محمد زبیر کے انکشافات اور پی ٹی آئی کا واویلہ
یہ کیسی منطق ہے کہ تحریک انصاف اپنے ہر فیصلے اور موقف کو جائز سمجھتی ہے
آجکل تحریک انصاف، سابق گورنر سندھ اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما محمد زبیر کے ''انکشافات'' پر جیوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ محمد زبیر نے گزشتہ دنوں ایک انٹرویو کے دوران دعویٰ کیا کہ جنرل باجوہ اور میاں نواز شریف کے درمیان ملاقات ہوئی تھی۔ جس میں عمران خان کی حکومت گرانے کا فیصلہ ہوا تھا۔ تحریک انصاف نعرہ لگا رہی ہے کہ اس انکشاف کے بعد ملک میں ایک بڑا سیاسی طوفان آگیا ہے۔ پاکستان کی تاریخ کا سب سے انوکھا اور سنگین انکشاف ہو گیا ہے لہٰذا فوری طور پر ایک جیوڈیشل کمیشن بننا چاہیے جو طے کرے کہ کارروائی کیسے کرنی ہے۔
مسلم لیگ (ن) اس ملاقات سے انکار کر رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ایسی کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ حالات و واقعات کا جائزہ لوں تو مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے کہ ایسی ملاقات نہیں ہوئی ہوگی۔ میاں نواز شریف تو جنرل قمر جاوید باجوہ کی تیسری توسیع کے سخت خلاف تھے بلکہ کہا جاتا ہے کہ صرف نواز شریف کی وجہ سے ان کی توسیع ممکن نہیں ہو سکی۔ یہ میرا فہم ہے ، آگے یہ ملاقات ہوئی کہ نہیں ہوئی، اﷲ ہی جانتا ہے ۔
بہرحال دونوں پارٹیاں اپنے اپنے موقف پر قائم ہیں۔ لیکن میں سوچتا ہوں کہ تحریک انصاف کے لیے آج محمد زبیر کی گواہی بہت معتبر ہو گئی ہے۔ حالانکہ کل تک ایسا نہیں تھا۔ اب تو ان کے خیال میں اس انکشاف کے بعد مزید کسی تفتیش کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ ادھر مسلم لیگ (ن) کا موقف ہے کہ محمد زبیر ناراض ہیں، وہ سائیڈ لائن ہو چکے ہیں۔ اس لیے انھوں نے اپنی اگلی سیاسی منزل کی تلاش میں یہ سب کہا ہے۔ ادھر تحریک انصاف کے ترجمان نے بھی یہ بیان دے کر کہ محمد زبیر اب تحریک انصاف جوائن کرنے کے لیے خواہاں ہیں، مسلم لیگ ن کے موقف میں جان ڈال دی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ تحریک انصاف کو محمد زبیر کے انکشافات پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ تحریک انصاف کو ان انکشافات کو کوئی لفٹ ہی نہیں کرانی چاہیے۔ اسے معمول کی بات سمجھنا چاہیے۔
ویسے بھی تحریک انصاف کے لیے کسی آرمی چیف اور سیاستدان کی ملاقات کب سے قابل اعتراض ہو گئی۔ عمران خان تو آج بھی بضد ہیں کہ وہ سیاستدانوں سے مذاکرات نہیں کریں گے بلکہ ان کے ساتھ کریں گے، جن کے پاس اصل اقتدار ہے۔اب اس کا کیا مطلب ہے؟ سابق صدر عارف علوی بھی اپنی کوشش کرچکے ہیں۔تحریک انصاف اور عمران خان کا موقف ہے کہ وہ صرف اور صرف فوج سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان میں کسی اور کے پاس کوئی طاقت نہیں، اس لیے کسی اور کے ساتھ بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
یہ کیسی منطق ہے کہ تحریک انصاف اپنے ہر فیصلے اور موقف کو جائز سمجھتی ہے۔ لیکن اگر کوئی اور ان جیسا کردار اد کر لے تو وہ قابل گردن زدنی ہے۔ وہ خود کسی سے بھی مل لیں تو یہ ملکی مفاد ہے، ا گر کوئی دوسرا مل لے تو ملک سے غداری ہے۔ تحریک انصاف اپنے سیاسی مقاصد کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی مدد لے تو یہ آئینی اور جمہوری ہے۔ لیکن ان کے مخالف ایسی مدد لیں تو یہ غداری ہے۔ کیا یہ عجیب بات نہیں ہے؟
ایسی تفصیلات اورنام سامنے آ چکے ہیں جو 2014میں میاں نواز شریف کی حکومت گرانے کے لیے لندن میں اکٹھے ہوئے تھے ، ان میں عمران اور دیگر اہم افراد کے نام سامنے آچکے ہیں۔ ان ملاقاتوں کو بعد میں لندن پلان بھی کہا گیا۔ تحریک انصاف حکومتیں گرانے اور دھرنا دینے کے لیے اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے چندکرداروں کے ساتھ مل کر پلان بنائے تو جائز ہے۔ لہٰذا جو کام آپ خود کرتے ہیں، اس پر آپ دوسروں کو تنقید کا نشانہ کیسے بنا سکتے ہیں۔
کیا بانی تحریک انصاف کی 2018کے انتخابات سے قبل طاقتور اسٹیک ہولڈرز سے ملاقاتیں تسلسل سے نہیں ہو رہی تھیں۔جن میں نواز شریف کو اقتدار سے نکالنے، سزا سنانے، گرفتار کرنے اور پھر آر ٹی ایس بٹھانے تک کے معاملات شامل ہیں۔ کیونکہ عمران خان کو اقتدار میں چاہیے تھا۔ کیا ان سب ملاقاتوں پر بھی جیوڈیشل کمیشن نہیں بننا چاہیے۔ جب عمران خان وزیر اعظم بن گئے ، انھوں نے اداروں کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال نہیں کیا۔ نیب کے سابق مشیر شہزاد اکبر نے حال ہی میں انٹرویو دیا ہے، اس میں بہت کچھ کہا گیا ہے۔
کیا شہزاد اکبر کے انکشافات پر جیوڈیشل کمیشن نہیں بننا چاہیے۔ انھوں نے اب مان لیا ہے کہ ان کے دور میں مسلم لیگ (ن) کے اکثر قائدین کے خلاف بننے والے مقدمات جھوٹے اور جعلی تھے۔ ۔ اس سب کی وضاحت تو تحریک انصاف نے کبھی نہیںکی۔ محمد زبیر کی بات پر جیوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ فوری کر دیا گیا۔ محمد زبیر تو مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے ناراض ہیں جب کہ شہزاد اکبر تو تحریک انصاف کی قیادت سے ناراض نہیں ہیں۔ ان کی بات زیادہ معتبر نہیں ہے؟ سوال یہ بھی اہم کہ وہ یہ سب کچھ آج کیوں کہہ رہے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ محمد زبیر اور ان کے بھائی اسدعمر اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات کی وجہ سے ہی اہم تھے۔ اب شاید ایسا نہیں ہے۔
میں ذاتی طور پر اداروںکے سیاسی کردار کے حق میں نہیں ہوں۔ اگر فوجی افسران کی سیاست میں مداخلت غلط ہے تو ججز کی سیاست میں مداخلت بھی غلط ہے۔ بہر حال پہلے تحریک انصاف یہ اعلان کرے کہ وہ آج کے بعد اپنے سیاسی مقاصد کے لیے کسی اسٹیبلشمنٹ سے ملاقات کی خواہش کا اظہار بھی نہیں کرے گی اور اعلان کرے کہ وہ غیر جمہوری قوتوں کی مدد سے اقتدار حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرے گی۔تو یہی راستہ تحریک انصاف کے لیے بہتر ہوگا۔
مسلم لیگ (ن) اس ملاقات سے انکار کر رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ایسی کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ حالات و واقعات کا جائزہ لوں تو مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے کہ ایسی ملاقات نہیں ہوئی ہوگی۔ میاں نواز شریف تو جنرل قمر جاوید باجوہ کی تیسری توسیع کے سخت خلاف تھے بلکہ کہا جاتا ہے کہ صرف نواز شریف کی وجہ سے ان کی توسیع ممکن نہیں ہو سکی۔ یہ میرا فہم ہے ، آگے یہ ملاقات ہوئی کہ نہیں ہوئی، اﷲ ہی جانتا ہے ۔
بہرحال دونوں پارٹیاں اپنے اپنے موقف پر قائم ہیں۔ لیکن میں سوچتا ہوں کہ تحریک انصاف کے لیے آج محمد زبیر کی گواہی بہت معتبر ہو گئی ہے۔ حالانکہ کل تک ایسا نہیں تھا۔ اب تو ان کے خیال میں اس انکشاف کے بعد مزید کسی تفتیش کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ ادھر مسلم لیگ (ن) کا موقف ہے کہ محمد زبیر ناراض ہیں، وہ سائیڈ لائن ہو چکے ہیں۔ اس لیے انھوں نے اپنی اگلی سیاسی منزل کی تلاش میں یہ سب کہا ہے۔ ادھر تحریک انصاف کے ترجمان نے بھی یہ بیان دے کر کہ محمد زبیر اب تحریک انصاف جوائن کرنے کے لیے خواہاں ہیں، مسلم لیگ ن کے موقف میں جان ڈال دی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ تحریک انصاف کو محمد زبیر کے انکشافات پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ تحریک انصاف کو ان انکشافات کو کوئی لفٹ ہی نہیں کرانی چاہیے۔ اسے معمول کی بات سمجھنا چاہیے۔
ویسے بھی تحریک انصاف کے لیے کسی آرمی چیف اور سیاستدان کی ملاقات کب سے قابل اعتراض ہو گئی۔ عمران خان تو آج بھی بضد ہیں کہ وہ سیاستدانوں سے مذاکرات نہیں کریں گے بلکہ ان کے ساتھ کریں گے، جن کے پاس اصل اقتدار ہے۔اب اس کا کیا مطلب ہے؟ سابق صدر عارف علوی بھی اپنی کوشش کرچکے ہیں۔تحریک انصاف اور عمران خان کا موقف ہے کہ وہ صرف اور صرف فوج سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان میں کسی اور کے پاس کوئی طاقت نہیں، اس لیے کسی اور کے ساتھ بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
یہ کیسی منطق ہے کہ تحریک انصاف اپنے ہر فیصلے اور موقف کو جائز سمجھتی ہے۔ لیکن اگر کوئی اور ان جیسا کردار اد کر لے تو وہ قابل گردن زدنی ہے۔ وہ خود کسی سے بھی مل لیں تو یہ ملکی مفاد ہے، ا گر کوئی دوسرا مل لے تو ملک سے غداری ہے۔ تحریک انصاف اپنے سیاسی مقاصد کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی مدد لے تو یہ آئینی اور جمہوری ہے۔ لیکن ان کے مخالف ایسی مدد لیں تو یہ غداری ہے۔ کیا یہ عجیب بات نہیں ہے؟
ایسی تفصیلات اورنام سامنے آ چکے ہیں جو 2014میں میاں نواز شریف کی حکومت گرانے کے لیے لندن میں اکٹھے ہوئے تھے ، ان میں عمران اور دیگر اہم افراد کے نام سامنے آچکے ہیں۔ ان ملاقاتوں کو بعد میں لندن پلان بھی کہا گیا۔ تحریک انصاف حکومتیں گرانے اور دھرنا دینے کے لیے اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے چندکرداروں کے ساتھ مل کر پلان بنائے تو جائز ہے۔ لہٰذا جو کام آپ خود کرتے ہیں، اس پر آپ دوسروں کو تنقید کا نشانہ کیسے بنا سکتے ہیں۔
کیا بانی تحریک انصاف کی 2018کے انتخابات سے قبل طاقتور اسٹیک ہولڈرز سے ملاقاتیں تسلسل سے نہیں ہو رہی تھیں۔جن میں نواز شریف کو اقتدار سے نکالنے، سزا سنانے، گرفتار کرنے اور پھر آر ٹی ایس بٹھانے تک کے معاملات شامل ہیں۔ کیونکہ عمران خان کو اقتدار میں چاہیے تھا۔ کیا ان سب ملاقاتوں پر بھی جیوڈیشل کمیشن نہیں بننا چاہیے۔ جب عمران خان وزیر اعظم بن گئے ، انھوں نے اداروں کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال نہیں کیا۔ نیب کے سابق مشیر شہزاد اکبر نے حال ہی میں انٹرویو دیا ہے، اس میں بہت کچھ کہا گیا ہے۔
کیا شہزاد اکبر کے انکشافات پر جیوڈیشل کمیشن نہیں بننا چاہیے۔ انھوں نے اب مان لیا ہے کہ ان کے دور میں مسلم لیگ (ن) کے اکثر قائدین کے خلاف بننے والے مقدمات جھوٹے اور جعلی تھے۔ ۔ اس سب کی وضاحت تو تحریک انصاف نے کبھی نہیںکی۔ محمد زبیر کی بات پر جیوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ فوری کر دیا گیا۔ محمد زبیر تو مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے ناراض ہیں جب کہ شہزاد اکبر تو تحریک انصاف کی قیادت سے ناراض نہیں ہیں۔ ان کی بات زیادہ معتبر نہیں ہے؟ سوال یہ بھی اہم کہ وہ یہ سب کچھ آج کیوں کہہ رہے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ محمد زبیر اور ان کے بھائی اسدعمر اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات کی وجہ سے ہی اہم تھے۔ اب شاید ایسا نہیں ہے۔
میں ذاتی طور پر اداروںکے سیاسی کردار کے حق میں نہیں ہوں۔ اگر فوجی افسران کی سیاست میں مداخلت غلط ہے تو ججز کی سیاست میں مداخلت بھی غلط ہے۔ بہر حال پہلے تحریک انصاف یہ اعلان کرے کہ وہ آج کے بعد اپنے سیاسی مقاصد کے لیے کسی اسٹیبلشمنٹ سے ملاقات کی خواہش کا اظہار بھی نہیں کرے گی اور اعلان کرے کہ وہ غیر جمہوری قوتوں کی مدد سے اقتدار حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرے گی۔تو یہی راستہ تحریک انصاف کے لیے بہتر ہوگا۔