سکھر بیراج
سکھر بیراج کی وجہ سے تقریباً ایک کروڑ بیس لاکھ ایکڑ نئی زمین سیراب ہوئی اور کاشت کے قابل بنی
دریائے سندھ کو انگریزی میں انڈس ریور، اردو زبان میں دریائے سندھ، ہندی زبان میں سندھو ندی کہا جاتا ہے۔ سندھی زبان میں اسے ''سندھو'' کہا جاتا ہے۔ سنسکرت کی پرانی کتابوں میں بھی دریائے سندھ کو ''سندھو'' ہی کہا گیا ہے۔ برف کے تودوں سے پگھلتی، تبت اور لداخ کی جھیلوں اورآبشاروں سے بنتی ہوئی آتی ہے۔ سندھو کا سفر لگ بھگ دو ہزار میل یا پھر 3200 کلومیٹر ہے۔دریائے کابل، ستلج،جہلم اور بیاس کے پانیوں کو اپنے آغوش میں لیتی ہوئی سمندر میں سما جاتی ہے۔
سکندرِ اعظم جب یونان سے چل کر سندھو تک پہنچا تو وہ اس ندی کو پار نہ کرسکا۔ یونان کے تاریخ دان سندھو کوانڈس لکھتے ہیں، وہ اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ سندھو میں وہ گرج اور گڑگڑاہٹ تھی جیسے ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر۔
اس دریا کے پانیوں کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ تھی، تبت سے چلتے چلتے سمندر تک نہ ہی کوئی ڈیم اور نہ ہی کوئی بیراج تھا، نہ ہی اس کے اطراف میں آبادی تھی، نہ ہی کھیتی باڑی کا سلسلہ تھا اور نہ ہی کاشت کے لیے پانی درکار تھا۔ دریاکے دائیں اور بائیں کنارے بیلے اور جنگل ہوا کرتے تھے ۔اس پانی میں سب سے پہلے جو رکاوٹ ڈالی گئی وہ تھا سکھر بیراج، جب سندھ، بمبئی پریزیڈینسی کا حصہ تھا۔
سندھ بمبئی پریزیڈینسی کے گورنر تھے جارج لائیڈ George Ambrose Lloyd)) انگریز تاریخ کا ہندوستان میں سب سے بڑا انجینئر نگ پروجیکٹ جارج لائیڈ((LIoyd بیراج تھا جسے اب سکھر بیراج کہا جاتا ہے۔اس پروجیکٹ پر کام 1923 میں شروع ہوا اور اختتام ہوا 1932 میں اس وقت تک گورنر لائیڈ گورنر نہ رہے مگر یہ بیراج انھی کے نام سے موسوم رہا کیونکہ گورنر جارج لائیڈ ہی ایسے میگا پروجیکٹ کا آغاز کرسکتے تھے کیونکہ اس زمانے میں پیسے نہ تھے اور اس پروجیکٹ پر کام کرنا گورنر لائیڈ کی ضد تھی۔
گورنر لائیڈ اس منصوبے کا ساتھ ایک اور انجینئرنگ منصوبہ بھی لائے تھے۔ بمبئی پرپہاڑی تھی اور اس پہاڑی کو کاٹ کر تین اطراف سے سمندر میں گھرے بمبئی کے رقبے کو بڑھانا تھا۔لائیڈ بیراج اور بمبئی پہاڑی کو کاٹناان دونوں منصوبوں کو عمل میں لانے کے لیے ، پہلی بار بینکوں سے قرضے لینے کا پلان متعارف کروایا گیا۔
1936 میں جب سندھ بمبئی پریذڈینسی سے آزاد ہو کر الگ صوبہ بنا تو Government Of India Act, 1935 کے تحت اللہ بخش سومرو سندھ کے وزیراعلیٰ بنے۔ یہ سندھ کے لیے ایک چیلنج تھا کہ سندھ الگ صوبہ بن کر کس طرح سے اس قرضے کا بوجھ اتارے گا، لہٰذا آبیانہ و عشر کے ٹیکسز میں اضافہ کیا گیا۔ان ٹیکسز کے خلاف سندھ اسمبلی میں مخالفین کی طرف سے آواز اٹھائی گئی۔ 1932 جب سکھر بیراج کا افتتاح کیا گیا تھا تو وائسرائے لارڈ ویلنگٹن خود اس موقعہ پر تشریف لائے۔
امریکا کے معروف جریدے ''دی ٹائمز'' نے اس ایونٹ کو کور کیا اور اپنے فرنٹ پیج پر اسٹوری شایع کی کہ سکھر بیراج دنیا کا عظیم ترین پروجیکٹ ہے۔ سکھر بیراج کی وجہ سے تقریباً ایک کروڑ بیس لاکھ ایکڑ نئی زمین سیراب ہوئی اور کاشت کے قابل بنی ۔اس سیرابی کی بنا پر گندم اس قدر سر پلس ہوئی کہ بر آمد کرنی پڑی۔ ایسا کہیے کہ اس صوبے کی کایا پلٹ گئی۔ ایک ایسی خوشحالی جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔سندھ میں جہاں کاشتکاری بڑھی وہاں وڈیرہ شاہی کی جڑیں مضبوط ہوئیں۔
سکھر بیراج سے جنم لیا سندھی ہاری کمیٹی تحریک نے ۔سندھ ہاری کمیٹی کا مطالبہ یہ تھا کہ نئی آباد زمینیں سندھی دہقانوں میں تقسیم کی جائیں۔ کراچی سے جمشید مہتا اور دیہی سندھ سے جی ایم سید اوردیگر رہنما اس تحریک کے بانیوں میں سے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد ساٹھ سے ستر کی دہائی میں کامریڈ حیدر بخش جتوئی اور میرے والد قاضی فیض محمد کی قیادت میںہاری کمیٹی تحریک سندھ کی سب سے بڑی تحریک رہی جب تک کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی وجود میں آئی۔ اکثر محققین کا یہ بھی کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کا نعرہ روٹی ، کپڑا اور مکان کی بنیاد بھی یہی ہاری کمیٹی تحریک ہے۔
سکھر بیراج سے کاشتکاری اور کاشتکاری سے وڈیرہ شاہی مضبوط ہوئی اور ان کا ٹکراؤ ہوا سندھ کی مڈل کلاس سے۔اس ٹکراؤ میں مذہب کارڈ کو استعمال کیا گیا، ہندو مسلم فسادات کو ہوا دی گئی، درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔ان فسادات کے دوران سندھ کے وزیر ِ اعلیٰ شہید اللہ بخش سومرو بڑی دلیری کے ساتھ ٹانگے پرسوار ہوکر آتے اور لوگوں کے درمیان بیچ بچاؤ کی کوشش کرتے۔
سندھ کے یہ پہلے اور اب تک آخری وزیر ِ اعلیٰ تھے جو وڈیروں کی پشت پناہی کے بغیر اس عہدے پر فائز ہوئے۔ 1939 سندھ کے صوفی منش اور راگی بھگت کنور رام رک اسٹیشن کے مقام پر قتل کیے گئے جو ہندو مسلم بھائی چارے کے گیت گاتے تھے ، وہ سندھ میں بلا امتیاز مذہب لوگوں میں یکساں طور پر مشہور تھے۔ سازشیوں نے سازش کرکے ایک غریب بندے کو قتل کرایا تاکہ سندھ میں ہندو اور مسلمانوں کے درمیان نفرت پیدا کی جائے اور مذہبی فسادات کی آگ بھڑکائی جائے۔1943 انھیں سازشوں کے تحت اللہ بخش سومرو کو بھی شہید کردیا گیا۔ایک اور یگانہ و یکتا تھے ، وہ تھے تو پیر سائیں مگر جنگ آزادی کی تحریک میں سبھاش چندر بوس کے مقلد تھے،یعنی سورہیہ بادشاہ، پیر پگارا کے والد ِ محترم۔ جن کے فلسفے کی طاقت سے انگریز ڈرتے تھے،ان کو تختہ دار پر لٹکایا گیا۔
جب سندھ کی وڈیرہ شاہی نے یہ دیکھا کی حکومت قائداعظم کو ملنے والی ہے تو سب نے دوسری پارٹیاں چھوڑ کر ایک ہی رات میں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی۔جب جنرل ایوب کا دور آیا تو وہ ان کے ساتھ چل پڑے، جب ضیا الحق حکومت میں آئے تو وہ ان کے ساتھ چل پڑے، جب جنرل مشرف کا دور آیا تو وہ ان کے ساتھ ہو لیے اور آجکل ان کا ڈیرہ ہے آصف زرداری کی پارٹی میں،جو اس میں شامل نہ ہوسکے، وہ اب ڈیپریشن کا شکار ہیں۔ وڈیرہ شاہی دیمک بن کر سندھ کو چاٹ رہی ہے۔
سکھر بیراج کے دروازے کا گرنا ، خراب حکمرانی کی بد ترین مثال ہے۔جہاں ترقیاتی کاموں میں ناقص مواد ڈال کر خانہ پوری کی گئی، کروڑوں کے غبن، جس کے نتیجے میں سکھر بیراج کا سینتالیسواںدروازہ پانی میں بہہ گیا۔ انجینئرز کی اسکیم کے مطابق ان دروازوں چوڑائی تو محض اٹھارہ میٹر ہوتی ہے لیکن وزن میں ایک دروازہ پچاس ٹن کا ہوتا ہے ۔ اس مرتبہ یہ دروازہ پانی کے بہاؤ کے ساتھ بہہ گیا۔ایسا ہونا ناممکن ہے کیونکہ سکھر بیراج کی نوے سالہ تاریخ میں ایسا کبھی نہ ہوا کہ اس بیراج کا کوئی دروازہ پانی میں بہہ جائے۔
ایسا اس لیے ہوا کہ یہ دروازہ خالصتاً اسٹیل کا نہ تھا اور اس کا وزن بھی پچاس ٹن نہ تھا۔اس دروازے کے بہنے کی وجہ سے سکھر بیراج جہاں سے سات نہریں نکلتی ہیں وہاں کی زمینوں کو پندرہ دن تک پانی میسر نہ تھا۔یہ چاول اور گنے کی کاشت کا وقت ہے۔ لوگوں نے بیج بوئے ہوئے تھے جن کو پانی درکار تھا اب ان فصلوں کے برباد ہونے کا خطرہ ہے جن پر لوگوں کی اربوں روپے کی لاگت ہے۔ سکھر بیراج کی طبعی عمر تھی پچاس سال لیکن اب نوے سال مکمل ہو چکے ہیں،اگر یہ بیراج بیٹھ جاتا ہے تو سندھ کی زمینیں کاشت کے لائق نہیں رہیںگی، اس دروازے کے ٹوٹنے کے تمام اسباب سامنے لائے جائیں۔
سکندرِ اعظم جب یونان سے چل کر سندھو تک پہنچا تو وہ اس ندی کو پار نہ کرسکا۔ یونان کے تاریخ دان سندھو کوانڈس لکھتے ہیں، وہ اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ سندھو میں وہ گرج اور گڑگڑاہٹ تھی جیسے ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر۔
اس دریا کے پانیوں کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ تھی، تبت سے چلتے چلتے سمندر تک نہ ہی کوئی ڈیم اور نہ ہی کوئی بیراج تھا، نہ ہی اس کے اطراف میں آبادی تھی، نہ ہی کھیتی باڑی کا سلسلہ تھا اور نہ ہی کاشت کے لیے پانی درکار تھا۔ دریاکے دائیں اور بائیں کنارے بیلے اور جنگل ہوا کرتے تھے ۔اس پانی میں سب سے پہلے جو رکاوٹ ڈالی گئی وہ تھا سکھر بیراج، جب سندھ، بمبئی پریزیڈینسی کا حصہ تھا۔
سندھ بمبئی پریزیڈینسی کے گورنر تھے جارج لائیڈ George Ambrose Lloyd)) انگریز تاریخ کا ہندوستان میں سب سے بڑا انجینئر نگ پروجیکٹ جارج لائیڈ((LIoyd بیراج تھا جسے اب سکھر بیراج کہا جاتا ہے۔اس پروجیکٹ پر کام 1923 میں شروع ہوا اور اختتام ہوا 1932 میں اس وقت تک گورنر لائیڈ گورنر نہ رہے مگر یہ بیراج انھی کے نام سے موسوم رہا کیونکہ گورنر جارج لائیڈ ہی ایسے میگا پروجیکٹ کا آغاز کرسکتے تھے کیونکہ اس زمانے میں پیسے نہ تھے اور اس پروجیکٹ پر کام کرنا گورنر لائیڈ کی ضد تھی۔
گورنر لائیڈ اس منصوبے کا ساتھ ایک اور انجینئرنگ منصوبہ بھی لائے تھے۔ بمبئی پرپہاڑی تھی اور اس پہاڑی کو کاٹ کر تین اطراف سے سمندر میں گھرے بمبئی کے رقبے کو بڑھانا تھا۔لائیڈ بیراج اور بمبئی پہاڑی کو کاٹناان دونوں منصوبوں کو عمل میں لانے کے لیے ، پہلی بار بینکوں سے قرضے لینے کا پلان متعارف کروایا گیا۔
1936 میں جب سندھ بمبئی پریذڈینسی سے آزاد ہو کر الگ صوبہ بنا تو Government Of India Act, 1935 کے تحت اللہ بخش سومرو سندھ کے وزیراعلیٰ بنے۔ یہ سندھ کے لیے ایک چیلنج تھا کہ سندھ الگ صوبہ بن کر کس طرح سے اس قرضے کا بوجھ اتارے گا، لہٰذا آبیانہ و عشر کے ٹیکسز میں اضافہ کیا گیا۔ان ٹیکسز کے خلاف سندھ اسمبلی میں مخالفین کی طرف سے آواز اٹھائی گئی۔ 1932 جب سکھر بیراج کا افتتاح کیا گیا تھا تو وائسرائے لارڈ ویلنگٹن خود اس موقعہ پر تشریف لائے۔
امریکا کے معروف جریدے ''دی ٹائمز'' نے اس ایونٹ کو کور کیا اور اپنے فرنٹ پیج پر اسٹوری شایع کی کہ سکھر بیراج دنیا کا عظیم ترین پروجیکٹ ہے۔ سکھر بیراج کی وجہ سے تقریباً ایک کروڑ بیس لاکھ ایکڑ نئی زمین سیراب ہوئی اور کاشت کے قابل بنی ۔اس سیرابی کی بنا پر گندم اس قدر سر پلس ہوئی کہ بر آمد کرنی پڑی۔ ایسا کہیے کہ اس صوبے کی کایا پلٹ گئی۔ ایک ایسی خوشحالی جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔سندھ میں جہاں کاشتکاری بڑھی وہاں وڈیرہ شاہی کی جڑیں مضبوط ہوئیں۔
سکھر بیراج سے جنم لیا سندھی ہاری کمیٹی تحریک نے ۔سندھ ہاری کمیٹی کا مطالبہ یہ تھا کہ نئی آباد زمینیں سندھی دہقانوں میں تقسیم کی جائیں۔ کراچی سے جمشید مہتا اور دیہی سندھ سے جی ایم سید اوردیگر رہنما اس تحریک کے بانیوں میں سے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد ساٹھ سے ستر کی دہائی میں کامریڈ حیدر بخش جتوئی اور میرے والد قاضی فیض محمد کی قیادت میںہاری کمیٹی تحریک سندھ کی سب سے بڑی تحریک رہی جب تک کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی وجود میں آئی۔ اکثر محققین کا یہ بھی کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کا نعرہ روٹی ، کپڑا اور مکان کی بنیاد بھی یہی ہاری کمیٹی تحریک ہے۔
سکھر بیراج سے کاشتکاری اور کاشتکاری سے وڈیرہ شاہی مضبوط ہوئی اور ان کا ٹکراؤ ہوا سندھ کی مڈل کلاس سے۔اس ٹکراؤ میں مذہب کارڈ کو استعمال کیا گیا، ہندو مسلم فسادات کو ہوا دی گئی، درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔ان فسادات کے دوران سندھ کے وزیر ِ اعلیٰ شہید اللہ بخش سومرو بڑی دلیری کے ساتھ ٹانگے پرسوار ہوکر آتے اور لوگوں کے درمیان بیچ بچاؤ کی کوشش کرتے۔
سندھ کے یہ پہلے اور اب تک آخری وزیر ِ اعلیٰ تھے جو وڈیروں کی پشت پناہی کے بغیر اس عہدے پر فائز ہوئے۔ 1939 سندھ کے صوفی منش اور راگی بھگت کنور رام رک اسٹیشن کے مقام پر قتل کیے گئے جو ہندو مسلم بھائی چارے کے گیت گاتے تھے ، وہ سندھ میں بلا امتیاز مذہب لوگوں میں یکساں طور پر مشہور تھے۔ سازشیوں نے سازش کرکے ایک غریب بندے کو قتل کرایا تاکہ سندھ میں ہندو اور مسلمانوں کے درمیان نفرت پیدا کی جائے اور مذہبی فسادات کی آگ بھڑکائی جائے۔1943 انھیں سازشوں کے تحت اللہ بخش سومرو کو بھی شہید کردیا گیا۔ایک اور یگانہ و یکتا تھے ، وہ تھے تو پیر سائیں مگر جنگ آزادی کی تحریک میں سبھاش چندر بوس کے مقلد تھے،یعنی سورہیہ بادشاہ، پیر پگارا کے والد ِ محترم۔ جن کے فلسفے کی طاقت سے انگریز ڈرتے تھے،ان کو تختہ دار پر لٹکایا گیا۔
جب سندھ کی وڈیرہ شاہی نے یہ دیکھا کی حکومت قائداعظم کو ملنے والی ہے تو سب نے دوسری پارٹیاں چھوڑ کر ایک ہی رات میں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی۔جب جنرل ایوب کا دور آیا تو وہ ان کے ساتھ چل پڑے، جب ضیا الحق حکومت میں آئے تو وہ ان کے ساتھ چل پڑے، جب جنرل مشرف کا دور آیا تو وہ ان کے ساتھ ہو لیے اور آجکل ان کا ڈیرہ ہے آصف زرداری کی پارٹی میں،جو اس میں شامل نہ ہوسکے، وہ اب ڈیپریشن کا شکار ہیں۔ وڈیرہ شاہی دیمک بن کر سندھ کو چاٹ رہی ہے۔
سکھر بیراج کے دروازے کا گرنا ، خراب حکمرانی کی بد ترین مثال ہے۔جہاں ترقیاتی کاموں میں ناقص مواد ڈال کر خانہ پوری کی گئی، کروڑوں کے غبن، جس کے نتیجے میں سکھر بیراج کا سینتالیسواںدروازہ پانی میں بہہ گیا۔ انجینئرز کی اسکیم کے مطابق ان دروازوں چوڑائی تو محض اٹھارہ میٹر ہوتی ہے لیکن وزن میں ایک دروازہ پچاس ٹن کا ہوتا ہے ۔ اس مرتبہ یہ دروازہ پانی کے بہاؤ کے ساتھ بہہ گیا۔ایسا ہونا ناممکن ہے کیونکہ سکھر بیراج کی نوے سالہ تاریخ میں ایسا کبھی نہ ہوا کہ اس بیراج کا کوئی دروازہ پانی میں بہہ جائے۔
ایسا اس لیے ہوا کہ یہ دروازہ خالصتاً اسٹیل کا نہ تھا اور اس کا وزن بھی پچاس ٹن نہ تھا۔اس دروازے کے بہنے کی وجہ سے سکھر بیراج جہاں سے سات نہریں نکلتی ہیں وہاں کی زمینوں کو پندرہ دن تک پانی میسر نہ تھا۔یہ چاول اور گنے کی کاشت کا وقت ہے۔ لوگوں نے بیج بوئے ہوئے تھے جن کو پانی درکار تھا اب ان فصلوں کے برباد ہونے کا خطرہ ہے جن پر لوگوں کی اربوں روپے کی لاگت ہے۔ سکھر بیراج کی طبعی عمر تھی پچاس سال لیکن اب نوے سال مکمل ہو چکے ہیں،اگر یہ بیراج بیٹھ جاتا ہے تو سندھ کی زمینیں کاشت کے لائق نہیں رہیںگی، اس دروازے کے ٹوٹنے کے تمام اسباب سامنے لائے جائیں۔