پاکستان اور موسمیاتی تبدیلیاں

پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث شدید سیلاب، خشک سالی، زلزلے اور طوفان جیسے مسائل کا سامنا کر رہا ہے

پورا نظام موسم کے تبدیل ہونے سے درہم برہم ہوا ہے۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان کی زیادہ تر آبادی دریاؤں کے کناروں اور اس کے مضافاتی علاقوں میں رہتی ہے، جو مون سون کی بارشوں کے دوران سیلاب کی زد میں آتی ہے۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ہوا اور سمندر کے درجہ حرارت میں اضافے کے باعث بخارات میں اضافہ ہو رہا ہے۔


گرم ہوا زیادہ نمی برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے جس سے مون سون کی بارش زیادہ شدید ہوجاتی ہے۔ اسی گلوبل وارمنگ کی وجہ سے درجہ حرارت میں اضافے کے باعث شمالی علاقوں میں کوہساروں پر جمی برف کے تیزی سے پگھلنے اور دریاؤں میں پانی کے اضافے کی وجہ سے طغیانی کے باعث سیلاب آتے ہیں۔ سیلاب کی دوسری بڑی وجہ طوفانی بارشوں کی شدت میں اضافہ ہے، جس کے باعث دریاؤں اور ندیوں میں پانی کے بہاؤ میں اضافہ ہوتا ہے۔


گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس کے مطابق پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات کی زد میں آنے والے ممالک میں پانچویں نمبر پر ہے۔ اگرچہ کاربن اخراج کے لحاظ سے پاکستان کا کاربن اخراج دیگر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ پاکستان دنیا میں ایک ایسے مقام پر واقع ہے جو دو بڑے موسمی نظاموں کا خمیازہ بھگتتا ہے۔ ایک نظام زیادہ درجہ حرارت اور خشک سالی کا باعث بن سکتا ہے، جیسے ہیٹ ویو، اور دوسرا مون سون کی بارش لاتا ہے۔


2022 میں پاکستان کو شدید مون سون بارشوں کے بعد ایک خطرناک سیلاب کا سامنا رہا۔ اس سیلاب سے پاکستان کا کوئی صوبہ بچ نہ سکا، خیبر سے مہران یا پنجاب سے بلوچستان، ہر جگہ اس سیلاب کی تباہ کاریوں کے دردناک مناظر دیکھنے کو ملے۔ سیلاب کے باعث جہاں ہزاروں افراد کی اموات کا دکھ لیے لاکھوں لوگ اپنے گھر، گاؤں دیہاتوں کو چھوڑ کر نقل مکانی پر مجبور ہوئے وہیں کوک اسٹوڈیو کے گلوکار عبدالوہاب بگٹی کا گھر بھی سیلاب بہا لے گیا۔ عبدالوہاب بلوچستان کے علاقے ڈیرہ مراد جمالی سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع گوٹھ محمد عمر بگٹی کے ایک کچے مکان میں رہائش پذیر تھے جہاں سے انہیں سیلاب کے باعث اپنے خاندان کے ہمراہ محفوظ مقام پر منتقل ہونا پڑا۔ سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی امداد اور بحالی کےلیے سرکاری سطح پر اور سماجی تنظیموں کی جانب سے مناسب انتظامات بھی کیے گئے۔ متاثرین کو سرکاری اسکولوں میں عارضی رہائش دی گئی جہاں ان کے کھانے پینے اور علاج معالجے کا انتظام کیا گیا۔


پاکستان پچھلے کئی برسوں سے موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث شدید موسمی حالات، جیسے سیلاب، خشک سالی، زلزلے اور طوفان جیسے مسائل کا سامنا کر رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث دنیا بھر میں موسم کے مزاج تبدیل ہوئے ہیں جن کے باعث بن موسم برساتیں، مون سون کی بارشوں میں طغیانی و سیلاب کے باعث لاکھوں لوگوں کا متاثر ہونا، فصلوں کو نقصان اور آئندہ آنے والے زرعی موسم کےلیے بیجوں کا ٹھیک وقت پر نہ لگنا اور فصلوں کا وقت پر تیار نہ ہوکر زمینداروں اور کسانوں کا نقصان شامل ہے۔ نیز کہ پورا نظام موسم کے تبدیل ہونے سے درہم برہم ہوا ہے اور ان تبدیلیوں کو بہتر طریقے سے ٹھیک نہ کرنے کا خمیازہ پورا خطہ بھگت رہا ہے۔


ملک میں کئی سال سے سورج اپنے پورے جوش کے ساتھ چمک رہا ہے، جس کے باعث گرمی کی لہر میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ہیٹ ویو ایک ایسی کیفیت ہے جس میں تیز جھلسا دینے والی دھوپ کے ساتھ حبس زدہ ماحول بن جائے اور ہوا کی جگہ لُو چلنے لگے۔ گرمی کی اس شدید لہر کے دوران جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے بعض اضلاع میں درجۂ حرارت اب 52 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی تجاوز کرچکا جبکہ لاہور میں درجۂ حرارت 46 ڈگری تک پہنچ چکا ہے۔ یہ کیفیت صحت کےلیے اتنی خطرناک اور ناقابلِ برداشت ہے کہ اس سے انسانی صحت پر جان لیوا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ پاکستان میں محکمہ موسمیات نے شدید گرمی کی لہر کے بارے میں پہلے سے ہی شہریوں کو خبردار کیا تھا اور اس کے پیش نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے ہیٹ ویوو گائیڈ لائنز 2024 کے عنوان سے ایک کتابچہ بھی شائع کیا، جس میں شدید گرمی کے نقصانات سے بچنے کےلیے سرکاری اور انفرادی سطح پر تدابیر بتائی گئی ہیں۔


امریکا کے محکمہ موسمیات 'ایکیو ویدر' کے سربراہ ڈاکٹر جوئل ‏مائر کہتے ہیں 'برصغیر میں عالمی اوسط کے مقابلے میں درجہ حرارت میں کہیں زیادہ اضافہ ہوا ہے، شدید گرمی کی صورتحال میں یہاں کے بعض صحرائی خطوں کا درجہ حرارت باعث تشویش ہے جہاں موسم گرما کا درجہ حرارت پہلے ہی انسانی برداشت کی حد کو چھو رہا ہے۔ ان علاقوں کی ریکارڈ گرمی کم عمر افراد، چھوٹے بچوں اور ان لوگوں کےلیے زیادہ خطرناک ہے جن کی قوت مدافعت کمزور ہے۔'



گزشتہ پانچ سال میں ملک کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کا اربنائزیشن کے بڑھتے ہوئے رجحان سے گہرا تعلق ہے۔ چونکہ شہر بڑھتی ہوئی آبادی کو ایڈجسٹ کرنے کےلیے پھیل رہے ہیں، سبز جگہیں (درخت، پارک اور سبز میدان)، جو گرمی کے خلاف قدرتی بفر کے طور پر کام کرتی ہیں، کنکریٹ کی اونچی عمارتوں کی تعمیر کےلیے قربان کی جارہی ہیں۔ کلفٹن اربن فاریسٹ کے بانی شہزاد قریشی نے ایک حالیہ ویبینار میں گرین بیلٹس کے اس خطرناک سکڑاؤ پر روشنی ڈالتے ہوئے اسے حالیہ برسوں میں متعدد اموات کی وجہ قرار دیا۔ انہوں نے شہری آبادیوں پر ہیٹ ویو کے اثرات کو کم کرنے میں سبز جگہوں کے اہم کردار پر زور دیا۔


شدید موسمی حالات میں جہاں لوگ کسی مسیحا کے منتظر ہیں کہ کوئی آئے اور معجزاتی طور پر موسمی حالات درست ہوجائیں، وہیں اس سوچ کے برعکس غلام رسول پاکستانی اپنی مدد آپ کی تحت پچاس کروڑ پودے لگانے کا عزم لیے اب تک سترہ لاکھ دیسی پودے لگا چکے ہیں۔ پاک پتن کے یہ شہری موسمی حالات سے لڑنے اور ملک کو ہرا بھرا کرنے کی غرض سے 2017 سے ملک میں شجرکاری کے رجحان کو بڑھانے کےلیے خنجراب سے گوادر تک آبشاروں اور جھیلوں کی صفائی کے ساتھ ساتھ ان قدرتی آبی وسائل کے پاس شجرکاری بھی کرچکے ہیں۔ اب تک چولستان میں ایک لاکھ سے زائد درخت اور پودے لگانے کی مہم مکمل کرکے، اب یہ جون 2024 سے پاکستان کے 600 سے زائد مقامات پر شجرکاری کی غرض سے اپنی ایک چھوٹی وین میں سفر کا آغاز کرچکے ہیں۔ پاکستان کو اس وقت کم ازکم 25 فیصد حصے پر جنگلات کی ضرورت ہے، ایسے میں غلام رسول ماحولیات کو بہتر کرنے کےلیے اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ شجرکاری نہ صرف کرۂ ارض کےلیے بلکہ حالیہ موسمیاتی تبدیلیوں، شدید موسمی حالات کے اثرات کو کم کرنے اور دنیا کے ایکو سسٹم کے توازن کو قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔


موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے چیلنجز کو کم کرنے اور ان سے ہم آہنگ ہونے کےلیے پاکستان کو ایک کثیرالجہتی نقطہ نظر اپنانا ہوگا، جو فوری اور طویل مدتی خطرات کے اثر کو زائل کرے۔ قلیل مدت میں، شجر کاری کے علاوہ صاف اور پائیدار توانائی کے ذرائع کو اپنانے سے ہی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کیا جاسکتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے پیش نظر ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کےلیے صحافتی حلقہ اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی ایک حقیقت ہے۔ اس سے انکار ممکن نہیں۔ اگر ان کا سامنا کرنے کےلیے فوری طور پر اقدامات نہیں کیے گئے تو کل قدرتی آفات کا سامنا کرنا ہوگا۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔




اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔


Load Next Story