محفل فکروفن و مشاعرہ نقش ہائے عدیم ہاشمی
پہلے سیشن میں مرحوم عدیم ہاشمی کے حالات زندگی اور ان کی شعر و شاعری پر گفتگو کی گئی۔
گذشتہ دنوں اردو انسٹیٹیوٹ شکاگو کے زیراہتمام محفل فکروفن و مشاعرہ نقش ہائے عدیم ہاشمی کے عنوان سے ایک نشست کا اہتمام کیا گیا، جس کے مہمان خصوصی لاہور سے آئے ہوئے ممتاز شاعر شعیب بن عزیز اور مہمان عزازی رضیہ فصیح احمد تھیں۔ نشست تین سیشنز پر مشتمل تھی۔
پہلے سیشن میں مرحوم عدیم ہاشمی کے حالات زندگی اور ان کی شعر و شاعری پر گفتگو کی گئی۔ دوسرے سیشن میں اردو انسٹیٹیوٹ کے روح و رواں امین حیدر کی میزبانی میں محفل فکروفن منعقد کی گئی جب کہ نشست کے تیسرے سیشن میں مشاعرہ منعقد کیا گیا۔ تقریب کے آغاز میں محترمہ ملیحہ غوث نے شرکا کا خیرمقدم عدیم ہاشمی کے اس شعر کے ساتھ کیا '' وہ کہ خوشبو کی طرح پھیلا تھا میرے چار سو، میں اسے محسوس کر سکتا تھا چھو سکتا نہ تھا۔'' ملیحہ غوث نے کہا جس کا جنون عشق اس کی پہچان بنا اس کا نام عدیم ہاشمی تھا۔ کسے معلوم تھا کہ وہ اپنے فن میں انتہا کو پہنچے گا اور خاک نشینی کے لیے شکاگو کا انتخاب کرے گا۔ عدیم ہاشمی اب ہم میں موجود نہیں مگر شکاگو کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ یہاں آسودہ خاک ہوئے ہیں۔
عدیم ہاشمی کہا کرتے تھے ''ماہ اچھا ہے بہت ہی نہ یہ سال اچھا ہے، پھر بھی ہر ایک سے کہتا ہوں کہ حال اچھا ہے۔'' ان کے بعد اردو انسٹیٹیوٹ کے جنرل سیکرٹری اور ممتاز شاعر ڈاکٹر لطیف سیف نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ اردو انسٹیٹیوٹ غیر میں اردو کی ایک شمع روشن کی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ اس کے ذوفشانی سے نہ صرف وہ لوگ محدود ہوں جن کا اوڑھنا بچھونا امریکا ہجرت کرنے سے قبل اردو تھی اور جنہیں یہاں شدت سے اپنی دوا کی کمی محسوس ہوتی ہے بلکہ بلکہ ان بچوں کے لیے بھی جو یہاں پرورش پا رہے ہیں اور اپنی تہذیب سے جڑے رہنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔
تقریب میں عدیم ہاشمی مرحوم کی بھانجیاں باجی اعجاز نسرین اور شاہین خالد بھی موجود تھیں اس موقع پر نظر حنفی، نظر نقوی، شاہین خالد اور باجی اعجاز نسرین نے عدیم ہاشمی کے متعلق اپنے خیالات پیش کیے۔ اس دوران ایک اہم انکشاف یہ بھی ہوا کہ شکاگو کے نوجوان شاعر خاور حسین اور عدیم ہاشمی مرحوم کے قریبی دوست محبوب ظفر کو یہ جستجو ہوئی کہ قدیم ہاشمی کہاں مدفون ہیں اور انہوں نے تھوڑی جدوجہد کے بعد اس بات کا سراغ لگا لیا کہ عدیم ہاشمی شکاگو میں ہی کہیں مدفون ہیں اور بعد ازآں وہ ان کی قبر کا سراغ لگانے میں کام یاب ہوگئے۔
نشست کے دوسرے سیشن میں اردو انسٹیٹیوٹ کے روح ورواں امین حیدر نے محفل فکروفن کے زیراہتمام شعیب بن عزیز، رضیہ فصیح اور ناہید سلطان مرزا سے سوالات کا دل چسپ سیشن منعقد کیا۔ شعیب بن عزیز نے بتایا کہ حسن رضوی کے انتقال پر انہوں نے یہ شعر کہا تھا،''کوئی روکے کہیں دست اجل کو، ہمارے لوگ مرتے جا رہے ہیں۔'' ناہید سلطان مرزا نے اردو انسٹیٹیوٹ اور امین حیدر کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا کہ وہ امریکا میں مقیم اردو بولنے والوں کے لیے وقتاً فوقتاً ادبی نشستیں اور مشاعروں کا انعقاد کرتے رہتے ہیں۔ مہمان عزازی رضیہ فصیح احمد نے اپنی کتابوں کے بارے میں بتایا۔ انھوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ اب لوگوں میں کتاب یں پڑھنے کا شوق ختم ہوتا جا رہا ہے۔ دوسرے سیشن کے اختتام پر پرتکلف چائے کا اہتمام کیا گیا تھا جس کے بعد مشاعرے کا باقاعدہ آغاز کیا گیا، جس کی میزبانی کے فرائض شکاگو کے نوجوان شاعر خاور حسین نے ادا کیے اور سب سے پہلے اپنے شعر سنا کر سامعین سے داد سمیٹی۔ انہوں نے اپنے اشعار سنائے:
روشنی جس کے تعقب میں چلا تھا کوئی
سوچتا ہوں وہ گماں تھا یا خدا تھا کوئی
ایسا وعدہ کہ محبت جسے کہتے رہے ہم
یاد پڑتا ہے کہ پیمانِ وفا تھا کوئی
میں نے جب جب تری تصویر کو دیکھا، دیکھا
حُسن اتنا تھا کہ ہر بار نیا تھا کوئی
مشاعرے میں کلام سنانے والے شعرا کے اشعار پیش ہیں:
قمبرنقوی
نبھانی پڑتی ہے پتھر سے دوستی مجھ کو
مرا نصیب کہ شیشے کے گھر میں رہتا ہوں
طاہرہ ردا
ردا اس نارسائی میں توازن ہو نہیں پاتا
یہاں رہتے ہیں اور سانسیں سمندر پار لیتے ہیں
بلال اعظم
عرصہ ایک خواب کے پردے میں چھپا لگتا ہے
وقت درویش کے حجرے کا دیا لگتا ہے
یہ زمانہ تو نہیں میرے لیے رب سحر
اس زمانے میں تو ہر شخص خدا لگتا ہے
محبوب علی خان
کنارے بیٹھنا اچھا نہیں ہے
سمندر ہے میاں دریا نہیں ہے
سلیقہ ہی نہیں ہے مانگنے کا
نہیں ایسا کہ وہ سنتا نہیں ہے
نظرنقوی
کس کو مئے کتنی ملی، کس نے تقاضا نہ کیا
واقف ظرف ہیں پیمانہ نہیں رکھتے ہیں
ہر حسین چہرے پہ رکھتے ہیں عقیدت کی نظر
ہم پجاری تو ہیں بت خانہ نہیں رکھتے ہیں
ڈاکٹر لطیف
اپنی ہستی غبار میں نہ رہے
کوئی خود کے حصار میں نہ رہے
اختیاری کی شرط ہے اتنی
آدمی اختیار میں نہ رہے
راشد نور
خال و خط پہ مسکرا جاتی ہے روز
عمر آئینہ دکھا جاتی ہے روز
وہ نہیں پر اس کے قدموں کی مہک
پھول رستوں میں کھلا جاتی ہے روز
رہی نہ کوئی بھی جب دل میں آس رکھنے کو
تو خود کو چھوڑ دیا ہے اداس رکھنے کو
جب مہمان خصوصی شعیب بن عزیز کو اسٹیج پہ بلایا گیا تو حال پُرجوش تالیوں سے گونج اٹھا۔ انہوں نے حاضرین کو اپنے اشعار سے نوازا:
خواہش ہے مری طرح مرے ہم وطنوں کی
سوئے بھی رہیں خواب کی تعبیر بھی مل جائے
ایسا ہو کہ بس اپنی دعاؤں کی بدولت
آزاد فلسطین ہو، کشمیر بھی مل جائے
یہ کس بستی میں لے آیا ہے رستہ
درختوں کا جہاں سایہ نہیں ہے
ہوا ڈر ڈر کے چلتی ہے یہاں پر
یہاں دریا ہے جو بہتا نہیں ہے
تقریب کے اختتام پر مہمان اعزازی رضیہ فصیح صاحبہ نے اپنا کلام سنایا:
یہ ہجرتوں کے مسافر ہیں خواب دیکھتے ہیں
کہ پھر وہ چھوڑی ہوئی بستیاں بسائیں گے
کہاں پہ ڈھونڈیے اب گم شدہ خزانوں کو
اجاڑ شہر میں اب خاک بھی نہ پائیں گے
اندھیرے شہر میں رہتے ہیں اور یہ دعویٰ ہے
کہ اک اشارے سے سورج نکال لائیں گے
اس کے ساتھ ہی محفل اختتام پر پہنچی۔ مشاعرے میں ممتاز شعرا ڈاکٹر منیرالزماں منیر، عبدالرحمٰن سلیم، ناہید سلطان مرزا، یاسمین مظفر اور غلام سیدین نے بھی اپنا کلام پیش کیا۔ اردو انسٹیٹیوٹ کے امین حیدر نے تقریب کے اختتام پر تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔
پہلے سیشن میں مرحوم عدیم ہاشمی کے حالات زندگی اور ان کی شعر و شاعری پر گفتگو کی گئی۔ دوسرے سیشن میں اردو انسٹیٹیوٹ کے روح و رواں امین حیدر کی میزبانی میں محفل فکروفن منعقد کی گئی جب کہ نشست کے تیسرے سیشن میں مشاعرہ منعقد کیا گیا۔ تقریب کے آغاز میں محترمہ ملیحہ غوث نے شرکا کا خیرمقدم عدیم ہاشمی کے اس شعر کے ساتھ کیا '' وہ کہ خوشبو کی طرح پھیلا تھا میرے چار سو، میں اسے محسوس کر سکتا تھا چھو سکتا نہ تھا۔'' ملیحہ غوث نے کہا جس کا جنون عشق اس کی پہچان بنا اس کا نام عدیم ہاشمی تھا۔ کسے معلوم تھا کہ وہ اپنے فن میں انتہا کو پہنچے گا اور خاک نشینی کے لیے شکاگو کا انتخاب کرے گا۔ عدیم ہاشمی اب ہم میں موجود نہیں مگر شکاگو کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ یہاں آسودہ خاک ہوئے ہیں۔
عدیم ہاشمی کہا کرتے تھے ''ماہ اچھا ہے بہت ہی نہ یہ سال اچھا ہے، پھر بھی ہر ایک سے کہتا ہوں کہ حال اچھا ہے۔'' ان کے بعد اردو انسٹیٹیوٹ کے جنرل سیکرٹری اور ممتاز شاعر ڈاکٹر لطیف سیف نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ اردو انسٹیٹیوٹ غیر میں اردو کی ایک شمع روشن کی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ اس کے ذوفشانی سے نہ صرف وہ لوگ محدود ہوں جن کا اوڑھنا بچھونا امریکا ہجرت کرنے سے قبل اردو تھی اور جنہیں یہاں شدت سے اپنی دوا کی کمی محسوس ہوتی ہے بلکہ بلکہ ان بچوں کے لیے بھی جو یہاں پرورش پا رہے ہیں اور اپنی تہذیب سے جڑے رہنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔
تقریب میں عدیم ہاشمی مرحوم کی بھانجیاں باجی اعجاز نسرین اور شاہین خالد بھی موجود تھیں اس موقع پر نظر حنفی، نظر نقوی، شاہین خالد اور باجی اعجاز نسرین نے عدیم ہاشمی کے متعلق اپنے خیالات پیش کیے۔ اس دوران ایک اہم انکشاف یہ بھی ہوا کہ شکاگو کے نوجوان شاعر خاور حسین اور عدیم ہاشمی مرحوم کے قریبی دوست محبوب ظفر کو یہ جستجو ہوئی کہ قدیم ہاشمی کہاں مدفون ہیں اور انہوں نے تھوڑی جدوجہد کے بعد اس بات کا سراغ لگا لیا کہ عدیم ہاشمی شکاگو میں ہی کہیں مدفون ہیں اور بعد ازآں وہ ان کی قبر کا سراغ لگانے میں کام یاب ہوگئے۔
نشست کے دوسرے سیشن میں اردو انسٹیٹیوٹ کے روح ورواں امین حیدر نے محفل فکروفن کے زیراہتمام شعیب بن عزیز، رضیہ فصیح اور ناہید سلطان مرزا سے سوالات کا دل چسپ سیشن منعقد کیا۔ شعیب بن عزیز نے بتایا کہ حسن رضوی کے انتقال پر انہوں نے یہ شعر کہا تھا،''کوئی روکے کہیں دست اجل کو، ہمارے لوگ مرتے جا رہے ہیں۔'' ناہید سلطان مرزا نے اردو انسٹیٹیوٹ اور امین حیدر کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا کہ وہ امریکا میں مقیم اردو بولنے والوں کے لیے وقتاً فوقتاً ادبی نشستیں اور مشاعروں کا انعقاد کرتے رہتے ہیں۔ مہمان عزازی رضیہ فصیح احمد نے اپنی کتابوں کے بارے میں بتایا۔ انھوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ اب لوگوں میں کتاب یں پڑھنے کا شوق ختم ہوتا جا رہا ہے۔ دوسرے سیشن کے اختتام پر پرتکلف چائے کا اہتمام کیا گیا تھا جس کے بعد مشاعرے کا باقاعدہ آغاز کیا گیا، جس کی میزبانی کے فرائض شکاگو کے نوجوان شاعر خاور حسین نے ادا کیے اور سب سے پہلے اپنے شعر سنا کر سامعین سے داد سمیٹی۔ انہوں نے اپنے اشعار سنائے:
روشنی جس کے تعقب میں چلا تھا کوئی
سوچتا ہوں وہ گماں تھا یا خدا تھا کوئی
ایسا وعدہ کہ محبت جسے کہتے رہے ہم
یاد پڑتا ہے کہ پیمانِ وفا تھا کوئی
میں نے جب جب تری تصویر کو دیکھا، دیکھا
حُسن اتنا تھا کہ ہر بار نیا تھا کوئی
مشاعرے میں کلام سنانے والے شعرا کے اشعار پیش ہیں:
قمبرنقوی
نبھانی پڑتی ہے پتھر سے دوستی مجھ کو
مرا نصیب کہ شیشے کے گھر میں رہتا ہوں
طاہرہ ردا
ردا اس نارسائی میں توازن ہو نہیں پاتا
یہاں رہتے ہیں اور سانسیں سمندر پار لیتے ہیں
بلال اعظم
عرصہ ایک خواب کے پردے میں چھپا لگتا ہے
وقت درویش کے حجرے کا دیا لگتا ہے
یہ زمانہ تو نہیں میرے لیے رب سحر
اس زمانے میں تو ہر شخص خدا لگتا ہے
محبوب علی خان
کنارے بیٹھنا اچھا نہیں ہے
سمندر ہے میاں دریا نہیں ہے
سلیقہ ہی نہیں ہے مانگنے کا
نہیں ایسا کہ وہ سنتا نہیں ہے
نظرنقوی
کس کو مئے کتنی ملی، کس نے تقاضا نہ کیا
واقف ظرف ہیں پیمانہ نہیں رکھتے ہیں
ہر حسین چہرے پہ رکھتے ہیں عقیدت کی نظر
ہم پجاری تو ہیں بت خانہ نہیں رکھتے ہیں
ڈاکٹر لطیف
اپنی ہستی غبار میں نہ رہے
کوئی خود کے حصار میں نہ رہے
اختیاری کی شرط ہے اتنی
آدمی اختیار میں نہ رہے
راشد نور
خال و خط پہ مسکرا جاتی ہے روز
عمر آئینہ دکھا جاتی ہے روز
وہ نہیں پر اس کے قدموں کی مہک
پھول رستوں میں کھلا جاتی ہے روز
رہی نہ کوئی بھی جب دل میں آس رکھنے کو
تو خود کو چھوڑ دیا ہے اداس رکھنے کو
جب مہمان خصوصی شعیب بن عزیز کو اسٹیج پہ بلایا گیا تو حال پُرجوش تالیوں سے گونج اٹھا۔ انہوں نے حاضرین کو اپنے اشعار سے نوازا:
خواہش ہے مری طرح مرے ہم وطنوں کی
سوئے بھی رہیں خواب کی تعبیر بھی مل جائے
ایسا ہو کہ بس اپنی دعاؤں کی بدولت
آزاد فلسطین ہو، کشمیر بھی مل جائے
یہ کس بستی میں لے آیا ہے رستہ
درختوں کا جہاں سایہ نہیں ہے
ہوا ڈر ڈر کے چلتی ہے یہاں پر
یہاں دریا ہے جو بہتا نہیں ہے
تقریب کے اختتام پر مہمان اعزازی رضیہ فصیح صاحبہ نے اپنا کلام سنایا:
یہ ہجرتوں کے مسافر ہیں خواب دیکھتے ہیں
کہ پھر وہ چھوڑی ہوئی بستیاں بسائیں گے
کہاں پہ ڈھونڈیے اب گم شدہ خزانوں کو
اجاڑ شہر میں اب خاک بھی نہ پائیں گے
اندھیرے شہر میں رہتے ہیں اور یہ دعویٰ ہے
کہ اک اشارے سے سورج نکال لائیں گے
اس کے ساتھ ہی محفل اختتام پر پہنچی۔ مشاعرے میں ممتاز شعرا ڈاکٹر منیرالزماں منیر، عبدالرحمٰن سلیم، ناہید سلطان مرزا، یاسمین مظفر اور غلام سیدین نے بھی اپنا کلام پیش کیا۔ اردو انسٹیٹیوٹ کے امین حیدر نے تقریب کے اختتام پر تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔