درجہ حرارت بڑھنے سے پنجاب کے جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات میں اضافہ
مئی 2024 سے جون کے وسط تک جنگلات میں آگ لگنے کے 60 کے قریب واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں
درجہ حرارت بڑھنے سے پنجاب کے جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ مئی سے جولائی تک کا عرصہ فائز زون کہلاتا ہے، مئی 2024 سے جون کے وسط تک جنگلات میں آگ لگنے کے 60 کے قریب واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں۔
ماہرین کے مطابق جنگلات میں آگ لگنے کی ایک وجہ انسانی لاپرواہی بھی ہے۔ گزشتہ چار برسوں میں پنجاب کے جنگلات میں آگ لگنے کے 326 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں 9 ہزار 233 ایکڑ سے زائد رقبے کو نقصان پہنچا، آگ لگنے کے حالیہ واقعات میں محکمہ جنگلات کا ایک ملازم جاں بحق بھی ہوچکا ہے۔
محکمہ جنگلات پنجاب سے حاصل کی گئی رپورٹ کے مطابق جنگلات میں آگ لگنے کے اکثر واقعات نارتھ زون میں پیش آئے جس میں مری، راولپنڈی، اٹک، جہلم، چکوال، خوشاب، سرگودھا، میانوالی اور بھکر شامل ہیں۔ سینٹرل پنجاب کے مختلف اضلاع لاہور اور قصور میں موجود جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات پیش آئے تاہم یہ معمولی واقعات تھے۔
رپورٹ کے مطابق سال 2020-21 میں آگ لگنے کے 87 واقعات رپورٹ ہوئے تھے اور 2294 ایکڑ رقبے کو نقصان پہنچا تھا۔ 2021-22 میں 89 واقعات رپورٹ ہوئے اور 2760 ایکڑ رقبے کو نقصان پہنچا، اسی طرح سال 2022 اور 23 میں جنگلات میں آگ لگنے کے 23 واقعات سامنے آئے جس سے 452 ایکڑ رقبہ متاثر ہوا جبکہ سال 2023 اور 24 (11 جون تک) سب سے زیادہ 127 واقعات پیش آچکے ہیں جس سے 3727 ایکڑ سے زائد رقبہ متاثر ہوا ہے۔
ڈی جی پی ڈی ایم اے عرفان علی کاٹھیا نے بتایا کہ پنجاب میں ایک لاکھ 44 ہزار ایکڑ رقبے پر جنگلات موجود ہیں۔ گرمیوں میں جب درجہ حرارت بڑھتا ہے تو ایک چھوٹی سی چنگاری سے آگ بھڑک اٹھتی ہے، پہاڑی جنگلات کے اندر پڑے پتھر سورج کی تپش سے بعض اوقات اتنے گرم ہو جاتے ہیں کہ ان سے بھی آگ لگ سکتی ہے، اسی طرح آسمانی بجلی کے گرنے سے بھی آگ لگ سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جنگلات میں آگ لگنے کی سب سے بڑی وجہ انسانوں کی بے احتیاطی ہے، جنگلات کے علاقوں میں گھومتے اور سفر کرتے ہوئے جلتا ہوا سگریٹ پھینک دیتے ہیں یا پھر وہاں لائیو کوکنگ کا اہتمام کرتے ہیں۔
محکمہ جنگلات پنجاب نارتھ زون کے چیف کنزرویٹر ثاقب محمود نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جنگلات میں لگنی والی آگ دو قسم کی ہوتی ہیں جس میں ایک کراؤن اور دوسری گراونڈ کہلاتی ہے۔ کراؤن میں آگ درختوں کے اوپر لگتی ہے جس میں درختوں کو نقصان پہچنے کا خدشہ ہوتا ہے، یہ تیزی سے پھیلتی ہے اور خطرناک ہوتی ہے جبکہ دوسری قسم کی آگ زمین پر پڑے پتوں، جھاڑیوں کو لگتی ہے اسے گراؤنڈ فائر کہا جاتا ہے اس سے جنگلات کو زیادہ نقصان نہیں پہنچتا البتہ جھاڑیوں میں رہنے والے حشرات ہلاک ہو جاتے ہیں۔
پاکستان وائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے وائس چیئرمین صفوان شہاب احمد کہتے ہیں کہ میدانی علاقوں میں آگ لگنے کے 70 فیصد واقعات انسانی کوتاہی کی وجہ سے پیش آتے ہیں۔ میدانی علاقوں میں موجود جنگلات کو بلاک سسٹم میں تقسیم کرکے بفرزون بنائے جاتے ہیں، اس وجہ سے یہاں آگ لگنے کے واقعات کم پیش آتے ہیں اور اگر آگ لگتی بھی ہے تو اس پر جلد قابو پا لیا جاتا ہے لیکن پہاڑی علاقوں میں جنگلات میں بفرزون بنانا ممکن نہیں ہوتا ہے اس لیے آگ زیادہ نقصان کرتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پہاڑی جنگلات میں چیڑ (پائن) کے درختوں کے پتے اور چھلکوں میں قدرتی طور پر اس طرح کا مادہ ہوتا ہے جسے آگ تیزی سے پکڑتی ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ حکومت مقامی لوگوں سے خشک پتے اور تنوں کے چھلکے خریدے، ان میں گاڑیوں کا استعمال شدہ آئل شامل کرکے اس ایندھن کو فروخت کیا جاسکتا ہے۔ اس سے مقامی لوگوں کو بھی ایک روزگار ملے گا اور جنگلات میں صفائی بھی ہوگی۔
آگ کے لیے ایندھن اور آکسیجن لازمی ہیں۔ جب آگ پھیلتی ہے تو بعض اوقات وہ ایسی ماحولیاتی اور موسمی تبدیلیوں کا باعث بنتی ہے جو آگ کے پھیلنے کے لیے معاون ہوتی ہیں۔ ایکسپریس ٹربیون کی تحقیقات کے مطابق محکمہ جنگلات کے عملے کی آگ بجھانے کے حوالے سے کوئی ٹریننگ ہے اور نہ ہی ان کے پاس کوئی لباس اور آلات ہوتے ہیں کہ وہ جنگل میں لگنے والی آگ کو فوراً بجھا سکیں۔ اس حوالے سے پی ڈی ایم اے نے بتایا کہ محکمہ جنگلات کو فائر بیٹرز، فائر ریکز، واٹر باؤزرز، ماونٹین بائیکس اور فارسٹ فائر فائٹرز کیلئے یونیفارم کی فراہمی میں تعاون کرے گا۔
ماہرین کے مطابق جنگلات میں آگ لگنے کی ایک وجہ انسانی لاپرواہی بھی ہے۔ گزشتہ چار برسوں میں پنجاب کے جنگلات میں آگ لگنے کے 326 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں 9 ہزار 233 ایکڑ سے زائد رقبے کو نقصان پہنچا، آگ لگنے کے حالیہ واقعات میں محکمہ جنگلات کا ایک ملازم جاں بحق بھی ہوچکا ہے۔
محکمہ جنگلات پنجاب سے حاصل کی گئی رپورٹ کے مطابق جنگلات میں آگ لگنے کے اکثر واقعات نارتھ زون میں پیش آئے جس میں مری، راولپنڈی، اٹک، جہلم، چکوال، خوشاب، سرگودھا، میانوالی اور بھکر شامل ہیں۔ سینٹرل پنجاب کے مختلف اضلاع لاہور اور قصور میں موجود جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات پیش آئے تاہم یہ معمولی واقعات تھے۔
رپورٹ کے مطابق سال 2020-21 میں آگ لگنے کے 87 واقعات رپورٹ ہوئے تھے اور 2294 ایکڑ رقبے کو نقصان پہنچا تھا۔ 2021-22 میں 89 واقعات رپورٹ ہوئے اور 2760 ایکڑ رقبے کو نقصان پہنچا، اسی طرح سال 2022 اور 23 میں جنگلات میں آگ لگنے کے 23 واقعات سامنے آئے جس سے 452 ایکڑ رقبہ متاثر ہوا جبکہ سال 2023 اور 24 (11 جون تک) سب سے زیادہ 127 واقعات پیش آچکے ہیں جس سے 3727 ایکڑ سے زائد رقبہ متاثر ہوا ہے۔
ڈی جی پی ڈی ایم اے عرفان علی کاٹھیا نے بتایا کہ پنجاب میں ایک لاکھ 44 ہزار ایکڑ رقبے پر جنگلات موجود ہیں۔ گرمیوں میں جب درجہ حرارت بڑھتا ہے تو ایک چھوٹی سی چنگاری سے آگ بھڑک اٹھتی ہے، پہاڑی جنگلات کے اندر پڑے پتھر سورج کی تپش سے بعض اوقات اتنے گرم ہو جاتے ہیں کہ ان سے بھی آگ لگ سکتی ہے، اسی طرح آسمانی بجلی کے گرنے سے بھی آگ لگ سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جنگلات میں آگ لگنے کی سب سے بڑی وجہ انسانوں کی بے احتیاطی ہے، جنگلات کے علاقوں میں گھومتے اور سفر کرتے ہوئے جلتا ہوا سگریٹ پھینک دیتے ہیں یا پھر وہاں لائیو کوکنگ کا اہتمام کرتے ہیں۔
محکمہ جنگلات پنجاب نارتھ زون کے چیف کنزرویٹر ثاقب محمود نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جنگلات میں لگنی والی آگ دو قسم کی ہوتی ہیں جس میں ایک کراؤن اور دوسری گراونڈ کہلاتی ہے۔ کراؤن میں آگ درختوں کے اوپر لگتی ہے جس میں درختوں کو نقصان پہچنے کا خدشہ ہوتا ہے، یہ تیزی سے پھیلتی ہے اور خطرناک ہوتی ہے جبکہ دوسری قسم کی آگ زمین پر پڑے پتوں، جھاڑیوں کو لگتی ہے اسے گراؤنڈ فائر کہا جاتا ہے اس سے جنگلات کو زیادہ نقصان نہیں پہنچتا البتہ جھاڑیوں میں رہنے والے حشرات ہلاک ہو جاتے ہیں۔
پاکستان وائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے وائس چیئرمین صفوان شہاب احمد کہتے ہیں کہ میدانی علاقوں میں آگ لگنے کے 70 فیصد واقعات انسانی کوتاہی کی وجہ سے پیش آتے ہیں۔ میدانی علاقوں میں موجود جنگلات کو بلاک سسٹم میں تقسیم کرکے بفرزون بنائے جاتے ہیں، اس وجہ سے یہاں آگ لگنے کے واقعات کم پیش آتے ہیں اور اگر آگ لگتی بھی ہے تو اس پر جلد قابو پا لیا جاتا ہے لیکن پہاڑی علاقوں میں جنگلات میں بفرزون بنانا ممکن نہیں ہوتا ہے اس لیے آگ زیادہ نقصان کرتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پہاڑی جنگلات میں چیڑ (پائن) کے درختوں کے پتے اور چھلکوں میں قدرتی طور پر اس طرح کا مادہ ہوتا ہے جسے آگ تیزی سے پکڑتی ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ حکومت مقامی لوگوں سے خشک پتے اور تنوں کے چھلکے خریدے، ان میں گاڑیوں کا استعمال شدہ آئل شامل کرکے اس ایندھن کو فروخت کیا جاسکتا ہے۔ اس سے مقامی لوگوں کو بھی ایک روزگار ملے گا اور جنگلات میں صفائی بھی ہوگی۔
آگ کے لیے ایندھن اور آکسیجن لازمی ہیں۔ جب آگ پھیلتی ہے تو بعض اوقات وہ ایسی ماحولیاتی اور موسمی تبدیلیوں کا باعث بنتی ہے جو آگ کے پھیلنے کے لیے معاون ہوتی ہیں۔ ایکسپریس ٹربیون کی تحقیقات کے مطابق محکمہ جنگلات کے عملے کی آگ بجھانے کے حوالے سے کوئی ٹریننگ ہے اور نہ ہی ان کے پاس کوئی لباس اور آلات ہوتے ہیں کہ وہ جنگل میں لگنے والی آگ کو فوراً بجھا سکیں۔ اس حوالے سے پی ڈی ایم اے نے بتایا کہ محکمہ جنگلات کو فائر بیٹرز، فائر ریکز، واٹر باؤزرز، ماونٹین بائیکس اور فارسٹ فائر فائٹرز کیلئے یونیفارم کی فراہمی میں تعاون کرے گا۔