طوطیا من موتیا توں اوس گلی نہ جا
عمران خان کو بطور انسان میں بہت پسند کرتا ہوں۔ اگرچہ ان کی سیاست سے کچھ اتنا متاثر نہیں۔
KARACHI:
میری ماں کو کہانیاں سنانا نہیں آتی تھیں۔ ایک بہت ہی سادہ عورت تھیں۔ کہانی بیان کرتے ہوئے منظر نگاری اور سب سے بڑھ کر سسپنس پیدا کرنے والا لہجہ اور پھر کہانی کو ڈرامائی طریقے سے ختم کرنے کا طریقہ انھیں آتا ہی نہیں تھا۔ میں کہانیاں سننے کے لیے دوسروں کی مائوں کا محتاج رہتا۔ ایسی ہی مائوں میں سے ایک مجھے سب سے زیادہ پسند تھیں۔ جوانی میں بیوہ ہو چکی تھیں اور اپنے بچوں کو لوگوں کے گھروں میں مشقت کے ذریعے پالنے میں مصروف۔ اپنی زندگی کی تمام تر اذیتوں کے باوجود محلے کے سب بچوں کے لیے مجسّم شفقت۔ ان ہی کی سنائی کہانیوں کی وجہ سے میں ''طوطیا من موتیا توں اوس گلی نہ جا'' والا Refrain آج تک نہیں بھول پایا۔ اس کے ذریعے ممکنہ خطرات کے بارے میں پہلے سے آگاہ کر دینے کا کوئی اور انداز میں آج تک دریافت نہیں کر پایا۔
عمران خان کو بطور انسان میں بہت پسند کرتا ہوں۔ اگرچہ ان کی سیاست سے کچھ اتنا متاثر نہیں۔ میری سوچ ان کی سیاست کے بارے میں جو بھی رہی ہو اس بات کو جھٹلا نہیں سکتی کہ 2013ء کے انتخابات کے دوران انھوں نے پشاور سے کراچی تک اپنی Charismatic Pull کے شاندار مناظر دکھائے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ عمومی طور پر سیاست اور سیاسی عمل سے نفرت کرنے والے Professionals اور گھریلو خواتین کو سیاسی حوالے سے متحرک کرنا بھی ہے۔ نوجوانوں کی پرجوش حمایت تو ان کے سوا کسی اور سیاسی رہ نما کو میسر نظر نہیں آتی۔ ٹھوس سیاسی حوالوں سے یہ تمام باتیں عمران خان اور ان کی جماعت کی اصل قوت ہیں۔ عمران خان کو اس قوت کو نہ صرف Sustain بلکہ Expand کرنا ہو گا۔ ایسا ہو جائے تو آیندہ کے انتخابات ان کے لیے تقریباََ Walk Over بنتے نظر آ سکتے ہیں۔
عمران خان کی بدقسمتی مگر یہ ہے کہ وہ ان لوگوں کے گھیرے میں آ چکے ہیں جو بار بار ان کے ذہن میں بیٹھے اس تصور کو ہوا دیتے رہتے ہیں کہ پنکچرز وغیرہ کی مدد سے 2013ء کے انتخابات ان سے چرا لیے گئے۔ وہ وزیر اعظم نہ بن پائے۔ چونکہ موجودہ سسٹم نے انھیں وزیر اعظم بننے کا موقعہ نہ دیا اس لیے ''کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے'' والا کھیل رچایا جائے۔ میرے قنوطی اور تقریباََ پتھر ہوئے دل میں مائوں جیسی شفقت پیدا ہو ہی نہیں سکتی۔ صوفیا برسوں کی مشق کے بعد اپنے دل میں کسی دوسرے کے لیے محبت کا مائوں جیسا گداز پیدا کرتے ہیں۔ میں تو بس رپورٹر ہوں اور ملکی سیاست کا ایک عام سا طالب علم۔ اس کے باوجود کئی دنوں سے میرے دل میں بے ساختہ عمران خان کے لیے ''طوطیا من موتیا توں اس گلی نہ جا'' والے جذبات پیدا ہونا شروع ہو گئے ہیں۔
عمران خان کو پتہ نہیں کیوں سمجھ نہیں آ رہی کہ خیبرپختونخوا کے لوگوں نے ان کی ذات پر بے تحاشہ اعتماد کیا تھا۔ غلطی خواہ کسی کی رہی ہو اس وقت 5 لاکھ کے قریب پختون شمالی وزیرستان میں اپنا گھر بار چھوڑ کر بنوں، کوہاٹ اور ڈیرہ اسماعیل خان میں پناہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ شوکت خانم جیسا معجزہ نما اسپتال بنانے والے عمران خان کو آفت کی اس گھڑی میں شمالی وزیرستان سے آئے مہاجرین کے ساتھ صبح شام کھڑے نظر آنا چاہیے۔ اس موقعہ پر یہ تاثر کہ عمران خان تو خیبرپختونخوا کی حکومت سے جان چھڑانے کو بے چین پائے جا رہے ہیں سیاسی طور پر پیغام دے گا تو صرف اتنا کہ ''کپتان'' اپنے صوبے میں تیزی سے بڑھتے ایک بہت بڑے انسانی بحران کے چیلنجوں سے گھبرا کر عذر تراشی کے ذریعے ''بکری'' ہو گیا ہے۔ آفتوں کے دور میں گھرے محبت کرنے والوں سے جان چھڑانے والے سیاسی رہ نمائوں کو لوگ معاف نہیں کیا کرتے۔
ویسے بھی اس بات کی کیا ضمانت کہ پرویز خٹک عمران خان کے حکم پر خیبرپختونخوا اسمبلی کی تحلیل کا اعلان کر دیں گے۔ تحریک انصاف میں آ کر نوشہرہ کا یہ پیدائشی سیاست دان شاید ''تبدیل'' ہو گیا ہو۔ مگر ''گھر کا پکاّ'' ہے۔ کسی نہ کسی طرح حکومت میں رہ کر ''لوگوں کی خدمت کرنا'' اس کی مجبوری ہے۔ میں پرویز خٹک کو پوری طرح جانے بغیر آج لکھ کر اعلان کر رہا ہوں کہ اگر عمران خان کے اردگرد جمع ہوئے ''کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے'' والوں نے صوبائی وزیر اعلیٰ پر خیبرپختونخوا اسمبلی کو تحلیل کرنے کے لیے دبائو بڑھایا تو وہ چپکے سے اپوزیشن میں بیٹھے اپنے دوستوں کو خبر کر دیں گے۔ ان کے خلاف ''اچانک'' تحریک عدم اعتماد پیش کر دی جائے گی۔
اس تحریک پر ووٹنگ کے ذریعے پرویز خٹک کو صوبائی اسمبلی برقرار رکھتے ہوئے ایک نئے وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں حصہ لینا ہو گا۔ تحریک انصاف کے صوبائی اراکین اسمبلی زیادہ سے زیادہ اس انتخاب کا بائیکاٹ کر سکتے ہیں۔ ان کے علاوہ صوبائی اسمبلی میں موجود تمام دیگر جماعتیں مگر اس انتخاب میں یک جان ہو کر حصہ لیں گی اور نتیجاََ ایک نئی مخلوط حکومت کا قیام عمل میں آ جائے گا۔ جماعت اسلامی، میں دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں اس نئی حکومت کا ایک طاقتور حصہ ہو گی۔ مولانا فضل الرحمن، نون لیگ، اے این پی اور پیپلز پارٹی کے لوگ متحد ہو گئے تو صوابی کا ترہ کئی گروپ بھی ان کے ساتھ مل جائے گا۔ بحث مباحثہ اور تکرار ہو گی تو صرف ایک بات پر اور وہ یہ کہ نیا وزیر اعلیٰ JUI-F کا ہو یا آفتاب شیر پائو کی جماعت سے۔
خان صاحب کو کبھی فرصت ملے تو ذوالفقار علی بھٹو کی وہ کتاب ضرور پڑھ لیں جو ا نہوں نے کال کوٹھری میں بیٹھ کر لکھی تھی۔ اصل کتاب انگریزی میں ہے۔IIf I Am Assassinated اس کا نام ہے۔ اس کتاب کو میں ملکی سیاست کے رموز سمجھنے میں ہمیشہ بہت مددگار پاتا ہوں۔ اس کتاب میں بھٹو نے کمال کی ایک بات یہ بھی لکھی ہے کہ سیاست دان انتخابات سے ویسے ہی گھبراتے ہیں جیسے جرنیل حقیقی جنگوں سے۔ 1988ء کے بعد اس ملک میں انتخاب لڑنا ویسے بھی بڑا مہنگا سودا بن چکا ہے۔ جو شخص کسی نہ کسی طرح قومی یا صوبائی اسمبلیوں میں پہنچ جاتا ہے تو ان اداروں کو اپنی آئینی مدت مکمل کرتے ہوئے ضرور دیکھنا چاہتا ہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو پر 1990ء کے انتخابات کے بعد ان کی جماعت میں موجود ''کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے'' والوں کا بہت دبائو تھا۔ محترمہ نے جب سنجیدگی سے قومی اسمبلی کی نشستوں سے مستعفی ہونے کی ٹھان لی تو ان کی اپنی جماعت کی طرف سے قومی اسمبلی میں بیٹھے کئی لوگوں نے ''باغیانہ'' گروہ بندی شروع کر دی تھی۔ میں نام لے لے کر ان دنوں کی ساری کہانی بیان کر سکتا ہوں۔ مگر فی الوقت عمران خان سے درخواست بس اتنی کروں گا کہ کسی روز سید خورشید شاہ کے ساتھ اکیلے میں بیٹھ کر ان دنوں کی داستان خود سن لیں۔ آگے ان کی مرضی۔ شیر طاقتور جانور ہے۔ انڈہ دے یا بچہ۔
میری ماں کو کہانیاں سنانا نہیں آتی تھیں۔ ایک بہت ہی سادہ عورت تھیں۔ کہانی بیان کرتے ہوئے منظر نگاری اور سب سے بڑھ کر سسپنس پیدا کرنے والا لہجہ اور پھر کہانی کو ڈرامائی طریقے سے ختم کرنے کا طریقہ انھیں آتا ہی نہیں تھا۔ میں کہانیاں سننے کے لیے دوسروں کی مائوں کا محتاج رہتا۔ ایسی ہی مائوں میں سے ایک مجھے سب سے زیادہ پسند تھیں۔ جوانی میں بیوہ ہو چکی تھیں اور اپنے بچوں کو لوگوں کے گھروں میں مشقت کے ذریعے پالنے میں مصروف۔ اپنی زندگی کی تمام تر اذیتوں کے باوجود محلے کے سب بچوں کے لیے مجسّم شفقت۔ ان ہی کی سنائی کہانیوں کی وجہ سے میں ''طوطیا من موتیا توں اوس گلی نہ جا'' والا Refrain آج تک نہیں بھول پایا۔ اس کے ذریعے ممکنہ خطرات کے بارے میں پہلے سے آگاہ کر دینے کا کوئی اور انداز میں آج تک دریافت نہیں کر پایا۔
عمران خان کو بطور انسان میں بہت پسند کرتا ہوں۔ اگرچہ ان کی سیاست سے کچھ اتنا متاثر نہیں۔ میری سوچ ان کی سیاست کے بارے میں جو بھی رہی ہو اس بات کو جھٹلا نہیں سکتی کہ 2013ء کے انتخابات کے دوران انھوں نے پشاور سے کراچی تک اپنی Charismatic Pull کے شاندار مناظر دکھائے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ عمومی طور پر سیاست اور سیاسی عمل سے نفرت کرنے والے Professionals اور گھریلو خواتین کو سیاسی حوالے سے متحرک کرنا بھی ہے۔ نوجوانوں کی پرجوش حمایت تو ان کے سوا کسی اور سیاسی رہ نما کو میسر نظر نہیں آتی۔ ٹھوس سیاسی حوالوں سے یہ تمام باتیں عمران خان اور ان کی جماعت کی اصل قوت ہیں۔ عمران خان کو اس قوت کو نہ صرف Sustain بلکہ Expand کرنا ہو گا۔ ایسا ہو جائے تو آیندہ کے انتخابات ان کے لیے تقریباََ Walk Over بنتے نظر آ سکتے ہیں۔
عمران خان کی بدقسمتی مگر یہ ہے کہ وہ ان لوگوں کے گھیرے میں آ چکے ہیں جو بار بار ان کے ذہن میں بیٹھے اس تصور کو ہوا دیتے رہتے ہیں کہ پنکچرز وغیرہ کی مدد سے 2013ء کے انتخابات ان سے چرا لیے گئے۔ وہ وزیر اعظم نہ بن پائے۔ چونکہ موجودہ سسٹم نے انھیں وزیر اعظم بننے کا موقعہ نہ دیا اس لیے ''کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے'' والا کھیل رچایا جائے۔ میرے قنوطی اور تقریباََ پتھر ہوئے دل میں مائوں جیسی شفقت پیدا ہو ہی نہیں سکتی۔ صوفیا برسوں کی مشق کے بعد اپنے دل میں کسی دوسرے کے لیے محبت کا مائوں جیسا گداز پیدا کرتے ہیں۔ میں تو بس رپورٹر ہوں اور ملکی سیاست کا ایک عام سا طالب علم۔ اس کے باوجود کئی دنوں سے میرے دل میں بے ساختہ عمران خان کے لیے ''طوطیا من موتیا توں اس گلی نہ جا'' والے جذبات پیدا ہونا شروع ہو گئے ہیں۔
عمران خان کو پتہ نہیں کیوں سمجھ نہیں آ رہی کہ خیبرپختونخوا کے لوگوں نے ان کی ذات پر بے تحاشہ اعتماد کیا تھا۔ غلطی خواہ کسی کی رہی ہو اس وقت 5 لاکھ کے قریب پختون شمالی وزیرستان میں اپنا گھر بار چھوڑ کر بنوں، کوہاٹ اور ڈیرہ اسماعیل خان میں پناہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ شوکت خانم جیسا معجزہ نما اسپتال بنانے والے عمران خان کو آفت کی اس گھڑی میں شمالی وزیرستان سے آئے مہاجرین کے ساتھ صبح شام کھڑے نظر آنا چاہیے۔ اس موقعہ پر یہ تاثر کہ عمران خان تو خیبرپختونخوا کی حکومت سے جان چھڑانے کو بے چین پائے جا رہے ہیں سیاسی طور پر پیغام دے گا تو صرف اتنا کہ ''کپتان'' اپنے صوبے میں تیزی سے بڑھتے ایک بہت بڑے انسانی بحران کے چیلنجوں سے گھبرا کر عذر تراشی کے ذریعے ''بکری'' ہو گیا ہے۔ آفتوں کے دور میں گھرے محبت کرنے والوں سے جان چھڑانے والے سیاسی رہ نمائوں کو لوگ معاف نہیں کیا کرتے۔
ویسے بھی اس بات کی کیا ضمانت کہ پرویز خٹک عمران خان کے حکم پر خیبرپختونخوا اسمبلی کی تحلیل کا اعلان کر دیں گے۔ تحریک انصاف میں آ کر نوشہرہ کا یہ پیدائشی سیاست دان شاید ''تبدیل'' ہو گیا ہو۔ مگر ''گھر کا پکاّ'' ہے۔ کسی نہ کسی طرح حکومت میں رہ کر ''لوگوں کی خدمت کرنا'' اس کی مجبوری ہے۔ میں پرویز خٹک کو پوری طرح جانے بغیر آج لکھ کر اعلان کر رہا ہوں کہ اگر عمران خان کے اردگرد جمع ہوئے ''کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے'' والوں نے صوبائی وزیر اعلیٰ پر خیبرپختونخوا اسمبلی کو تحلیل کرنے کے لیے دبائو بڑھایا تو وہ چپکے سے اپوزیشن میں بیٹھے اپنے دوستوں کو خبر کر دیں گے۔ ان کے خلاف ''اچانک'' تحریک عدم اعتماد پیش کر دی جائے گی۔
اس تحریک پر ووٹنگ کے ذریعے پرویز خٹک کو صوبائی اسمبلی برقرار رکھتے ہوئے ایک نئے وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں حصہ لینا ہو گا۔ تحریک انصاف کے صوبائی اراکین اسمبلی زیادہ سے زیادہ اس انتخاب کا بائیکاٹ کر سکتے ہیں۔ ان کے علاوہ صوبائی اسمبلی میں موجود تمام دیگر جماعتیں مگر اس انتخاب میں یک جان ہو کر حصہ لیں گی اور نتیجاََ ایک نئی مخلوط حکومت کا قیام عمل میں آ جائے گا۔ جماعت اسلامی، میں دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں اس نئی حکومت کا ایک طاقتور حصہ ہو گی۔ مولانا فضل الرحمن، نون لیگ، اے این پی اور پیپلز پارٹی کے لوگ متحد ہو گئے تو صوابی کا ترہ کئی گروپ بھی ان کے ساتھ مل جائے گا۔ بحث مباحثہ اور تکرار ہو گی تو صرف ایک بات پر اور وہ یہ کہ نیا وزیر اعلیٰ JUI-F کا ہو یا آفتاب شیر پائو کی جماعت سے۔
خان صاحب کو کبھی فرصت ملے تو ذوالفقار علی بھٹو کی وہ کتاب ضرور پڑھ لیں جو ا نہوں نے کال کوٹھری میں بیٹھ کر لکھی تھی۔ اصل کتاب انگریزی میں ہے۔IIf I Am Assassinated اس کا نام ہے۔ اس کتاب کو میں ملکی سیاست کے رموز سمجھنے میں ہمیشہ بہت مددگار پاتا ہوں۔ اس کتاب میں بھٹو نے کمال کی ایک بات یہ بھی لکھی ہے کہ سیاست دان انتخابات سے ویسے ہی گھبراتے ہیں جیسے جرنیل حقیقی جنگوں سے۔ 1988ء کے بعد اس ملک میں انتخاب لڑنا ویسے بھی بڑا مہنگا سودا بن چکا ہے۔ جو شخص کسی نہ کسی طرح قومی یا صوبائی اسمبلیوں میں پہنچ جاتا ہے تو ان اداروں کو اپنی آئینی مدت مکمل کرتے ہوئے ضرور دیکھنا چاہتا ہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو پر 1990ء کے انتخابات کے بعد ان کی جماعت میں موجود ''کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے'' والوں کا بہت دبائو تھا۔ محترمہ نے جب سنجیدگی سے قومی اسمبلی کی نشستوں سے مستعفی ہونے کی ٹھان لی تو ان کی اپنی جماعت کی طرف سے قومی اسمبلی میں بیٹھے کئی لوگوں نے ''باغیانہ'' گروہ بندی شروع کر دی تھی۔ میں نام لے لے کر ان دنوں کی ساری کہانی بیان کر سکتا ہوں۔ مگر فی الوقت عمران خان سے درخواست بس اتنی کروں گا کہ کسی روز سید خورشید شاہ کے ساتھ اکیلے میں بیٹھ کر ان دنوں کی داستان خود سن لیں۔ آگے ان کی مرضی۔ شیر طاقتور جانور ہے۔ انڈہ دے یا بچہ۔