برگد کے درخت

ہمارے ملک کا عام آدمی مجھے ہمیشہ حیران کر دیتا ہے۔ میری فکر اور تحریر کا مرکز صرف اور صرف عام شخص ہے۔

raomanzarhayat@gmail.com

لاہور:
ہمارے ملک کا عام آدمی مجھے ہمیشہ حیران کر دیتا ہے۔ میری فکر اور تحریر کا مرکز صرف اور صرف عام شخص ہے۔ یہ بڑے سے بڑے دکھ کے باوجود زندہ رہنے کا فن جانتا ہے۔ یہ ذاتی اور حکمرانوں کی پیدا کردہ مشکلات میں سے کامران نکلتا ہے۔ یہ اپنی خوشیاں بھی مناتا ہے اور اپنے دکھوں کی چادر کو اوڑھ کر میٹھی نیند سونے کے مجاہدے سے بھی گزرتا ہے۔ دنیا کے تمام ممالک ہمارے حالات دیکھ کر پریشان ہو جاتے ہیں۔ مگر جب بھی کوئی غیر ملکی پاکستان آتا ہے تو رونق بازار دیکھ کر انگلیاں چبا ڈالتا ہے۔ اسے یقین نہیں آتا کہ یہاں ہر شہر، قصبہ، گائوں اور گھر میں معمول کی زندگی جاری و کامران ہے۔

ہمارے قلعے کی بہت سی مضبوط فصلیں ہیں۔ مگر ہمارے پاکستانی جو کسی بھی وجہ سے غیر ممالک میں رہ رہے ہیں۔ آج وہ ہماری ایک بہت بڑی طاقت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے، خوشی سے کوئی بھی اپنا گھر نہیں چھوڑتا! بیرون ملک جا کر روزگار تلاش کرنا، آباد ہونا اور اپنے خاندان سے جڑے رہنا مشکل ہی نہیں بلکہ محیر العقول اَمر ہے۔ آج پاکستان سے منسلک ایک کروڑ کے لگ بھگ افراد دوسرے ملکوں میں کام کر رہے ہیں۔ ان کی اصل تعداد کسی کو بھی معلوم نہیں۔ یہ ڈیڑھ کروڑ بھی ہو سکتی ہے۔ یہ تمام ایک محتاط سا اندازہ ہے۔ یہ ایک یا ڈیڑھ کروڑ شہری دراصل اتنی ہی تعداد میں کہانیاں اور سچی داستانیں ہیں۔ ان میں غم اور دکھ کی رات بھی ہے۔

صبح کی خوشیاں بھی اور شام کی راحت بھی۔ آپ بیرون ملک کسی پاکستانی سے بات کریں۔ وہ جن جن مراحل سے گزرا ہے، وہ تجربات آپکو درجنوں کتابیں لکھنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ یہ لوگ کیسے ان ممالک میں پہنچے۔ ان میں سے اکثریت کو کس بے دردی سے لوٹا گیا۔ یہ زندگی اور موت کی کس کس دہلیز پر گامزن رہے۔ یہ تمام واقعات سن کر آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ یہ اَن کہی سچائیاں ہمیشہ خاموش رہتی ہیں۔ بہت کم لوگوں کو ادراک ہے کہ ہمارے یہ تارکین وطن اَن گنت سماجی مسائل کا شکار بھی ہیں۔ ان میں سے کچھ کا ذکر تو کیا جا سکتا ہے۔ مگر کچھ کا بیان قلم کی طاقت سے مکمل باہر ہے۔

اکثر اوقات ہم اپنے ان شہریوں کو امریکا، کینیڈا، مشرق وسطیٰ، لندن اور یورپ کے کچھ ممالک سے ہی وابستہ سمجھتے ہیں۔ مگر آپ یہ حقیقت جان کر حیران رہ جائینگے کہ یہ دنیا کے تقریباً ہر ملک میں موجود ہیں۔ چلی سے لے کر آئس لینڈ تک ۔ برونائی سے لے کر فلسطین تک یہ ہر خطہ میں آباد ہیں۔ کسی جگہ ان کی تعداد لاکھوں میں ہے، جیسے سعودی عرب اور لندن۔ مگر چند ممالک میں ان کی تعداد صرف ایک یا دو درجن کے قریب ہے جیسے تیونس اور کولمبیا۔ کمال یہ ہے کہ یہ دنیا کے ہر کونے پر پنپ رہے ہیں۔

ہمارے ملک کی معیشت کو ان لوگوں نے اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا ہے۔ ان میں سے اکثریت تکلیف دہ زندگی گزارنے کے باوجود ہر ماہ معقول رقم اپنے گھروں کے لیے زاد راہ کے طور پر بھجواتی ہے۔ ہمارے ملک میں تقریباً بیس فیصد گھروں کا چولہا ان لوگوں کی خون پسینے کی کمائی کی بدولت جلتا ہے۔ یہ خود اپنے اوپر ہر روز قیامت کے برابر کی تکلیف برداشت کر لیتے ہیں مگر اپنے بچوں اور اہل خانہ کی خوشی میں کمی نہیں آنے دیتے۔ یہ جب سُکھ تلاش کرنے کے لیے پاکستان آتے ہیں تو اکثریت کو ناروا سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

ائیرپورٹ پر سرکاری عمال ان سے پیسے اینٹھنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ ٹیکسی اور رکشہ والے ان سے دوگنا، تگنا کرایہ وصول کرتے ہیں۔ ڈاکو اور بے ایمان کاروباری لوگ الگ ان کے منتظر ہوتے ہیں۔ عزیز رشتہ دار ان کے گھر پہنچنے پر خوش تو ہوتے ہیں مگر ان کی نظر اس تحفہ کی تلاش میں ہوتی ہے جو یہ لوگ اپنے خون پسینہ کی کمائی سے خرید کر لائے ہیں۔

ایک دوست نے بتایا کہ کئی بار وہ بڑی جذباتی کیفیت کا شکار ہو جاتا ہے، جب اس کے قریبی ترین رشتہ دار اس سے برملا پوچھتے ہیں کہ آپ نے کب واپس جانا ہے یا آپکی واپسی کی سیٹ کب کی ہے۔ میرا دوست کئی بار میرے پاس آکر خاموش بیٹھا رہتا ہے۔ کئی کئی منٹ بات نہیں کرتا۔ بتاتا ہے کہ آج اس کی اہلیہ نے بھی پوچھا کہ واپسی کب کی ہے! اس کا دل کٹتا ہے۔ کئی بار ذکر کرتا ہے کہ شائد اسے ڈالر، پائونڈ یا درہم کمانے کی مشین بنا دیا گیا ہے۔ جاتے وقت اس کا ذہن کافی حد تک زخمی ہو چکا ہوتا ہے۔ مگر یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ دوسرا رخ اس سے بالکل مختلف ہے۔

خیر دین سنجاوی کا رہنے والا ہے۔ آپ میں سے اکثر لوگوں کو اندازہ نہیں ہے کہ سنجاوی اورالائی کی ایک تحصیل ہے۔ یہ علاقہ بہشت نظیر ہے۔ اس میں سیب کے بھر پور باغات، انگوروں کی بیلیں، اخروٹ اور بادام کے درخت اور میٹھے پانی کے چشمے موجود ہیں۔یہ بلوچستان کی خوبصورت ترین جگہ ہے۔ مری کے ہنگام سے کئی نوری سال بہتر۔ کیونکہ یہ بلوچستان میں واقع ہے۔ اس لیے ترقی کی منزلوں میں صدیوں پیچھے ہے۔ خیر دین پچاس سال پہلے روزی کی تلاش میں کوئٹہ آ گیا۔ اسے کوئی کام نہ ملا تو وہ کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر قلی کا کام کرنے لگا۔


اسے بتایا گیا کہ کراچی کی بندرگاہ پر بہت کام ہے اور وہاں قلیوں کو معاوضہ بھی اچھا ملتا ہے۔ وہ کراچی پورٹ پر چند برس کام کرتے کرتے ایک دن ایک تجارتی بحری جہاز میں ویٹر لگ گیا۔ یہ جہاز کی ملازمت اسے کسی طریقے سے نیویارک تک لے آئی۔ خیر دین نے خواب میں بھی اتنا بڑا شہر نہ دیکھا تھا۔ وہ مکمل اَن پڑھ تھا۔ انگوٹھا چھاپ۔ نیو یارک میں اس نے مزدوری شروع کر دی۔ وہ کمپنی کے ملازم کی حیثیت سے زیر تعمیر گھروں میں اینٹیں اٹھا کر مستری کو دیتا تھا۔ خیر دین جب نیویارک پہنچا تو بیس سال کا تھا۔ ایک دن اس نے انگریز مستری کو کہا کہ وہ راج گیری کا کام سیکھنا چاہتا ہے۔ چند ہفتے میں ایک مستری بن چکا تھا۔

اس نے پانچ چھ سال راج گیری کا کام کرنے کے بعد کچھ اور کرنے کا ارادہ کر لیا۔ اسکو انگریزی بولنا آ چکی تھی مگر وہ لکھ نہیں سکتا تھا۔ وہ اپنے کمپنی منیجر کے پاس گیا اور کہا کہ اسے کوئی ایسا گھر ٹھیکہ پر دے دیا جائے جو مرمت مانگتا ہو۔ وہ یہ کام آدھے پیسوں میں کر دیگا۔ اس کے علاوہ اگر کوئی اور ٹھیکیدار یہ کام دو ماہ میں مکمل کریگا تو وہ یہی کام ایک ماہ میں مکمل کر دیگا۔ اسے بروکلن میں ایک ساٹھ ستر سال پرانا گھر دے دیا گیا۔ تین مہینے کا وقت میسر آیا۔

خیر دین تعمیر کے کام کو سمجھ چکا تھا۔ اس نے راج اور چند مزدور لیے اور انھیں بتایا کہ وہ انکو ہفتہ وار تنخواہ بھی دیگا اور منافع میں سے کچھ حصہ بھی۔ خیر دین اور اس کی ٹیم نے پاگلوں کی طرح کام کرنا شروع کر دیا۔ وہ سب رات کو بھی اسی گھر میں سو جاتے تھے۔ رات کو خیر دین پشتو زبان میں اپنے ساتھیوں کو بہت خوبصورت گانے سناتا تھا۔ وہ "ناشناس" کو نقل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ کام کرنے کے جنون میں خیر دین نے تین مہینے کا کام صرف پنتالیس دنوں میں ختم کر دیا۔ اس نے اپنے منیجر کو جب کام کی تکمیل کا بتایا تو وہ حیران رہ گیا۔ منیجر کو اس کی بات پر یقین نہیں آیا۔

وہ اگلے دن اپنی کمپنی کے مالک کو لے کر خود اس گھر پر چلا گیا۔ منیجر اور اس کا مالک مزید حیران ہو گئے کیونکہ کام کا معیار حیرت انگیز حد تک بہتر تھا۔ اس کے بعد خیر دین پر کاموں کی بارش ہونے لگی۔ اسے درجنوں کام مل گئے۔ خیر دین نے اپنی تعمیراتی کمپنی بنا لی۔ اب اس نے نئے گھر بھی بنانے شروع کر دیے۔ اس کا کام پھیلتا چلا گیا۔ دس بارہ سال میں وہ کروڑ پتی ہو چکا تھا۔ لوگ اسے بڑے عرصے سے گھر بسانے کا کہتے تھے مگر خیر دین کو صرف اپنے کام سے عشق تھا۔ وہ سنجاوی آیا اور اپنے خاندان کی غریب ترین رشتہ دار لڑکی سے شادی کر لی۔ وہ لڑکی مکمل اَن پڑھ تھی۔ وہ اسے امریکا لے گیا۔

تھوڑے عرصے میں وہ کثیر العیال ہو گیا۔ آج اس کی ایک بیٹی ہارورڈ یونیورسٹی میں قانون کے انڈر گریجویٹ پروگرام میں پڑھ رہی ہے۔ اس کے تین بیٹے نیویارک کے بہترین پرائیویٹ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ تمام بچے چھٹیوں میں اپنے والد کی کمپنی میں کام کرتے ہیں۔ خیر دین کا گھر پاکستانیوں کے لیے ہر وقت کھلا ہے۔ وہ سنجاوی سے اپنے قبیلے کے درجنوں لڑکے اور لڑکیوں کو امریکا لا چکا ہے۔ اکثریت کاروبار کی بدولت ایک عمدہ زندگی گزار رہے ہیں۔ اب خیر دین بہت کم کام کرتا ہے۔ اس کے پاس چار سو افراد کی ٹیم ہے۔ کام میں ایمانداری کی بدولت اس کے پاس بڑی بڑی عمارتوں کے سیکڑوں ٹھیکے موجود ہیں۔

وہ آج بھی اپنے آپ کو پاکستانی کہتا ہے۔ آپ اس کے گھر جائیں تو اس کے ڈرائنگ روم میں صوفے نہیں ہیں۔ پٹھان کلچر کے اعتبار سے وہاں سرخ رنگ کے گائو تکیے لگے ہوئے ہیں۔ اس کے گھر کا نظام انتہائی سادہ اور قبائلی طرز کا ہے۔ اس نے اپنے گھر میں سنجاوی کے باغات کی بڑی بڑی تصویریں لگا رکھی ہیں۔ اس کے پاس ہر طرح کا آرام اور سکھ ہے۔ مگر وہ آج بھی ذہنی طور پر اپنے گائوں میں کسی سیب کے درخت کے ساتھ بہتے ہوئے ٹھنڈے چشمے کے کنارے پر رہتا ہے۔ کشمیر کے زلزلے میں خیر دین خاموشی سے پاکستان آیا۔ پانچ کروڑ کی ضروریات کی اشیاء لوگوں میں تقسیم کر کے اسی خاموشی سے واپس چلا گیا۔ سامان لینے والے اس کے نام سے بھی واقف نہیں ہونگے۔

خیر دین تو عظم و ہمت کی ایک چھوٹی سی سچی کہانی ہے۔ مگر ہمارے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں خیر دین ہر ملک میں موجود ہیں۔ کچھ بیرون ملک کے نظام میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ کچھ ابھی جدوجہد میں ہیں۔یہ کسی بھی ملک میں قیام پذیر ہوں، کسی بھی تعداد میں ہوں۔ ان میں ایک جذبہ مشترک ہے۔ ان تمام لوگوں کو پاکستان سے عشق ہے۔ یہ اپنے ملک کے متعلق کوئی بری خبر سنتے ہیں تو ان کا دل بیٹھ جاتاہے۔ یہ تمام لوگ اپنے وطن کے حالات کے ساتھ سانس لیتے ہیں۔

یہ ہر وقت پاکستان کی ترقی کے لیے دعا گو رہتے ہیں۔ میری نظر میں تو یہ نایاب لوگ، برگد کے تن آور درخت ہیں! یہ پورے زمانے کی شدت بھری دھوپ اپنے اندر سمو لیتے ہیں اور ہمارے پورے ملک کو گھنا ٹھنڈا سایہ فراہم کرتے ہیں! ان کی جڑیں مضبوط ہو کر اپنے جیسے مزید لاتعداد مضبوط درخت کھڑے کر دیتی ہیں! یہ لوگ ہمارے سفیر بھی ہیں اور ہمارے محافظ بھی! جب تک برگد کے یہ عظیم درخت موجود ہیں، ہمارے ملک کی ٹھنڈی چھائوں کو کوئی بھی طاقت دھوپ میں نہیں بدل سکتی!
Load Next Story