یہ شاعر میرؔ و غالبؔ والی مٹی سے نہیں بنا ہے
اردو شاعری کا کلاسیکی عہد بالعموم اور بالخصوص غزل کے واسطے سے پہچانا جاتا ہے۔
اردو شاعری کا کلاسیکی عہد بالعموم اور بالخصوص غزل کے واسطے سے پہچانا جاتا ہے۔ اس عہد کے جو طے شدہ طور پر بڑے شاعر ہیں وہ ہیں میرؔ اور غالبؔ۔ چلیے مان لیا۔ مگر کیا ضروری ہے کہ ہر شاعر کو اسی پیمانے پر پرکھا جائے۔ کم از کم نظیرؔ اکبر آبادی کی شاعری اس معیار کو قبول کرنے سے صاف انکار کرتی ہے۔
سو اگر کسی صاحب مذاق نے نظیرؔ کا ایک انتخاب اس نقطۂ نظر سے کیا ہے کہ دیکھئے نظیرؔ غزل میں بھی ایسا ہٹیا نہیں ہے۔ یہاں بھی اس کا تخلیقی جوہر آشکار ہوا ہے تو اس سے ایک ہی بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ کہ ہم غزل سے ہٹ کر کسی شاعر کے قائل ہو بھی جائیں تو ہمیں شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنے محبوب شاعر کے یہاں ایک کمی کا احساس رہتا ہے۔ سو کوشش یہ ہوتی ہے کہ غزل میں بھی اس کا لوہا منوایا جائے۔
اصل میں اس وقت ہمارے سامنے نظیرؔ کا ایک ایسا ہی انتخاب ہے۔ انتخاب پیش کرنے والے ہیں سید ایاز محمود' انھوں نے نظیرؔ کے کلام سے جس میں اچھی خاصی تعداد میں غزلیں بھی شامل ہیں ستر غزلیں چنی ہیں اور چند فردیات اور اس طرح نظیرؔ کا ایک انتخاب 'نظیرؔ کی غزلیں' کے عنوان سے پیش کیا ہے۔
اپنے دیباچہ میں فاضل مرتب نے مخمورؔ اکبر آبادی کے مرتب کردہ 'نظیرؔ نامہ' کا حوالہ بھی دیا ہے اور بتایا ہے کہ مخمورؔ نے ستر صفحوں میں نظیر کی غزلوں پر بحث کی ہے اور غالبؔ کے ایسے اشعار نقل کیے ہیں جن کا خیال نظیرؔ سے مستعار نظر آتا ہے۔
اس سے سید ایاز محمود کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں اور مخمورؔ نے کیا ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ کیا اسے غالبؔ و میرؔ کی صف میں کھڑا کرنے کی یہ کوشش ہے۔ اگر ایسی کوئی کوشش پیش نظر ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے نظیرؔ کے شعری مقام کو سمجھا ہی نہیں ہے۔
نظیرؔ کی شاعری اس خمیر سے اٹھی ہی نہیں ہے جس خمیر سے غالبؔ کی یا میرؔ کی یا اس پورے عہد کی غزل برآور ہوئی ہے۔
صرف اس غزل پر موقوف نہیں ہے بلکہ اس عہد کے زعما نے نظیرؔ کی شاعری کو جس طرح رد کیا ہے اس سے ہی یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اس عہد کا طرز احساس اور ہے۔ ادھر نظیرؔ ایک بالکل الگ طرز احساس کا حامل ہے اور اس طرز احساس کی بنا پر وہ اس پورے عہد سے اور اس عہد کے شعری جنات سے غالبؔ سے اور میرؔ سے الگ کھڑا ہے۔ وہ شاعری منتظر ہے ایسے پارکھوں کی جو اس طرز احساس کو سمجھ پائیں گے اور اس کی قدر کریں گے۔
اب ذرا ان زعما کی آرا دیکھ لیجیے جو اس انتخاب کے دیباچہ میں نقل کی گئی ہیں۔
شیفتہؔ اپنے تذکرہ 'گلشن بے خار' میں لکھتے ہیں ''اس کے بہت سے اشعار ہیں جو سوقیوں کی زبان پر جاری ہیں اور ان اشعار پر نظر رکھتے ہوئے ان کو شعرا کی تعداد میں شمار نہ کرنا چاہیے۔''
محمد حسین آزادؔ آب حیات میں صرف اتنا کہہ کر نظیرؔ سے گزر گئے ہیں ''نظیرؔ کے بعض اشعار ایسے ہیں کہ میرؔ سے پہلو مارتے ہیں۔''
محمد حسین آزادؔ سے معذرت کے ساتھ نظیرؔ پر بات کرتے ہوئے میرؔ و غالبؔ کا حوالہ بے محل ہے۔ وہ شاعر اور مٹی کے بنے ہیں' یہ شاعر اور مٹی کا بنا ہے۔
اب ذرا ایک رائے ایک مغربی اسکالر کی بھی ملاحظہ کر لیجیے یہ اسکالر ڈاکٹر فیلن ہے جس نے اردو انگلش ڈکشنری مرتب کی ہے۔ اس نے اس ڈکشنری کے دیباچہ میں تخصیص کے ساتھ دو شاعروں کا ذکر کیا ہے۔ کبیرؔ کا اور نظیرؔ کا۔ نظیرؔ کے متعلق اس کا کہنا ہے کہ ''یہ شاعر آزاد منش' وسیع المشرب' اور فلسفیانہ مزاج کا حامل تھا۔ عام سی گری پڑی چیزوں کے بیان سے اس نے شاعری پیدا کی اور کس کس طرح سے انھیں بیان کیا ہے یہ کام اسی پر ختم ہے۔ کوئی اور ہندوستانی شاعر یہ کام نہیں کر سکا۔ اور ہندوستانی اسکالروں کی نادانی ملاحظہ کرو کہ وہ کہتے ہیں کہ یہ تو شاعری ہی نہیں ہے۔ اور پھر کس کس طرح اور کس کس رنگ سے اس نے عام خلقت کی خوشیوں کو' ان کی رنگ رلیوں کو' ان کے دکھ درد کو بیان کیا ہے۔ اور سماج کے ٹھکرائے ہوئے لوگوں کو کس شان سے اس نے بیان کیا ہے۔ کہتا ہے کہ
اچھا بھی آدمی ہی کہاتا ہے اے نظیرؔ
اور سب میں جو بُرا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
ہاں ایک معاملہ میں نظیرؔ کا موازنہ فیلن نے چاسر اور شکسپئر سے کیا ہے۔ کہتا ہے کہ ''زبان کو جس طرح نظیرؔ برتتا ہے اور مختلف المعانی طریقوں سے لفظوں کو استعمال کرتا ہے اور جتنے معنوی امکانات ایک لفظ میں ہوتے ہیں انھیں بروئے کار لاتا ہے ایسا کام یا تو چاسر اور شکسپئر نے اپنی زبان کے سلسلہ میں کیا تھا یا نظیرؔ نے اپنی زبان میں کیا ہے۔''
یہ رائے بتاتی ہے کہ مغرب کے ایک محقق نے جس نے ہندوستان کی زبانوں کو چھانا پھٹکا ہے اور شاعری کو جانا پہچانا ہے اس نے نظیرؔ کی شاعری کو کس طرح پرکھا ہے اور اس کی قدر کو پہچانا ہے۔ اس کے مقابلہ میں ہمارے نواب شیفتہؔ ہیں اور ہمارے مولانا محمد حسین آزادؔ۔ لگتا ہے کہ نظیرؔ کی شاعری ان کے سر کے اوپر سے گزر گئی۔
کبیرؔ کی خوش قمستی یہ تھی کہ وہ اپنی شاعری کی تفہیم کے لیے اردو کے علماء محققین اور نقادوں کا محتاج نہیں تھا۔ اسے خود ہندوستان ہی میں شاعری کے بہتر پارکھ اور قدردان میسر تھے۔ اردو کے محققوں اور مورخوں نے جتنا کبیرؔ کو سمجھا وہ اسی بات سے ظاہر ہے کہ اسے انھوں نے اردو زبان کے ذیل میں شمار ہی نہیں کیا۔
اور رہا غزل کا معاملہ تو اسی کلاسیکی عہد میں ایسے شاعر بھی گزر ے ہیں کہ ایک غزل شاعر کے نام کو لے اڑی۔ باقی دیوان میں خاک اڑتی ہے۔ اسی انتخاب میں نظیرؔ کی یہ غزل بھی پیش کی گئی۔؎
رہیں وہ شخص جو بزم جہاں کی رونق ہیں
ہماری کیا ہے اگر ہم رہے رہے نہ رہے
ملو جو ہم سے تو مل لو کہ ہم بہ نوک گیاہ
مثال قطرہ شبنم رہے رہے نہ رہے
بقا ہماری جو پوچھو تو جوں چراغ مزار
ہوا کہ بیچ کوئی دم رہے رہے نہ رہے
یہی ہے عزم کہ دل بھر کے آج رو لیجیے
کہ کل یہ دیدہ پرنم رہے رہے نہ رہے
نظیر آج ہی چل کر بتوں سے مل لیجیے
پھر اشتیاق کا عالم رہے رہے نہ رہے
کیا یہ غزل ڈاکٹر ابواللیث صدیقی اور جمیل جالبی سے کچھ نہیں کہتی۔ اور ہاں ایسے ایسے شعر ؎
یوں تو ہم تھے یوں ہی کچھ مثل انار و مہتاب
جب ہمیں آگ دکھائی تو تماشا نکلا
میں ہوں پتنگ کاغذی' ڈور ہے اس کے ہاتھ میں
چاہا ادھر گھٹا دیا' چاہا ادھر بڑھا دیا
اور ایسے انوکھے نرالے شعر جو صرف نظیرؔ ہی کہہ سکتا تھا۔
جس قدر پینا ہو پی لے پانی ان کے ہاتھ سے
آب جنت تو بہت ہو گا' یہ پانی پھر کہاں
واں تو حوروں کے گہنے کے بہت ہوں گے نشاں
ان پری زادوں کے چھلوں کی نشانی پھر کہاں
یہ بھی دیکھئے کہ نظموں میں نظیرؔ نے جو عام لوگوں والی زبان برتی ہے اور جس جس طرح سے اس زبان سے کام لیا ہے اسے غزل میں استعمال نہیں کیا ہے۔ اس کی شعری بصیرت نے اسے یہ بتایا ہے کہ یہ زبان غزل کے کام کی چیز نہیں ہے۔ وہاں وہی زبان مناسب ہے جسے نواب شیفتہؔ منظوری دیدیں۔
سو اگر کسی صاحب مذاق نے نظیرؔ کا ایک انتخاب اس نقطۂ نظر سے کیا ہے کہ دیکھئے نظیرؔ غزل میں بھی ایسا ہٹیا نہیں ہے۔ یہاں بھی اس کا تخلیقی جوہر آشکار ہوا ہے تو اس سے ایک ہی بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ کہ ہم غزل سے ہٹ کر کسی شاعر کے قائل ہو بھی جائیں تو ہمیں شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنے محبوب شاعر کے یہاں ایک کمی کا احساس رہتا ہے۔ سو کوشش یہ ہوتی ہے کہ غزل میں بھی اس کا لوہا منوایا جائے۔
اصل میں اس وقت ہمارے سامنے نظیرؔ کا ایک ایسا ہی انتخاب ہے۔ انتخاب پیش کرنے والے ہیں سید ایاز محمود' انھوں نے نظیرؔ کے کلام سے جس میں اچھی خاصی تعداد میں غزلیں بھی شامل ہیں ستر غزلیں چنی ہیں اور چند فردیات اور اس طرح نظیرؔ کا ایک انتخاب 'نظیرؔ کی غزلیں' کے عنوان سے پیش کیا ہے۔
اپنے دیباچہ میں فاضل مرتب نے مخمورؔ اکبر آبادی کے مرتب کردہ 'نظیرؔ نامہ' کا حوالہ بھی دیا ہے اور بتایا ہے کہ مخمورؔ نے ستر صفحوں میں نظیر کی غزلوں پر بحث کی ہے اور غالبؔ کے ایسے اشعار نقل کیے ہیں جن کا خیال نظیرؔ سے مستعار نظر آتا ہے۔
اس سے سید ایاز محمود کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں اور مخمورؔ نے کیا ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ کیا اسے غالبؔ و میرؔ کی صف میں کھڑا کرنے کی یہ کوشش ہے۔ اگر ایسی کوئی کوشش پیش نظر ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے نظیرؔ کے شعری مقام کو سمجھا ہی نہیں ہے۔
نظیرؔ کی شاعری اس خمیر سے اٹھی ہی نہیں ہے جس خمیر سے غالبؔ کی یا میرؔ کی یا اس پورے عہد کی غزل برآور ہوئی ہے۔
صرف اس غزل پر موقوف نہیں ہے بلکہ اس عہد کے زعما نے نظیرؔ کی شاعری کو جس طرح رد کیا ہے اس سے ہی یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اس عہد کا طرز احساس اور ہے۔ ادھر نظیرؔ ایک بالکل الگ طرز احساس کا حامل ہے اور اس طرز احساس کی بنا پر وہ اس پورے عہد سے اور اس عہد کے شعری جنات سے غالبؔ سے اور میرؔ سے الگ کھڑا ہے۔ وہ شاعری منتظر ہے ایسے پارکھوں کی جو اس طرز احساس کو سمجھ پائیں گے اور اس کی قدر کریں گے۔
اب ذرا ان زعما کی آرا دیکھ لیجیے جو اس انتخاب کے دیباچہ میں نقل کی گئی ہیں۔
شیفتہؔ اپنے تذکرہ 'گلشن بے خار' میں لکھتے ہیں ''اس کے بہت سے اشعار ہیں جو سوقیوں کی زبان پر جاری ہیں اور ان اشعار پر نظر رکھتے ہوئے ان کو شعرا کی تعداد میں شمار نہ کرنا چاہیے۔''
محمد حسین آزادؔ آب حیات میں صرف اتنا کہہ کر نظیرؔ سے گزر گئے ہیں ''نظیرؔ کے بعض اشعار ایسے ہیں کہ میرؔ سے پہلو مارتے ہیں۔''
محمد حسین آزادؔ سے معذرت کے ساتھ نظیرؔ پر بات کرتے ہوئے میرؔ و غالبؔ کا حوالہ بے محل ہے۔ وہ شاعر اور مٹی کے بنے ہیں' یہ شاعر اور مٹی کا بنا ہے۔
اب ذرا ایک رائے ایک مغربی اسکالر کی بھی ملاحظہ کر لیجیے یہ اسکالر ڈاکٹر فیلن ہے جس نے اردو انگلش ڈکشنری مرتب کی ہے۔ اس نے اس ڈکشنری کے دیباچہ میں تخصیص کے ساتھ دو شاعروں کا ذکر کیا ہے۔ کبیرؔ کا اور نظیرؔ کا۔ نظیرؔ کے متعلق اس کا کہنا ہے کہ ''یہ شاعر آزاد منش' وسیع المشرب' اور فلسفیانہ مزاج کا حامل تھا۔ عام سی گری پڑی چیزوں کے بیان سے اس نے شاعری پیدا کی اور کس کس طرح سے انھیں بیان کیا ہے یہ کام اسی پر ختم ہے۔ کوئی اور ہندوستانی شاعر یہ کام نہیں کر سکا۔ اور ہندوستانی اسکالروں کی نادانی ملاحظہ کرو کہ وہ کہتے ہیں کہ یہ تو شاعری ہی نہیں ہے۔ اور پھر کس کس طرح اور کس کس رنگ سے اس نے عام خلقت کی خوشیوں کو' ان کی رنگ رلیوں کو' ان کے دکھ درد کو بیان کیا ہے۔ اور سماج کے ٹھکرائے ہوئے لوگوں کو کس شان سے اس نے بیان کیا ہے۔ کہتا ہے کہ
اچھا بھی آدمی ہی کہاتا ہے اے نظیرؔ
اور سب میں جو بُرا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
ہاں ایک معاملہ میں نظیرؔ کا موازنہ فیلن نے چاسر اور شکسپئر سے کیا ہے۔ کہتا ہے کہ ''زبان کو جس طرح نظیرؔ برتتا ہے اور مختلف المعانی طریقوں سے لفظوں کو استعمال کرتا ہے اور جتنے معنوی امکانات ایک لفظ میں ہوتے ہیں انھیں بروئے کار لاتا ہے ایسا کام یا تو چاسر اور شکسپئر نے اپنی زبان کے سلسلہ میں کیا تھا یا نظیرؔ نے اپنی زبان میں کیا ہے۔''
یہ رائے بتاتی ہے کہ مغرب کے ایک محقق نے جس نے ہندوستان کی زبانوں کو چھانا پھٹکا ہے اور شاعری کو جانا پہچانا ہے اس نے نظیرؔ کی شاعری کو کس طرح پرکھا ہے اور اس کی قدر کو پہچانا ہے۔ اس کے مقابلہ میں ہمارے نواب شیفتہؔ ہیں اور ہمارے مولانا محمد حسین آزادؔ۔ لگتا ہے کہ نظیرؔ کی شاعری ان کے سر کے اوپر سے گزر گئی۔
کبیرؔ کی خوش قمستی یہ تھی کہ وہ اپنی شاعری کی تفہیم کے لیے اردو کے علماء محققین اور نقادوں کا محتاج نہیں تھا۔ اسے خود ہندوستان ہی میں شاعری کے بہتر پارکھ اور قدردان میسر تھے۔ اردو کے محققوں اور مورخوں نے جتنا کبیرؔ کو سمجھا وہ اسی بات سے ظاہر ہے کہ اسے انھوں نے اردو زبان کے ذیل میں شمار ہی نہیں کیا۔
اور رہا غزل کا معاملہ تو اسی کلاسیکی عہد میں ایسے شاعر بھی گزر ے ہیں کہ ایک غزل شاعر کے نام کو لے اڑی۔ باقی دیوان میں خاک اڑتی ہے۔ اسی انتخاب میں نظیرؔ کی یہ غزل بھی پیش کی گئی۔؎
رہیں وہ شخص جو بزم جہاں کی رونق ہیں
ہماری کیا ہے اگر ہم رہے رہے نہ رہے
ملو جو ہم سے تو مل لو کہ ہم بہ نوک گیاہ
مثال قطرہ شبنم رہے رہے نہ رہے
بقا ہماری جو پوچھو تو جوں چراغ مزار
ہوا کہ بیچ کوئی دم رہے رہے نہ رہے
یہی ہے عزم کہ دل بھر کے آج رو لیجیے
کہ کل یہ دیدہ پرنم رہے رہے نہ رہے
نظیر آج ہی چل کر بتوں سے مل لیجیے
پھر اشتیاق کا عالم رہے رہے نہ رہے
کیا یہ غزل ڈاکٹر ابواللیث صدیقی اور جمیل جالبی سے کچھ نہیں کہتی۔ اور ہاں ایسے ایسے شعر ؎
یوں تو ہم تھے یوں ہی کچھ مثل انار و مہتاب
جب ہمیں آگ دکھائی تو تماشا نکلا
میں ہوں پتنگ کاغذی' ڈور ہے اس کے ہاتھ میں
چاہا ادھر گھٹا دیا' چاہا ادھر بڑھا دیا
اور ایسے انوکھے نرالے شعر جو صرف نظیرؔ ہی کہہ سکتا تھا۔
جس قدر پینا ہو پی لے پانی ان کے ہاتھ سے
آب جنت تو بہت ہو گا' یہ پانی پھر کہاں
واں تو حوروں کے گہنے کے بہت ہوں گے نشاں
ان پری زادوں کے چھلوں کی نشانی پھر کہاں
یہ بھی دیکھئے کہ نظموں میں نظیرؔ نے جو عام لوگوں والی زبان برتی ہے اور جس جس طرح سے اس زبان سے کام لیا ہے اسے غزل میں استعمال نہیں کیا ہے۔ اس کی شعری بصیرت نے اسے یہ بتایا ہے کہ یہ زبان غزل کے کام کی چیز نہیں ہے۔ وہاں وہی زبان مناسب ہے جسے نواب شیفتہؔ منظوری دیدیں۔