سب سے بڑی اسرائیلی جرائم پیشہ فوج
اسرائیل کو یقینِ کامل تھا کہ ’’حماس‘‘ کا خاتمہ اور شکست چند دن کی بات ہے
اقوامِ متحدہ نے مقبوضہ فلسطین ( مغربی کنارہ اور غزہ)میں قابض صہیونی اسرائیلی افواج کے مختلف النوع مظالم اور متنوع زیادتیوں کی تحقیق کرنے کے لیے ایک معتبر ادارہ قائم کررکھا ہے ۔ اِس ادارے کو COI( Independent International Commission of Inquiry) کا نام دیا گیا ہے ۔
اِس ادارے کے سربراہ کا نام ہے کرس سدوٹی (Chris Sidoti)۔پچھلے آٹھ ماہ کے دوران ، جب سے غزہ اور اسرائیل کے درمیان خونریزی چھڑی ہے، کرس سدوٹی خاص طور پر ''غزہ'' میں اسرائیلی مظالم پر گہری تحقیقی نگاہ رکھے ہُوئے ہیں ۔ 19 جون 2024کو کرس سدوٹی نے ''غزہ'' میں اسرائیلی مظالم کے حوالے سے اپنی تازہ ترین تحقیقی رپورٹ میں لکھا:''اسرائیلی صہیونی فوج دُنیا کی سب سے بڑی جرائم پیشہ افواج میں سے ایک ہے ۔''
7 اکتوبر 2023 کو اگرچہ ''غزہ'' میں بروئے کار مسلح تنظیم ''حماس'' نے اسرائیل پر حملہ کرکے ساری دُنیا کو حیران و پریشان کر دیا تھا ۔ کسی کے مگر سان و گمان میں بھی نہیں تھا کہ موقع کی تاک میں بیٹھا صہیونی اسرائیل پلٹ کر ''غزہ'' کی تنگ اور ننھی سی پٹی میں محصور نہتے فلسطینی عوام اور ''حماس'' پر اس وحشت و بربریت سے حملہ کرے گا۔ یہ اندازہ ''حماس'' کو بھی نہیں تھا کہ یہ جنگ اس قدر وسیع پیمانے پر اور اتنے عرصے تک پھیل جائے گی ۔ اسرائیل کو یقینِ کامل تھا کہ ''حماس'' کا خاتمہ اور شکست چند دن کی بات ہے ۔ لیکن ''حماس'' نے مزاحمت کی ناقابلِ یقین داستانیں رقم کی ہیں۔
اب خود 20جون 2024 کو اسرائیلی فوج کے ترجمان (ایڈمرل ڈینئل ہگاری) نے آن دی ریکارڈ اعتراف کیا ہے کہ' 'ہم حماس کو شکست نہیں دے سکے ہیں۔'' اِس اعتراف پر اسرائیلی خونخوار وزیر اعظم، نیتن یاہو، نے پریشان ہو کر تردید کر دی ہے۔ اگرچہ اِس مزاحمت کے دوران، پچھلے آٹھ ماہ کے دوران، غزہ کے تقریباً 40ہزار مکین خون میں نہلا دیے گئے ہیں ۔ دو ملین سے زائد اہلِ غزہ بے گھر ہو چکے ہیں۔ تیس ہزار سے زائد فلسطینی شدید زخمی ہیں ۔ غزہ کے سارے اسپتال ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔ غزہ کے جو شہری زخمی اور شہید ہو کر ملبے تلے دبے ہیں، اُن کا کوئی قطار شمار نہیں ہے ۔
صہیونی اسرائیلی افواج اور اسرائیلی حکومت کو قطعی اندازہ اور توقع نہیں تھی کہ اُس کی غزہ کے خلاف لامتناہی خونریزی کے نتیجے میں شمالی امریکا اور مغربی یورپ میں اسرائیل کے خلاف اتنا مضبوط اور مدلل محاذ کھڑا ہو جائے گا ۔ اِس محاذ کے سامنے اسرائیل اور اس کے پشتیبان امریکا ، برطانیہ اور کینیڈا ایسے طاقتور ممالک بھی خود کو بے بس محسوس کررہے ہیں ۔ خصوصاً امریکی وبرطانوی طلبا و طالبات نے اپنے اپنے تعلیمی اداروں میں، مظلوم اہلِ غزہ کے حق میں اور ظالم اسرائیل کے خلاف ، عزیمت اور بیدار ضمیر کی قابلِ فخر اور انسانیت نواز نظیریں قائم کی ہیں ۔
حیرت کی بات مگر یہ ہے کہ کینیڈا نے اِن حقائق کے باوصف صہیونی کریمنل اسرائیلی افواج اور صہیونی اسرائیل پر پابندیاں عائد کرنے اور صہیونی کریمنل اسرائیلی افواج کو دہشت گرد قرار دینے کے بجائے ایران کے ''پاسدارانِ انقلاب'' کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا ہے ۔یہ فیصلہ 20جون2024 کو سامنے آیا ہے ۔ اِس (ناجائز) اقدام کا مطلب یہ ہے کہ پاسدارانِ انقلاب کے اعلیٰ عہدیداروں سمیت ایرانی حکومت کے ہزاروں اعلیٰ حکام پر کینیڈا میں داخلے پر پابندی ہوگی ۔ ہم اِسی امر سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مغرب کی بعض مملکتیں اور حکومتیں کس اندھے پن سے اسرائیل کے حق میں اور کسی مسلمان ملک کے خلاف بروئے کار ہیں ۔ کینیڈا کے اِس ایران مخالف اقدام سے مسلم دشمنی، جانبداری اور استحصال جھلکتا ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ کینیڈا کے اکثر فیصلے امریکا بہادر کے اشارۂ ابرو سے جنم لیتے ہیں ۔مذکورہ تازہ ترین فیصلہ بھی اِسی پس منظر میں دیکھا جانا چاہیے ۔ افسوس کی بات تو مگر یہ ہے کہ مسیحی اور یورپی ممالک تو اپنے مفادات اور نظریاتی استحکام کی خاطر یکجہت اور یکمشت ہیں ، مگر اسلامی ممالک اسرائیل کے مظالم کے خلاف ایکا نہیں کر سکے ۔
غزہ اور فلسطین کے خلاف ظلم کی وہ کونسی قسم ہے جو اسرائیل نے روا نہیں رکھی ، لیکن اسلامی ممالک نے خونخوار اسرائیلی حکمرانوں کا دستِ ستم روکنے کے لیے کونسا کوئی بڑا اور موثر اقدام کیا ہے ؟ کوئی ایک بھی نہیں ۔ تازہ حقائق تو بلکہ یہ منکشف کررہے ہیں کہ اسرائیل مقبوضہ فلسطین میں نہتے فلسطینیوں کا بیدردی سے دن رات خون بہا رہا ہے اور اِس دوران کئی ہمسایہ اسلامی ممالک کی خونی اسرائیل کے ساتھ تجارت کئی گنا بڑھ گئی ہے ۔ مثال کے طور پر ''مڈل ایسٹ آئی'' (MEE) جریدے اور ویب سائٹ کے انکشافات!
''مڈل ایسٹ آئی'' کبھی 20صفحات پر مشتمل شاندار تحقیقی ہفت روزہ جریدہ ہُوا کرتا تھا۔ اب مگر پچھلے ایک عشرے سے یہ نیوزویب سائٹ'' کی شکل میں معرکہ آرا خبریں شایع کررہا ہے۔ اِس کا ہیڈ کوارٹر لندن میں ہے اور مشرقِ وسطیٰ کے کرنٹ افیئرز اِس کی تحقیقات کا مرکزِ نگاہ ہیں۔ 23 جون 2024 کو MEEنے اپنی تحقیقی رپورٹ میں لکھا :'' پچھلے آٹھ ماہ کے دوران اسرائیل اور غزہ کے درمیان خونریز جنگ ہو رہی ہے مگر(اِسی عرصے کے دوران) مصر اور یو اے ای ایسے اسلامی ممالک کی اسرائیل کے ساتھ تجارت میں دگنا اضافہ ہو گیا ہے۔
اِس عرصے کے دوران مصر نے اسرائیل کو 25 ملین ڈالر کا سامان بھیجا ہے ۔ حالانکہ اسلامی غیرت کا تقاضا تو یہ تھا کہ اسرائیل کے ساتھ تجارت بالکل ہی بند کر دی جاتی۔ مصر مگر یہ جسارت نہ کر سکا۔''MEE نے Abraham Accords Peace Instituteکا حوالہ دیتے ہُوئے یہ بھی لکھا ہے :''2023 میں اسرائیل کے ساتھ مصری تجارت میں56فیصد اضافہ ہُوا تھا جب کہ پچھلے آٹھ ماہ کے دوران مصرکی اسرائیل کے ساتھ تجارت میں 168فیصد اضافہ ہُوا ہے ۔''
کہا جاتا ہے کہ ملتِ اسلامیہ ایک جسد کی مانند ہے ، لیکن ملتِ اسلامیہ کے حکمران اِس قولِ زریں کے برعکس اپنے عمل کا اظہار کررہے ہیں ۔ ''مڈل ایسٹ آئی'' نے مزید انکشافات کرتے ہُوئے لکھا ہے: ''جب سے اسرائیل اور غزہ میں ہلاکت خیز جنگ چھڑی ہے، اسرائیل اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں تجارت کئی گنا بڑھ گئی ہے ۔ مثال کے طور پر 2023میں یو اے ای نے اسرائیل کو 238ملین ڈالر کا سامان فروخت کیا جب کہ پچھلے آٹھ ماہ کے دوران یو اے ای نے اسرائیل کو 242ملین ڈالر کاسامان بیچا ہے۔ اُردن نے بھی اِسی عرصے کے دوران اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات میں اضافہ کیا ہے ۔ اسرائیل کو 38ملین ڈالر کا سامان بھیج کر ۔ البتہ (بقولMEE) پچھلے آٹھ ماہ کے دوران ترکیہ اور اسرائیلی تجارت میں خاصی کمی (ڈیڑھ سو فیصد ) دیکھنے میں آئی ہے ''۔
کیا یہ ستم کی بات نہیں ہے کہ اقوامِ متحدہ کے ایک ادارے کا سربراہ اسرائیلی افواج کو ''دُنیا کی سب سے بڑی جرائم پیشہ افواج میں سے ایک'' کہہ رہے ہیں اور ہمارے بعض اسلامی برادر ممالک اِسے کریمنل ملک کے ساتھ تجارت میں اضافہ کرتے دکھائی دے رہے ہیں؟ہمارے حکمرانوں کو تو ظالم اسرائیل ،رُوس اور امریکا کے خلاف سچ کہنے کی توفیق بھی نہیں ملتی ، جیسی توفیق البانوی وزیر اعظم کو میسر آئی ہے ۔ گزشتہ روز البانیہ کے وزیر اعظم (Edi Rama) نے امریکی وزیر خارجہ کی موجودگی میں کہا:'' دُنیا میں اِس وقت تین بڑے شیطان ہیں: رُوس ، امریکا اور اسرائیل۔''اور امریکی وزیر خارجہ، انٹونی بلنکن، منہ تکتے رہ گئے ۔ کیا ہمارا کوئی حکمران ایسی جرأت دکھا سکتا ہے؟
اِس ادارے کے سربراہ کا نام ہے کرس سدوٹی (Chris Sidoti)۔پچھلے آٹھ ماہ کے دوران ، جب سے غزہ اور اسرائیل کے درمیان خونریزی چھڑی ہے، کرس سدوٹی خاص طور پر ''غزہ'' میں اسرائیلی مظالم پر گہری تحقیقی نگاہ رکھے ہُوئے ہیں ۔ 19 جون 2024کو کرس سدوٹی نے ''غزہ'' میں اسرائیلی مظالم کے حوالے سے اپنی تازہ ترین تحقیقی رپورٹ میں لکھا:''اسرائیلی صہیونی فوج دُنیا کی سب سے بڑی جرائم پیشہ افواج میں سے ایک ہے ۔''
7 اکتوبر 2023 کو اگرچہ ''غزہ'' میں بروئے کار مسلح تنظیم ''حماس'' نے اسرائیل پر حملہ کرکے ساری دُنیا کو حیران و پریشان کر دیا تھا ۔ کسی کے مگر سان و گمان میں بھی نہیں تھا کہ موقع کی تاک میں بیٹھا صہیونی اسرائیل پلٹ کر ''غزہ'' کی تنگ اور ننھی سی پٹی میں محصور نہتے فلسطینی عوام اور ''حماس'' پر اس وحشت و بربریت سے حملہ کرے گا۔ یہ اندازہ ''حماس'' کو بھی نہیں تھا کہ یہ جنگ اس قدر وسیع پیمانے پر اور اتنے عرصے تک پھیل جائے گی ۔ اسرائیل کو یقینِ کامل تھا کہ ''حماس'' کا خاتمہ اور شکست چند دن کی بات ہے ۔ لیکن ''حماس'' نے مزاحمت کی ناقابلِ یقین داستانیں رقم کی ہیں۔
اب خود 20جون 2024 کو اسرائیلی فوج کے ترجمان (ایڈمرل ڈینئل ہگاری) نے آن دی ریکارڈ اعتراف کیا ہے کہ' 'ہم حماس کو شکست نہیں دے سکے ہیں۔'' اِس اعتراف پر اسرائیلی خونخوار وزیر اعظم، نیتن یاہو، نے پریشان ہو کر تردید کر دی ہے۔ اگرچہ اِس مزاحمت کے دوران، پچھلے آٹھ ماہ کے دوران، غزہ کے تقریباً 40ہزار مکین خون میں نہلا دیے گئے ہیں ۔ دو ملین سے زائد اہلِ غزہ بے گھر ہو چکے ہیں۔ تیس ہزار سے زائد فلسطینی شدید زخمی ہیں ۔ غزہ کے سارے اسپتال ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔ غزہ کے جو شہری زخمی اور شہید ہو کر ملبے تلے دبے ہیں، اُن کا کوئی قطار شمار نہیں ہے ۔
صہیونی اسرائیلی افواج اور اسرائیلی حکومت کو قطعی اندازہ اور توقع نہیں تھی کہ اُس کی غزہ کے خلاف لامتناہی خونریزی کے نتیجے میں شمالی امریکا اور مغربی یورپ میں اسرائیل کے خلاف اتنا مضبوط اور مدلل محاذ کھڑا ہو جائے گا ۔ اِس محاذ کے سامنے اسرائیل اور اس کے پشتیبان امریکا ، برطانیہ اور کینیڈا ایسے طاقتور ممالک بھی خود کو بے بس محسوس کررہے ہیں ۔ خصوصاً امریکی وبرطانوی طلبا و طالبات نے اپنے اپنے تعلیمی اداروں میں، مظلوم اہلِ غزہ کے حق میں اور ظالم اسرائیل کے خلاف ، عزیمت اور بیدار ضمیر کی قابلِ فخر اور انسانیت نواز نظیریں قائم کی ہیں ۔
حیرت کی بات مگر یہ ہے کہ کینیڈا نے اِن حقائق کے باوصف صہیونی کریمنل اسرائیلی افواج اور صہیونی اسرائیل پر پابندیاں عائد کرنے اور صہیونی کریمنل اسرائیلی افواج کو دہشت گرد قرار دینے کے بجائے ایران کے ''پاسدارانِ انقلاب'' کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا ہے ۔یہ فیصلہ 20جون2024 کو سامنے آیا ہے ۔ اِس (ناجائز) اقدام کا مطلب یہ ہے کہ پاسدارانِ انقلاب کے اعلیٰ عہدیداروں سمیت ایرانی حکومت کے ہزاروں اعلیٰ حکام پر کینیڈا میں داخلے پر پابندی ہوگی ۔ ہم اِسی امر سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مغرب کی بعض مملکتیں اور حکومتیں کس اندھے پن سے اسرائیل کے حق میں اور کسی مسلمان ملک کے خلاف بروئے کار ہیں ۔ کینیڈا کے اِس ایران مخالف اقدام سے مسلم دشمنی، جانبداری اور استحصال جھلکتا ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ کینیڈا کے اکثر فیصلے امریکا بہادر کے اشارۂ ابرو سے جنم لیتے ہیں ۔مذکورہ تازہ ترین فیصلہ بھی اِسی پس منظر میں دیکھا جانا چاہیے ۔ افسوس کی بات تو مگر یہ ہے کہ مسیحی اور یورپی ممالک تو اپنے مفادات اور نظریاتی استحکام کی خاطر یکجہت اور یکمشت ہیں ، مگر اسلامی ممالک اسرائیل کے مظالم کے خلاف ایکا نہیں کر سکے ۔
غزہ اور فلسطین کے خلاف ظلم کی وہ کونسی قسم ہے جو اسرائیل نے روا نہیں رکھی ، لیکن اسلامی ممالک نے خونخوار اسرائیلی حکمرانوں کا دستِ ستم روکنے کے لیے کونسا کوئی بڑا اور موثر اقدام کیا ہے ؟ کوئی ایک بھی نہیں ۔ تازہ حقائق تو بلکہ یہ منکشف کررہے ہیں کہ اسرائیل مقبوضہ فلسطین میں نہتے فلسطینیوں کا بیدردی سے دن رات خون بہا رہا ہے اور اِس دوران کئی ہمسایہ اسلامی ممالک کی خونی اسرائیل کے ساتھ تجارت کئی گنا بڑھ گئی ہے ۔ مثال کے طور پر ''مڈل ایسٹ آئی'' (MEE) جریدے اور ویب سائٹ کے انکشافات!
''مڈل ایسٹ آئی'' کبھی 20صفحات پر مشتمل شاندار تحقیقی ہفت روزہ جریدہ ہُوا کرتا تھا۔ اب مگر پچھلے ایک عشرے سے یہ نیوزویب سائٹ'' کی شکل میں معرکہ آرا خبریں شایع کررہا ہے۔ اِس کا ہیڈ کوارٹر لندن میں ہے اور مشرقِ وسطیٰ کے کرنٹ افیئرز اِس کی تحقیقات کا مرکزِ نگاہ ہیں۔ 23 جون 2024 کو MEEنے اپنی تحقیقی رپورٹ میں لکھا :'' پچھلے آٹھ ماہ کے دوران اسرائیل اور غزہ کے درمیان خونریز جنگ ہو رہی ہے مگر(اِسی عرصے کے دوران) مصر اور یو اے ای ایسے اسلامی ممالک کی اسرائیل کے ساتھ تجارت میں دگنا اضافہ ہو گیا ہے۔
اِس عرصے کے دوران مصر نے اسرائیل کو 25 ملین ڈالر کا سامان بھیجا ہے ۔ حالانکہ اسلامی غیرت کا تقاضا تو یہ تھا کہ اسرائیل کے ساتھ تجارت بالکل ہی بند کر دی جاتی۔ مصر مگر یہ جسارت نہ کر سکا۔''MEE نے Abraham Accords Peace Instituteکا حوالہ دیتے ہُوئے یہ بھی لکھا ہے :''2023 میں اسرائیل کے ساتھ مصری تجارت میں56فیصد اضافہ ہُوا تھا جب کہ پچھلے آٹھ ماہ کے دوران مصرکی اسرائیل کے ساتھ تجارت میں 168فیصد اضافہ ہُوا ہے ۔''
کہا جاتا ہے کہ ملتِ اسلامیہ ایک جسد کی مانند ہے ، لیکن ملتِ اسلامیہ کے حکمران اِس قولِ زریں کے برعکس اپنے عمل کا اظہار کررہے ہیں ۔ ''مڈل ایسٹ آئی'' نے مزید انکشافات کرتے ہُوئے لکھا ہے: ''جب سے اسرائیل اور غزہ میں ہلاکت خیز جنگ چھڑی ہے، اسرائیل اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں تجارت کئی گنا بڑھ گئی ہے ۔ مثال کے طور پر 2023میں یو اے ای نے اسرائیل کو 238ملین ڈالر کا سامان فروخت کیا جب کہ پچھلے آٹھ ماہ کے دوران یو اے ای نے اسرائیل کو 242ملین ڈالر کاسامان بیچا ہے۔ اُردن نے بھی اِسی عرصے کے دوران اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات میں اضافہ کیا ہے ۔ اسرائیل کو 38ملین ڈالر کا سامان بھیج کر ۔ البتہ (بقولMEE) پچھلے آٹھ ماہ کے دوران ترکیہ اور اسرائیلی تجارت میں خاصی کمی (ڈیڑھ سو فیصد ) دیکھنے میں آئی ہے ''۔
کیا یہ ستم کی بات نہیں ہے کہ اقوامِ متحدہ کے ایک ادارے کا سربراہ اسرائیلی افواج کو ''دُنیا کی سب سے بڑی جرائم پیشہ افواج میں سے ایک'' کہہ رہے ہیں اور ہمارے بعض اسلامی برادر ممالک اِسے کریمنل ملک کے ساتھ تجارت میں اضافہ کرتے دکھائی دے رہے ہیں؟ہمارے حکمرانوں کو تو ظالم اسرائیل ،رُوس اور امریکا کے خلاف سچ کہنے کی توفیق بھی نہیں ملتی ، جیسی توفیق البانوی وزیر اعظم کو میسر آئی ہے ۔ گزشتہ روز البانیہ کے وزیر اعظم (Edi Rama) نے امریکی وزیر خارجہ کی موجودگی میں کہا:'' دُنیا میں اِس وقت تین بڑے شیطان ہیں: رُوس ، امریکا اور اسرائیل۔''اور امریکی وزیر خارجہ، انٹونی بلنکن، منہ تکتے رہ گئے ۔ کیا ہمارا کوئی حکمران ایسی جرأت دکھا سکتا ہے؟