بجٹ ثمرات عوام تک کب پہنچیں گے
بجٹ سے قبل اور بعد میں اشیاء خور و نو ش کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان جاری ہے
وزیراعظم شہباز شریف نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئی ایم ایف سے مل کر بجٹ بنانا مجبوری تھی، حکومتی ڈاؤن سائزنگ کے لیے کمیٹی بن چکی، اخراجات میں کمی کے نتائج ایوان میں پیش کریں گے۔ دوسری جانب وفاقی کابینہ نے چینی کا اضافی ذخیرہ برآمد کرنے کی اجازت دے دی۔
وفاقی وزیر خزانہ نے قومی اسمبلی میں جاری بجٹ پر بحث کو سمیٹتے ہوئے حکومتی اخراجات میں سادگی اور کفایت شعاری کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اگلے مالی سال کے بجٹ سے ترقیاتی پروگرام کے لیے مختص رقم میں دو سو پچاس ارب کٹوتی، اسٹیشنری پر دس فی صد، ہائبرڈ الیکٹرک گاڑیوں پر پچیس فی صد، ایکسپورٹرز کی لوکل مشینری پر اٹھارہ فی صد سیلز ٹیکس واپس لینے جب کہ نان فائلرز کے لیے بیرونی دوروں کی شرائط میں نرمی اور سم کارڈز پر پچھتر فی صد ٹیکس واپس لینے کا اعلان کیا ہے۔
قومی اسمبلی میں وفاقی بجٹ پر بحث جاری ہے، بجٹ میں پائی جانیوالی خامیوں کی نشاندہی عوامی نمایندوں کی جانب سے اپنی تقاریر میں کی جا رہی ہے، قوی امید ہے کہ ان تجاویز اورآراء کی روشنی میں بجٹ میں ترامیم کی جائیں گی اور یہ جلد ہی قومی اسمبلی سے منظور ہوجائے گا۔ بلاشبہ بجٹ انتہائی مشکل معاشی حالات میں پیش کیا گیا ہے، پاکستان کے حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے معاشی پالیسی اسی طرح ترتیب دینے کی ضرورت تھی کہ اگلے جائزے میں ملک آئی ایم ایف کے اہداف پر پورا اتر سکے۔
بجٹ میں جو چیز اہمیت رکھتی ہے وہ ایسے اہداف ہیں جیسے بنیادی خسارے اور محصولات کے اہداف، ترقیاتی منصوبوں میں اخراجات کی مختص حد، بیرون ملک سے آنے والی مالی امداد اور ان چیزوں پر نظر کہ ملکی اخراجات کو کس کس طرح کم کیا جا سکتا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ نے مشکل فیصلوں کے بارے میں بات کی جو نظام کو درپیش مسائل دور کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ حقیقی مشکل فیصلوں کے لیے متوسط اور غریب طبقات سے بات کرنے کی ضرورت ہے اور یہ جانیں کہ گزشتہ تین برسوں سے انھوں نے ریکارڈ توڑ مہنگائی کا کس طرح مقابلہ کیا ہے۔
حکومت کو توقع ہے کہ مالیاتی استحکام کے اقدامات کی وجہ سے مالیاتی خسارہ کم ہوجائے گا، ٹیکس ریونیو میں اضافہ اور سبسڈیز سمیت غیر ترقیاتی اخراجات کو کم کرنے پر توجہ دی جائے گی، اگلے سال گھریلو اوسط افراط زر 12 فیصد تک اعتدال پسند ہونے کی توقع ہے۔حکومتی اعداد و شمار کے برعکس نئے مالی سال کے بجٹ کی منظوری سے قبل ہی مہنگائی کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا ہے۔
مہنگائی کے طوفان نے پہلے غریب، متوسط اور تنخواہ دار طبقے کی پہنچ سے پھلوں کو دور کیا اور اب غریب کے لیے دال اور سبزی کھانا بھی مشکل ہے، بجٹ سے قبل اور بعد میں اشیاء خور و نو ش کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان جاری ہے جب کہ حکومت، انتظامیہ کی جانب سے کوئی بھی کارروائی عمل میں نہیں لائی جارہی ہے۔اس وقت بنیادی طور پر مہنگائی میں جوکمی آ رہی ہے،اس کا فائدہ عام آدمی کو نہیں پہنچ پا رہا، لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مہنگائی میں کمی آئی ہے۔
مہنگائی میں کمی کے جو عوامل ہیں ایک تو ایکسچینج ریٹ پر ایس آئی ایف سی ہے، ایجنسیز نے اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا ہے، اسے روکنے میں مدد ملی ہے اور ایکسچینج ریٹ میں استحکام آیا ہے، کیا اسے برقرار رکھا جا سکے گا یا نہیں، یہ آئی ایم ایف کے پروگرام پر منحصر ہے۔ دوسرا عالمی منڈی میں جو مختلف اشیا کی قیمتوں میں بہتری آئی ہے اس کے علاوہ اگر ہم زراعت کے شعبے میں ترقی دیکھیں تو وہ گزشتہ برس منفی تھی مگر رواں برس مثبت ہوئی ہے وہ بنیادی طور پر زراعت کے شعبے کی وجہ سے ہوئی ہے۔پاکستان میں قیمتیں بڑھنے کی ایک بڑی وجہ مارکیٹ کے اندر اجارہ داری اور مانیٹرنگ کے طریقہ کار کا متحرک نہ ہونا ہے۔
پہلے تحصیل لیول پر اسسٹنٹ کمشنرز کے زیر اہتمام پرائس کنٹرول کمیٹیاں ہوتی تھیں لیکن اب وہ کہیں نظر نہیں آتیں، جس کی وجہ سے ایک ہی ضلع میں ہر دو کلومیٹر کے بعد ریٹ بدل جاتے ہیں، جس کا جتنا جی چاہے وہ مانگ لے، اسے پوچھنے والا کوئی نہیں ہے، اگر مہنگائی کی وجوہات داخلی ہوں تو اسے کنٹرول کرنے کے دو ہی طریقے رائج ہیں۔ ایک یہ ہے کہ مارکیٹ کے اندر مسابقت کا رجحان ہو جیسے کہ جدید دنیا کے اندر ہے۔ وہاں کی بڑی بڑی سپر مارکیٹوں کے درمیان ہمیشہ مقابلے کی فضا رہتی ہے کہ کون اپنے صارفین کو سستی سے سستی اشیا مہیا کرے گا، لیکن ہمارے ہاں ایسی کوئی مارکیٹ موجود نہیں ہے جو اس عالمی نیٹ ورک کا حصہ ہو۔
ہمارے ہاں مقامی سطح کی چھوٹی چھوٹی مارکیٹیں ہیں جو مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے بجائے اس میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔ وہ بڑے بڑے گوداموں میں اشیائے خورو نوش ذخیرہ کر لیتی ہیں جس کی وجہ سے مارکیٹ میں سپلائی کم ہو جاتی ہے۔ جب قیمتیں بڑھتی ہیں تو انھیں اپنا منافع کئی گنا کرنے کا موقع مل جاتا ہے اور لوگوں کے پاس چونکہ کوئی آپشن نہیں ہوتا اس لیے وہ انھی مارکیٹوں سے خریداری پر مجبور ہوتے ہیں۔ باہر کی دنیا میں قیمتوں کے کنٹرول کا کوئی طریقہ کار نہیں ہوتا۔ حکومت صرف مقابلے کی فضا قائم کرتی ہے اور یہ یقینی بناتی ہے کہ کسی کی اجارہ داری قائم نہ ہو۔ پاکستان میں مہنگائی کنٹرول نہ ہونے کی وجہ بد انتظامی بھی ہے۔
اس بار عید قرباں کے موقعے پر ملک میں چیزوں کی اتنی کمی نہیں تھی لیکن ذخیرہ اندوزوں نے موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے من مانے ریٹس وصول کیے اور لوگوں نے ادا کیے۔ اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے کے لیے دو ہی تو قوتیں ہوتی ہیں جو لوگوں کو اکٹھا کرتی ہیں، ایک یونین اور دوسری سیاسی جماعتیں، یونینز تو بہت عرصے سے ہیں نہیں اور دوسری اب رہی نہیں۔پاکستان میں مہنگائی کی بڑی وجہ آڑھت بھی ہے۔ مال فیکٹری سے آڑھتیوں کے پاس جاتا ہے۔ آڑھتیوں سے دکانداروں کے پا س آتا ہے۔ جیسے ہی مارکیٹ میں کسی چیز کی طلب بڑھتی ہے، آڑھتی مال روک لیتا ہے، اس لیے اس جنس کی قیمت اگر دس روپے بڑھنی چاہیے تو وہ 20 روپے بڑھ جاتی ہے۔ سبزیوں اور پھلوں پر تو آڑھتیوں کی اجارہ داری ہے۔
مثال کے طور پر ایک کسان سے آلو 20 روپے کلو خریدا جاتا ہے اور منڈی میں آڑھتیوں تک پہنچتا ہے تو وہ 35 روپے کلو ہو جاتا ہے۔ آڑھتی اسے خرید کر دکاندار کو 50 روپے کلو بیچتا ہے۔ دکاندار صارف کو وہی آلو 70 روپے کلو بیچتا ہے۔جس کسان نے آلو پر محنت کی اور اگایا اسے کچھ نہیں ملتا لیکن درمیان کا 50 روپے کا منافع سپلائر، آڑھتی اور دکاندار کھا جاتے ہیں۔ اس طرح کسان سے صارف کے درمیان والے ہاتھ نے اضافی 50 روپے بھی کما لیے اور حکومت کو ایک روپے کا ٹیکس بھی نہیں ملا۔ اسی ناانصافی کے خلاف گزشتہ دنوں کسانوں نے احتجاج بھی کیا تھا کہ ان سے گندم 2200 روپے من خریدی جاتی ہے لیکن صارف کو 4400 روپے من بیچی جاتی ہے۔
پاکستان میں نہ صرف مہنگائی ختم کرنے بلکہ جی ایس ٹی میں چوری روکنے اور اسے بڑھانے کے لیے حکومت کو آڑھت ختم کرنا پڑے گی۔ اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ بڑی بڑی سپر مارکیٹوں کو پاکستان میں لائسنس دیے جائیں۔ وہ مارکیٹیں براہ راست کسانوں سے مال خریدیں اور صارفین تک پہنچائیں۔ اس سے حکومت کے ٹیکس ریونیو میں کم از کم دو ہزار ارب روپے کا اضافہ ہو جائے گا۔ پبلک ٹرانسپورٹ موثر نہ ہونے کی وجہ سے گاڑی عام پاکستانی کی ضرورت بن چکی ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے مہنگائی کے پیرامیٹرز جاننے کے لیے گاڑیوں کی قیمت کو بھی مدنظر رکھا جانے لگا ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے گاڑیوں کی قیمتوں میں بھی ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔
آنے والے دنوں میں چاول کی قیمت مزید بڑھ جائے گی۔ ایک اندازے کے مطابق پچھلے سال کی نسبت قیمت میں سو فیصد اضافہ ممکن ہے جن کے پاس مال ہے وہ اسٹاک کر رہے ہیں۔ حکومت اگر مہنگائی کم کرنا چاہتی ہے تو اسٹاک مافیا کے خلاف ایکشن لے لیکن ہر سال وعدے کرنے کے باوجود بھی کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔ آیندہ دو ماہ میں مہنگائی کم ہونے کے بجائے بڑھنے کے امکانات زیادہ ہیں اور حکومتی بیان سیاسی ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں کسی بھی سیاسی جماعت کا کوئی تھنک ٹینک نہیں، جس نے تحقیق پر مبنی پلان تیار کیا ہو، پاکستان کو دوبارہ خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے حکمت عملی بنائی ہو۔ یہ جمہوریت کی نہیں بلکہ حکمران جماعت سمیت تمام جماعتوں کی ناکامی ہے۔
اچھی معاشیات اچھی سیاست ہے، لیکن انھوں نے کبھی اس کی فکر نہیں کی۔اس وقت اشرافیہ کو فراہم کی جانے والی مراعات کا بوجھ براہ راست متوسط طبقے پر پڑ رہا ہے لہٰذا سرکاری ملازمین اور کابینہ کے ارکان کو پٹرول اور بجلی کی مد میں دی جانے والی سبسڈی مکمل بند کر کے غیر ضروری دوروں پر پابندی لگانا وقت کا تقاضا ہے۔
نان فائلرز کی حوصلہ شکنی کے لیے کیے جانے والے اقدامات، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں کی جانے والی کوششیں، لگژری گاڑیوں کے ٹیکس میں اضافہ اور حکومت کے دیگر خوش نما دعوے حقیقی ترجمان تبھی بنیں گے جب مہنگائی و بے روزگاری پر قابو پا کر اشیا خور و نوش کی سستے داموں فراہمی یقینی ہو گی۔ بجٹ میں سیلز ٹیکس کی شرح بڑھانے کے ساتھ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کھانے پینے کی اشیاء اور ادویات پر جی ایس ٹی عائد ہو گی، گویا پاکستان میں غریب کے لیے زندہ رہنا مشکل سے مشکل تر بنایا جا رہا ہے۔ کسی بھی بجٹ کو اس وقت تک اچھا نہیں کہا جا سکتا جب تک اس کے ثمرات غریب عوام تک نہ پہنچیں اور غربت میں کمی نہ ہو۔
وفاقی وزیر خزانہ نے قومی اسمبلی میں جاری بجٹ پر بحث کو سمیٹتے ہوئے حکومتی اخراجات میں سادگی اور کفایت شعاری کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اگلے مالی سال کے بجٹ سے ترقیاتی پروگرام کے لیے مختص رقم میں دو سو پچاس ارب کٹوتی، اسٹیشنری پر دس فی صد، ہائبرڈ الیکٹرک گاڑیوں پر پچیس فی صد، ایکسپورٹرز کی لوکل مشینری پر اٹھارہ فی صد سیلز ٹیکس واپس لینے جب کہ نان فائلرز کے لیے بیرونی دوروں کی شرائط میں نرمی اور سم کارڈز پر پچھتر فی صد ٹیکس واپس لینے کا اعلان کیا ہے۔
قومی اسمبلی میں وفاقی بجٹ پر بحث جاری ہے، بجٹ میں پائی جانیوالی خامیوں کی نشاندہی عوامی نمایندوں کی جانب سے اپنی تقاریر میں کی جا رہی ہے، قوی امید ہے کہ ان تجاویز اورآراء کی روشنی میں بجٹ میں ترامیم کی جائیں گی اور یہ جلد ہی قومی اسمبلی سے منظور ہوجائے گا۔ بلاشبہ بجٹ انتہائی مشکل معاشی حالات میں پیش کیا گیا ہے، پاکستان کے حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے معاشی پالیسی اسی طرح ترتیب دینے کی ضرورت تھی کہ اگلے جائزے میں ملک آئی ایم ایف کے اہداف پر پورا اتر سکے۔
بجٹ میں جو چیز اہمیت رکھتی ہے وہ ایسے اہداف ہیں جیسے بنیادی خسارے اور محصولات کے اہداف، ترقیاتی منصوبوں میں اخراجات کی مختص حد، بیرون ملک سے آنے والی مالی امداد اور ان چیزوں پر نظر کہ ملکی اخراجات کو کس کس طرح کم کیا جا سکتا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ نے مشکل فیصلوں کے بارے میں بات کی جو نظام کو درپیش مسائل دور کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ حقیقی مشکل فیصلوں کے لیے متوسط اور غریب طبقات سے بات کرنے کی ضرورت ہے اور یہ جانیں کہ گزشتہ تین برسوں سے انھوں نے ریکارڈ توڑ مہنگائی کا کس طرح مقابلہ کیا ہے۔
حکومت کو توقع ہے کہ مالیاتی استحکام کے اقدامات کی وجہ سے مالیاتی خسارہ کم ہوجائے گا، ٹیکس ریونیو میں اضافہ اور سبسڈیز سمیت غیر ترقیاتی اخراجات کو کم کرنے پر توجہ دی جائے گی، اگلے سال گھریلو اوسط افراط زر 12 فیصد تک اعتدال پسند ہونے کی توقع ہے۔حکومتی اعداد و شمار کے برعکس نئے مالی سال کے بجٹ کی منظوری سے قبل ہی مہنگائی کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا ہے۔
مہنگائی کے طوفان نے پہلے غریب، متوسط اور تنخواہ دار طبقے کی پہنچ سے پھلوں کو دور کیا اور اب غریب کے لیے دال اور سبزی کھانا بھی مشکل ہے، بجٹ سے قبل اور بعد میں اشیاء خور و نو ش کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان جاری ہے جب کہ حکومت، انتظامیہ کی جانب سے کوئی بھی کارروائی عمل میں نہیں لائی جارہی ہے۔اس وقت بنیادی طور پر مہنگائی میں جوکمی آ رہی ہے،اس کا فائدہ عام آدمی کو نہیں پہنچ پا رہا، لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مہنگائی میں کمی آئی ہے۔
مہنگائی میں کمی کے جو عوامل ہیں ایک تو ایکسچینج ریٹ پر ایس آئی ایف سی ہے، ایجنسیز نے اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا ہے، اسے روکنے میں مدد ملی ہے اور ایکسچینج ریٹ میں استحکام آیا ہے، کیا اسے برقرار رکھا جا سکے گا یا نہیں، یہ آئی ایم ایف کے پروگرام پر منحصر ہے۔ دوسرا عالمی منڈی میں جو مختلف اشیا کی قیمتوں میں بہتری آئی ہے اس کے علاوہ اگر ہم زراعت کے شعبے میں ترقی دیکھیں تو وہ گزشتہ برس منفی تھی مگر رواں برس مثبت ہوئی ہے وہ بنیادی طور پر زراعت کے شعبے کی وجہ سے ہوئی ہے۔پاکستان میں قیمتیں بڑھنے کی ایک بڑی وجہ مارکیٹ کے اندر اجارہ داری اور مانیٹرنگ کے طریقہ کار کا متحرک نہ ہونا ہے۔
پہلے تحصیل لیول پر اسسٹنٹ کمشنرز کے زیر اہتمام پرائس کنٹرول کمیٹیاں ہوتی تھیں لیکن اب وہ کہیں نظر نہیں آتیں، جس کی وجہ سے ایک ہی ضلع میں ہر دو کلومیٹر کے بعد ریٹ بدل جاتے ہیں، جس کا جتنا جی چاہے وہ مانگ لے، اسے پوچھنے والا کوئی نہیں ہے، اگر مہنگائی کی وجوہات داخلی ہوں تو اسے کنٹرول کرنے کے دو ہی طریقے رائج ہیں۔ ایک یہ ہے کہ مارکیٹ کے اندر مسابقت کا رجحان ہو جیسے کہ جدید دنیا کے اندر ہے۔ وہاں کی بڑی بڑی سپر مارکیٹوں کے درمیان ہمیشہ مقابلے کی فضا رہتی ہے کہ کون اپنے صارفین کو سستی سے سستی اشیا مہیا کرے گا، لیکن ہمارے ہاں ایسی کوئی مارکیٹ موجود نہیں ہے جو اس عالمی نیٹ ورک کا حصہ ہو۔
ہمارے ہاں مقامی سطح کی چھوٹی چھوٹی مارکیٹیں ہیں جو مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے بجائے اس میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔ وہ بڑے بڑے گوداموں میں اشیائے خورو نوش ذخیرہ کر لیتی ہیں جس کی وجہ سے مارکیٹ میں سپلائی کم ہو جاتی ہے۔ جب قیمتیں بڑھتی ہیں تو انھیں اپنا منافع کئی گنا کرنے کا موقع مل جاتا ہے اور لوگوں کے پاس چونکہ کوئی آپشن نہیں ہوتا اس لیے وہ انھی مارکیٹوں سے خریداری پر مجبور ہوتے ہیں۔ باہر کی دنیا میں قیمتوں کے کنٹرول کا کوئی طریقہ کار نہیں ہوتا۔ حکومت صرف مقابلے کی فضا قائم کرتی ہے اور یہ یقینی بناتی ہے کہ کسی کی اجارہ داری قائم نہ ہو۔ پاکستان میں مہنگائی کنٹرول نہ ہونے کی وجہ بد انتظامی بھی ہے۔
اس بار عید قرباں کے موقعے پر ملک میں چیزوں کی اتنی کمی نہیں تھی لیکن ذخیرہ اندوزوں نے موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے من مانے ریٹس وصول کیے اور لوگوں نے ادا کیے۔ اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے کے لیے دو ہی تو قوتیں ہوتی ہیں جو لوگوں کو اکٹھا کرتی ہیں، ایک یونین اور دوسری سیاسی جماعتیں، یونینز تو بہت عرصے سے ہیں نہیں اور دوسری اب رہی نہیں۔پاکستان میں مہنگائی کی بڑی وجہ آڑھت بھی ہے۔ مال فیکٹری سے آڑھتیوں کے پاس جاتا ہے۔ آڑھتیوں سے دکانداروں کے پا س آتا ہے۔ جیسے ہی مارکیٹ میں کسی چیز کی طلب بڑھتی ہے، آڑھتی مال روک لیتا ہے، اس لیے اس جنس کی قیمت اگر دس روپے بڑھنی چاہیے تو وہ 20 روپے بڑھ جاتی ہے۔ سبزیوں اور پھلوں پر تو آڑھتیوں کی اجارہ داری ہے۔
مثال کے طور پر ایک کسان سے آلو 20 روپے کلو خریدا جاتا ہے اور منڈی میں آڑھتیوں تک پہنچتا ہے تو وہ 35 روپے کلو ہو جاتا ہے۔ آڑھتی اسے خرید کر دکاندار کو 50 روپے کلو بیچتا ہے۔ دکاندار صارف کو وہی آلو 70 روپے کلو بیچتا ہے۔جس کسان نے آلو پر محنت کی اور اگایا اسے کچھ نہیں ملتا لیکن درمیان کا 50 روپے کا منافع سپلائر، آڑھتی اور دکاندار کھا جاتے ہیں۔ اس طرح کسان سے صارف کے درمیان والے ہاتھ نے اضافی 50 روپے بھی کما لیے اور حکومت کو ایک روپے کا ٹیکس بھی نہیں ملا۔ اسی ناانصافی کے خلاف گزشتہ دنوں کسانوں نے احتجاج بھی کیا تھا کہ ان سے گندم 2200 روپے من خریدی جاتی ہے لیکن صارف کو 4400 روپے من بیچی جاتی ہے۔
پاکستان میں نہ صرف مہنگائی ختم کرنے بلکہ جی ایس ٹی میں چوری روکنے اور اسے بڑھانے کے لیے حکومت کو آڑھت ختم کرنا پڑے گی۔ اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ بڑی بڑی سپر مارکیٹوں کو پاکستان میں لائسنس دیے جائیں۔ وہ مارکیٹیں براہ راست کسانوں سے مال خریدیں اور صارفین تک پہنچائیں۔ اس سے حکومت کے ٹیکس ریونیو میں کم از کم دو ہزار ارب روپے کا اضافہ ہو جائے گا۔ پبلک ٹرانسپورٹ موثر نہ ہونے کی وجہ سے گاڑی عام پاکستانی کی ضرورت بن چکی ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے مہنگائی کے پیرامیٹرز جاننے کے لیے گاڑیوں کی قیمت کو بھی مدنظر رکھا جانے لگا ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے گاڑیوں کی قیمتوں میں بھی ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔
آنے والے دنوں میں چاول کی قیمت مزید بڑھ جائے گی۔ ایک اندازے کے مطابق پچھلے سال کی نسبت قیمت میں سو فیصد اضافہ ممکن ہے جن کے پاس مال ہے وہ اسٹاک کر رہے ہیں۔ حکومت اگر مہنگائی کم کرنا چاہتی ہے تو اسٹاک مافیا کے خلاف ایکشن لے لیکن ہر سال وعدے کرنے کے باوجود بھی کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔ آیندہ دو ماہ میں مہنگائی کم ہونے کے بجائے بڑھنے کے امکانات زیادہ ہیں اور حکومتی بیان سیاسی ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں کسی بھی سیاسی جماعت کا کوئی تھنک ٹینک نہیں، جس نے تحقیق پر مبنی پلان تیار کیا ہو، پاکستان کو دوبارہ خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے حکمت عملی بنائی ہو۔ یہ جمہوریت کی نہیں بلکہ حکمران جماعت سمیت تمام جماعتوں کی ناکامی ہے۔
اچھی معاشیات اچھی سیاست ہے، لیکن انھوں نے کبھی اس کی فکر نہیں کی۔اس وقت اشرافیہ کو فراہم کی جانے والی مراعات کا بوجھ براہ راست متوسط طبقے پر پڑ رہا ہے لہٰذا سرکاری ملازمین اور کابینہ کے ارکان کو پٹرول اور بجلی کی مد میں دی جانے والی سبسڈی مکمل بند کر کے غیر ضروری دوروں پر پابندی لگانا وقت کا تقاضا ہے۔
نان فائلرز کی حوصلہ شکنی کے لیے کیے جانے والے اقدامات، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں کی جانے والی کوششیں، لگژری گاڑیوں کے ٹیکس میں اضافہ اور حکومت کے دیگر خوش نما دعوے حقیقی ترجمان تبھی بنیں گے جب مہنگائی و بے روزگاری پر قابو پا کر اشیا خور و نوش کی سستے داموں فراہمی یقینی ہو گی۔ بجٹ میں سیلز ٹیکس کی شرح بڑھانے کے ساتھ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کھانے پینے کی اشیاء اور ادویات پر جی ایس ٹی عائد ہو گی، گویا پاکستان میں غریب کے لیے زندہ رہنا مشکل سے مشکل تر بنایا جا رہا ہے۔ کسی بھی بجٹ کو اس وقت تک اچھا نہیں کہا جا سکتا جب تک اس کے ثمرات غریب عوام تک نہ پہنچیں اور غربت میں کمی نہ ہو۔