حکومت پنجاب کے 100 دنوں میں بچوں کے حقوق و تحفظ کا شعبہ نظرانداز رہا غیرسرکاری تنظیم
بچوں پر جنسی، جسمانی تشدد کی اطلاع اور رہنمائی کے لیے ہیلپ لائن 1121 کا دائرہ کار بڑھایا جائے، مطالبہ
بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم غیرسرکاری تنظیم سرچ فار جسٹس نے کہا ہے کہ حکومت پنجاب کے 100 دنوں میں بچوں کے حقوق کے حوالے سے کوئی واضح اور اہم منصوبہ نظر نہیں آتا، بچوں کے حقوق اور تحفظ کا شعبہ نظر انداز رہا۔
لاہور میں بچوں کے حقوق سے متعلق حکومت پنجاب کے 100 دنوں کی کارکردگی پر بات کرتے ہوئے سرچ فار جسٹس کے سربراہ افتخار مبارک اور پروگرام مینجر راشدہ قریشی نے بتایا کہ رواں برس ستمبر میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی کا اجلاس ہے، جس میں پاکستان میں بچوں کے حقوق سے متعلق مجموعی رپورٹ پیش کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ 8 اور 9 نومبر کو کولمبیا میں بین الوزارتی کانفرنس میں بھی پاکستان کی جانب سے بچوں کے حقوق سے متعلق کارکردگی رپورٹ پیش کی جائے گی لیکن عملی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان میں بچوں کے حقوق کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی اور اقدامات نظر نہیں آتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمارے پاس بچوں سے متعلق کوئی مستند ڈیٹا ہی موجود نہیں ہے، کتنے بچے اسکولوں سے باہر ہیں، کتنے بچے جنسی اور جسمانی تشدد کا شکار ہوتے ہیں، اس حوالے سے کوئی سرکاری اور قابل اعتماد اعداد وشمار نہیں ہیں۔
غیرسرکاری تنظیم کے عہدیداروں نے بتایا کہ پاکستان میں جو اعداد وشمار بتائے جاتے ہیں وہ سب اندازوں پر مبنی ہیں جس کی وجہ سے درست طور پر پالیسی سازی نہیں کی جاسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بچوں کو تشدد سے محفوظ رکھنے سے متعلق کوئی پالیسی نہیں ہے، اسکولوں اور مدارس میں بچوں کی تربیت کے لیے پالیسی مرتب کی جائے کہ انہیں تشدد سے کس طرح محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔
افتخار مبارک نے کہا کہ پنجاب میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے پاس ہے لیکن اس کے پاس بہت محدود اختیارات ہیں، ابھی تک چائلڈ پروٹیکشن پالیسی کا نفاذ نہیں ہوسکا۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ بچوں پر جنسی، جسمانی تشدد کی اطلاع اور رہنمائی کے لیے ہیلپ لائن 1121 کا دائرہ کار بڑھایا جائے، سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں بچوں کو جسمانی سزا دینے پر پابندی کے قانون پرعمل درآمد یقینی بنایا جائے۔
افتخار مبارک کا کہنا تھا کہ پاکستان میں 13.4 فیصد بچے لیبر میں ہیں اور ان میں سے بھی سب سے زیادہ بچے زراعت کے شعبے میں ہیں لیکن بدقسمتی سے زرعی شعبے میں چائلڈ لیبر کے خلاف کارروائی کے لیے کوئی قانون نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چائلڈ لیبر قانون کو وسعت دیتے ہوئے ڈومیسٹک اور ایگری کلچر لیبر کو بھی اس میں شامل کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اسی طرح کیس مینجمنٹ ریفرل سسٹم بنانے کی ضرروت ہے تاکہ جنسی، جسمانی تشدد کے شکار بچے کا کیس جب رجسٹرڈ ہو تو پھر متاثرہ بچے کے خاندان کو انصاف کے لیے خود ہی مختلف محکموں کے دھکے نہ کھانا پڑیں بلکہ خود بخود کیس متعلقہ محکموں کو منتقل ہوجائے۔
انہوں نے کہا کہ جووینائل جسسٹس سسٹم یہ تو بتایا گیا ہے کہ حکومت متاثرہ بچے کو انصاف کی فراہمی کے لیے قابل وکیل فراہم کرے گی لیکن وکیل کی فیس کون ادا کرے گا یہ واضح نہیں ہے، اس لیے حکومت پنجاب سے مطالبہ ہے کہ بچوں کے حقوق اور تحفظ کے لیے الگ سے خطیر بجٹ مختص کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ جنسی اور جسمانی تشدد کا شکار بچوں کو انصاف کی فراہمی، چائلد لیبر کے خاتمے اور بچوں کے حقوق پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے وزیراعلی پنجاب کو اپنا ایک خصوصی معاون مقرر کرنے اور کیس مینجمنٹ اینڈ ریفرل سسٹم بنانے کی ضرورت ہے۔
لاہور میں بچوں کے حقوق سے متعلق حکومت پنجاب کے 100 دنوں کی کارکردگی پر بات کرتے ہوئے سرچ فار جسٹس کے سربراہ افتخار مبارک اور پروگرام مینجر راشدہ قریشی نے بتایا کہ رواں برس ستمبر میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی کا اجلاس ہے، جس میں پاکستان میں بچوں کے حقوق سے متعلق مجموعی رپورٹ پیش کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ 8 اور 9 نومبر کو کولمبیا میں بین الوزارتی کانفرنس میں بھی پاکستان کی جانب سے بچوں کے حقوق سے متعلق کارکردگی رپورٹ پیش کی جائے گی لیکن عملی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان میں بچوں کے حقوق کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی اور اقدامات نظر نہیں آتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمارے پاس بچوں سے متعلق کوئی مستند ڈیٹا ہی موجود نہیں ہے، کتنے بچے اسکولوں سے باہر ہیں، کتنے بچے جنسی اور جسمانی تشدد کا شکار ہوتے ہیں، اس حوالے سے کوئی سرکاری اور قابل اعتماد اعداد وشمار نہیں ہیں۔
غیرسرکاری تنظیم کے عہدیداروں نے بتایا کہ پاکستان میں جو اعداد وشمار بتائے جاتے ہیں وہ سب اندازوں پر مبنی ہیں جس کی وجہ سے درست طور پر پالیسی سازی نہیں کی جاسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بچوں کو تشدد سے محفوظ رکھنے سے متعلق کوئی پالیسی نہیں ہے، اسکولوں اور مدارس میں بچوں کی تربیت کے لیے پالیسی مرتب کی جائے کہ انہیں تشدد سے کس طرح محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔
افتخار مبارک نے کہا کہ پنجاب میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے پاس ہے لیکن اس کے پاس بہت محدود اختیارات ہیں، ابھی تک چائلڈ پروٹیکشن پالیسی کا نفاذ نہیں ہوسکا۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ بچوں پر جنسی، جسمانی تشدد کی اطلاع اور رہنمائی کے لیے ہیلپ لائن 1121 کا دائرہ کار بڑھایا جائے، سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں بچوں کو جسمانی سزا دینے پر پابندی کے قانون پرعمل درآمد یقینی بنایا جائے۔
افتخار مبارک کا کہنا تھا کہ پاکستان میں 13.4 فیصد بچے لیبر میں ہیں اور ان میں سے بھی سب سے زیادہ بچے زراعت کے شعبے میں ہیں لیکن بدقسمتی سے زرعی شعبے میں چائلڈ لیبر کے خلاف کارروائی کے لیے کوئی قانون نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چائلڈ لیبر قانون کو وسعت دیتے ہوئے ڈومیسٹک اور ایگری کلچر لیبر کو بھی اس میں شامل کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اسی طرح کیس مینجمنٹ ریفرل سسٹم بنانے کی ضرروت ہے تاکہ جنسی، جسمانی تشدد کے شکار بچے کا کیس جب رجسٹرڈ ہو تو پھر متاثرہ بچے کے خاندان کو انصاف کے لیے خود ہی مختلف محکموں کے دھکے نہ کھانا پڑیں بلکہ خود بخود کیس متعلقہ محکموں کو منتقل ہوجائے۔
انہوں نے کہا کہ جووینائل جسسٹس سسٹم یہ تو بتایا گیا ہے کہ حکومت متاثرہ بچے کو انصاف کی فراہمی کے لیے قابل وکیل فراہم کرے گی لیکن وکیل کی فیس کون ادا کرے گا یہ واضح نہیں ہے، اس لیے حکومت پنجاب سے مطالبہ ہے کہ بچوں کے حقوق اور تحفظ کے لیے الگ سے خطیر بجٹ مختص کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ جنسی اور جسمانی تشدد کا شکار بچوں کو انصاف کی فراہمی، چائلد لیبر کے خاتمے اور بچوں کے حقوق پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے وزیراعلی پنجاب کو اپنا ایک خصوصی معاون مقرر کرنے اور کیس مینجمنٹ اینڈ ریفرل سسٹم بنانے کی ضرورت ہے۔