اپنے ملک کے مرد حضرات کو ایک خاص عمر تک کے لیے جنگی تربیت لازمی قرار دی صرف یہی نہیں بلکہ اس قسم کے لیکچرز اور لٹریچر بلکہ یوں کہا جائے کہ دماغی تربیت کہ جس سے ان میں حب الوطنی کا جذبہ پیدا ہو۔ اس سلسلے میں خواتین بھی اجازت کے ہمراہ شامل تھیں۔ یہ اقدام ہو سکتا ہے کہ بہت سے امن پسند ممالک کے لیے عجیب ہو۔ لیکن اگر حقیقی طور پر دیکھا جائے تو یہ ایک نہایت احسن قدم ہے جسے سعودی حکومت نے شدت سے محسوس کیا ہے اور عمل بھی کیا اور ایسے وقت میں جب کہ قطر اپنی پوزیشن سب سے آگے رکھنے کی کوشش میں ادھر ادھر ہاتھ پیر مار رہا ہے اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟ یہ سب کیوں کیا جا رہا ہے؟ عرب ممالک کے بیچ اس نفاق کے بیج کا سب سے زیادہ فائدہ کس کو پہنچ سکتا ہے؟

ایک دور تھا جب ترکی اسلامی مملکت کا چمکتا ستارہ تھا، لیکن پھر سلطان عبدالحمید کے عہد خلافت میں ترکی اور عرب ممالک کے درمیان علاقے کو فتنہ فساد نے تباہ و برباد کر دیا، ترکی مرد بیمار بن گیا، ایسے میں مصطفیٰ کمال پاشا اتاترک میدان میں اترے جہاں انھوں نے ترکی کو دنیائے عالم میں ایک اعلیٰ مقام دلایا، زمین سے اٹھا کر اپنے پیروں پر کھڑا کیا وہیں ترکی میں اسلامی تشخص کا نام بھی دھندلکوں میں کھو گیا۔ عربی رسم الخط، عربی کتابیں، ادب، تحقیق، فلسفہ سب کچھ عربی زبان سے ترکی زبان کی جانب موڑ دیا گیا حالانکہ ایک طویل عرصے سے یہ سب عربی زبان میں رائج تھا لیکن نفاق کے بیج نے ترکی کی نسلوں کو اسلام اور اس کے شعار سے دور کر دیا۔

ترکی مغربی انداز میں پلنے لگا، مغربی ممالک کو بہت سی برائیوں کا سہرا پہنایا جاتا ہے لیکن اس کے درپیش وہ عوامل ہیں جو ان ممالک کو ماڈرن طرز پر چلانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ان کے عزائم دراصل کچھ اور ہیں اور ابھی تک محسوس یہ ہوتا ہے کہ مسلمان ممالک اور بہت سے بڑے ہاتھیوں کو آپس میں اس طرح سے بھڑانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جس سے ایک عام فضا یہ قائم ہو کہ یہ جدت پسندی اور قدامت پسندی کی جنگ ہے لیکن ان بڑے ہاتھیوں کو بھی جس انداز سے زیر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس سے وہ واقف ہوتے ہوئے بھی ناواقف ہیں۔

بہت سی ایسی اقوام ہیں جن کا خیال ہے کہ مسلمانوں کی اہم عبادت کی جگہ یعنی ''کعبہ'' جسے پروردگار کا گھر بھی کہا جاتا ہے مسلمانوں کے عقائد کا ایک ایسا مقام ہے کہ اگر اسے کسی طرح اس طرح نعوذ باللہ سازشوں کے جال سے کسی طرح زک پہنچایا جائے تا کہ ان کے عقائد کا طلسم ٹوٹ جائے یہ سوچ کسی بھی انداز کی ہو اسے عملی جامہ پہنانے کا صرف تصور ہی ہو کیونکہ یہ مالک کی جانب سے ہے کہ وہ اپنے گھر کی حفاظت کرتے ہیں۔

سورہ الفیل میں اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ جب اس مقدس گھر کی جانب بری نظر سے دیکھا گیا تو ابراہہ کے ہاتھیوں کے لشکر کو ابابیلوں نے اپنی چونچ میں دبی کنکریوں سے کیسے برباد کیا لہٰذا اس سے آگے کچھ کہنے کی گنجائش ہی نہیں لیکن ان تمام ہوائی قلعوں کے آگے ہم مسلمانوں کا کیا فرض بنتا ہے کیا ہم یہود و نصاریٰ کے ہاتھوں ایسے بکھر جائیں کہ ہمارا مذہب ہمارا نام محض شناخت کی علامت کے طور پر رہ جائے۔


بہت سے ایسے تھنکرز بھی ہیں جو ان تمام حالات میں اصل حقائق کو مسخ کرتے اسے بینکرز کی مالیاتی جنگ قرار دے رہے ہیں لیکن کیا بینکرز اس دنیا سے کٹ کر اپنے ممالک سے کٹ کر کسی اور سہارے پر بستے ہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے وہ یہیں اسی دنیا میں ہمارے ساتھ اسی زمین پر بستے ہیں اس میں ان کی کیا سیاست ہے؟

کیا وہ صرف پیسوں کے امیدوار ہیں اور وہ عرب ممالک کو ان کا پیسہ جو انھوں نے انتہائی بڑی تعداد میں بیرون ملک کے بینکوں میں رکھوایا ہے واپس دینا نہیں چاہتے، کچھ بات سمجھ نہیں آتی، ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب اخبار کی ایک خبر کے مطابق برطانیہ کو عرب ممالک کے شہریوں کے لیے شاپنگ، ہوٹلنگ اور سیر و تفریح کے لیے سب سے زیادہ پسندیدہ قرار دیا گیا تھا جہاں یہ حضرات اپنے سرمایوں کا ایک بڑا حصہ خرچ کرتے ہیں اسی طرح غالباً قطر کی ایک شہزادی کو مہنگی ترین تصاویر خریدنے والوں کی فہرست میں اول نمبر پر قرار دیا گیا۔

موصوفہ کو مہنگی تصاویر خریدنے کا شوق ہے۔ اسی طرح سے عرب ممالک کے امرا اپنی تعیشات پر بے جا اصراف کرتے رہتے ہیں اور ان کے خرچ کرنے کے مقامات زیادہ تر مغربی ممالک ہی ہوتے ہیں، لہٰذا ان ممالک میں عرب ممالک کے امیر باشندے اپنی پسند اور نمود و نمائش پر پانی کی طرح پیسہ بہاتے رہتے ہیں لہٰذا آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ تو کھلا ہی رہتا ہے البتہ اصل حقیقت جب تک ڈھکی چھپی رہے بہتر ہے کی پالیسی چلائی جا رہی ہے۔

پروردگار نے انسانوں کی یہ بستی، محبت، امن و آتشی، بھائی چارے اور ان کی عبادت کرتے رہنے کے لیے بنائی ہے لیکن انسان اپنے حقوق کی جنگ کا راگ الاپتے الاپتے اتنا بے بہرہ ہو چکا ہے کہ وہ اپنے راستے میں آنیوالی تمام رکاوٹوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹتا جا رہا ہے ایک کے بعد ایک لیکن نہ اسے اس کے حقوق مل رہے ہیں جو کہ اس کی اپنی نظر میں اس کے حقوق ہیں اور نہ ہی کٹنے والے کم ہو رہے ہیں یہ ایک سلسلہ ہے پیمانہ ہے کہ کون اپنے حصے سے کتنا ڈالتا ہے۔

ذرا سوچئے جس پروردگار نے اتنی بڑی کائنات بنائی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا آخری نبی بنا کر بھیج کر رسالت کے سلسلے کا اختتام کر دیا کیا وہ رب العزت مسلمانوں کو دنیا کی طاقتور ترین قوم نہیں بنا سکتا کہ ان کے پاس کسی نعمت کی کمی ہے لیکن یہ ایک امتحان ہے ہم انسانوں کا کہ ہم انسان ان کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر کیسے ادا کرتے ہیں۔ ان کی بستی میں کیسے گزر بسر کرتے ہیں، ہم بھول جاتے ہیں کہ ایک ماں اپنی اولاد سے بہت پیار کرتی ہے اور رب العزت اپنی مخلوق سے ہمارے والدین سے ستر گنا زیادہ محبت کرتے ہیں۔ ذرا سوچئے ہم ان کی محبت کے تقاضوں کو کس انداز سے پورا کرتے ہیں کیا ہم واقعی اتنی محبت کے قابل ہیں یا اپنی ناجائز خواہشات کے غلام بن کر انسانی جانوروں کی فہرست در فہرست درج کرتے جائیں گے۔
Load Next Story