سندھ کا روایتی بجٹ
پیپلز پارٹی کی حکومت کے سولہ سال کا جائزہ لیا جائے تو حکومت کو 12,633َٹریلین ملے تھے
پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کا سولہواں بجٹ کیا سندھ میں غربت کے خاتمے، لاکھوں بچوں کو اسکولوں میں داخل کرانے، صحت کی سہولتوں کو بہتر بنانے اور بے روزگاروں کو روزگار دینے میں معاون ثابت ہوگا؟ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے اپنی بجٹ تقریر میں دعویٰ کیا ہے کہ بجٹ میں تعلیم اور صحت کے شعبوں کو ترجیح دی گئی ہے۔ سندھ کا کل بجٹ 3 ہزار156 ارب 25 کروڑ روپے کا ہے جس میں سے تعلیم کے لیے 519 ارب روپے اور شعبہ صحت کے لیے 334 ارب روپے، ترقیاتی منصوبوں کے لیے 925 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
وزیر اعلیٰ نے وزیر اعظم میاں شہباز شریف پر زور دیا ہے کہ قومی مالیاتی ایوارڈ کے اعلان کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔ قومی مالیاتی ایوارڈ (NFC) کا آئین کے تحت ہر پانچ سال بعد اجراء ضروری ہے۔ مراد علی شاہ کا اس بات پر بھی بڑا زور ہے کہ سندھ واحد صوبہ ہے جس کا ترقیاتی بجٹ تمام صوبوں سے زیادہ ہے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت کے سولہ سال کا جائزہ لیا جائے تو حکومت کو 12,633َٹریلین ملے تھے، اگر یہ تصور بھی کیا جائے کہ سندھ کی حکومت نے شفاف طور پر عوام کے حالات کار کو بہتر بنانے کے لیے یہ رقم خرچ کی ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ اس عرصے میں سندھ کی حکومت پر بیرونی اور ملکی قرضوں کا بوجھ 1,341بلین روپے تک پہنچ گیا اور گزشتہ مالیاتی سال میں اس خسارے میں 26 فیصد تک اضافہ ہوا، یوں نئے قرضوں کی بناء پر یہ رقم 325 بلین تک پہنچ گئی۔ اسی دوران غربت کے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد 37 فیصد تک پہنچ گئی۔
وکی پیڈیا سے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق غربت کی شرح اندرون سندھ زیادہ ہے جہاں سے پیپلز پارٹی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں مسلسل کامیابی حاصل کرتی ہے، یہ حقائق نظام میں غیر شفافیت کا واضح اظہار کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے غربت کی شرح کو کم کرنے کے لیے روایتی پالیسیاں نافذ کیں۔ جب پیپلز پارٹی 2008 میں وفاق میں برسرِاقتدار آئی تو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا گیا۔ معروف ترقی پسند ماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیصر بنگالی نے یہ اسکیم تیار کی تھی۔ اس اسکیم کی خاص بات یہ تھی کہ صرف غربت کا شکار خواتین کو مالیاتی امداد دی جاتی ہے مگر ڈاکٹر قیصر بنگالی سندھ حکومت کے غیر شفاف مالیاتی نظام سے مایوس ہوکر مستعفی ہوگئے۔
جب حکومت تبدیل ہوئی تو یہ حقائق سامنے آئے کہ بہت سے سرکاری افسروں نے جعلی شناختی کارڈ کے ذریعے اس اسکیم سے خوب فائدہ اٹھایا۔ موجودہ بجٹ میں مزدور کارڈ کے اجراء جیسے اقدامات کا اعلان ہوا ہے مگر ترقیات کے ماہرین کی متفقہ رائے ہے کہ صنعتی ترقی سے ہی غربت ختم ہوسکتی ہے مگر سندھ میں صرف شکر کے کارخانے لگنے کے سوا کوئی قابلِ ذکر کام نہ ہوا۔ سندھ کے امور پرکام کرنے والے بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ ان کارخانوں کی ملکیت بااختیار سیاسی خاندانوں کی ہے۔
سندھ کا اہم ترین مسئلہ امن و امان کا قیام ہے۔ موجودہ بجٹ میں امن و امان کے لیے 172 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ سندھ میں پولیس کے علاوہ مسلح افواج کی ذیلی ایجنسی رینجرز بھی موجود ہے۔ بعض صورتوں میں فرنٹیئر کانسٹیبلری بھی پولیس اور رینجرز کا ہاتھ بٹاتی ہے۔ جب پیپلز پارٹی 2008میں برسر اقتدار آئی تھی تو کراچی میں بدامنی عروج پر تھی۔ لسانی فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ اور اغواء برائے تاوان کے معاملات عام تھے، مگر جب میاں نواز شریف کے دورِ حکومت میں صورتحال زیادہ خراب ہوئی تو ایک مشترکہ آپریشن ہوا جس کے نتیجے میں اندرون سندھ ڈاکوؤں کے گروہوں کا خاتمہ ہوا۔ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات بہت کم ہوئے تھے مگر پھر حالات خراب ہونا شروع ہوئے۔
اپر سندھ جس میں گھوٹکی، سکھر، شکارپور، جیکب آباد، کندھ کوٹ، لاڑکانہ کے علاقے ہیں ڈاکوؤں کا عملاً راج ہے اور حالات اتنے خراب ہیں کہ نامکمل موٹر وے پر سکھر سے حیدرآباد کے درمیان رینجرز نے چوکیاں قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ کچھ عرصے بعد ان علاقوں میں آپریشن کو نوید سناتے ہیں۔ حکومت پولیس کو خصوصی گرانٹ دینے کا اعلان کرتی ہے مگر پھر پولیس کے سپاہیوں اور عام شہریوں کے اغواء کی خبریں شایع ہوتی ہیں۔ پہلی دفعہ سندھ کے قدیم باسی ہندو ہجرت پر مجبور ہوئے ہیں۔
کراچی میں اسٹریٹ کرائمز رکتے نظر نہیں آتے۔ کبھی ایک صوبائی وزیر نے یہ خوش خبری سنائی تھی کہ کراچی میں سیف سٹی پروجیکٹ شرو ع ہونے والا ہے مگر یہ خوش خبری حقیقت کا روپ نہیں دھارسکی۔ اب مراد علی شاہ نے بھی یہ اعلان کیا ہے کہ شہر کی سیکیورٹی کے لیے سیف سٹی پروجیکٹ پر کام شروع ہوگیا ہے۔
سندھ حکومت نے شعبہ صحت کے لیے 300 ارب روپے مختص کیے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی سب سے اعلیٰ کارکردگی صحت کے شعبے میں ہے۔ کراچی میں قومی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی (N.I.C.V.D)، جناح اسپتال، S.I.U.T اور گمبٹ کا ٹرانس پلانٹ انسٹی ٹیوٹ اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ ان اداروں کی کامیابی میں ایک طرف ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی اور ڈاکٹر بھٹی جیسے ڈاکٹروں کا وژن ہے تو دوسری طرف نجی شعبہ ان اداروں کی بھرپور مدد کرتا ہے مگر یہ المیہ ہے کہ اندرون سندھ کے اسپتالوں میں برن وارڈ موجود نہیں ہے۔
اندرون سندھ کے جھلسے ہوئے مریض کراچی پہنچنے تک زندگی کی خواہش ترک کردیتے ہیں۔ اندرون سندھ ڈی ایچ او کا ادارہ بھی مفلوج ہوچکا ہے۔ رتو ڈیرو اور لاڑکانہ وغیرہ میں ایڈز اور دیگر امراض کے پھیلنے کی بنیادی وجہ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کے ادارہ کا فعال نا ہونا ہے۔ اس دفعہ بجٹ میں تعلیم کے لیے 454 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ گزشتہ پندرہ برسوں کے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق اس شعبہ پر 1,920 بلین روپے مختص ہوچکے ہیں مگر سندھ میں اب بھی 60 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے۔ سرکار ی اعداد و شمار کے مطابق 26 ہزار اسکولوں میں پینے کا پانی دستیاب نہیں ہے اور 19 ہزار اسکولوں میں بیت الخلاء تعمیر ہی نہیں ہوئے ۔ آج کے دور میں 31 ہزار اسکولوں میں بجلی کے کنکشن ہیں ہی نہیں۔ اسی طرح 21 ہزار اسکولوں کی چار دیواری کبھی تعمیر ہی نہیں ہوئی اور 36 ہزار اسکولوں کے پاس کھیل کے میدان نہیں ہیں۔
ہمیشہ نقل عام ہونے کی خبریں معمول کا حصہ ہیں۔ ایک صحافی کا کہنا ہے کہ صرف محکمہ پولیس کے میں کرپشن نہیں ہے بلکہ تعلیم کا محکمہ بھی اس معاملے میں پہلے نمبر پر ہے۔ صوبائی حکومت نے صوبے میں جدید ماس ٹرانزٹ نظام کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا۔ گزشتہ 15 برسوں سے یہ بات عام ہوئی ہے کہ کراچی کا پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام لاہور اور اسلام آباد سے بہت پیچھے ہے۔
سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے گرین لائن کا منصوبہ شروع کیا تھا جسے گزشتہ حکومت نے مکمل کیا تو سندھ کی حکومت نے نمائش سے ملیر کینٹ تک ریڈ لائن کا منصوبہ شروع کیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کا یہ پہلا پروجیکٹ ہے مگر تین سال ہونے کو ہیں یہ پروجیکٹ مکمل نہیں ہو پا رہا۔ شرجیل انعام میمن نے چند سو بڑی بسیں چلانے کا منصوبہ شروع کیا، یوں شہریوں کو کچھ سکون ہوا۔ شہر کی ناکارہ سڑکیں ان بسوں کو بھی ناکارہ کردیں گی۔ کراچی شہر میں ریڈ لائن جیسے 10 کے قریب پروجیکٹ کی ضرورت ہے۔ سرکلر ریلوے کا معاملہ قصہ پارینہ ہوگیا ہے۔ مراد علی شاہ کا یہ استدلال درست ہے کہ این ایف سی ایوارڈ کا دوبارہ اجراء ہونا چاہیے۔
موجودہ حکومت نے بجٹ میں کئی ہزار اسامیوں کا اعلان کیا ہے۔ ماضی میں میرٹ سے ہٹ کر ہونے والی بھرتیوں کے سندھ کی ترقی پر منفی اثرات ظاہر ہونے لگے ہیں۔ سندھ کی اعلیٰ ترین بااختیار شخصیت نے خود بیوروکریسی کی اہلیت پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ یہ وقت ہے کہ سندھ میں ایک مکمل طور پر بااختیار پبلک سروس کمیشن بنایا جائے جو گریڈ 1 سے لے کر گریڈ 17 تک کی تمام اسامیوں پر تقرر کرے۔ کمیشن کا طریقہ کار مکمل طور پر شفاف ہونا چاہیے۔ اگر پیپلز پارٹی کی قیادت زیرو کرپشن کی پالیسی اختیار کرے تو سندھ ایک ماڈل صوبہ بن سکتا ہے۔
وزیر اعلیٰ نے وزیر اعظم میاں شہباز شریف پر زور دیا ہے کہ قومی مالیاتی ایوارڈ کے اعلان کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔ قومی مالیاتی ایوارڈ (NFC) کا آئین کے تحت ہر پانچ سال بعد اجراء ضروری ہے۔ مراد علی شاہ کا اس بات پر بھی بڑا زور ہے کہ سندھ واحد صوبہ ہے جس کا ترقیاتی بجٹ تمام صوبوں سے زیادہ ہے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت کے سولہ سال کا جائزہ لیا جائے تو حکومت کو 12,633َٹریلین ملے تھے، اگر یہ تصور بھی کیا جائے کہ سندھ کی حکومت نے شفاف طور پر عوام کے حالات کار کو بہتر بنانے کے لیے یہ رقم خرچ کی ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ اس عرصے میں سندھ کی حکومت پر بیرونی اور ملکی قرضوں کا بوجھ 1,341بلین روپے تک پہنچ گیا اور گزشتہ مالیاتی سال میں اس خسارے میں 26 فیصد تک اضافہ ہوا، یوں نئے قرضوں کی بناء پر یہ رقم 325 بلین تک پہنچ گئی۔ اسی دوران غربت کے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد 37 فیصد تک پہنچ گئی۔
وکی پیڈیا سے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق غربت کی شرح اندرون سندھ زیادہ ہے جہاں سے پیپلز پارٹی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں مسلسل کامیابی حاصل کرتی ہے، یہ حقائق نظام میں غیر شفافیت کا واضح اظہار کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے غربت کی شرح کو کم کرنے کے لیے روایتی پالیسیاں نافذ کیں۔ جب پیپلز پارٹی 2008 میں وفاق میں برسرِاقتدار آئی تو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا گیا۔ معروف ترقی پسند ماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیصر بنگالی نے یہ اسکیم تیار کی تھی۔ اس اسکیم کی خاص بات یہ تھی کہ صرف غربت کا شکار خواتین کو مالیاتی امداد دی جاتی ہے مگر ڈاکٹر قیصر بنگالی سندھ حکومت کے غیر شفاف مالیاتی نظام سے مایوس ہوکر مستعفی ہوگئے۔
جب حکومت تبدیل ہوئی تو یہ حقائق سامنے آئے کہ بہت سے سرکاری افسروں نے جعلی شناختی کارڈ کے ذریعے اس اسکیم سے خوب فائدہ اٹھایا۔ موجودہ بجٹ میں مزدور کارڈ کے اجراء جیسے اقدامات کا اعلان ہوا ہے مگر ترقیات کے ماہرین کی متفقہ رائے ہے کہ صنعتی ترقی سے ہی غربت ختم ہوسکتی ہے مگر سندھ میں صرف شکر کے کارخانے لگنے کے سوا کوئی قابلِ ذکر کام نہ ہوا۔ سندھ کے امور پرکام کرنے والے بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ ان کارخانوں کی ملکیت بااختیار سیاسی خاندانوں کی ہے۔
سندھ کا اہم ترین مسئلہ امن و امان کا قیام ہے۔ موجودہ بجٹ میں امن و امان کے لیے 172 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ سندھ میں پولیس کے علاوہ مسلح افواج کی ذیلی ایجنسی رینجرز بھی موجود ہے۔ بعض صورتوں میں فرنٹیئر کانسٹیبلری بھی پولیس اور رینجرز کا ہاتھ بٹاتی ہے۔ جب پیپلز پارٹی 2008میں برسر اقتدار آئی تھی تو کراچی میں بدامنی عروج پر تھی۔ لسانی فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ اور اغواء برائے تاوان کے معاملات عام تھے، مگر جب میاں نواز شریف کے دورِ حکومت میں صورتحال زیادہ خراب ہوئی تو ایک مشترکہ آپریشن ہوا جس کے نتیجے میں اندرون سندھ ڈاکوؤں کے گروہوں کا خاتمہ ہوا۔ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات بہت کم ہوئے تھے مگر پھر حالات خراب ہونا شروع ہوئے۔
اپر سندھ جس میں گھوٹکی، سکھر، شکارپور، جیکب آباد، کندھ کوٹ، لاڑکانہ کے علاقے ہیں ڈاکوؤں کا عملاً راج ہے اور حالات اتنے خراب ہیں کہ نامکمل موٹر وے پر سکھر سے حیدرآباد کے درمیان رینجرز نے چوکیاں قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ کچھ عرصے بعد ان علاقوں میں آپریشن کو نوید سناتے ہیں۔ حکومت پولیس کو خصوصی گرانٹ دینے کا اعلان کرتی ہے مگر پھر پولیس کے سپاہیوں اور عام شہریوں کے اغواء کی خبریں شایع ہوتی ہیں۔ پہلی دفعہ سندھ کے قدیم باسی ہندو ہجرت پر مجبور ہوئے ہیں۔
کراچی میں اسٹریٹ کرائمز رکتے نظر نہیں آتے۔ کبھی ایک صوبائی وزیر نے یہ خوش خبری سنائی تھی کہ کراچی میں سیف سٹی پروجیکٹ شرو ع ہونے والا ہے مگر یہ خوش خبری حقیقت کا روپ نہیں دھارسکی۔ اب مراد علی شاہ نے بھی یہ اعلان کیا ہے کہ شہر کی سیکیورٹی کے لیے سیف سٹی پروجیکٹ پر کام شروع ہوگیا ہے۔
سندھ حکومت نے شعبہ صحت کے لیے 300 ارب روپے مختص کیے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی سب سے اعلیٰ کارکردگی صحت کے شعبے میں ہے۔ کراچی میں قومی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی (N.I.C.V.D)، جناح اسپتال، S.I.U.T اور گمبٹ کا ٹرانس پلانٹ انسٹی ٹیوٹ اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ ان اداروں کی کامیابی میں ایک طرف ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی اور ڈاکٹر بھٹی جیسے ڈاکٹروں کا وژن ہے تو دوسری طرف نجی شعبہ ان اداروں کی بھرپور مدد کرتا ہے مگر یہ المیہ ہے کہ اندرون سندھ کے اسپتالوں میں برن وارڈ موجود نہیں ہے۔
اندرون سندھ کے جھلسے ہوئے مریض کراچی پہنچنے تک زندگی کی خواہش ترک کردیتے ہیں۔ اندرون سندھ ڈی ایچ او کا ادارہ بھی مفلوج ہوچکا ہے۔ رتو ڈیرو اور لاڑکانہ وغیرہ میں ایڈز اور دیگر امراض کے پھیلنے کی بنیادی وجہ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کے ادارہ کا فعال نا ہونا ہے۔ اس دفعہ بجٹ میں تعلیم کے لیے 454 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ گزشتہ پندرہ برسوں کے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق اس شعبہ پر 1,920 بلین روپے مختص ہوچکے ہیں مگر سندھ میں اب بھی 60 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے۔ سرکار ی اعداد و شمار کے مطابق 26 ہزار اسکولوں میں پینے کا پانی دستیاب نہیں ہے اور 19 ہزار اسکولوں میں بیت الخلاء تعمیر ہی نہیں ہوئے ۔ آج کے دور میں 31 ہزار اسکولوں میں بجلی کے کنکشن ہیں ہی نہیں۔ اسی طرح 21 ہزار اسکولوں کی چار دیواری کبھی تعمیر ہی نہیں ہوئی اور 36 ہزار اسکولوں کے پاس کھیل کے میدان نہیں ہیں۔
ہمیشہ نقل عام ہونے کی خبریں معمول کا حصہ ہیں۔ ایک صحافی کا کہنا ہے کہ صرف محکمہ پولیس کے میں کرپشن نہیں ہے بلکہ تعلیم کا محکمہ بھی اس معاملے میں پہلے نمبر پر ہے۔ صوبائی حکومت نے صوبے میں جدید ماس ٹرانزٹ نظام کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا۔ گزشتہ 15 برسوں سے یہ بات عام ہوئی ہے کہ کراچی کا پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام لاہور اور اسلام آباد سے بہت پیچھے ہے۔
سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے گرین لائن کا منصوبہ شروع کیا تھا جسے گزشتہ حکومت نے مکمل کیا تو سندھ کی حکومت نے نمائش سے ملیر کینٹ تک ریڈ لائن کا منصوبہ شروع کیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کا یہ پہلا پروجیکٹ ہے مگر تین سال ہونے کو ہیں یہ پروجیکٹ مکمل نہیں ہو پا رہا۔ شرجیل انعام میمن نے چند سو بڑی بسیں چلانے کا منصوبہ شروع کیا، یوں شہریوں کو کچھ سکون ہوا۔ شہر کی ناکارہ سڑکیں ان بسوں کو بھی ناکارہ کردیں گی۔ کراچی شہر میں ریڈ لائن جیسے 10 کے قریب پروجیکٹ کی ضرورت ہے۔ سرکلر ریلوے کا معاملہ قصہ پارینہ ہوگیا ہے۔ مراد علی شاہ کا یہ استدلال درست ہے کہ این ایف سی ایوارڈ کا دوبارہ اجراء ہونا چاہیے۔
موجودہ حکومت نے بجٹ میں کئی ہزار اسامیوں کا اعلان کیا ہے۔ ماضی میں میرٹ سے ہٹ کر ہونے والی بھرتیوں کے سندھ کی ترقی پر منفی اثرات ظاہر ہونے لگے ہیں۔ سندھ کی اعلیٰ ترین بااختیار شخصیت نے خود بیوروکریسی کی اہلیت پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ یہ وقت ہے کہ سندھ میں ایک مکمل طور پر بااختیار پبلک سروس کمیشن بنایا جائے جو گریڈ 1 سے لے کر گریڈ 17 تک کی تمام اسامیوں پر تقرر کرے۔ کمیشن کا طریقہ کار مکمل طور پر شفاف ہونا چاہیے۔ اگر پیپلز پارٹی کی قیادت زیرو کرپشن کی پالیسی اختیار کرے تو سندھ ایک ماڈل صوبہ بن سکتا ہے۔