ہم سفروں کی اقتدار قبولیت
جے یو آئی کے سربراہ اس سے قبل کہہ چکے ہیں کہ ہمیں نواز شریف سے ملاقاتوں پر کوئی عار نہیں ہے
مولانا فضل الرحمن نے شکوہ کیا ہے کہ ہمارے ہم سفروں نے دھاندلی زدہ الیکشن کے بعد اقتدار قبول کیا مگر ہم کسی صورت قبول نہیں کریں گے اور اپنی جاری جدوجہد میں ہر قسم کے نتائج بھگتنے کے لیے بھی تیار ہیں اور ملک میں مثبت جمہوری جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔ انھوں نے بانی پی ٹی آئی سے رابطوں کی بھی تردید کی اور کہا کہ سوشل میڈیا پر جھوٹ بولا جا رہا ہے اور جلد ہم اپنا لائحہ عمل دیں گے۔
جے یو آئی کے سربراہ اس سے قبل کہہ چکے ہیں کہ ہمیں نواز شریف سے ملاقاتوں پر کوئی عار نہیں ہے الیکشن کے بعد میاں نواز شریف سے جو ملاقات ہوئی تھی، اس میں تاخیر میاں صاحب نے کی تھی جس میں ہم نے اپنے شکوے بھی میاں صاحب کے آگے رکھے تھے۔ مولانا کے تقریباً 2008 سے میاں نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) سے اچھے تعلقات چلے آ رہے تھے جو اب حالیہ انتخابات سے متاثر ہوئے ہیں جنھیں مولانا فضل الرحمن دھاندلی زدہ کہتے ہیں جن میں کے پی میں خود مولانا اور ان کی پارٹی کو پی ٹی آئی کے ہاتھوں بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا مگر حیرت انگیز طور پر انھیں پی ٹی آئی سے کوئی شکایت نہیں اور شاید خیرسگالی کے طور پر وہ کے پی اسمبلی کے ضمنی الیکشن میں اپنے ایک مضبوط امیدوار کو دستبردار کرا کر پی ٹی آئی کے امیدوار کو کامیابی دلا چکے ہیں، یہ نشست جے یو آئی جیت سکتی تھی مگر مولانا نہ جانے کیوں پی ٹی آئی پر مہربان رہے مگر انھوں نے وہ نشستیں ضرور لے لیں جو پی ٹی آئی کے پاس اپنا انتخابی نشان نہ ملنے کی وجہ سے دوسری پارلیمانی جماعتوں کو ملی تھیں۔
جے یو آئی(ف) اپنی کے پی کے میں شکست کے بعد اس کی ذمے داری پی ٹی آئی پر نہیں بالاتروں پر ڈال رہے ہیں ، جس کے بعد مولانا چاہتے تھے کہ (ن) لیگ پی پی کے ساتھ مل کر وفاقی حکومت نہ بنائے جس میں پیپلز پارٹی عملی طور پر تو شامل نہیں مگر پی پی قیادت نے اپنے منصوبے کے تحت صدر مملکت کا سب سے اہم عہدہ اور چار دیگر آئینی عہدے حاصل کر لیے تھے اور پی پی قیادت نے انتخابات کے بعد مولانا فضل الرحمن کو اس طرح نظرانداز کیا جیسے وہ مولانا کو جانتے ہی نہ ہوں ۔
16 ماہ تک پی ڈی ایم حکومت میں مکمل اقتدار انجوائے کرنے کے بعد پیپلز پارٹی کے مولانا فضل الرحمن سے آنکھیں پھیرنے کی اصل وجہ یہ تھی کہ سندھ خصوصاً اندرون سندھ میں جے یو آئی(ف) پیپلز پارٹی کے مقابلے میں اہم سیاسی قوت ہے اور اندرون سندھ ہر علاقے میں جے یو آئی موجود ہے جب کہ اندرون سندھ سے مسلم لیگ (ن) کا تقریباً صفایا ہو چکا ہے۔
جس کی ذمے دار خود مسلم لیگ (ن) ہے جس نے 2013 سے 2018 تک اپنی حکومت میں سندھ میں مسلم لیگ (ن) کی تنظیم پر کوئی توجہ نہیں دی تھی اور سندھ میں اپنی پارٹی کے عہدیداروں اور اہم رہنماؤں کو بھی نظرانداز کیا تھا جس سے مایوس ہو کر متعدد اہم رہنما غوث علی شاہ، لیاقت جتوئی، اسماعیل راہو اور ٹھٹھہ کے شیرازیوں نے بھی (ن) لیگ چھوڑ کر پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر لی تھی اور حالیہ انتخابات میں دیگر رہنماؤں نے سندھ میں کوئی اور متبادل نظر نہ آنے کی وجہ سے جے یو آئی میں شمولیت اختیار کر کے پی پی امیدواروں کے خلاف الیکشن لڑا تھا اور لاکھوں ووٹ حاصل کیے تھے اور پی پی کے مقابلے میں اہم سیاسی قوت بن کر سامنے آئے تھے۔
اندرون سندھ کے بعض اضلاع میں مسلم لیگ فنکشنل، ضلع بدین میں مرزا گروپ اور بعض دیگر پرانے سیاستدانوں کا اثر ضرور ہے اور سب نے اپنے اپنے طور پر الیکشن لڑا مگر باہمی اتحاد نہ ہونے کے باعث پی پی امیدواروں کے مقابلے میں ہارگئے تھے اور جے یو آئی، جی ڈی اے اور دیگر نے پی پی پر دھاندلی کر کے اپنے امیدوار نگراں حکومت کی ملی بھگت سے کامیاب کرانے کے الزام لگائے تھے اور بڑے پیمانے پر احتجاج بھی کیا تھا۔ مولانا فضل الرحمن نے اپنے صوبے کے پی میں پی ٹی آئی کے خلاف تو کوئی بھی احتجاج نہیں کیا تھا اور سندھ میں موثر احتجاج کیا تھا جس پر ان پر تنقید بھی ہوئی تھی کہ مولانا فضل الرحمن کو شکست کے پی میں ہوئی اور وہ دھاندلی کے خلاف احتجاج سندھ میں کرتے رہے۔
پی پی جے یو آئی (ف) کو سندھ میں ایم کیو ایم کے بعد اپنا اصل حریف سمجھتی ہے اور پی پی نے الیکشن کے بعد مولانا سے ناتا توڑ لیا ہے جو پہلے ان کی ہم سفر تھی۔ پی پی نے مسلم لیگ (ن) اور (ن) لیگ نے ایم کیو ایم کو ساتھ ملا کر جو حکومت بنائی ہے مولانا فضل الرحمن اس کے خلاف ہیں اور حکومت کو دھاندلی زدہ قرار دیتے ہیں۔ پی پی نے الیکشن کے بعد آصف زرداری کو صدر مملکت بنوانے کے لیے بھی مولانا سے رابطہ کرنا مناسب نا سمجھا تھا نہ مولانا نے وزیر اعظم اور صدر مملکت کے انتخاب میں کسی کو اپنے ووٹ دیے جس کی وجہ سے پی ٹی آئی نے مولانا کے قریب آنے کی کوشش شروع کر رکھی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کو (ن) لیگ سے زیادہ پی پی قیادت سے زیادہ شکایات ہیں کہ ان کی 16 ماہ ہم سفر رہنے والی پیپلز پارٹی موجودہ حکومت میں ملک کے اہم ترین آئینی عہدے لینے کے لیے موجودہ حکومت کا ساتھ دے رہی ہے۔ پی پی مولانا فضل الرحمن کی ہم سفری کی قدر کرتی تو بلوچستان حکومت جے یو آئی کو اور کے پی کی گورنری دے سکتی تھی۔ لیکن یہ سب سیاسی مفادات ہیں اور اس کھیل میں تو ایسا ہوتا ہی رہتا ہے۔
جے یو آئی کے سربراہ اس سے قبل کہہ چکے ہیں کہ ہمیں نواز شریف سے ملاقاتوں پر کوئی عار نہیں ہے الیکشن کے بعد میاں نواز شریف سے جو ملاقات ہوئی تھی، اس میں تاخیر میاں صاحب نے کی تھی جس میں ہم نے اپنے شکوے بھی میاں صاحب کے آگے رکھے تھے۔ مولانا کے تقریباً 2008 سے میاں نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) سے اچھے تعلقات چلے آ رہے تھے جو اب حالیہ انتخابات سے متاثر ہوئے ہیں جنھیں مولانا فضل الرحمن دھاندلی زدہ کہتے ہیں جن میں کے پی میں خود مولانا اور ان کی پارٹی کو پی ٹی آئی کے ہاتھوں بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا مگر حیرت انگیز طور پر انھیں پی ٹی آئی سے کوئی شکایت نہیں اور شاید خیرسگالی کے طور پر وہ کے پی اسمبلی کے ضمنی الیکشن میں اپنے ایک مضبوط امیدوار کو دستبردار کرا کر پی ٹی آئی کے امیدوار کو کامیابی دلا چکے ہیں، یہ نشست جے یو آئی جیت سکتی تھی مگر مولانا نہ جانے کیوں پی ٹی آئی پر مہربان رہے مگر انھوں نے وہ نشستیں ضرور لے لیں جو پی ٹی آئی کے پاس اپنا انتخابی نشان نہ ملنے کی وجہ سے دوسری پارلیمانی جماعتوں کو ملی تھیں۔
جے یو آئی(ف) اپنی کے پی کے میں شکست کے بعد اس کی ذمے داری پی ٹی آئی پر نہیں بالاتروں پر ڈال رہے ہیں ، جس کے بعد مولانا چاہتے تھے کہ (ن) لیگ پی پی کے ساتھ مل کر وفاقی حکومت نہ بنائے جس میں پیپلز پارٹی عملی طور پر تو شامل نہیں مگر پی پی قیادت نے اپنے منصوبے کے تحت صدر مملکت کا سب سے اہم عہدہ اور چار دیگر آئینی عہدے حاصل کر لیے تھے اور پی پی قیادت نے انتخابات کے بعد مولانا فضل الرحمن کو اس طرح نظرانداز کیا جیسے وہ مولانا کو جانتے ہی نہ ہوں ۔
16 ماہ تک پی ڈی ایم حکومت میں مکمل اقتدار انجوائے کرنے کے بعد پیپلز پارٹی کے مولانا فضل الرحمن سے آنکھیں پھیرنے کی اصل وجہ یہ تھی کہ سندھ خصوصاً اندرون سندھ میں جے یو آئی(ف) پیپلز پارٹی کے مقابلے میں اہم سیاسی قوت ہے اور اندرون سندھ ہر علاقے میں جے یو آئی موجود ہے جب کہ اندرون سندھ سے مسلم لیگ (ن) کا تقریباً صفایا ہو چکا ہے۔
جس کی ذمے دار خود مسلم لیگ (ن) ہے جس نے 2013 سے 2018 تک اپنی حکومت میں سندھ میں مسلم لیگ (ن) کی تنظیم پر کوئی توجہ نہیں دی تھی اور سندھ میں اپنی پارٹی کے عہدیداروں اور اہم رہنماؤں کو بھی نظرانداز کیا تھا جس سے مایوس ہو کر متعدد اہم رہنما غوث علی شاہ، لیاقت جتوئی، اسماعیل راہو اور ٹھٹھہ کے شیرازیوں نے بھی (ن) لیگ چھوڑ کر پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر لی تھی اور حالیہ انتخابات میں دیگر رہنماؤں نے سندھ میں کوئی اور متبادل نظر نہ آنے کی وجہ سے جے یو آئی میں شمولیت اختیار کر کے پی پی امیدواروں کے خلاف الیکشن لڑا تھا اور لاکھوں ووٹ حاصل کیے تھے اور پی پی کے مقابلے میں اہم سیاسی قوت بن کر سامنے آئے تھے۔
اندرون سندھ کے بعض اضلاع میں مسلم لیگ فنکشنل، ضلع بدین میں مرزا گروپ اور بعض دیگر پرانے سیاستدانوں کا اثر ضرور ہے اور سب نے اپنے اپنے طور پر الیکشن لڑا مگر باہمی اتحاد نہ ہونے کے باعث پی پی امیدواروں کے مقابلے میں ہارگئے تھے اور جے یو آئی، جی ڈی اے اور دیگر نے پی پی پر دھاندلی کر کے اپنے امیدوار نگراں حکومت کی ملی بھگت سے کامیاب کرانے کے الزام لگائے تھے اور بڑے پیمانے پر احتجاج بھی کیا تھا۔ مولانا فضل الرحمن نے اپنے صوبے کے پی میں پی ٹی آئی کے خلاف تو کوئی بھی احتجاج نہیں کیا تھا اور سندھ میں موثر احتجاج کیا تھا جس پر ان پر تنقید بھی ہوئی تھی کہ مولانا فضل الرحمن کو شکست کے پی میں ہوئی اور وہ دھاندلی کے خلاف احتجاج سندھ میں کرتے رہے۔
پی پی جے یو آئی (ف) کو سندھ میں ایم کیو ایم کے بعد اپنا اصل حریف سمجھتی ہے اور پی پی نے الیکشن کے بعد مولانا سے ناتا توڑ لیا ہے جو پہلے ان کی ہم سفر تھی۔ پی پی نے مسلم لیگ (ن) اور (ن) لیگ نے ایم کیو ایم کو ساتھ ملا کر جو حکومت بنائی ہے مولانا فضل الرحمن اس کے خلاف ہیں اور حکومت کو دھاندلی زدہ قرار دیتے ہیں۔ پی پی نے الیکشن کے بعد آصف زرداری کو صدر مملکت بنوانے کے لیے بھی مولانا سے رابطہ کرنا مناسب نا سمجھا تھا نہ مولانا نے وزیر اعظم اور صدر مملکت کے انتخاب میں کسی کو اپنے ووٹ دیے جس کی وجہ سے پی ٹی آئی نے مولانا کے قریب آنے کی کوشش شروع کر رکھی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کو (ن) لیگ سے زیادہ پی پی قیادت سے زیادہ شکایات ہیں کہ ان کی 16 ماہ ہم سفر رہنے والی پیپلز پارٹی موجودہ حکومت میں ملک کے اہم ترین آئینی عہدے لینے کے لیے موجودہ حکومت کا ساتھ دے رہی ہے۔ پی پی مولانا فضل الرحمن کی ہم سفری کی قدر کرتی تو بلوچستان حکومت جے یو آئی کو اور کے پی کی گورنری دے سکتی تھی۔ لیکن یہ سب سیاسی مفادات ہیں اور اس کھیل میں تو ایسا ہوتا ہی رہتا ہے۔