تعلیمی ترقی کے لیے ریشنل اپروچ کی ضرورت
کسی بھی ملک میں ناخواندگی کا غربت، جرائم اور صحت جیسے مسائل سے گہرا تعلق ہوتا ہے
وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے سالانہ بجٹ میں تعلیم کے لیے رقوم مختص کی ہیں۔اصولی طور پر تعلیم کے لیے زیادہ رقم مختص کرنا چاہیے تھا تاہم جتنی رقوم بھی مختص کی گئی ہیں، اگر وہ درست اور مقررہ جگہ پر خرچ ہوجائیں تو بھی کچھ نہ کچھ بہتری ضرور آجائے گی۔
یہ امر خوش آیند ہے کہ وفاقی حکومت، سندھ اور پنجاب حکومتیں تعلیم کی ترقی میں دلچسپی بھی ظاہر کررہی ہیں اور کام بھی کررہی ہے۔ایک خبر کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے قومی تعلیمی ایمرجنسی متعلق ایشوز کو حل کرنے کے لیے ایجوکیشن ٹاسک فورس تشکیل دے دی ہے،اس کے چیئرمین وزیراعظم ہوں گے۔اس میں عالمی ڈونرز بھی شامل ہیں، اس ادارے کا مقصد تعلیمی نظام اور شرح خواندگی کے اہداف کے حصول کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا تدارک کرنا ، غریب خاندانوں کے بچوں کی تعلیم اور سرکاری اسکولز کے حوالے سے پالیسی سازی اور تعلیم کے فروغ اور معیار کے حوالے سے اہم فیصلے کر نا ہے۔
کسی بھی ملک میں ناخواندگی کا غربت، جرائم اور صحت جیسے مسائل سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ یہ ملک کی مجموعی معاشی اور سیاسی ترقی پرگہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ ناخواندہ معاشرے جدید ترقی سے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ ایسے معاشروں میں سماجی تبدیلی کی رفتار انتہائی سست ہوتی ہے۔ پسماندہ ملکوں کا ایلیٹ طبقہ ترقی یافتہ ہوتا ہے جب کہ باقی سارا ملک عہد قدیم طرز کی زندگی گزار رہا ہے ۔ حکمران طبقہ اپنے ہی عوام کا سیاسی، معاشی اور سماجی استحصال کرتا ہے، یوں صدیاں گزرجانے کے بعد بھی دنیا کے ممالک کی اکثریت پسماندگی کا شکار ہے۔
معاشرے میں کوئی بھی پائیدار تبدیلی ممکن نہیں ہو پاتی۔ پوری قوم دائروں کے سفر پر گامزن رہتی ہے۔ ان کا سماجی اور سیاسی شعور جامد رہتا ہے، تازہ خیالات کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ دنیا اس وقت خواندگی کے بنیادی تصور ( لکھنے، پڑھنے وغیرہ کی مہارت) سے آگے ڈیجیٹل خواندگی کی طرف بڑھ چکی ہے جہاں معلومات اور ابلاغی ٹیکنالوجی کی مدد سے تخلیقی عمل پر زور دیا جارہا ہے۔
ایسی دنیا میں آپ تصور کریں کہ ملکِ خداداد میں ڈھائی کروڑ سے زائد بچے اسکول سے باہر ہیں، جو خواندگی کے بنیادی تصور کے دائرے میں بھی نہیں آتے، یعنی جنھیں حروف پڑھنا اور لکھنا نہیں آتا۔ اتنی بڑی ناخواندہ تعداد کے حامل ملک کا مستقبل کیا ہوگا؟ یہی بچے جوان ہوکر بطور شہری کہاں کھڑیں ہوں گے؟ پاکستان میں یہ نوجوان سیاسی عمل میں حصہ لینے کے قابل ہوں گی؟ ناقص تعلیمی پالیسیوں اور مفاداتی نصاب تعلیم کی وجہ سے تعلیمی اہلیت کے حوالے سے ہمارا معاشرہ بانجھ اور متشدد ہوگیا ہے۔
فرسودہ نصاب تعلیم پڑھ کر جو نسل ریاستی نظام کا حصہ بنی ہے، اس کی کارگزاری سب کے سامنے ہے۔ ہمارا نصاب تعلیم پاکستان کو عالمی سطح کا کوئی سائنسدان، طبی ماہر،معیشت دان ، جیورسٹ اور ذہین بیورکریٹ تیار کرکے نہیں دے سکاہے۔ ہم سات دہائیاں گزر جانے کے باوجود پسماندہ چلے آرہے ہیں۔معدودے چند نامور پاکستانیوں نے عالمی سطح پر نام بنایا ہے لیکن انھوں نے بھی یورپ کے علم سے استفادہ کیا ہے ۔
تعلیمی شعبے کے لیے ایک مضبوط مالیاتی انتظامی نظام کی اشد ضرورت ہے جو مردہ تعلیم نظام اور نصاب کو نئی زندگی دے سکے ۔ اساتذہ کے لیے معیاری پیشہ ورانہ ترقی کی ضرورت ہے۔ ایسے اعلیٰ درجے کے ادارے قائم کرنا بہت ضروری ہے جو بنیادی سے اعلیٰ تعلیم تک تمام سطحوں پر اساتذہ کی پیشہ ورانہ ترقی پر توجہ دیں۔ اساتذہ جدید رجحانات کے حامل ہوں گے تو وہ طلبہ کی ذہنی نشونما کرپائیں گے ۔
احتساب کے نظام کو بہتر بنانا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ تعلیمی پیشہ ور اساتذہ کو اپنی انفرادی اور اجتماعی ذمے داریوں کو پہچاننے اور قبول کرنے کی تربیت دی جانی چاہیے ، جو نظام کی کارکردگی کو بہتر بناتا ہے۔ ڈائنامک کریکولم ایویلیوایشن کے لیے نصاب تعلیم کا مکمل سالانہ جائزہ ضروری ہے۔ تعلیمی نظام کے موثر اور غیر جانبدارانہ آپریشن کے لیے سیاسی مداخلت کو کم کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ پالیسیوں کے تیز اور موثر نفاذ کے لیے انتظامیہ کے مضبوط سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔ امتحانی نظام سے غیر منصفانہ طرز عمل، بدعنوانی اور غیر قانونی رشوت کے اثرات کو ختم کر کے امتحانی نظام کی اصلاح کرنا۔ نگرانی اور معائنہ کے جسمانی اور نظریاتی پہلوؤں کو بہتر بنانے سے اس مقصد کو حاصل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
تعلیمی اداروں میں تحقیق کے کلچر کو فروغ دینا بہت ضروری ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس کوشش میں معاونت کے لیے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے فنڈز میں اضافہ کرے۔ اس بات پر بحث کرنے کی ضرورت ہے کہ تعلیم زندگی کے متعدد پہلوؤں، جیسے سماجی، اخلاقی، روحانی، سیاسی، اور اقتصادی شعبوں میں ترقی کو فروغ دیتی ہے، تبدیلی کو متحرک کرتی ہے۔ یہ ایک فعال ایجنٹ ہے، جو ممالک کو ان کے وسیع تر قومی مقاصد کے حصول میں سہولت فراہم کرتا ہے۔ مضبوط تعلیمی نظام والے ممالک کو اکثر مستحکم سماجی اور سیاسی فریم ورک کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اکثر دنیا بھر میں قیادت کے عہدوں پر فائز ہوتے ہیں۔
پاکستان کا موجودہ نظام تعلیم ملک کی ترقی میں اپنا اہم کام موثر طریقے سے انجام دینے میں ناکام رہا ہے، جس کی وجہ سے پاکستان انتہاپسندی اور تشدد پسندی کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ آنے والی نسل کو واضح رہنمائی کے بغیر چھوڑ دیا گیا ہے۔ پاکستان میں ناخواندگی کی سب سے بڑی وجہ لوگوں کے کمزور مالی حالات ہیں۔ پچاس فی صد سے زائد افراد غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ بچے اسکول جانے کے بجائے خاندان کے اخراجات پورے کرنے کے لیے محنت مزدوری میں لگجاتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں تعلیمی سہولیات دستیاب نہیں۔ بچوں کو اسکول جانے کے لیے دور دراز کا سفر پیدل طے کرنا پڑتا ہے۔ تعلیمی بجٹ ضرورت سے ہمیشہ کم ہوتا ہے ۔ موجودہ تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھی ناکافی ہے۔
کئی جگہ برائے نام اسکول موجود ہیں جن میں اسٹاف ہے، نہ تعلیمی عمارات کا وجود اور نہ ہی بنیادی تعلیمی سہولیات کی دستیابی۔ ایسے اسکولوں میں تعلیم و تعلم کا معنی خیز بندوبست نہیں، ایسے اسکولوں کا عدم اور وجود برابر ہے۔ عوام میں جدید ترقی سے متعلق آگاہی کی انتہائی کمی ہے۔ اجتماعی اور قومی سطح پر نتیجہ خیز بات چیت اور غور و فکر کرنے کا کوئی اہتمام نہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ عوام حقیقی مسائل کا ادراک کرنے کے قابل نہیں ہے۔اس لیے حکومتیں عوام دباؤ سے آزاد ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کے پاس عوام کی ترقی کے لیے کوئی جامع اور قابل پلان نہیں ہے۔پاپولر سیاسی جماعتوں کی قیادت گروہی اور مالیاتی مفادات کو دیکھ کر سیاسی حکمت عملی تیار کرتی ہے۔ان کے پاس پاکستان اور اس کے عام شہریوں کا معیار زندگی بلند کا کوئی منصوبہ ہے اور نہ وہ کچھ کرنا چاہتی ہیں۔
معیاری اور ریشنل نصاب تعلیم ہر حکومت کی ترجیح اوّل ہونی چاہیے۔ اس کے لیے تمام توانائیاں بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ فوری اور طویل المدتی اقدامات کرنے چاہئیں۔ دور دراز دیہی علاقوں پر خصوصی توجہ مرکوز کی جائے۔ چائلڈ لیبر سے منسلک بچوں کو اسکولوں میں داخل کرایا جائے اور غریب طلبہ کے لیے معقول وظائف کا بندوبست کیا جائے۔ اسکول سے باہر بچوں کو اسکولوں میں لانے کے لیے بالعموم مین اسٹریم میڈیا اور بالخصوص سوشل میڈیا پر موثر مہم چلانے کی ضرورت ہے۔
صرف حکومت نہیں، پورے معاشرے کو فعال بنانا ہوگا۔ ہر فرد کو اس اہم ترین کام کا ادراک کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ تعلیم کے لیے مختص رقم مکمل طور پر خرچ نہیں ہوپاتی۔ ہنر مند افرادی قوت کو یقینی بنانے کے لیے کم از کم 25% اسکولز اور کالجز کو ہائی ٹیک ٹیکنیکل اداروں میں تبدیل کیا جانا چاہیے۔ بجٹ کے باقاعدہ، ہموار اور منصفانہ استعمال کے لیے علاقوں اور صوبوں کے مختلف محکموں کے درمیان ہم آہنگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان میں چار مختلف نظام تعلیم رائج ہیں جس میں مدرسہ، نجی تعلیمی ادارے، انگلش میڈیم نجی تعلیمی ادارے اور سرکاری اسکولز اور کالجز شامل ہیں۔ ان اداروں میں اپنا مخصوص تعلیمی نصاب رائج ہے جو ایک دوسرے کی نفی کرتا ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں تفریق اور عدم توازن کی فضا فروغ پارہی ہے۔
نصاب تعلیم کا انحصار ریاست کی قومی تعلیمی پالیسی پر ہوتا ہے جس میں مستقبل کے اہداف کا تعین کیا جاتا ہے۔ وقت اور حالات کے تحت جہاں دیگر ریاستی امور و معاملات تبدیلیوں اور تغیرات سے گزرتے ہیں وہیں تعلیمی اہداف بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں، چونکہ نصاب تعلیم قومی اہداف سے مشروط ہوتا ہے، اس لیے اس میں بھی وقتاً فوقتاً تبدیلیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ملک میں بین المذاہب ہم آہنگی و رواداری کے فروغ کے لیے متوازن نصاب مرتب کیا جانا ضروری ہے۔ سائنس اور دیگر شعبوں میں ہونے والی تیز رفتار ترقی کے پیش نظر ہر سال نصاب پر نظر ثانی کرنی چاہیے جس میں جدید دورکے تقاضوں، طلباء کی نفسیات و ضرورت اور قابل اساتذہ کے تجربات کی روشنی میں نصاب کے مسودے کی منظوری کے لیے ایک مربوط نظام تشکیل دیا جائے۔
یہ امر خوش آیند ہے کہ وفاقی حکومت، سندھ اور پنجاب حکومتیں تعلیم کی ترقی میں دلچسپی بھی ظاہر کررہی ہیں اور کام بھی کررہی ہے۔ایک خبر کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے قومی تعلیمی ایمرجنسی متعلق ایشوز کو حل کرنے کے لیے ایجوکیشن ٹاسک فورس تشکیل دے دی ہے،اس کے چیئرمین وزیراعظم ہوں گے۔اس میں عالمی ڈونرز بھی شامل ہیں، اس ادارے کا مقصد تعلیمی نظام اور شرح خواندگی کے اہداف کے حصول کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا تدارک کرنا ، غریب خاندانوں کے بچوں کی تعلیم اور سرکاری اسکولز کے حوالے سے پالیسی سازی اور تعلیم کے فروغ اور معیار کے حوالے سے اہم فیصلے کر نا ہے۔
کسی بھی ملک میں ناخواندگی کا غربت، جرائم اور صحت جیسے مسائل سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ یہ ملک کی مجموعی معاشی اور سیاسی ترقی پرگہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ ناخواندہ معاشرے جدید ترقی سے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ ایسے معاشروں میں سماجی تبدیلی کی رفتار انتہائی سست ہوتی ہے۔ پسماندہ ملکوں کا ایلیٹ طبقہ ترقی یافتہ ہوتا ہے جب کہ باقی سارا ملک عہد قدیم طرز کی زندگی گزار رہا ہے ۔ حکمران طبقہ اپنے ہی عوام کا سیاسی، معاشی اور سماجی استحصال کرتا ہے، یوں صدیاں گزرجانے کے بعد بھی دنیا کے ممالک کی اکثریت پسماندگی کا شکار ہے۔
معاشرے میں کوئی بھی پائیدار تبدیلی ممکن نہیں ہو پاتی۔ پوری قوم دائروں کے سفر پر گامزن رہتی ہے۔ ان کا سماجی اور سیاسی شعور جامد رہتا ہے، تازہ خیالات کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ دنیا اس وقت خواندگی کے بنیادی تصور ( لکھنے، پڑھنے وغیرہ کی مہارت) سے آگے ڈیجیٹل خواندگی کی طرف بڑھ چکی ہے جہاں معلومات اور ابلاغی ٹیکنالوجی کی مدد سے تخلیقی عمل پر زور دیا جارہا ہے۔
ایسی دنیا میں آپ تصور کریں کہ ملکِ خداداد میں ڈھائی کروڑ سے زائد بچے اسکول سے باہر ہیں، جو خواندگی کے بنیادی تصور کے دائرے میں بھی نہیں آتے، یعنی جنھیں حروف پڑھنا اور لکھنا نہیں آتا۔ اتنی بڑی ناخواندہ تعداد کے حامل ملک کا مستقبل کیا ہوگا؟ یہی بچے جوان ہوکر بطور شہری کہاں کھڑیں ہوں گے؟ پاکستان میں یہ نوجوان سیاسی عمل میں حصہ لینے کے قابل ہوں گی؟ ناقص تعلیمی پالیسیوں اور مفاداتی نصاب تعلیم کی وجہ سے تعلیمی اہلیت کے حوالے سے ہمارا معاشرہ بانجھ اور متشدد ہوگیا ہے۔
فرسودہ نصاب تعلیم پڑھ کر جو نسل ریاستی نظام کا حصہ بنی ہے، اس کی کارگزاری سب کے سامنے ہے۔ ہمارا نصاب تعلیم پاکستان کو عالمی سطح کا کوئی سائنسدان، طبی ماہر،معیشت دان ، جیورسٹ اور ذہین بیورکریٹ تیار کرکے نہیں دے سکاہے۔ ہم سات دہائیاں گزر جانے کے باوجود پسماندہ چلے آرہے ہیں۔معدودے چند نامور پاکستانیوں نے عالمی سطح پر نام بنایا ہے لیکن انھوں نے بھی یورپ کے علم سے استفادہ کیا ہے ۔
تعلیمی شعبے کے لیے ایک مضبوط مالیاتی انتظامی نظام کی اشد ضرورت ہے جو مردہ تعلیم نظام اور نصاب کو نئی زندگی دے سکے ۔ اساتذہ کے لیے معیاری پیشہ ورانہ ترقی کی ضرورت ہے۔ ایسے اعلیٰ درجے کے ادارے قائم کرنا بہت ضروری ہے جو بنیادی سے اعلیٰ تعلیم تک تمام سطحوں پر اساتذہ کی پیشہ ورانہ ترقی پر توجہ دیں۔ اساتذہ جدید رجحانات کے حامل ہوں گے تو وہ طلبہ کی ذہنی نشونما کرپائیں گے ۔
احتساب کے نظام کو بہتر بنانا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ تعلیمی پیشہ ور اساتذہ کو اپنی انفرادی اور اجتماعی ذمے داریوں کو پہچاننے اور قبول کرنے کی تربیت دی جانی چاہیے ، جو نظام کی کارکردگی کو بہتر بناتا ہے۔ ڈائنامک کریکولم ایویلیوایشن کے لیے نصاب تعلیم کا مکمل سالانہ جائزہ ضروری ہے۔ تعلیمی نظام کے موثر اور غیر جانبدارانہ آپریشن کے لیے سیاسی مداخلت کو کم کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ پالیسیوں کے تیز اور موثر نفاذ کے لیے انتظامیہ کے مضبوط سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔ امتحانی نظام سے غیر منصفانہ طرز عمل، بدعنوانی اور غیر قانونی رشوت کے اثرات کو ختم کر کے امتحانی نظام کی اصلاح کرنا۔ نگرانی اور معائنہ کے جسمانی اور نظریاتی پہلوؤں کو بہتر بنانے سے اس مقصد کو حاصل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
تعلیمی اداروں میں تحقیق کے کلچر کو فروغ دینا بہت ضروری ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس کوشش میں معاونت کے لیے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے فنڈز میں اضافہ کرے۔ اس بات پر بحث کرنے کی ضرورت ہے کہ تعلیم زندگی کے متعدد پہلوؤں، جیسے سماجی، اخلاقی، روحانی، سیاسی، اور اقتصادی شعبوں میں ترقی کو فروغ دیتی ہے، تبدیلی کو متحرک کرتی ہے۔ یہ ایک فعال ایجنٹ ہے، جو ممالک کو ان کے وسیع تر قومی مقاصد کے حصول میں سہولت فراہم کرتا ہے۔ مضبوط تعلیمی نظام والے ممالک کو اکثر مستحکم سماجی اور سیاسی فریم ورک کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اکثر دنیا بھر میں قیادت کے عہدوں پر فائز ہوتے ہیں۔
پاکستان کا موجودہ نظام تعلیم ملک کی ترقی میں اپنا اہم کام موثر طریقے سے انجام دینے میں ناکام رہا ہے، جس کی وجہ سے پاکستان انتہاپسندی اور تشدد پسندی کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ آنے والی نسل کو واضح رہنمائی کے بغیر چھوڑ دیا گیا ہے۔ پاکستان میں ناخواندگی کی سب سے بڑی وجہ لوگوں کے کمزور مالی حالات ہیں۔ پچاس فی صد سے زائد افراد غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ بچے اسکول جانے کے بجائے خاندان کے اخراجات پورے کرنے کے لیے محنت مزدوری میں لگجاتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں تعلیمی سہولیات دستیاب نہیں۔ بچوں کو اسکول جانے کے لیے دور دراز کا سفر پیدل طے کرنا پڑتا ہے۔ تعلیمی بجٹ ضرورت سے ہمیشہ کم ہوتا ہے ۔ موجودہ تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھی ناکافی ہے۔
کئی جگہ برائے نام اسکول موجود ہیں جن میں اسٹاف ہے، نہ تعلیمی عمارات کا وجود اور نہ ہی بنیادی تعلیمی سہولیات کی دستیابی۔ ایسے اسکولوں میں تعلیم و تعلم کا معنی خیز بندوبست نہیں، ایسے اسکولوں کا عدم اور وجود برابر ہے۔ عوام میں جدید ترقی سے متعلق آگاہی کی انتہائی کمی ہے۔ اجتماعی اور قومی سطح پر نتیجہ خیز بات چیت اور غور و فکر کرنے کا کوئی اہتمام نہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ عوام حقیقی مسائل کا ادراک کرنے کے قابل نہیں ہے۔اس لیے حکومتیں عوام دباؤ سے آزاد ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کے پاس عوام کی ترقی کے لیے کوئی جامع اور قابل پلان نہیں ہے۔پاپولر سیاسی جماعتوں کی قیادت گروہی اور مالیاتی مفادات کو دیکھ کر سیاسی حکمت عملی تیار کرتی ہے۔ان کے پاس پاکستان اور اس کے عام شہریوں کا معیار زندگی بلند کا کوئی منصوبہ ہے اور نہ وہ کچھ کرنا چاہتی ہیں۔
معیاری اور ریشنل نصاب تعلیم ہر حکومت کی ترجیح اوّل ہونی چاہیے۔ اس کے لیے تمام توانائیاں بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ فوری اور طویل المدتی اقدامات کرنے چاہئیں۔ دور دراز دیہی علاقوں پر خصوصی توجہ مرکوز کی جائے۔ چائلڈ لیبر سے منسلک بچوں کو اسکولوں میں داخل کرایا جائے اور غریب طلبہ کے لیے معقول وظائف کا بندوبست کیا جائے۔ اسکول سے باہر بچوں کو اسکولوں میں لانے کے لیے بالعموم مین اسٹریم میڈیا اور بالخصوص سوشل میڈیا پر موثر مہم چلانے کی ضرورت ہے۔
صرف حکومت نہیں، پورے معاشرے کو فعال بنانا ہوگا۔ ہر فرد کو اس اہم ترین کام کا ادراک کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ تعلیم کے لیے مختص رقم مکمل طور پر خرچ نہیں ہوپاتی۔ ہنر مند افرادی قوت کو یقینی بنانے کے لیے کم از کم 25% اسکولز اور کالجز کو ہائی ٹیک ٹیکنیکل اداروں میں تبدیل کیا جانا چاہیے۔ بجٹ کے باقاعدہ، ہموار اور منصفانہ استعمال کے لیے علاقوں اور صوبوں کے مختلف محکموں کے درمیان ہم آہنگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان میں چار مختلف نظام تعلیم رائج ہیں جس میں مدرسہ، نجی تعلیمی ادارے، انگلش میڈیم نجی تعلیمی ادارے اور سرکاری اسکولز اور کالجز شامل ہیں۔ ان اداروں میں اپنا مخصوص تعلیمی نصاب رائج ہے جو ایک دوسرے کی نفی کرتا ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں تفریق اور عدم توازن کی فضا فروغ پارہی ہے۔
نصاب تعلیم کا انحصار ریاست کی قومی تعلیمی پالیسی پر ہوتا ہے جس میں مستقبل کے اہداف کا تعین کیا جاتا ہے۔ وقت اور حالات کے تحت جہاں دیگر ریاستی امور و معاملات تبدیلیوں اور تغیرات سے گزرتے ہیں وہیں تعلیمی اہداف بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں، چونکہ نصاب تعلیم قومی اہداف سے مشروط ہوتا ہے، اس لیے اس میں بھی وقتاً فوقتاً تبدیلیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ملک میں بین المذاہب ہم آہنگی و رواداری کے فروغ کے لیے متوازن نصاب مرتب کیا جانا ضروری ہے۔ سائنس اور دیگر شعبوں میں ہونے والی تیز رفتار ترقی کے پیش نظر ہر سال نصاب پر نظر ثانی کرنی چاہیے جس میں جدید دورکے تقاضوں، طلباء کی نفسیات و ضرورت اور قابل اساتذہ کے تجربات کی روشنی میں نصاب کے مسودے کی منظوری کے لیے ایک مربوط نظام تشکیل دیا جائے۔