رویہ مثبت یا منفی
اگر کوئی پوچھے کہ زندگی میں سب سے اہم چیز کیا ہے؟ تو اس کا جواب ہے ''رویہ''، جسے انگریزی میں attitude کہتے ہیں۔ اب رویہ یعنی ایٹی چیوڈ کے بارے میں عوام الناس کی معلومات کا عالم یہ ہے کہ اسے تکبر کے معنوں میں لیا جاتا ہے، یعنی اکثر مغرور لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فلاں میں بڑا ایٹی چیوڈ ہے۔ حالانکہ تکنیکی طور پر یہ جملہ بالکل غلط ہے۔
ذرا سوچیے، جو قوم زندگی کی اہم ترین چیز سے متعلق ایسے غلط تصورات رکھتی ہو اس کے افراد اپنی زندگیوں میں کیسی کیسی حماقتوں اور نادانیوں کے مرتکب ہورہے ہوں گے۔ اب آتے ہیں attitude یعنی رویے کے اصل معنی کی طرف۔
"a feeling or opinion about something or someone, or a way of behaving that is caused by this"
(Cambridge)
"Your attitude to something is the way that you think and feel about it, especially when this shows in the way you behave"
(Collins)
"the way you think and feel about someone or something"
(Britannica)
"The way in which a person views and evaluates something or someone"
(Oxford)
''1. طریقہ، دستور، چال چلن، رسم و رواج، 2. طویل فکر و غور کے بعد جو علم حاصل ہوتا ہے اسی کو رویہ کہتے ہیں''
(اردو لغت از قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن، حکومتِ پاکستان)
مختلف انگریزی و اردو لغات میں attitude اور رویے کے بیان کردہ معانی کا عام فہم الفاظ میں خلاصہ یہ ہے کہ
رویہ دو حصوں پر مشتمل ہوتا ہے،
اول: اپنے اردگرد ہونے والے اپنی ذات سے جڑے واقعات کو سمجھنے کا انداز
دوم: ان واقعات پر ردعمل دینے کا طریقہ کار
ایک اچھا رویہ یہ ہے کہ فرد اپنے اردگرد ہونے والے اپنی ذات سے جڑے واقعات کو اچھے طریقے سے سمجھے اور ان پر ایک معقول ردعمل دے کر معاملات کو سدھارے، جبکہ برا رویہ یہ ہے کہ فرد اپنے اردگرد ہونے والے اپنی ذات سے جڑے واقعات کو غلط انداز سے سمجھے اور ان پر احمقانہ ردعمل دے کر معاملات کو بگاڑے۔
سوال یہ ہے کہ اچھا رویہ کیسے اختیار کیا جائے؟ اس کےلیے ہم رویے کے دونوں حصوں پر الگ الگ بحث کریں گے۔
اپنے اردگرد ہونے والے اپنی ذات سے جڑے واقعات کو اچھی طرح سمجھنے کےلیے ضروری ہے کہ ہم چند نکات کا خیال رکھیں۔
1۔ حقائق تک پہنچنے کی پوری کوشش کریں۔
2۔ حقائق کی تلاش میں لوگوں کی نجی زندگی سے جڑی رازداری یعنی پرائیویسی کا خیال رکھیں۔
3۔ حقائق معلوم ہوجانے تک ردعمل دینے سے اجتناب کریں۔
4۔ حقائق کو پوری دیانتداری سے قبول کریں۔
5۔ اپنی من پسند رائے قائم کرنے کےلیے خواہشات کو حقائق بنانے کے بجائے حقائق کی بنیاد پر ایماندارانہ رائے قائم کریں۔
6۔ حقائق کو چھپانے سے گریز کریں۔
7۔ دوسروں کی مجبوریوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
اسی طرح ایک معقول ردعمل دینے کےلیے بھی ضروری ہے کہ چند نکات کا خیال رکھا جائے۔
1۔ اگر ردعمل دیے بغیر گزارا ہوسکے تو سرے سے ردعمل دینے سے ہی گریز کریں۔
2۔ جہاں اپنی غلطی پائیں، کھلے دل سے تسلیم کرکے، معذرت کریں، آئندہ نہ کرنے کا ارادہ اور وعدہ کریں اور ممکن ہو تو اپنی غلطی کا ازالہ کریں۔
3۔ جہاں دوسروں کی غلطی پائیں وہاں ناراضی، سزا، ڈانٹ ڈپٹ، معافی یا پابندیاں عائد کرتے وقت مطمع نظر صرف اور صرف اصلاح ہونا چاہیے، نہ کہ بدلہ، انتقام یا انا کی تسکین۔ اگرچہ یہ مشکل کام ہے لیکن یقین کیجیے اگر کوئی ایسا کرنے میں کامیاب ہوجائے تو وہ کھلی آنکھوں اپنی زندگی میں کرامات ہوتے دیکھ سکتا ہے۔
4۔ دوسروں کی غلطیوں یا کوتاہیوں پر ردعمل دیتے وقت یہ ضرور پیش نظر رہے کہ ہم بھی غلطیاں کرتے رہے ہیں اور آئندہ بھی کریں گے، لہٰذا رحم کا جذبہ غیظ و غضب پر غالب رہے۔
5۔ ایسے معاملات میں معافی دینے سے گریز کریں جہاں معافی دینے سے فتنہ پھیلنے کا واضح اندیشہ موجود ہو۔
6۔ غصے کی حالت میں ہرگز ردعمل نہ دیں۔
7۔ ردعمل دیتے وقت افراط و تفریط کے بجائے میرٹ، توازن، عدل اور اعتدال سے کام لیں۔
8۔ ردعمل دیتے وقت تعلقات کو بچانے کی آخری حد تک کوشش کریں لیکن تعلقات کو بچاتے بچاتے فتنوں کے منہ کھولنے کی حماقت نہ کریں۔
معاملات کو سمجھنے اور ردعمل دینے میں اور بھی کئی چیزوں کا خیال رکھنا ضروری ہے لیکن طوالت مضمون مانع ہے، اس لیے ہم اچھے رویے کے فوائد اور برے رویے کے نقصانات پر مختصر بحث کر کے اختتام کی جانب بڑھتے ہیں۔
اچھا رویہ اختیار کرنے والا انسان ہمیشہ مثبت سوچ کے ساتھ چلتا ہے، حقائق کو غیر جانبداری سے پرکھتے ہوئے عدل پر مبنی دیانتدارانہ فیصلے کرتا ہے، ہوش سے کام لے کر منصفانہ ردعمل دیتا ہے، معاملات کو بہتر بناتا ہے اور مطمئن ضمیر کے ساتھ پُرسکون زندگی گزارتا ہے۔
جبکہ برا رویہ اختیار کرنے والے لوگ ہمیشہ منفی سوچوں کے ساتھ چلتے ہیں، حقائق کی بنیاد پر فیصلے کرنے کے بجائے نفسانی خواہشات کے زیر اثر احمقانہ، متعصبانہ و ظالمانہ ردعمل دیتے ہیں اور اپنے تعلقات و معاملات کو بگاڑ کر اپنا اور اپنے ساتھ جڑے لوگوں کا سکون برباد کردیتے ہیں۔
یہ سب کچھ جان لینے کے بعد فیصلہ ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم نے اپنی زندگی میں اچھا رویہ اختیار کرنا ہے یا برا رویہ اپنانا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔