بجٹ ہوا پاس ڈیسک خوب بجے…
ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں10 فی صد اضافہ۔ ہا ہا۔۔۔۔۔ہا، ڈیسک بجے ، واہ واہ کے نعرے بلند ہوئے
ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں10 فی صد اضافہ۔ ہا ہا۔۔۔۔۔ہا، ڈیسک بجے ، واہ واہ کے نعرے بلند ہوئے ، لیکن صاحب مہنگائی تو پہلے سے ہی 20 فی صد بڑھ چکی ہے ۔ آپ لوگ فکر نہ کریں، ہم اس پر قابو پا لیں گے ، وزیر خزانہ کا جواب۔ میڈیکل الائونس میں 5 فی صد اضافہ۔ ہا ہا ۔۔۔۔۔ہا ، ڈیسک پھر بجے اور واہ واہ کے فاتحانہ نعرے بلند ہوئے، لیکن صاحب دوائوں کی قیمتوں میں 30 فی صد کے اضافے کی منظوری تو آپ پہلے ہی دے چکے ہیں۔
آپ لوگ فکر نہ کریں ہم اس افسر کو معطل کریں گے ، جس نے یہ منظوری دی تھی (یہ بات اور ہے کہ کچھ وقت کے بعد اسے بحال بھی کردیں گے ، بلکہ ترقی بھی دے دیں گے ) اور وزیرصحت کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور ناں ہی اس کی وزارت کو کوئی خطرہ ہوگا۔ ہم دوائوں کی قیمتوں سے سختی سے نمٹیں گے ۔وزیر خزانہ کی یقین دہانی۔
جناب، آپ وقتاً فوقتاً چیزوں کی قیمتیں مقرر کرتے رہتے ہیں۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں کم ہونے کی صورت میں آپ بس والوں کو ''ہدایت'' فرماتے ہیں کہ وہ بھی کرایوں میں کمی کریں، لیکن وہ تو نہیں کرتے۔ آپ نے جو کرائے مقرر کیے ہیں وہ فرسٹ کلاس بسوں کے ہوتے ہیں کہ ان میں مسافر سیٹ با سیٹ بٹھائے جائیں، بسوں میں کھڑکیاں صحیح ہوں، گرمی میں گرم ہوا نہ آئے ، سردیوں میں سرد ہوا نہ آئے ، لیکن ہوتا یہ ہے کہ ان میں شیشے ٹوٹے ہوئے ہوتے ہیں، لوگ چھتوں پر بٹھائے جاتے ہیں اور ان سے بھی وہی کرایہ لیا جاتا ہے جتنا نیچے سیٹ والوں سے ۔50، 50 سالہ ''نئی'' بسیں چل رہی ہوتی ہیں۔
بابا، آپ فکر نہ کریں، ہم اس مسئلے کو بھی حل کریں گے ، وزیر صاحب کی ایک اور یقین دہانی۔ دودھ دہی کی بھی آپ قیمتیں مقرر کرتے ہیں، لیکن دکان والے تو ان قیمتوں پر نہیں دیتے ۔ آپ کے انسپکٹرصاحبان کبھی کبھی خانہ پری کے لیے چھاپے مارتے ہیں اور جرمانہ کرتے ہیں۔ ابھی وہ برابر والی دکان پر بھی نہیں پہنچتے کہ دکاندار پھر ان ہی قیمتوں پر بیچ رہے ہوتے ہیں، کیونکہ ان کو پتہ ہوتا ہے کہ یہ انسپکٹر صاحب پھر ایک سال سے پہلے نہیں آئیں گے۔
جمعہ، اتوار اور دیگر بازاروں میں نرخنامے لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ ٹماٹر درجہ اول 100 روپیہ فی کلو، درجہ دوئم 75 روپیہ فی کلو۔ درجہ دوئم والے ٹماٹروں کی شکل ایسی ہوتی ہے، کہ معلوم ہوتا ہے کہ ابھی کسی بس کے نیچے سے کچلے ہوئے اٹھا کر لائے گئے ہوں۔سال دو سال پہلے کراچی کی سبزی منڈی کے صدر کا ایک اخباری بیان آیا تھا کہ انڈیا سے آنیوالے ٹماٹروں کی واہگہ بارڈر پرقیمت 20 روپیہ فی کلو ہوتی ہے۔ معلوم ہوا کہ وہ بیچارے ''پیدل چلتے چلتے'' کراچی تک 80 روپیہ کے ہو جاتے ہیں ۔کیا ضروری ہے کہ ہر درآمد صرف ایک ہی راستے ہو،کیا ایک سے زیادہ راستوں سے نہیں ہو سکتی؟
مثال کے طور پر انڈیا سے چیزیں واہگہ کے علاوہ کھوکھراپار کے راستے نہیں آسکتیں؟اس صورت میں ٹماٹروں کو پیدل آنے میں کراچی کی طرف کم فاصلہ طے کرنا ہوگا۔ آٹا ہرسال مہنگا ہوتا جا رہا ہے ۔ بیشک آپ نے کاشتکاروں کے لیے گندم کی قیمت بڑھائی ہے ، لیکن ذرا یہ بھی تو سوچیں کہ ملک میں ان کی تعداد زیادہ ہے یا باقی لوگوں کی؟ پہلے لوگ روٹی پیاز کے ساتھ کھاتے تھے جس میں روٹی زیادہ اور پیاز کم ہوتی تھی تب بھی ان کی آنکھوں سے آنسو نکلتے تھے ، لیکن اب لوگ روٹی کم پیاز زیادہ کھاتے ہیں تو بھی ان کے آنسو نکلتے ہیں، لیکن زیادہ، جس کی وجہ سے انھیں آنکھوں کا عارضہ ہو جاتا ہے اور وہ پہلے سرکاری اسپتالوں میں جاتے ہیں تو وہاں اول تو ڈاکٹر ہی نہیں ہوتے اور اگرہوتے بھی ہیں تو دوائیں نہیں ہوتیں۔
ڈاکٹر انھیں اپنے ''مخصوص '' میڈیکل اسٹوروں سے خریدنے کے لیے کہتے ہیں۔ ویسے بھی وہ دوا سوائے اس ''مخصوص'' اسٹور کے ، دوسرے اسٹوروں پر دستیاب نہیں ہوتیں۔ہمارے ایک سابق صدر نے فرمایا تھا کہ اگر دالیں مہنگی ہوگئی ہے تو لوگ مرغی کیوں نہیں کھاتے ۔ یہ بالکل اسی طرح ہے کہ فرانس کی ایک ملکہ نے فرمایا تھا کہ اگر لوگوں کو روٹی نہیں ملتی تو لوگ کیک کیوں نہیں کھاتے ؟ پہلے مزارع لوگ اپنی بھینس یا گائے کے دودھ سے مکھن اور گھی نکال کر کھاتے تھے ، بازار سے نہیں خریدتے تھے۔
انھیں خبر دی گئی کہ یہ دونوں چیزیں صحت کے لیے مضر ہیں، اس لیے انھوں نے بناسپتی گھی کھانا شروع کیا، جس کی وجہ سے ان کے گھریلو بجٹ پر بوجھ پڑا ۔اس کے علاوہ مرچ ، مصالحہ جات، صابن، تیل اور روزمرہ کے استعمال کی چیزوں کی قیمتیں تو بجٹ سے پہلے ہی آسمان کی طرف اڑنے لگتی ہیں۔ چینی کی قیمت بھی کوئی اتنی کم نہیں ہے کہ لوگوں کی دسترس میں ہو۔ یہ سب چیزیں مہنگی تو ہو جاتی ہیں، لیکن پھر سستی نہیں ہوتیں۔ اب کہ تو بجٹ کے ساتھ برکتوں کا مہینہ رمضان بھی قریب تھا۔ نور علیٰ نور۔اس مہینے میں ہم لوگ چیزیں مہنگی کرکے ثواب لوٹتے ہیں۔ جب کہ دوسری قومیں نہ صرف اپنے تہواروں پر چیزیں سستی کرتی ہیں، ہمارے تہواروں پر ہمارے لیے بھی کھانے پینے کی چیزیں سستی کرتی ہیں اور ان کے لیے الگ کائونٹر لگاتی ہیں۔
حکومت کا بجٹ آئوٹ ہوتا ہے تو عالمی بینک، آئی ایم ایف، ایشیائی ترقیاتی بینک 'ان 'ہوتے ہیں جن سے قرض اور دیگر ممالک سے امداد مانگی جاتی ہے ، لیکن عام آدمی کا گھریلو بجٹ آئوٹ ہو تو کسی بینک کے پاس نہیں جا سکتا۔ یہ بات اور ہے کہ یہ ادارے اور ملک قرض بھی دیتے ہیں اور ساتھ ساتھ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل بھی یہ بتاتی رہتی ہے کہ یہ قرض جن ترقیاتی اسکیموںکے لیے لیا جاتے ہیں ان پر خرچ نہیں کیے جاتے اور امداد بھی لوگوں تک نہیں پہنچ پاتی، اس لیے لوگوں کا معیار زندگی بلند نہیں ہوتا۔ ہمارے مرکزی وزیر خزانہ نے انکشاف فرمایا کہ ہمارے ملک میں 50 فی صد عوام غربت کی لائن کے نیچے آگئے ہیں۔
لگتا ہے کہ یہ خبر ان تک بہت دیر سے پہنچی ہے ۔ اس وقت ان کی پارٹی کی تیسرے حکومت ہے ۔ ویسے اگر وہ یہ بھی بتاتے کہ ان کی پہلی اور دوسری حکومتوں میں عوام کتنی فی صدکے پیٹے میں تھے ۔ کیا پہلی حکومت کے زمانے میں وہ 70 فی صد کے پیٹے میں تھے اور دوسری حکومت میں 60 فی صد کے پیٹے میں تھے اور اب 50 صد ہو گئے ہیں؟چلیے ہم بجٹ میں آپ سے کچھ بھی نہیں مانگتے ۔ ناں تو قیمتوں پر کنٹرول، ناں ہی امن وامان، خدارا ہمیں آپ صرف صاف پانی اور بجلی فراہم کردیں ، کیونکہ شہروں میں ہم ٹینکروں کا گندہ اور دیہاتوں میں جوہڑوں کا گندہ پانی پی پی کر بیمار ہوکر مر رہے ہیں۔
مہنگائی کا رونا رونے کے بھی ہم عادی ہو گئے ہیں ، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر پیدل،رکشائوں اوربسوںمیں سفر کرنے کے بھی ہم عادی ''مجرم'' ہو چکے ہیں اور غیرت کے نام پر بچیوں کے قتل، گینگ ریپ، ٹارگٹ کلنگ ، موبائل کے چھننے اور مدافعت کرتے مرنے پر ہم اب کمپرومائزکرچکے ہیں، ہمیں اپنے پیاروں کے مرنے پر رونا بھی نہیں آتا، کیونکہ ان کے قاتل اول تو پکڑے ہی نہیں جاتے اور پکڑے بھی جاتے ہیں توان کوصرف سزا ئیں سنائی جاتی ہیں، لیکن ان پر عمل در آمد نہیں ہوتا، صرف جیلوں کی آبادی بڑھ رہی ہے ۔مجرموں کو کھلی چھٹی ہے ۔یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟
آپ لوگ فکر نہ کریں ہم اس افسر کو معطل کریں گے ، جس نے یہ منظوری دی تھی (یہ بات اور ہے کہ کچھ وقت کے بعد اسے بحال بھی کردیں گے ، بلکہ ترقی بھی دے دیں گے ) اور وزیرصحت کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور ناں ہی اس کی وزارت کو کوئی خطرہ ہوگا۔ ہم دوائوں کی قیمتوں سے سختی سے نمٹیں گے ۔وزیر خزانہ کی یقین دہانی۔
جناب، آپ وقتاً فوقتاً چیزوں کی قیمتیں مقرر کرتے رہتے ہیں۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں کم ہونے کی صورت میں آپ بس والوں کو ''ہدایت'' فرماتے ہیں کہ وہ بھی کرایوں میں کمی کریں، لیکن وہ تو نہیں کرتے۔ آپ نے جو کرائے مقرر کیے ہیں وہ فرسٹ کلاس بسوں کے ہوتے ہیں کہ ان میں مسافر سیٹ با سیٹ بٹھائے جائیں، بسوں میں کھڑکیاں صحیح ہوں، گرمی میں گرم ہوا نہ آئے ، سردیوں میں سرد ہوا نہ آئے ، لیکن ہوتا یہ ہے کہ ان میں شیشے ٹوٹے ہوئے ہوتے ہیں، لوگ چھتوں پر بٹھائے جاتے ہیں اور ان سے بھی وہی کرایہ لیا جاتا ہے جتنا نیچے سیٹ والوں سے ۔50، 50 سالہ ''نئی'' بسیں چل رہی ہوتی ہیں۔
بابا، آپ فکر نہ کریں، ہم اس مسئلے کو بھی حل کریں گے ، وزیر صاحب کی ایک اور یقین دہانی۔ دودھ دہی کی بھی آپ قیمتیں مقرر کرتے ہیں، لیکن دکان والے تو ان قیمتوں پر نہیں دیتے ۔ آپ کے انسپکٹرصاحبان کبھی کبھی خانہ پری کے لیے چھاپے مارتے ہیں اور جرمانہ کرتے ہیں۔ ابھی وہ برابر والی دکان پر بھی نہیں پہنچتے کہ دکاندار پھر ان ہی قیمتوں پر بیچ رہے ہوتے ہیں، کیونکہ ان کو پتہ ہوتا ہے کہ یہ انسپکٹر صاحب پھر ایک سال سے پہلے نہیں آئیں گے۔
جمعہ، اتوار اور دیگر بازاروں میں نرخنامے لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ ٹماٹر درجہ اول 100 روپیہ فی کلو، درجہ دوئم 75 روپیہ فی کلو۔ درجہ دوئم والے ٹماٹروں کی شکل ایسی ہوتی ہے، کہ معلوم ہوتا ہے کہ ابھی کسی بس کے نیچے سے کچلے ہوئے اٹھا کر لائے گئے ہوں۔سال دو سال پہلے کراچی کی سبزی منڈی کے صدر کا ایک اخباری بیان آیا تھا کہ انڈیا سے آنیوالے ٹماٹروں کی واہگہ بارڈر پرقیمت 20 روپیہ فی کلو ہوتی ہے۔ معلوم ہوا کہ وہ بیچارے ''پیدل چلتے چلتے'' کراچی تک 80 روپیہ کے ہو جاتے ہیں ۔کیا ضروری ہے کہ ہر درآمد صرف ایک ہی راستے ہو،کیا ایک سے زیادہ راستوں سے نہیں ہو سکتی؟
مثال کے طور پر انڈیا سے چیزیں واہگہ کے علاوہ کھوکھراپار کے راستے نہیں آسکتیں؟اس صورت میں ٹماٹروں کو پیدل آنے میں کراچی کی طرف کم فاصلہ طے کرنا ہوگا۔ آٹا ہرسال مہنگا ہوتا جا رہا ہے ۔ بیشک آپ نے کاشتکاروں کے لیے گندم کی قیمت بڑھائی ہے ، لیکن ذرا یہ بھی تو سوچیں کہ ملک میں ان کی تعداد زیادہ ہے یا باقی لوگوں کی؟ پہلے لوگ روٹی پیاز کے ساتھ کھاتے تھے جس میں روٹی زیادہ اور پیاز کم ہوتی تھی تب بھی ان کی آنکھوں سے آنسو نکلتے تھے ، لیکن اب لوگ روٹی کم پیاز زیادہ کھاتے ہیں تو بھی ان کے آنسو نکلتے ہیں، لیکن زیادہ، جس کی وجہ سے انھیں آنکھوں کا عارضہ ہو جاتا ہے اور وہ پہلے سرکاری اسپتالوں میں جاتے ہیں تو وہاں اول تو ڈاکٹر ہی نہیں ہوتے اور اگرہوتے بھی ہیں تو دوائیں نہیں ہوتیں۔
ڈاکٹر انھیں اپنے ''مخصوص '' میڈیکل اسٹوروں سے خریدنے کے لیے کہتے ہیں۔ ویسے بھی وہ دوا سوائے اس ''مخصوص'' اسٹور کے ، دوسرے اسٹوروں پر دستیاب نہیں ہوتیں۔ہمارے ایک سابق صدر نے فرمایا تھا کہ اگر دالیں مہنگی ہوگئی ہے تو لوگ مرغی کیوں نہیں کھاتے ۔ یہ بالکل اسی طرح ہے کہ فرانس کی ایک ملکہ نے فرمایا تھا کہ اگر لوگوں کو روٹی نہیں ملتی تو لوگ کیک کیوں نہیں کھاتے ؟ پہلے مزارع لوگ اپنی بھینس یا گائے کے دودھ سے مکھن اور گھی نکال کر کھاتے تھے ، بازار سے نہیں خریدتے تھے۔
انھیں خبر دی گئی کہ یہ دونوں چیزیں صحت کے لیے مضر ہیں، اس لیے انھوں نے بناسپتی گھی کھانا شروع کیا، جس کی وجہ سے ان کے گھریلو بجٹ پر بوجھ پڑا ۔اس کے علاوہ مرچ ، مصالحہ جات، صابن، تیل اور روزمرہ کے استعمال کی چیزوں کی قیمتیں تو بجٹ سے پہلے ہی آسمان کی طرف اڑنے لگتی ہیں۔ چینی کی قیمت بھی کوئی اتنی کم نہیں ہے کہ لوگوں کی دسترس میں ہو۔ یہ سب چیزیں مہنگی تو ہو جاتی ہیں، لیکن پھر سستی نہیں ہوتیں۔ اب کہ تو بجٹ کے ساتھ برکتوں کا مہینہ رمضان بھی قریب تھا۔ نور علیٰ نور۔اس مہینے میں ہم لوگ چیزیں مہنگی کرکے ثواب لوٹتے ہیں۔ جب کہ دوسری قومیں نہ صرف اپنے تہواروں پر چیزیں سستی کرتی ہیں، ہمارے تہواروں پر ہمارے لیے بھی کھانے پینے کی چیزیں سستی کرتی ہیں اور ان کے لیے الگ کائونٹر لگاتی ہیں۔
حکومت کا بجٹ آئوٹ ہوتا ہے تو عالمی بینک، آئی ایم ایف، ایشیائی ترقیاتی بینک 'ان 'ہوتے ہیں جن سے قرض اور دیگر ممالک سے امداد مانگی جاتی ہے ، لیکن عام آدمی کا گھریلو بجٹ آئوٹ ہو تو کسی بینک کے پاس نہیں جا سکتا۔ یہ بات اور ہے کہ یہ ادارے اور ملک قرض بھی دیتے ہیں اور ساتھ ساتھ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل بھی یہ بتاتی رہتی ہے کہ یہ قرض جن ترقیاتی اسکیموںکے لیے لیا جاتے ہیں ان پر خرچ نہیں کیے جاتے اور امداد بھی لوگوں تک نہیں پہنچ پاتی، اس لیے لوگوں کا معیار زندگی بلند نہیں ہوتا۔ ہمارے مرکزی وزیر خزانہ نے انکشاف فرمایا کہ ہمارے ملک میں 50 فی صد عوام غربت کی لائن کے نیچے آگئے ہیں۔
لگتا ہے کہ یہ خبر ان تک بہت دیر سے پہنچی ہے ۔ اس وقت ان کی پارٹی کی تیسرے حکومت ہے ۔ ویسے اگر وہ یہ بھی بتاتے کہ ان کی پہلی اور دوسری حکومتوں میں عوام کتنی فی صدکے پیٹے میں تھے ۔ کیا پہلی حکومت کے زمانے میں وہ 70 فی صد کے پیٹے میں تھے اور دوسری حکومت میں 60 فی صد کے پیٹے میں تھے اور اب 50 صد ہو گئے ہیں؟چلیے ہم بجٹ میں آپ سے کچھ بھی نہیں مانگتے ۔ ناں تو قیمتوں پر کنٹرول، ناں ہی امن وامان، خدارا ہمیں آپ صرف صاف پانی اور بجلی فراہم کردیں ، کیونکہ شہروں میں ہم ٹینکروں کا گندہ اور دیہاتوں میں جوہڑوں کا گندہ پانی پی پی کر بیمار ہوکر مر رہے ہیں۔
مہنگائی کا رونا رونے کے بھی ہم عادی ہو گئے ہیں ، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر پیدل،رکشائوں اوربسوںمیں سفر کرنے کے بھی ہم عادی ''مجرم'' ہو چکے ہیں اور غیرت کے نام پر بچیوں کے قتل، گینگ ریپ، ٹارگٹ کلنگ ، موبائل کے چھننے اور مدافعت کرتے مرنے پر ہم اب کمپرومائزکرچکے ہیں، ہمیں اپنے پیاروں کے مرنے پر رونا بھی نہیں آتا، کیونکہ ان کے قاتل اول تو پکڑے ہی نہیں جاتے اور پکڑے بھی جاتے ہیں توان کوصرف سزا ئیں سنائی جاتی ہیں، لیکن ان پر عمل در آمد نہیں ہوتا، صرف جیلوں کی آبادی بڑھ رہی ہے ۔مجرموں کو کھلی چھٹی ہے ۔یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟