عراق میں دہشت گردی کون ملوث

میں دعوے کے ساتھ یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ دنیا کا کوئی بھی ٹی وی چینل یا اخبار آپ کو یہ بات نہیں بتائے گا۔۔۔

عراق ایک مرتبہ پھر ذرایع ابلاغ کی ٹاپ اسٹوریز میں ہے خصوصاً مغربی میڈیا تو کچھ زیاد ہ ہی سر گرم عمل نظر آ رہا ہے، مغربی میڈیا پر عراق کے حالات کی عجیب و غریب ہی تصویر کشی کا عمل جاری ہے، آدھا سچ بلکہ جھوٹ پر مبنی خبریں، منفی پراپیگنڈا سمیت ہر وہ قدم اٹھا یا جا رہا ہے جس سے عالمی سامراج امریکا کو فائدہ پہنچ سکتا ہو۔

میں دعوے کے ساتھ یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ دنیا کا کوئی بھی ٹی وی چینل یا اخبار آپ کو یہ بات نہیں بتائے گا کہ امریکا ہی ہے جو داعش نامی دہشتگرد گروہ کی مالی اور مسلح معاونت میں مصروف عمل ہے۔ آپ کو کسی بھی ذرایع ابلاغ سے ایسی خبر بالکل نہیں دی جا ئے گی کہ امریکا دہشتگردوں کی عراق میں براہ راست مدد کر رہا ہے بلکہ ایسی خبریں ضرور دی جا رہی ہونگی اور دی بھی جا رہی ہیں کہ امریکی صدر باراک اوبامہ کو عرا ق میں دہشتگردوں کی دہشتگردانہ کاروائیوں پر شدید تشویش ہے اور و ہ انتہائی بے چین ہیں۔

مغربی ذرایع ابلاغ کی جانب سے عراق کے حالات پر کی جانیوالی رپورٹنگ میں آپ کو کبھی بھی یہ نہیں بتایا جائے گا کہ عرا ق کی موجودہ حالت کا ذمے دار بھی خود واشنگٹن ہے کیونکہ آپ کو بتایا ہی نہیں جائے گا کہ عراق سے دسمبر 2011 میں امریکی افواج کے انخلاء کے باوجود اب بھی وہاں پر 200 سے زائد فوجی ٹروپس اور امریکی اعلیٰ سطح کے مشیر اور اہم ترین افراد موجود ہیں، آخر یہ افراد عراق میں کر کیا رہے ہیں؟ ان خبروں کو کبھی بھی کوئی بھی میڈیا اپنے ٹی وی چینل کی زینت نہیں بنائے گا۔

اس طرح کی بھی کوئی خبر شاید آپ کو نہیں بتائی جائے گی کہ جو امریکی اعلیٰ سطح کے عہدیدار آج بھی عراق میں موجود ہیں وہ داعش جیسی خطر ناک دہشت گرد تنظیموں کی نہ صرف تربیت میں مصروف عمل ہیں بلکہ ان کو مالی وسائل کی فراہمی اور اسلحے کی فراہمی کے لیے بھی سب سے اہم ترین وسیلہ یہی لوگ ہیں۔

ہمیشہ کی طرح ذرایع ابلاغ کے مرکزی ذرایع آپ کو کبھی یہ نہیں بتائینگے کہ کیا ہو رہا ہے اور کس کی ایماء پر کیا جا رہا ہے، یہ ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی عالمی طاقتوں کے مفادات اور اپنے ذاتی فائدے کی خاطر حقیقت کے رخ کو توڑ مروڑ کر پیش کریں گے اور یہ کام عراق پر داعش کے حملے کے پہلے روز سے ہی شروع کر دیا گیا ہے۔ یقینا اپنے مقاصد اور عالمی طاقتوں کے مفادات کی خاطر یہ ذرایع آپ کو یہی بتائینگے کہ عراق میں ''سول وار'' چل رہی ہے۔

عراق کو غیر مستحکم کرنا اور وہاں پر افرا تفری پھیلانے کا منصوبہ امریکا اور اسرائیل کا مشترکہ منصوبہ ہے جو صرف عراق تک محدود نہیں بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ یہ منصوبہ بندی کوئی ہنگامی بنیادوں پر نہیں کی گئی بلکہ امریکا اور اسرائیل کی اس منصوبہ بندی کو کئی سال کا عرصہ بیت چکا ہے جس کے بعد اب ان کے یہ منصوبے عملی صورتحال اختیار کرتے ہی چلے جا رہے ہیں، پہلے فلسطین، پھر لبنان، مصر، شام اور اب عراق، اور پھر نہ جانے کون سا مالک، خاکم بدہن کہیں اگلا نمبر ہمارے وطن عزیز پاکستان کا ہی تو نہیں؟ اور شاید یہ منصوبہ پھیلتے پھیلتے پورے گلف کو ہی اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ شاید ایران کی سرحدوں پر بھی گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور پھر اسی طرح ایک طرف افغانستان بھی موجود ہے، اور وسطی ایشیا ء کے وسائل پر پہلے ہی امریکا اور غاصب اسرائیل نے نظریں جما رکھی ہیں۔


امریکا کے نئے مشرق وسطیٰ کے منصوبے میں لبنان سے لے کر عراق تک تمام علاقوں میں افراتفری کا ہونا امریکی منصوبہ بندی کی ایک کڑی ہے، امریکا اور اسرائیلی ماضی میں ہی نئے مشرق وسطیٰ کا منصوبہ متعارف کروا چکے ہیں ، اگر لبنان 2006میں امریکا کے ساتھ بالواسطہ اور اسرائیل کے ساتھ براہ راست 33 روزہ جنگ میں کامیاب نہ ہوتا تو امریکی اور اسرائیلی ''نیا مشرق وسطیٰ'' منصوبہ اپنے آخری مراحل میں ہوتا۔

امریکا اور ا سرائیل کے اس نئے مشرق وسطیٰ کے قیام کے منصوبے میں ایک طرف لبنان اور شام کے درمیان خلیج پیدا کرنا ہے تو دوسری طرف خلیج فارس میں ایران کے گرد گھیرا تنگ کرنا بھی شامل ہے اور یہ امریکا اور اسرائیل کا لمبی مدت تک کام کرنیوالے منصوبوں میں سے ایک منصوبہ ہے۔ انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کچھ عرب بادشاہتیں آج بھی امریکا کو معاونت فراہم کر رہی ہیں تا کہ امریکا اپنے نئے مشرق وسطیٰ کے قیام کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہو جائے جب کہ دوسری طرف غاصب صہیونی ریاست اسرائیل ہے کہ جس نے امریکا کے ساتھ مل کر گریٹر اسرائیل جیسے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے حکمت عملی وضع کر رکھی ہے۔

امریکا اور اسرائیل کی جانب سے بنایا جانے والا ''نیا مشرق وسطیٰ '' اور ''گریٹر اسرائیل'' کے منصوبوں پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ان شیطانی قوتوں نے پہلے فلسطین، پھر لبنان، پھر مصر، لیبیا، افغانستان، شام اور اب شام کے بعد عراق میں اپنے پنجے گاڑھنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے گریٹر اسرائیل کے ناپاک منصوبے کہ جس میں مکہ مکرمہ تک اسرائیلی غاصبانہ تسلط اور عرب ریاستوں کی چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کا عمل شامل ہے، اس ناپاک منصوبے کی تکمیل کی خاطر مسلم ممالک کو دہشتگردو ں کی آماجگاہ بنایا جا رہا ہے۔

آج مغربی ذرایع ابلاغ شام سے فرار اختیار کرنے کے بعد عراق پہنچنے والے داعش نامی دہشتگرد گروہ کو اپنی خبروں میں سنی شدت پسند، سنی انتہا پسند، سنی جہادی، سنی گروہ کے نام سے متعارف کروا رہے ہیں آخر اس کے پیچھے ان کے کیا مقاصد ہیں، یقینا مغربی قوتیں اپنے ذرایع ابلاغ کی قوت کو استعمال کر کے نہ صرف یہ کہ عراق میں فرقہ واریت کو ہوا دینا چاہتی ہیں بلکہ عراق کے ساتھ ساتھ دنیا کے دیگر مسلم ممالک میں بھی فتنہ و فساد کی آگ کو بھڑکانے میں مصروف عمل ہیں۔ آج عالم مغرب اور سامراجی قوتیں مسلمانوں کے درمیان فرقہ و فساد کو ہوا دینے کے لیے جس قوت سے سر گرم عمل ہیں شاید ہی تاریخ میں اس کی کوئی مثال ملے۔

شا م کے بعد عراق پر حملہ آور تکفیری گروہ داعش کو مغربی ذرایع ابلاغ روز اول سے ہی ایک سنی انتہا پسند گروہ کے عنوان سے پرچار کر رہے ہیں، تو کیا واقعی داعش سمیت شام میں اور عراق میں مظلوم انسانوں کا خون بہانے والے خون خوار دہشتگرد سنی مسلمانوں سے تعلق رکھتے ہیں؟ مغربی ذرایع ابلاغ کی جانب سے عراق کے علاقے موصل پر داعش کے تکفیری دہشتگردوں کے حملوں اور قبضے کے بعد اس طرح کی شہ سرخیاں چلائی گئیں ، ملاحظہ کریں، سنی انتہا پسندوں کا موصل پر کنٹرول، سنی جہادی گروہ نے موصل پر قبضہ کر لیا۔ سنی جہادیوں نے عراق کے شمال کو اپنے تسلط میں لے لیا۔

مغربی ذرایع ابلاغ اور ان کے زر خرید عرب ذرایع ابلاغ نے عراق میں تکفیری دہشتگردوں کے حملوں کو سنی مسلمانوں جہادیوں کا حملہ قرار دیا اور اس بات کو پھیلانے کی کوشش کی کہ عراق میں شیعہ اور سنی مسلمانوں کے درمیان کوئی جنگ شروع ہو چکی ہے۔ واضح رہے کہ جس دہشتگرد گروہ کو سنی مسلم گروہ قرار دیا جا رہا ہے اس کا نام داعش ہے اور وہ القاعدہ کا باغی گروہ ہے جو آپس میں چند ہزار ڈالروں کی تقسیم کے معاملے پر ایک دوسرے سے جدا ہو گیا ہے لیکن سوال پھر یہی پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی داعش سنی عقیدہ مسلمان گروہ کا نام ہے؟ بہت سے ماہرین سیاسیات کا خیال ہے کہ نہیں ایسا نہیں ہے۔ ہر گز ایسا نہیں ہے۔

پاکستان کے جید علمائے کرام اور اسلامی حلقوں کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے تا کہ اس فتنے کا مقابلہ کیا جا سکے ورنہ مغرب اور مغربی میڈیا مغربی سامریوں کے اشاروں پر پوری دنیا کو خون میں لت پت کرنے کے لیے سرگرم عمل ہے، آج اسلامی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اولیاء اللہ، بزرگان دین، اہل بیت، صحابہ کرام، اور برگزیدہ شخصیات کے مزارات مقدسہ بھی صیہونی ایجنٹوں کے نشانوں پر ہیں، ہمیں سوچنا ہو گا ورنہ پاکستان میں جاری مشکلات بھی شام اور عراق کی مشکلات سے کم نہیں ہیں، افواج پاکستان نے ان کی سرکوبی کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے دیر آید درست آید، اللہ تعالیٰ ہمارے پاک فوج کے جوانوں کی حفاظت فرمائے اور ان کو کامیابی و کامرانی عطا فرمائے۔
Load Next Story