پاکستان اسٹیل ملز کی بحالی کے امکانات معدوم گیس کی فراہمی معطل کرنے کی ہدایت
وفاقی وزارت صنعت و پیداوار نے اسٹیل ملز کے سی ای او کو آگاہ کیا ہے کہ 30 جون کے بعد وفاقی حکومت واجبات ادا نہیں کرے گی
وفاقی وزارت صنعت و پیداوار نے پاکستان اسٹیل ملز کے حکام کو اسٹیل پلانٹ کے لیے گیس کی فراہمی معطل کرنے کی ہدایت کردی، جس کے بعد پاکستان اسٹیل ملز کی بحالی کے امکانات معدوم ہوگئے ہیں۔
وفاقی وزارت صنعت و پیداوار کی جانب سے جاری سرکلر کے مطابق وفاقی وزارت صنعت و پیداوار نے پاکستان اسٹیل کے چیف ایگزیکٹیو افسر کو پاکستان اسٹیل پلانٹ کے لیے گیس کی فراہمی منقطع کرنے کی ہدایت کر دی ہے اور انہیں آگاہ کیا گیا ہے کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی کے 23 مئی 2024 کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے پاکستان اسٹیل کے ذمہ گیس کے واجبات 30 جون 2024کے بعد ادا نہیں کیے جائیں گے اور 30جون 2024کے بعد گیس کی مد میں واجبات وفاقی حکومت کی ذمہ داری نہیں ہوگی۔
سرکلر میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان اسٹیل کے پلانٹ کے اہم حصوں بلاسٹ فرنس کو جون 2015سے گیس کی فراہمی انتہائی محدود کر دی گئی تھی، جس کا مقصد بلاسٹ فرنس سمیت اہم حصوں کو مکمل طور پر بند ہونے سے روکنا تھا۔
جنوری 2015 میں گیس پریشر پہلی مرتبہ کم کیا گیا حالانکہ پاکستان اسٹیل کے کارخانے اس وقت 50 فیصد پیداوار پر چل رہے تھے، 10 مارچ 2015 کو جب پیداواریت 65 فیصد تک بڑھائی گئی تو گیس پریشر مزید کم کر دیا گیا، جس سے پلانٹ پر سخت منفی اثرات مرتب ہوئے اور تیسری مرتبہ 10 جون 2015 سے مسلسل گیس پریشر انتہائی کم کردیا گیا جس کے باعث پاکستان اسٹیل کے نقصانات میں اربوں روپے کا اضافہ ہوا۔
مزید یہ کہ گیس کا پریشر کم کرنے کی وجہ سے مشینری اور آلات کی زندگی برقراررکھنے کے لیے اسے وینٹی لیٹر پر رکھا گیا تاہم وفاقی وزارت صنعت کے اس سرکلر کے بعد پاکستان اسٹیل کو تقریبا 9 سال بعد وینٹی لیٹر سے ہٹایا جا رہا ہے۔
پاکستان اسٹیل کے 30 جون 2023 کو مجموعی نقصانات کا تخمینہ 224 ارب روپے لگایا گیا تھا جبکہ واجبات کی مالیت 335 ارب روپے تک پہنچ گئی تھی، پاکستان اسٹیل کے اثاثہ جات کی مالیت 830 ارب روپے ہے جبکہ مالی سال24-2023کے دوران پاکستان اسٹیل کا اسٹیٹس برقرار رکھے جانے کی وجہ سے فی گھنٹہ 60 لاکھ روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا جبکہ 24-2023 کا کوئی مالی حساب بھی مرتب نہیں کیا گیا۔
موجودہ حکومت نے پاکستان اسٹیل کو بند کرکے اس کی جگہ اسپیشل اکنامک زون اور ایکسپورٹ پراسیسنگ زون تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بھی پاکستان اسٹیل کی بحالی کو ناممکن قرار دے دیا ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان اسٹیل کا سنگ بنیاد سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 30 دسمبر 1973کو رکھا تھا۔ 22 لاکھ ٹن گنجائش کے ڈیزائن کی حامل پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین کو 2009میں 12 فیصد کی شیئرہولڈنگ دی گئی تھی۔
پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین کا کہنا ہے کہ پاکستان اسٹیل کی بندش اور اس کی جگہ ایکسپورٹ پراسیسنگ زون کی تعمیر کا فیصلہ اسٹیک ہولڈر ملازمین سے مشاورت یا رضا مندی کے بغیر کیا گیا ہے۔
وفاقی وزارت صنعت و پیداوار کی جانب سے جاری سرکلر کے مطابق وفاقی وزارت صنعت و پیداوار نے پاکستان اسٹیل کے چیف ایگزیکٹیو افسر کو پاکستان اسٹیل پلانٹ کے لیے گیس کی فراہمی منقطع کرنے کی ہدایت کر دی ہے اور انہیں آگاہ کیا گیا ہے کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی کے 23 مئی 2024 کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے پاکستان اسٹیل کے ذمہ گیس کے واجبات 30 جون 2024کے بعد ادا نہیں کیے جائیں گے اور 30جون 2024کے بعد گیس کی مد میں واجبات وفاقی حکومت کی ذمہ داری نہیں ہوگی۔
سرکلر میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان اسٹیل کے پلانٹ کے اہم حصوں بلاسٹ فرنس کو جون 2015سے گیس کی فراہمی انتہائی محدود کر دی گئی تھی، جس کا مقصد بلاسٹ فرنس سمیت اہم حصوں کو مکمل طور پر بند ہونے سے روکنا تھا۔
جنوری 2015 میں گیس پریشر پہلی مرتبہ کم کیا گیا حالانکہ پاکستان اسٹیل کے کارخانے اس وقت 50 فیصد پیداوار پر چل رہے تھے، 10 مارچ 2015 کو جب پیداواریت 65 فیصد تک بڑھائی گئی تو گیس پریشر مزید کم کر دیا گیا، جس سے پلانٹ پر سخت منفی اثرات مرتب ہوئے اور تیسری مرتبہ 10 جون 2015 سے مسلسل گیس پریشر انتہائی کم کردیا گیا جس کے باعث پاکستان اسٹیل کے نقصانات میں اربوں روپے کا اضافہ ہوا۔
مزید یہ کہ گیس کا پریشر کم کرنے کی وجہ سے مشینری اور آلات کی زندگی برقراررکھنے کے لیے اسے وینٹی لیٹر پر رکھا گیا تاہم وفاقی وزارت صنعت کے اس سرکلر کے بعد پاکستان اسٹیل کو تقریبا 9 سال بعد وینٹی لیٹر سے ہٹایا جا رہا ہے۔
پاکستان اسٹیل کے 30 جون 2023 کو مجموعی نقصانات کا تخمینہ 224 ارب روپے لگایا گیا تھا جبکہ واجبات کی مالیت 335 ارب روپے تک پہنچ گئی تھی، پاکستان اسٹیل کے اثاثہ جات کی مالیت 830 ارب روپے ہے جبکہ مالی سال24-2023کے دوران پاکستان اسٹیل کا اسٹیٹس برقرار رکھے جانے کی وجہ سے فی گھنٹہ 60 لاکھ روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا جبکہ 24-2023 کا کوئی مالی حساب بھی مرتب نہیں کیا گیا۔
موجودہ حکومت نے پاکستان اسٹیل کو بند کرکے اس کی جگہ اسپیشل اکنامک زون اور ایکسپورٹ پراسیسنگ زون تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بھی پاکستان اسٹیل کی بحالی کو ناممکن قرار دے دیا ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان اسٹیل کا سنگ بنیاد سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 30 دسمبر 1973کو رکھا تھا۔ 22 لاکھ ٹن گنجائش کے ڈیزائن کی حامل پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین کو 2009میں 12 فیصد کی شیئرہولڈنگ دی گئی تھی۔
پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین کا کہنا ہے کہ پاکستان اسٹیل کی بندش اور اس کی جگہ ایکسپورٹ پراسیسنگ زون کی تعمیر کا فیصلہ اسٹیک ہولڈر ملازمین سے مشاورت یا رضا مندی کے بغیر کیا گیا ہے۔