شادی سے قبل چند طبی ٹیسٹ کئی خطرناک بیماریوں سے بچا سکتے ہیں

نکاح نامے میں میڈیکل ٹیسٹ کروانے کی شرط بھی رکھی جائے، ماہر عمرانیات

فوٹو : فائل

شادی سے قبل تھیلیسیمیا اور بلڈ گروپ سمیت چند ضروری ٹیسٹ کروانے سے شادی شدہ جوڑا اور ان سے پیدا ہونے والی اولاد کئی خطرناک بیماریوں سے محفوظ رہ سکتی ہے لیکن آگاہی نہ ہونے کے باعث شادی سے قبل میڈیکل ٹیسٹ کروانا پیسے کا ضیاع اور کردار پر شک کے مترادف سمجھا جاتا ہے، اس وجہ سے ناصرف شادی شدہ جوڑوں کے ازدواجی زندگی متاثر ہوتی ہے بلکہ ان کے بچے کئی بیماریاں لیکر پیدا ہوتے ہیں۔

عبدالرحمن لاہور کے علاقے چوبرجی کے رہائشی ہیں۔ ان کی سال 2012 میں شادی ہوئی تھی، ان کا 10 سال کا ایک بیٹا ہے جبکہ ایک بچے کی پیدائش کے بعد اور ایک کی قبل ازپیدائش وفات ہوچکی ہے۔ ان کا بیٹا بھی ڈیسلیکسیا کا شکار ہے۔

عبدالرحمن بتاتے ہیں کہ ان کی شادی خاندان سے باہر ہوئی تھی اور شادی کے دو سال بعد ان کے ہاں پہلے بچے کی پیدائش ہونے والی تھی لیکن ڈلیوری سے چند گھنٹے قبل ہی ماں کے پیٹ میں بچے کی وفات ہوگئی تھی۔ چار سال بعد ان کے ہاں دو جڑواں بیٹے پیدا ہوئے، ان میں سے ایک کی چند گھنٹے بعد وفات ہوگئی تھی۔

عبدالرحمن کے مطابق ڈاکٹروں نے انہیں بتایا کہ ان کا اور ان کی اہلیہ کے خون کے گروپ کا آر ایچ فیکٹر ایک جیسا ہے جس کی وجہ سے انہیں مسئلہ درپیش ہے۔

شالامار ٹاؤن کی رہائشی علینا عامر کی بیٹی تھیلیسیمیا کا شکار ہے، وہ گزشتہ پانچ سال سے اپنی بیٹی کو خون لگوا رہی ہیں۔ علینہ عامر کے مطابق شادی سے پہلے انہیں خون کی کمی کا سامنا تھا اور شادی کے بعد معلوم ہوا کہ ان کے شوہر کو بھی یہی مسئلہ ہے، پھر جب ان کی بیٹی پیدا ہوئی تو وہ تھیلیسیمیا کا شکار ہوگئی۔ علینا عامر کہتی ہیں کہ اگر شادی سے پہلے ان کا اور انکے شوہر کا میڈیکل ٹیسٹ کروا لیا جاتا تو انہیں اس مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جس کا وہ آج شکار ہیں۔


ماہر امراض نسواں ڈاکٹر زینب نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شادی ایک ایسا رشتہ ہے جس میں ایک مرد اور عورت کو زندگی بھر ساتھ نبھانا ہوتا ہے، دونوں کا جسمانی تعلق قائم ہوتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ شادی سے پہلے چند طبی ٹیسٹ کروا لیے جائیں۔

ڈاکٹر زینب کے مطابق شادی سے پہلے تھیلیسیمیا، شادی شدہ جوڑوں کو جنسی طور پر منتقل ہونے والی انفیکشن (ایس ٹی آئی) ٹیسٹ، وراثتی بیماریوں، فرٹیلیٹی اور بلڈ ٹیسٹ لازمی کروانے چاہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایس ٹی آئی ٹیسٹ سے ہیپاٹائٹس بی، ایچ آئی وی کی تشخیص کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح اگر مرد و عورت دونوں یا ان سے میں سے کوئی ایک تھیلیسیمیا مائنر ہو تو خدشہ ہوتا ہے کہ پیدا ہونے والا بچہ تھیلیسیمیا میجر کا شکار ہوگا۔

اگر کسی مرد کے خون کا آر ایچ فیکٹر مثبت ہو اور اس کی بیوی کے خون کا آر ایچ نیگٹو ہو تو ان کا بچہ خون کے لحاظ سے آر ایچ مثبت ہوگا، ایسی صورت میں ماں کے خون آر ایچ فیکٹر کے مخالف اجزاء جہنیں اینٹی باڈیز کہتے ہیں پیدا ہو جائیں گے اور وہ بچے کے خون میں داخل ہو کر بچے کے خون کے سرخ ذرات کو تباہ کرتے رہیں گے، چنانچہ ایسی صورت میں عام طور پر بچہ پورے دن ہونے سے پہلے مر جاتا ہے اور حمل گر جاتا ہے، اگر بچہ زندہ پیدا ہو بھی جائے تو وہ کچھ دنوں بعد مر جائے گا۔ فرٹیلیٹی ٹیسٹ میں اس بات کا پتہ لگایا جاتا ہے کہ مرد و عورت دونوں بچہ پیدا کرنے کی قدرتی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق یہ معمول کے ٹیسٹ ہیں اور ان پر زیادہ اخراجات بھی نہیں آتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارے یہاں شادی سے پہلے میڈیکل ٹیسٹ کروانے کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔ ماہر عمرانیات رابعہ یوسف سمجھتی ہیں کہ ہمارے یہاں میڈیکل ٹیسٹ عموماً اس وقت ہی کروائے جاتے ہیں جب کوئی بندہ بیمار ہوتا ہے۔ شادی سے پہلے ٹیسٹ کی بات کرنا لڑکا اور لڑکی دونوں یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی صحت اور کردار پر شک کیا جا رہا ہے حالانکہ یہ ٹیسٹ معمول میں بھی کروائے جا سکتے ہیں۔

رابعہ یوسف کا کہنا ہے یہ آگاہی پیدا کرنے کی ضرروت ہے کہ یہ چند ٹیسٹ ایک لڑکے اور لڑکی کی شادی شدہ زندگی کو خوش گوار بنا سکتے ہیں۔ انہوں نے تجویز دی کہ حکومت نے جہاں شادی کے لیے لڑکی کی کم ازکم عمر 18 سال کا قانون پاس کیا ہے وہیں نکاح نامے میں میڈیکل ٹیسٹ کروانے کی شرط بھی رکھی جائے۔
Load Next Story