’’رحمن ملک نے درخواست دائر ہونے کے بعد برطانوی شہریت چھوڑی‘‘
ان کیخلاف توہین عدالت کی درخواست بھی دائر ہوچکی ہے، الگ جائزہ لیا جائے گا، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ کی طرف سے دہری شہریت پر جاری کیے گئے مختصر فیصلے میں کہاگیا ہے کہ 19اپریل 2012ء کو سینیٹر اے رحمن ملک نے ایک درخواست کے ذریعے کہا کہ وہ 25مارچ 2008ء کو برطانیہ کی شہریت چھوڑ چکے ہیں۔
خط کے مندرجات کے مطابق انھوں نے کہا تھا کہ میں عدالت کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ سیاسی انتقام اور پاکستان میں زندگی کو لاحق خطرات کے باعث میں نے برطانیہ میں شہریت حاصل کی تھی لیکن پاکستانی شہریت نہیں چھوڑی تھی تاہم میں نے 25مارچ 2008ء کو سرکاری عہدہ قبول کرنے سے قبل برطانوی شہریت چھوڑ دی تھی، فیصلے میں کہاگیا کہ بظاہر اے رحمن ملک نے یہ درخواست (دہری شہریت کیخلاف درخواست) دائر ہونے کے بعد شہریت چھوڑی جس کی عکاسی 29مئی 2012ء کے اس خط سے ہوتی ہے جس میں انھوں نے بتایا ہے کہ وہ اب برطانوی شہریت کے حامل نہیں رہے۔
عدالت کی طرف سے بار بار دستاویزات جمع کرانے کی ہدایت کے باوجود حیران کن عمل یہ ہے کہ اس ڈکلیریشن کو ریکارڈ پر نہیں لایا گیا۔ ان کی سینیٹر کی حیثیت سے رکنیت 4جون کو معطل کی گئی جس کے باعث وہ حکومت پاکستان کے وزیر داخلہ نہیں رہ سکتے تھے تاہم انھیں وزیر اعظم کا مشیر بنا دیا گیا۔ظاہر ہوتا ہے کہ نا اہلی سے بچنے کیلیے انھوں نے سینیٹ کی رکنیت سے استعفی دیا جو 11 جولائی کو منظور کر لیا گیا اور خالی نشست پر نئے انتخابات میں انھوں نے حصہ لیا اور 24جولائی کو کامیاب قرار دیتے ہوئے ان کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔
ان حقائق سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ 29مئی 2012ء کو برطانوی سرحدی ادارے کے دفتر داخلہ کی طرف سے مراسلہ جاری ہونے کے بعد وہ مطمئن تھے کہ نااہلی کا خطرہ ٹل گیا ہے اس لیے انھیں سینیٹ کی نشست لے لینی چاہیے اس طرح انھوں نے برطانوی شہریت چھوڑنے کے حوالے سے عدالت کے سامنے جھوٹا بیان دیا۔درخواست گزار نے ان کے خلاف توہین عدالت کی درخواستیں دائر کی ہیں جن کا بعد میں الگ جائزہ لیا جائیگا۔
خط کے مندرجات کے مطابق انھوں نے کہا تھا کہ میں عدالت کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ سیاسی انتقام اور پاکستان میں زندگی کو لاحق خطرات کے باعث میں نے برطانیہ میں شہریت حاصل کی تھی لیکن پاکستانی شہریت نہیں چھوڑی تھی تاہم میں نے 25مارچ 2008ء کو سرکاری عہدہ قبول کرنے سے قبل برطانوی شہریت چھوڑ دی تھی، فیصلے میں کہاگیا کہ بظاہر اے رحمن ملک نے یہ درخواست (دہری شہریت کیخلاف درخواست) دائر ہونے کے بعد شہریت چھوڑی جس کی عکاسی 29مئی 2012ء کے اس خط سے ہوتی ہے جس میں انھوں نے بتایا ہے کہ وہ اب برطانوی شہریت کے حامل نہیں رہے۔
عدالت کی طرف سے بار بار دستاویزات جمع کرانے کی ہدایت کے باوجود حیران کن عمل یہ ہے کہ اس ڈکلیریشن کو ریکارڈ پر نہیں لایا گیا۔ ان کی سینیٹر کی حیثیت سے رکنیت 4جون کو معطل کی گئی جس کے باعث وہ حکومت پاکستان کے وزیر داخلہ نہیں رہ سکتے تھے تاہم انھیں وزیر اعظم کا مشیر بنا دیا گیا۔ظاہر ہوتا ہے کہ نا اہلی سے بچنے کیلیے انھوں نے سینیٹ کی رکنیت سے استعفی دیا جو 11 جولائی کو منظور کر لیا گیا اور خالی نشست پر نئے انتخابات میں انھوں نے حصہ لیا اور 24جولائی کو کامیاب قرار دیتے ہوئے ان کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔
ان حقائق سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ 29مئی 2012ء کو برطانوی سرحدی ادارے کے دفتر داخلہ کی طرف سے مراسلہ جاری ہونے کے بعد وہ مطمئن تھے کہ نااہلی کا خطرہ ٹل گیا ہے اس لیے انھیں سینیٹ کی نشست لے لینی چاہیے اس طرح انھوں نے برطانوی شہریت چھوڑنے کے حوالے سے عدالت کے سامنے جھوٹا بیان دیا۔درخواست گزار نے ان کے خلاف توہین عدالت کی درخواستیں دائر کی ہیں جن کا بعد میں الگ جائزہ لیا جائیگا۔