ٹیکسوں سے بس کر دیں بس
حکومتی اتحادی پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ (ن) لیگ کی حکومت نے ہمیں اعتماد میں نہیں لیا
سابق وفاقی وزیر اور ایم کیو ایم کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر فاروق ستار نے نئے بجٹ میں ٹیکس بڑھائے جانے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ '' بس بھئی بس، زیادہ ٹیکس نہیں چیف صاحب! آج کے بعد زیادہ برداشت نہیں چیف صاحب۔'' ڈاکٹر فاروق ستار کا یہ بیان ٹیکسوں کی بھرمار کے اس دور میں قوم کی ترجمانی کر رہا ہے اور بے شمار ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبی قوم بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئی ہے کہ بس بھئی بس حکومت اب مزید ٹیکس نہ لگائے بلکہ پہلے سے لگے ہوئے ٹیکسوں کی وصولی پر زیادہ سے زیادہ توجہ دے کیونکہ پہلے والے ٹیکس ہی وصول کرانے میں حکومت کو مشکلات کا سامنا ہے۔
فنانس بل پر وزیر اعظم شہباز شریف نے دستخط کردیے جس کے بعد وزیر خزانہ نے بھی قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کردیا جس میں نئے ٹیکسوں کی بھرمارکردی گئی ہے جس کو پی ٹی آئی نے عوام کا قاتل بجٹ قرار دینا ہی تھا مگر اہم تاجر اور صنعتکاروں نے بھی اپنے ردعمل میں کہا کہ بجٹ تاجر دوست نہیں اس بجٹ سے مہنگائی کا طوفان آئے گا جس میں عوام اور معیشت کو قربان کر دیا گیا ہے اور عوام کی مشکلات مزید بڑھیں گی۔
حکومتی اتحادی پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ (ن) لیگ کی حکومت نے ہمیں اعتماد میں نہیں لیا۔ بجٹ میں تنخواہوں اور کسانوں سے متعلق وعدے پورے نہیں کیے گئے۔ ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل سیکٹر نے بجٹ کو ایکسپورٹ دشمن قرار دیا ہے۔ پی ٹی آئی رہنما زرتاج گل نے کہا کہ یہ غریب عوام نہیں آئی ایم ایف کا عوام دشمن بجٹ ہے۔ فروٹ اینڈ ویجی ٹیبل ایکسپورٹرز کا کہنا ہے کہ بجٹ میں زرعی شعبہ نظرانداز کیا گیا ہے۔
چیمبرز آف کامرس و انڈسٹری کے صدر کا کہنا ہے کہ ہماری بجٹ تجاویز کو پراپر ایڈریس نہیں کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری کا کہنا ہے کہ بجٹ بنانے میں پیپلز پارٹی کو شامل نہیں کیا گیا۔ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن کا تبصرہ ہے کہ آئی ایم ایف کی غلامی کی دستاویز کو بجٹ کا نام دیا گیا ہے۔ بجٹ اعلان کے بعد صرف بجٹ مخالفت میں ہی تبصرے ہوئے کسی (ن) لیگی رہنما کا بجٹ پر تبصرہ سامنے ہی نہیں آیا کیونکہ پہلے ہی پتا تھا کہ بجٹ کیسا ہوگا۔ حکومتی پارٹی مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نواز شریف اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو، جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمن و دیگر اہم رہنما بجٹ سننے ایوان ہی میں نہیں آئے کہ فوری تبصرہ نہ کرنا پڑے۔
ایوان میں عوام سے حقیقی تعلق رکھنے والا کوئی ایک بھی عوامی نمایندہ موجود نہیں جو عوام میں سے ہو اور عوام کی مشکلات کا حقیقی احساس رکھتا ہو۔ عوام کی دکھاوے کی ترجمانی میں تقاریر ہوں گی قرضے مانگنے کی عادی حکومت اپنی مجبوریاں گنوائے گی، اپوزیشن اور حکومت کے مخالفین بجٹ کو عوام دشمن قرار دیتے رہیں گے اور حکومت کے حامی ملک و قوم کے وسیع مفاد میں بجٹ کی منظوری دینے پر مجبور ہو جائیں گے اور عوام ایک بار پھر منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔ بجٹ اب صرف دکھاوے کے لیے ہے جس میں پہلے صرف پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھائے جاتے تھے جو اب ہر ماہ دو بار تبدیل ہو جاتے ہیں۔ بجلی و گیس کا بجٹ سے کوئی تعلق نہیں وہ حکومت جب چاہے بڑھا دیتی ہے جس کے عوام عادی ہوگئے ہیں اور اب بجٹ صرف سرکاری ملازمین کی تنخواہ بڑھانے، عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ مزید لادنے کی رسم بن چکی ہے جس میں اپوزیشن اپنی سیاست چمکاتی اور حکومت اپنی مجبوریاں دہراتی رہی ہے۔
ہر حکومت کو عوام سے شکایت رہی ہے کہ وہ ٹیکس نہیں دیتے اس لیے اب حکومت جبری ٹیکس وصولی پر اتر آئی ہے اور حکومت یہ بات نہیں مانتی کہ عوام پہلے ہی ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں اور بازار سے جو بھی پیک چیز خریدتے ہیں اس پر واضح طور پر لکھا ہوتا ہے کہ اس چیز پر کتنا ٹیکس حکومت نے عائد کیا ہے مگر یہ بات علیحدہ ہے کہ یہ ٹیکس مذکورہ کمپنیاں حکومت کو پورا دے بھی رہی ہیں کہ نہیں کیونکہ ٹیکس وصول کرنے والوں کی ہر جگہ میٹنگ ہے اور حکومت بھی لاعلم ہے کہ عوام سے وصول کی گئی کتنی رقم اسے مل رہی ہے۔
حکومت نے نان فائلرزکے خلاف اپنا شکنجہ مزید سخت کر دیا ہے۔ نان فائلر بیرون ملک سفر کے قابل کہاں تھے وہ تو اب زندگی بھر کی جمع کی گئی کمائی سے عمرے پر جانے کے قابل بھی نہیں رہے۔ فائلر مہنگے و ٹچ موبائل فونز اور آئی فونز استعمال کرتے ہیں جن میں لوڈ ڈلوانا ہی نہیں پڑتا، نان فائلرز وہ غریب ہیں جو مجبوری میں ضرورت کے لیے دو چار ہزار والے سستے فونز رکھتے ہیں کیونکہ یہ فون رکھنا عیاشی نہیں ضرورت ہے اور وہی لوڈ کراتے ہیں جس پر اب حکومت 75 فی صد ٹیکس وصول کرکے لوگوں کی یہ سہولت بھی ختم کرنا چاہتی ہے اور حکومت کو غریبوں کی سہولت بھی پسند نہیں آ رہی اور نان فائلرز غریبوں کو ہی کچلا جا رہا ہے نان فائلرز غریبوں کی عیاشی سستی سگریٹیں تھیں جو پی کر وہ حکومت کو کوس کوس کر اپنی صحت خراب کر رہے تھے اب حکومت انھیں یہ عیاشی بھی نہیں کرنے دے گی۔
عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ اب حد سے زیادہ واقعی بڑھ چکا ہے اور وہ اب مزید ٹیکس برداشت کرنے کی سکت ہی نہیں رکھتے اور فاروق ستار نے عوام کی واقعی درست ترجمانی کر دی ہے کہ ٹیکسوں کی بس کردیں بس۔ بہت ہو چکا اور مزید ٹیکس ناقابل برداشت ہو جائیں گے کیونکہ حکومت عوام کا جینا مزید حرام کر رہی ہے۔ سرکاری وسائل پر عیش کرنے والے اب غریبوں کا احساس کرکے بس کردیں۔
فنانس بل پر وزیر اعظم شہباز شریف نے دستخط کردیے جس کے بعد وزیر خزانہ نے بھی قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کردیا جس میں نئے ٹیکسوں کی بھرمارکردی گئی ہے جس کو پی ٹی آئی نے عوام کا قاتل بجٹ قرار دینا ہی تھا مگر اہم تاجر اور صنعتکاروں نے بھی اپنے ردعمل میں کہا کہ بجٹ تاجر دوست نہیں اس بجٹ سے مہنگائی کا طوفان آئے گا جس میں عوام اور معیشت کو قربان کر دیا گیا ہے اور عوام کی مشکلات مزید بڑھیں گی۔
حکومتی اتحادی پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ (ن) لیگ کی حکومت نے ہمیں اعتماد میں نہیں لیا۔ بجٹ میں تنخواہوں اور کسانوں سے متعلق وعدے پورے نہیں کیے گئے۔ ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل سیکٹر نے بجٹ کو ایکسپورٹ دشمن قرار دیا ہے۔ پی ٹی آئی رہنما زرتاج گل نے کہا کہ یہ غریب عوام نہیں آئی ایم ایف کا عوام دشمن بجٹ ہے۔ فروٹ اینڈ ویجی ٹیبل ایکسپورٹرز کا کہنا ہے کہ بجٹ میں زرعی شعبہ نظرانداز کیا گیا ہے۔
چیمبرز آف کامرس و انڈسٹری کے صدر کا کہنا ہے کہ ہماری بجٹ تجاویز کو پراپر ایڈریس نہیں کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری کا کہنا ہے کہ بجٹ بنانے میں پیپلز پارٹی کو شامل نہیں کیا گیا۔ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن کا تبصرہ ہے کہ آئی ایم ایف کی غلامی کی دستاویز کو بجٹ کا نام دیا گیا ہے۔ بجٹ اعلان کے بعد صرف بجٹ مخالفت میں ہی تبصرے ہوئے کسی (ن) لیگی رہنما کا بجٹ پر تبصرہ سامنے ہی نہیں آیا کیونکہ پہلے ہی پتا تھا کہ بجٹ کیسا ہوگا۔ حکومتی پارٹی مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نواز شریف اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو، جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمن و دیگر اہم رہنما بجٹ سننے ایوان ہی میں نہیں آئے کہ فوری تبصرہ نہ کرنا پڑے۔
ایوان میں عوام سے حقیقی تعلق رکھنے والا کوئی ایک بھی عوامی نمایندہ موجود نہیں جو عوام میں سے ہو اور عوام کی مشکلات کا حقیقی احساس رکھتا ہو۔ عوام کی دکھاوے کی ترجمانی میں تقاریر ہوں گی قرضے مانگنے کی عادی حکومت اپنی مجبوریاں گنوائے گی، اپوزیشن اور حکومت کے مخالفین بجٹ کو عوام دشمن قرار دیتے رہیں گے اور حکومت کے حامی ملک و قوم کے وسیع مفاد میں بجٹ کی منظوری دینے پر مجبور ہو جائیں گے اور عوام ایک بار پھر منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔ بجٹ اب صرف دکھاوے کے لیے ہے جس میں پہلے صرف پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھائے جاتے تھے جو اب ہر ماہ دو بار تبدیل ہو جاتے ہیں۔ بجلی و گیس کا بجٹ سے کوئی تعلق نہیں وہ حکومت جب چاہے بڑھا دیتی ہے جس کے عوام عادی ہوگئے ہیں اور اب بجٹ صرف سرکاری ملازمین کی تنخواہ بڑھانے، عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ مزید لادنے کی رسم بن چکی ہے جس میں اپوزیشن اپنی سیاست چمکاتی اور حکومت اپنی مجبوریاں دہراتی رہی ہے۔
ہر حکومت کو عوام سے شکایت رہی ہے کہ وہ ٹیکس نہیں دیتے اس لیے اب حکومت جبری ٹیکس وصولی پر اتر آئی ہے اور حکومت یہ بات نہیں مانتی کہ عوام پہلے ہی ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں اور بازار سے جو بھی پیک چیز خریدتے ہیں اس پر واضح طور پر لکھا ہوتا ہے کہ اس چیز پر کتنا ٹیکس حکومت نے عائد کیا ہے مگر یہ بات علیحدہ ہے کہ یہ ٹیکس مذکورہ کمپنیاں حکومت کو پورا دے بھی رہی ہیں کہ نہیں کیونکہ ٹیکس وصول کرنے والوں کی ہر جگہ میٹنگ ہے اور حکومت بھی لاعلم ہے کہ عوام سے وصول کی گئی کتنی رقم اسے مل رہی ہے۔
حکومت نے نان فائلرزکے خلاف اپنا شکنجہ مزید سخت کر دیا ہے۔ نان فائلر بیرون ملک سفر کے قابل کہاں تھے وہ تو اب زندگی بھر کی جمع کی گئی کمائی سے عمرے پر جانے کے قابل بھی نہیں رہے۔ فائلر مہنگے و ٹچ موبائل فونز اور آئی فونز استعمال کرتے ہیں جن میں لوڈ ڈلوانا ہی نہیں پڑتا، نان فائلرز وہ غریب ہیں جو مجبوری میں ضرورت کے لیے دو چار ہزار والے سستے فونز رکھتے ہیں کیونکہ یہ فون رکھنا عیاشی نہیں ضرورت ہے اور وہی لوڈ کراتے ہیں جس پر اب حکومت 75 فی صد ٹیکس وصول کرکے لوگوں کی یہ سہولت بھی ختم کرنا چاہتی ہے اور حکومت کو غریبوں کی سہولت بھی پسند نہیں آ رہی اور نان فائلرز غریبوں کو ہی کچلا جا رہا ہے نان فائلرز غریبوں کی عیاشی سستی سگریٹیں تھیں جو پی کر وہ حکومت کو کوس کوس کر اپنی صحت خراب کر رہے تھے اب حکومت انھیں یہ عیاشی بھی نہیں کرنے دے گی۔
عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ اب حد سے زیادہ واقعی بڑھ چکا ہے اور وہ اب مزید ٹیکس برداشت کرنے کی سکت ہی نہیں رکھتے اور فاروق ستار نے عوام کی واقعی درست ترجمانی کر دی ہے کہ ٹیکسوں کی بس کردیں بس۔ بہت ہو چکا اور مزید ٹیکس ناقابل برداشت ہو جائیں گے کیونکہ حکومت عوام کا جینا مزید حرام کر رہی ہے۔ سرکاری وسائل پر عیش کرنے والے اب غریبوں کا احساس کرکے بس کردیں۔