دوران عدت نکاح کیس میں سزا معطلی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ
عدت میں نکاح کیس سزا کے خلاف مرکزی اپیلوں پر سماعت 2 جولائی تک ملتوی کر دی گئی
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد نے بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی دوران عدت نکاح کیس میں سزا معطلی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
سزا معطلی کی درخواست پر فیصلہ 27 جون کو دن تین بجے سنایا جائے گا جبکہ عدت میں نکاح کیس سزا کے خلاف مرکزی اپیلوں پر سماعت 2 جولائی تک ملتوی کر دی گئی۔
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد افضل مجوکا نے درخواستوں پر سماعت کی۔ بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی جانب سے بیرسٹر سلمان صفدر اور خالد یوسف چوہدری ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے جبکہ خاور مانیکا کے وکیل زاہد آصف چوہدری عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میں سزا معطلی کی درخواست پر 7 منٹ دلائل دوں گا، شکایت کنندہ کو اس سے کم وقت میں بھی دلائل دینے چاہیے، آج مرکزی اپیل اور سزا معطلی کی اپیل زیر سماعت ہے، میری ذمہ داری عدالت کو بتانا ہے کہ بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کون ہیں، ان اپیلوں پر پہلے 15 سے زائد سماعتیں 3 ماہ میں ہوچکی ہیں، اس کیس میں کبھی شکایت کنندہ اور کبھی پراسکیوشن نے کہا کیس پڑھنا ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کیس میں کچھ نہیں، مجھے اس بات کا اندازہ ہے کہ سزا معطلی کی درخواست پر دلائل کیسے دیتے ہیں۔
خاور مانیکا کی وکیل زاہد آصف نے کہا کہ سلمان صفدر ایک قابل وکیل ہیں اور ہر جگہ انکی تعریف کی۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ اپیل کنندہ سابق وزیراعظم کی اہلیہ ہیں، الیکشن سے قبل بانی پی ٹی آئی کو سزا سنائی گئی، بانی پی ٹی آئی کے خلاف بے شمار کیسز بنائے گئے ہیں، بانی پی ٹی آئی کے کیسز سے میں نے بہت کچھ سیکھا، ایسی یونیک پراسیکیوشن میں نے آج تک نہیں کی، متعدد کیسز عدالتوں نے اڑا دیے۔ سائفر کیس، توشہ خانہ کیس اور پھر نکاح کیس میں سزا دی گئی جیسے سینما کی اسکرین کا ٹائم۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ مجھے اس کیس کے شکایت کنندہ سے بھی ہمدردی ہے، سائفر کیس ہائیکورٹ میں زیر سماعت تھا تو عدالت نے کہا مرکزی اپیل سنیں یا سزا معطلی کی، میں نے کہا مرکزی اپیل ورنہ میرے لئے آسان تھا سزا معطلی پر دلائل دیتا، سائفر کیس کا ابھی تفصیلی فیصلہ نہیں آیا مگر اپیل دائر کر دی گئی، ٹرائل میں ہمارے وکلاء کو باہر نکالا گیا دیر تک سماعتیں چلیں، ہائیکورٹ کیلئے آسان تھا کیس ریمانڈ بیک کرنا مگر نہیں ہوا میرٹ پر فیصلہ ہوا، سائفر کے بعد توشہ خانہ کیس سامنے آیا اور اس کیس میں بھی دوسرے طرف کے وکیل نے سزا معطلی کی درخواست پر اعتراض نہیں کیا، مجھے امید ہے آج بھی دوسری طرف کے وکیل یہی کریں گے۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ سیشن جج شاہ رخ ارجمند کے پاس بھی مرکزی اپیلیں اور سزا معطلی کی درخواستیں آئی، جب فیصلہ آنا تھا تو ریفرنس بن جاتا ہے اس کے بعد کیس آپ کے پاس آتا ہے، مجھے نہیں معلوم عدالت نے کیا فیصلہ کرنا ہے مگر جو بھی فیصلہ آیا میں سن کر چلا جاؤں گا، مجھے اختلاف ہوگا تو میں اپیل میں چلا جاؤں گا، سلمان اکرم راجہ نے ٹھیک کہا تھا کہ میں اس کیس میں پیش ہوتا رہا مجھے فیصلہ چاہیے۔
جج افضل مجوکا نے ریمارکس دیے کہ آپ میڈیکل گراونڈ پر بھی سزا معطلی کی درخواست کریں گے۔ بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ اس حوالے سے میں آخر میں بات کروں گا، جب آخری دفعہ بشریٰ بی بی سے ملا تو انکے پاوں پر سوجن تھی، میری کلائنٹ بنی گالا کے اے سی بند کرکے جیل گئی، جس پر وکیل خاور مانیکا زاہد آصف نے کہا کہ پھر تو جیل انکے لیے ٹھیک ہے وہی رہیں۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل میں کہا کہ اگر اپیلیں ڈسٹرکٹ کورٹس میں زیر سماعت ہوں تب بھی ہائیکورٹ کے پاس سزا معطلی کے اختیارات ہیں، میری کوشش تھی بشریٰ بی بی عید سے پہلے گھر آجاتیں، سلمان اکرم راجہ صاحب کا کہنا تھا کہ وہی جج فیصلہ کریں جنہوں نے کیس سنا، جب ہم اسلام آباد ہائیکورٹ میں گئے تو ایک ایک چیز بتائی گئی، اسلام آباد ہائیکورٹ مکمل طور پر آگاہ ہے کہ نیچے کیا چل رہا ہے، شکایت کنندہ بار بار تاخیری حربے استعمال کر رہے ہیں۔
سلمان صفدر نے عدالت میں اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ وکیل نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے 10 روز میں سزا معطلی اور 30 دن میں مرکزی اپیلوں پر فیصلے کا کہا ہوا ہے، جب سزا دینی ہو تب فٹا فٹ اور اپیل پر دھیرے دھیرے، اب میں سزا معطلی کی درخواست کے لیگل معاملات پر آتا ہوں، ہم نے اصول سیکھا ہے اپیل میں ججمنٹ پڑھتے ہیں، آپ جیل میں کریمینل کیسز کے لیے اکثر جاتے ہیں، میں جیل میں بے نظیر کیس اور اجمل قصاب کیس کے لیے جاتا رہا مگر اب عدت کیس میں جانا پڑا کبھی لکھا تو اس کیس پر ضرور لکھوں گا۔
ببیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ عثمان گِل نے عون چوہدری سے پوچھا آپ نے گھڑی کونسی پہنی تو لڑائی ہوگئی، جج صاحب نے بھی کہا اس سوال کا اس کیس سے کیا تعلق، میں نے کہا میں بتاتا ہوں اس سوال کا مقصد یہ بتائیں گھڑی پر ٹائم کیا ہے تو 8 بجے ہوئے تھے، اس وقت بھی ہماری جرح کا آغاز ہوا تھا، مجھے شکایت کنندہ سے بھی ہمدردی ہے پتہ نہیں ان کی کیا مجبوری ہے، ابھی تک ہائی کورٹ کا سائفر کا تفصیلی فیصلہ نہیں آیا اور سپریم کورٹ میں سائفر کیس میں اپیل بھی دائر ہو گئی۔
وکیل نے دلائل میں کہا کہ ہائی کورٹ کے ججز نے کہا اس طرح کا کیس کبھی نہیں آیا ایک سابق وزیر اعظم اور سابق وزیر خارجہ کو چارج کیا گیا ہو، توشہ خانہ کیس میں صرف تین منٹ میں سزا معطل ہوئی اور آج بھی یہی امید ہے، دوران عدت نکاح کیس میں شاہ رخ ارجمند کی عدالت میں بھی بہت دقتیں پیش آئیں عدالت نے تہمل سے کام لیا، مجھے نہیں معلوم آپ نے کیا فیصلہ کرنا ہے ضمانت دینی ہے یا مسترد کرنی ہے میں آپ کے فیصلے کا احترام کروں گا، میں خاتون ایک ماں کی نمائندگی کر رہا ہوں جو مسلسل شکایت کر رہی ہے۔
زاہد آصف ایڈووکیٹ نے کہا کہ یہ خود کہتے ہیں ہم بنی گالا سے جیل کمفرٹ زون میں گئے تو رہیں جیل میں کیوں سزا معطلی مانگ رہے۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ میں کئی سالوں سے کریمینل کیسز لڑ رہا ہوں، جب اس کیس کو لڑنے کے لیے پڑھا تو پتا چلا ماضی میں ایسا کیس کسی نے نہیں لڑا، عجیب کیس ہے میاں بیوی دونوں اندر تو فراڈ کس نے کس کیساتھ کیا، شکایت کنندہ کہتا ہے کہ زیادتی ہوئی لطیف نے بتایا وغیرہ وغیرہ، ہر درخواست کا ایک ٹائم ہوتا ہے مگر یہاں 6 سال 2 ہزار دنوں بعد درخواست دائر ہوئی، شکایت کنندہ گواہان میں اسکے بچے بھی شامل نہیں ہیں، اس کیس میں ایک سیاسی پارٹی کا رہنما گواہ ہے، ہم نے سارے کیسز بہادری سے لڑے، دہشت گردی کے کیسز بناتے کوئی اور بناتے مگر عدت کے دوران شادی کا کیس بنا دیا گیا۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ الزام ہے کہ عدت پوری کیے بغیر نکاح کیا گیا، اگر دو خاوند دعویٰ کرتے یا بچوں کے حوالے سے کیس ہوتا تو سمجھ آتا، اس کیس میں تو بچے بھی شکایت کنندہ نہیں ہیں، درخواست گزار کہتا ہے میری ساری فیملی ڈسٹرب ہوئی ہے، استغاثہ کی آدھی باتیں 496 بی کے ختم ہونے پر ہی جھوٹی ثابت ہوگئی، اس کیس کی اہمیت ہوتی اگر بروقت فائل کیا جاتا، اس درخواست میں اتنی تاخیر کی گئی جس کا کوئی عدالتی حوالہ ہی نہیں، میں اس بات کو ایک طرف رکھتا ہوں کہ عدت کا ٹائم کتنا ہوتا ہے۔
وکیل نے دلائل میں کہا کہ اس کیس میں فرد جرم بشریٰ بی بی کی غیر موجودگی میں لگائی گئی، سزا معطلی کے لیے ایک بات ہی بہت ہے کورٹ ٹائم کے بعد بھی عدالت کیوں لگی رہی، شکایت کنندہ نے پہلے کہا مرکزی اپیل پھر کہا سزا معطلی پر دلائل دیں، ہمیں گواہان کو بلانے کی اجازت ہی نہیں دی گئی، ہمارے گواہان کے طور پر بشریٰ بی بی کے بچوں نے پیش ہونا تھا، اگلے دن صبح کیس کا فیصلہ سنا دیا مگر ہمیں موقع ہی نہیں دیا گیا۔
اپیل کنندہ کے وکیل کی جانب سے گواہان طلبی کی درخواست مسترد ہونے کا فیصلہ پڑھا گیا۔ بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ عدت کیس میں آدھی رات تک سماعت چلتی رہی۔
جج افضل مجوکا نے ریمارکس میں کہا کہ عموماً عدالتیں 5 سال تک کی سزا کو مختصر سزا کہتی ہیں، جس پر بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ میں نے 8 سال تک کی سزا کو معطل کروایا ہے۔
سلمان صفدر نے سپریم کورٹ کے کیسز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سزا معطلی کے لیے مضبوط گراونڈ ہے کہ اپیل کنندہ خاتون ہے، اپیل کنندہ 5 بچوں کی ماں ہے۔ سلمان صفدر کی جانب سے ایک بار پھر اعلیٰ عدلیہ کے کیسز کا حوالہ دیا گیا اور کہا کہ 496 بی میں کہیں بھی عدت کا ذکر نہیں کیا گیا۔
جج افضل مجوکا نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ ججمنٹ کے حوالے سے میرے سوال ہیں، آپ نے جن نکات کی بات کی تھی وہ پانچ رکنی بینچ کالعدم قرار دے چکا ہے، میں نے قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہے اور قانون کے مطابق ہوگا، دورانِ عدت اگر خاوند مر جاتا ہے تو کیا خاتون کو وراثت میں ملے گا؟ اس سوال کے حوالے سے مرکزی اپیل پر آپ نے مجھے مطمئن کرنا ہے۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ اس حوالے سے دیگر کیسز وہ ہوں گے جن میں درخواست بروقت ہوگی، دوسرے کیسز میں گواہان کو پیش کرنے کا پورا موقع ملا ہوگا اور اس کیس کے پورے تناظر کو بھی دیکھنا ہوگا، سب سے مضبوط گراونڈ ہے کہ 496 بنتا کیسے ہے، فراڈ اور دھوکا کس کے ساتھ ہوا ہے، عدت کے اندر شادی کرنا کوئی جرم نہیں ہے 7 سال سزا تو دور کی بات ہے، ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں بے ضابطگیاں کی گئی۔
اپیل کنندہ کے وکیل سلمان صفدر کی جانب سے دلائل مکمل کر لیے گئے جس کے بعد کیس کی سماعت میں 20 منٹ کا وقفہ کیا گیا۔
وقفے کے بعد سماعت
وقفے کے بعد خاور مانیکا کے وکیل زاہد آصف چوہدری نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے دیکھنا ہے کہ کیس سزا معطلی کا بنتا ہے یا نہیں، اپیل کنندہ کے وکیل نے خاور مانیکا کیلئے جھوٹا کا لفظ استعمال کیا، عدالت میں خاور مانیکا کا پورا انٹرویو نہیں کلپ چلایا گیا، خاور مانیکا کا بیٹا موسیٰ مانیکا بھی نجی چینل کو انٹرویو دے چکا ہے، اس انٹرویو میں اس نے کہا بشریٰ بی بی اور بانی پی ٹی آئی کے نکاح کے حوالے سے جھوٹی خبریں پھیلائی جا رہی ہیں۔
ایڈووکیٹ زاہد آصف نے کہا کہ یوٹرن کا لفظ بانی پی ٹی آئی کی جانب سے متعارف کروایا گیا، عدالت نے دیکھنا ہے کہ جھوٹا کون ہے اور سچا کون؟ 7 جنوری کو بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ بشریٰ بی بی کو شادی کے لیے پروپوزل بیجھا ہے، اس موقع پر کہا گیا کہ بشریٰ بی بی کی جانب سے اقرار یا انکار پر رشتے کے حوالے سے باقاعدہ اعلان کیا جائے گا۔
خاور مانیکا کے وکیل زاہد آصف نے دوران دلائل خدا گواہ مووی کا گانا توں مجھے قبول میں تجھے قبول گا کر سنایا۔ وکیل زاہد آصف نے کہا کہ نکاح کے لیے ولی کی اجازت ہونا ضروری ہے۔
وکیل زاہد آصف کی جانب مختلف احادیث کا حوالہ بھی دیا گیا۔ وکیل زاہد آصف نے کہا کہ تمام احادیث کی روشنی میں دیکھا جاسکتا ہے کون جھوٹا اور سچا ہے، درخواست گزار کی بیوی کو ورغلانے والا، اس سے عدت میں نکاح کرنے والا جھوٹا ہے یا مفتی سعید و دیگر، بڑا شور مچا رہے ہیں خاتون کا بیان دکھائیں تو صحیح خاتون کا بیان ہے کہاں، بشریٰ بی بی کا عدت کے حوالے سے کوئی بیان نہیں ہے، مفتی سعید پہلے کور کمیٹی کا ممبر تھا تو اچھا تھا جب وہ انکا مخالف ہوا تو وہ برا بن گیا۔
وکیل زاہد آصف نے کہا کہ سلمان صفدر نے کہا کے بشریٰ بی بی کی غیر موجودگی میں فرد جرم عائد کی گئی، جب فرد جرم عائد کی گئی بشریٰ بی بی کمرہ عدالت میں موجود تھی دستخط کے وقت چلی گئیں، یہ کہتے ہیں بچوں نے پیش ہونا تھا، کس کے بچوں نے پیش ہونا تھا، اس حوالے سے عدالت کو کوئی نام نہیں فراہم کیے گئے تھے، یہ سزا شارٹ ٹرم نہیں ہے۔ انہوں نے اعلیٰ عدلیہ کے کیسز کا حوالہ دیا۔
جج افضل مجوکا نے کہا کہ پچھلی تاریخ پر میں نے سوال پوچھا تھا کہ آپکے کلائنٹ کو شادی کا کب پتا چلا؟ وکیل زاہد آصف چوہدری نے جواب دیا کہ خاور مانیکا نے جرح کے دوران بتایا کہ 2 جنوری کو پتا چلا تھا۔ جج افضل مجوکا نے ریمارکس میں کہا کہ تو پھر انہوں نے اسی وقت درخواست کیوں دائر نہیں کی، سلمان اکرم راجہ نے کہا جب آپ کے کلائنٹ کو چلہ کروایا گیا تو اسکے بعد درخواست دائر کی گئی۔ وکیل نے بتایا کہ جی نہیں ایسے حالات نہیں ایک تحقیقاتی ادارے نے تفتیش کے لیے گرفتار کیا تھا۔
جج افضل مجوکا نے استفسار کیا کہ اس حوالے سے ایک درخواست جو پہلے واپس لی گئی تھی وہ فرد جرم عائد ہونے سے پہلے لی گئی تھی؟ کیا شکایت کنندہ پر کوئی پریشر تھا یا دھمکی دی گئی تھی، اس حوالے سے پہلے درخواست کیوں نہیں دی گئی تھی۔
زاہد آصف ایڈووکیٹ نے بتایا کہ شریف لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ انکے فیملی معاملات پبلک نہ ہوں، ہر کیس میں مختلف اسٹیج ہوتے ہیں، پہلا فرد جرم عائد اور دوسرا 342 بیان، سلمان صفدر نے کہا کے بشریٰ بی بی کی غیر موجودگی میں فرد جرم عائد کی گئی، جب فرد جرم عائد کی گئی بشریٰ بی بی کمرہ عدالت میں موجود تھی لیکن دستخط کے وقت چلی گئیں۔ میں کچھ چیزوں پر ابھی دلائل نہیں دوں گا، اس حوالے سے صورت طلاق کی آیات بڑی واضح ہیں، جج صاحب کے حوالے سے کہا گیا، تو کیا انکے خلاف کوئی درخواست دی گئی تھی۔
شکایت کنندہ کے وکیل زاہد آصف ایڈووکیٹ نے سزا معطلی کی اپیل پر دلائل مکمل کر لیے۔
عدالت نے بیرسٹر سلمان صفدر سے استفسار کیا کہ مرکزی اپیل پر آپ کب دستیاب ہوں گے، جس پر وکیل نے بتایا کہ ہم مکمل فری ہیں۔ جج افضل مجوکا نے کہا کہ ہم 2 جولائی کو کیس کو رکھ رہے ہیں۔
فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے سزا معطلی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا جبکہ مرکزی اپیلوں پر سماعت 2 جولائی تک ملتوی کر دی گئی۔
سزا معطلی کی درخواست پر فیصلہ 27 جون کو دن تین بجے سنایا جائے گا جبکہ عدت میں نکاح کیس سزا کے خلاف مرکزی اپیلوں پر سماعت 2 جولائی تک ملتوی کر دی گئی۔
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد افضل مجوکا نے درخواستوں پر سماعت کی۔ بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی جانب سے بیرسٹر سلمان صفدر اور خالد یوسف چوہدری ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے جبکہ خاور مانیکا کے وکیل زاہد آصف چوہدری عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میں سزا معطلی کی درخواست پر 7 منٹ دلائل دوں گا، شکایت کنندہ کو اس سے کم وقت میں بھی دلائل دینے چاہیے، آج مرکزی اپیل اور سزا معطلی کی اپیل زیر سماعت ہے، میری ذمہ داری عدالت کو بتانا ہے کہ بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کون ہیں، ان اپیلوں پر پہلے 15 سے زائد سماعتیں 3 ماہ میں ہوچکی ہیں، اس کیس میں کبھی شکایت کنندہ اور کبھی پراسکیوشن نے کہا کیس پڑھنا ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کیس میں کچھ نہیں، مجھے اس بات کا اندازہ ہے کہ سزا معطلی کی درخواست پر دلائل کیسے دیتے ہیں۔
خاور مانیکا کی وکیل زاہد آصف نے کہا کہ سلمان صفدر ایک قابل وکیل ہیں اور ہر جگہ انکی تعریف کی۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ اپیل کنندہ سابق وزیراعظم کی اہلیہ ہیں، الیکشن سے قبل بانی پی ٹی آئی کو سزا سنائی گئی، بانی پی ٹی آئی کے خلاف بے شمار کیسز بنائے گئے ہیں، بانی پی ٹی آئی کے کیسز سے میں نے بہت کچھ سیکھا، ایسی یونیک پراسیکیوشن میں نے آج تک نہیں کی، متعدد کیسز عدالتوں نے اڑا دیے۔ سائفر کیس، توشہ خانہ کیس اور پھر نکاح کیس میں سزا دی گئی جیسے سینما کی اسکرین کا ٹائم۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ مجھے اس کیس کے شکایت کنندہ سے بھی ہمدردی ہے، سائفر کیس ہائیکورٹ میں زیر سماعت تھا تو عدالت نے کہا مرکزی اپیل سنیں یا سزا معطلی کی، میں نے کہا مرکزی اپیل ورنہ میرے لئے آسان تھا سزا معطلی پر دلائل دیتا، سائفر کیس کا ابھی تفصیلی فیصلہ نہیں آیا مگر اپیل دائر کر دی گئی، ٹرائل میں ہمارے وکلاء کو باہر نکالا گیا دیر تک سماعتیں چلیں، ہائیکورٹ کیلئے آسان تھا کیس ریمانڈ بیک کرنا مگر نہیں ہوا میرٹ پر فیصلہ ہوا، سائفر کے بعد توشہ خانہ کیس سامنے آیا اور اس کیس میں بھی دوسرے طرف کے وکیل نے سزا معطلی کی درخواست پر اعتراض نہیں کیا، مجھے امید ہے آج بھی دوسری طرف کے وکیل یہی کریں گے۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ سیشن جج شاہ رخ ارجمند کے پاس بھی مرکزی اپیلیں اور سزا معطلی کی درخواستیں آئی، جب فیصلہ آنا تھا تو ریفرنس بن جاتا ہے اس کے بعد کیس آپ کے پاس آتا ہے، مجھے نہیں معلوم عدالت نے کیا فیصلہ کرنا ہے مگر جو بھی فیصلہ آیا میں سن کر چلا جاؤں گا، مجھے اختلاف ہوگا تو میں اپیل میں چلا جاؤں گا، سلمان اکرم راجہ نے ٹھیک کہا تھا کہ میں اس کیس میں پیش ہوتا رہا مجھے فیصلہ چاہیے۔
جج افضل مجوکا نے ریمارکس دیے کہ آپ میڈیکل گراونڈ پر بھی سزا معطلی کی درخواست کریں گے۔ بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ اس حوالے سے میں آخر میں بات کروں گا، جب آخری دفعہ بشریٰ بی بی سے ملا تو انکے پاوں پر سوجن تھی، میری کلائنٹ بنی گالا کے اے سی بند کرکے جیل گئی، جس پر وکیل خاور مانیکا زاہد آصف نے کہا کہ پھر تو جیل انکے لیے ٹھیک ہے وہی رہیں۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل میں کہا کہ اگر اپیلیں ڈسٹرکٹ کورٹس میں زیر سماعت ہوں تب بھی ہائیکورٹ کے پاس سزا معطلی کے اختیارات ہیں، میری کوشش تھی بشریٰ بی بی عید سے پہلے گھر آجاتیں، سلمان اکرم راجہ صاحب کا کہنا تھا کہ وہی جج فیصلہ کریں جنہوں نے کیس سنا، جب ہم اسلام آباد ہائیکورٹ میں گئے تو ایک ایک چیز بتائی گئی، اسلام آباد ہائیکورٹ مکمل طور پر آگاہ ہے کہ نیچے کیا چل رہا ہے، شکایت کنندہ بار بار تاخیری حربے استعمال کر رہے ہیں۔
سلمان صفدر نے عدالت میں اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ وکیل نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے 10 روز میں سزا معطلی اور 30 دن میں مرکزی اپیلوں پر فیصلے کا کہا ہوا ہے، جب سزا دینی ہو تب فٹا فٹ اور اپیل پر دھیرے دھیرے، اب میں سزا معطلی کی درخواست کے لیگل معاملات پر آتا ہوں، ہم نے اصول سیکھا ہے اپیل میں ججمنٹ پڑھتے ہیں، آپ جیل میں کریمینل کیسز کے لیے اکثر جاتے ہیں، میں جیل میں بے نظیر کیس اور اجمل قصاب کیس کے لیے جاتا رہا مگر اب عدت کیس میں جانا پڑا کبھی لکھا تو اس کیس پر ضرور لکھوں گا۔
ببیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ عثمان گِل نے عون چوہدری سے پوچھا آپ نے گھڑی کونسی پہنی تو لڑائی ہوگئی، جج صاحب نے بھی کہا اس سوال کا اس کیس سے کیا تعلق، میں نے کہا میں بتاتا ہوں اس سوال کا مقصد یہ بتائیں گھڑی پر ٹائم کیا ہے تو 8 بجے ہوئے تھے، اس وقت بھی ہماری جرح کا آغاز ہوا تھا، مجھے شکایت کنندہ سے بھی ہمدردی ہے پتہ نہیں ان کی کیا مجبوری ہے، ابھی تک ہائی کورٹ کا سائفر کا تفصیلی فیصلہ نہیں آیا اور سپریم کورٹ میں سائفر کیس میں اپیل بھی دائر ہو گئی۔
وکیل نے دلائل میں کہا کہ ہائی کورٹ کے ججز نے کہا اس طرح کا کیس کبھی نہیں آیا ایک سابق وزیر اعظم اور سابق وزیر خارجہ کو چارج کیا گیا ہو، توشہ خانہ کیس میں صرف تین منٹ میں سزا معطل ہوئی اور آج بھی یہی امید ہے، دوران عدت نکاح کیس میں شاہ رخ ارجمند کی عدالت میں بھی بہت دقتیں پیش آئیں عدالت نے تہمل سے کام لیا، مجھے نہیں معلوم آپ نے کیا فیصلہ کرنا ہے ضمانت دینی ہے یا مسترد کرنی ہے میں آپ کے فیصلے کا احترام کروں گا، میں خاتون ایک ماں کی نمائندگی کر رہا ہوں جو مسلسل شکایت کر رہی ہے۔
زاہد آصف ایڈووکیٹ نے کہا کہ یہ خود کہتے ہیں ہم بنی گالا سے جیل کمفرٹ زون میں گئے تو رہیں جیل میں کیوں سزا معطلی مانگ رہے۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ میں کئی سالوں سے کریمینل کیسز لڑ رہا ہوں، جب اس کیس کو لڑنے کے لیے پڑھا تو پتا چلا ماضی میں ایسا کیس کسی نے نہیں لڑا، عجیب کیس ہے میاں بیوی دونوں اندر تو فراڈ کس نے کس کیساتھ کیا، شکایت کنندہ کہتا ہے کہ زیادتی ہوئی لطیف نے بتایا وغیرہ وغیرہ، ہر درخواست کا ایک ٹائم ہوتا ہے مگر یہاں 6 سال 2 ہزار دنوں بعد درخواست دائر ہوئی، شکایت کنندہ گواہان میں اسکے بچے بھی شامل نہیں ہیں، اس کیس میں ایک سیاسی پارٹی کا رہنما گواہ ہے، ہم نے سارے کیسز بہادری سے لڑے، دہشت گردی کے کیسز بناتے کوئی اور بناتے مگر عدت کے دوران شادی کا کیس بنا دیا گیا۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ الزام ہے کہ عدت پوری کیے بغیر نکاح کیا گیا، اگر دو خاوند دعویٰ کرتے یا بچوں کے حوالے سے کیس ہوتا تو سمجھ آتا، اس کیس میں تو بچے بھی شکایت کنندہ نہیں ہیں، درخواست گزار کہتا ہے میری ساری فیملی ڈسٹرب ہوئی ہے، استغاثہ کی آدھی باتیں 496 بی کے ختم ہونے پر ہی جھوٹی ثابت ہوگئی، اس کیس کی اہمیت ہوتی اگر بروقت فائل کیا جاتا، اس درخواست میں اتنی تاخیر کی گئی جس کا کوئی عدالتی حوالہ ہی نہیں، میں اس بات کو ایک طرف رکھتا ہوں کہ عدت کا ٹائم کتنا ہوتا ہے۔
وکیل نے دلائل میں کہا کہ اس کیس میں فرد جرم بشریٰ بی بی کی غیر موجودگی میں لگائی گئی، سزا معطلی کے لیے ایک بات ہی بہت ہے کورٹ ٹائم کے بعد بھی عدالت کیوں لگی رہی، شکایت کنندہ نے پہلے کہا مرکزی اپیل پھر کہا سزا معطلی پر دلائل دیں، ہمیں گواہان کو بلانے کی اجازت ہی نہیں دی گئی، ہمارے گواہان کے طور پر بشریٰ بی بی کے بچوں نے پیش ہونا تھا، اگلے دن صبح کیس کا فیصلہ سنا دیا مگر ہمیں موقع ہی نہیں دیا گیا۔
اپیل کنندہ کے وکیل کی جانب سے گواہان طلبی کی درخواست مسترد ہونے کا فیصلہ پڑھا گیا۔ بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ عدت کیس میں آدھی رات تک سماعت چلتی رہی۔
جج افضل مجوکا نے ریمارکس میں کہا کہ عموماً عدالتیں 5 سال تک کی سزا کو مختصر سزا کہتی ہیں، جس پر بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ میں نے 8 سال تک کی سزا کو معطل کروایا ہے۔
سلمان صفدر نے سپریم کورٹ کے کیسز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سزا معطلی کے لیے مضبوط گراونڈ ہے کہ اپیل کنندہ خاتون ہے، اپیل کنندہ 5 بچوں کی ماں ہے۔ سلمان صفدر کی جانب سے ایک بار پھر اعلیٰ عدلیہ کے کیسز کا حوالہ دیا گیا اور کہا کہ 496 بی میں کہیں بھی عدت کا ذکر نہیں کیا گیا۔
جج افضل مجوکا نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ ججمنٹ کے حوالے سے میرے سوال ہیں، آپ نے جن نکات کی بات کی تھی وہ پانچ رکنی بینچ کالعدم قرار دے چکا ہے، میں نے قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہے اور قانون کے مطابق ہوگا، دورانِ عدت اگر خاوند مر جاتا ہے تو کیا خاتون کو وراثت میں ملے گا؟ اس سوال کے حوالے سے مرکزی اپیل پر آپ نے مجھے مطمئن کرنا ہے۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ اس حوالے سے دیگر کیسز وہ ہوں گے جن میں درخواست بروقت ہوگی، دوسرے کیسز میں گواہان کو پیش کرنے کا پورا موقع ملا ہوگا اور اس کیس کے پورے تناظر کو بھی دیکھنا ہوگا، سب سے مضبوط گراونڈ ہے کہ 496 بنتا کیسے ہے، فراڈ اور دھوکا کس کے ساتھ ہوا ہے، عدت کے اندر شادی کرنا کوئی جرم نہیں ہے 7 سال سزا تو دور کی بات ہے، ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں بے ضابطگیاں کی گئی۔
اپیل کنندہ کے وکیل سلمان صفدر کی جانب سے دلائل مکمل کر لیے گئے جس کے بعد کیس کی سماعت میں 20 منٹ کا وقفہ کیا گیا۔
وقفے کے بعد سماعت
وقفے کے بعد خاور مانیکا کے وکیل زاہد آصف چوہدری نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے دیکھنا ہے کہ کیس سزا معطلی کا بنتا ہے یا نہیں، اپیل کنندہ کے وکیل نے خاور مانیکا کیلئے جھوٹا کا لفظ استعمال کیا، عدالت میں خاور مانیکا کا پورا انٹرویو نہیں کلپ چلایا گیا، خاور مانیکا کا بیٹا موسیٰ مانیکا بھی نجی چینل کو انٹرویو دے چکا ہے، اس انٹرویو میں اس نے کہا بشریٰ بی بی اور بانی پی ٹی آئی کے نکاح کے حوالے سے جھوٹی خبریں پھیلائی جا رہی ہیں۔
ایڈووکیٹ زاہد آصف نے کہا کہ یوٹرن کا لفظ بانی پی ٹی آئی کی جانب سے متعارف کروایا گیا، عدالت نے دیکھنا ہے کہ جھوٹا کون ہے اور سچا کون؟ 7 جنوری کو بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ بشریٰ بی بی کو شادی کے لیے پروپوزل بیجھا ہے، اس موقع پر کہا گیا کہ بشریٰ بی بی کی جانب سے اقرار یا انکار پر رشتے کے حوالے سے باقاعدہ اعلان کیا جائے گا۔
خاور مانیکا کے وکیل زاہد آصف نے دوران دلائل خدا گواہ مووی کا گانا توں مجھے قبول میں تجھے قبول گا کر سنایا۔ وکیل زاہد آصف نے کہا کہ نکاح کے لیے ولی کی اجازت ہونا ضروری ہے۔
وکیل زاہد آصف کی جانب مختلف احادیث کا حوالہ بھی دیا گیا۔ وکیل زاہد آصف نے کہا کہ تمام احادیث کی روشنی میں دیکھا جاسکتا ہے کون جھوٹا اور سچا ہے، درخواست گزار کی بیوی کو ورغلانے والا، اس سے عدت میں نکاح کرنے والا جھوٹا ہے یا مفتی سعید و دیگر، بڑا شور مچا رہے ہیں خاتون کا بیان دکھائیں تو صحیح خاتون کا بیان ہے کہاں، بشریٰ بی بی کا عدت کے حوالے سے کوئی بیان نہیں ہے، مفتی سعید پہلے کور کمیٹی کا ممبر تھا تو اچھا تھا جب وہ انکا مخالف ہوا تو وہ برا بن گیا۔
وکیل زاہد آصف نے کہا کہ سلمان صفدر نے کہا کے بشریٰ بی بی کی غیر موجودگی میں فرد جرم عائد کی گئی، جب فرد جرم عائد کی گئی بشریٰ بی بی کمرہ عدالت میں موجود تھی دستخط کے وقت چلی گئیں، یہ کہتے ہیں بچوں نے پیش ہونا تھا، کس کے بچوں نے پیش ہونا تھا، اس حوالے سے عدالت کو کوئی نام نہیں فراہم کیے گئے تھے، یہ سزا شارٹ ٹرم نہیں ہے۔ انہوں نے اعلیٰ عدلیہ کے کیسز کا حوالہ دیا۔
جج افضل مجوکا نے کہا کہ پچھلی تاریخ پر میں نے سوال پوچھا تھا کہ آپکے کلائنٹ کو شادی کا کب پتا چلا؟ وکیل زاہد آصف چوہدری نے جواب دیا کہ خاور مانیکا نے جرح کے دوران بتایا کہ 2 جنوری کو پتا چلا تھا۔ جج افضل مجوکا نے ریمارکس میں کہا کہ تو پھر انہوں نے اسی وقت درخواست کیوں دائر نہیں کی، سلمان اکرم راجہ نے کہا جب آپ کے کلائنٹ کو چلہ کروایا گیا تو اسکے بعد درخواست دائر کی گئی۔ وکیل نے بتایا کہ جی نہیں ایسے حالات نہیں ایک تحقیقاتی ادارے نے تفتیش کے لیے گرفتار کیا تھا۔
جج افضل مجوکا نے استفسار کیا کہ اس حوالے سے ایک درخواست جو پہلے واپس لی گئی تھی وہ فرد جرم عائد ہونے سے پہلے لی گئی تھی؟ کیا شکایت کنندہ پر کوئی پریشر تھا یا دھمکی دی گئی تھی، اس حوالے سے پہلے درخواست کیوں نہیں دی گئی تھی۔
زاہد آصف ایڈووکیٹ نے بتایا کہ شریف لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ انکے فیملی معاملات پبلک نہ ہوں، ہر کیس میں مختلف اسٹیج ہوتے ہیں، پہلا فرد جرم عائد اور دوسرا 342 بیان، سلمان صفدر نے کہا کے بشریٰ بی بی کی غیر موجودگی میں فرد جرم عائد کی گئی، جب فرد جرم عائد کی گئی بشریٰ بی بی کمرہ عدالت میں موجود تھی لیکن دستخط کے وقت چلی گئیں۔ میں کچھ چیزوں پر ابھی دلائل نہیں دوں گا، اس حوالے سے صورت طلاق کی آیات بڑی واضح ہیں، جج صاحب کے حوالے سے کہا گیا، تو کیا انکے خلاف کوئی درخواست دی گئی تھی۔
شکایت کنندہ کے وکیل زاہد آصف ایڈووکیٹ نے سزا معطلی کی اپیل پر دلائل مکمل کر لیے۔
عدالت نے بیرسٹر سلمان صفدر سے استفسار کیا کہ مرکزی اپیل پر آپ کب دستیاب ہوں گے، جس پر وکیل نے بتایا کہ ہم مکمل فری ہیں۔ جج افضل مجوکا نے کہا کہ ہم 2 جولائی کو کیس کو رکھ رہے ہیں۔
فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے سزا معطلی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا جبکہ مرکزی اپیلوں پر سماعت 2 جولائی تک ملتوی کر دی گئی۔