کراچی کی رواداری اور خانوادہ ’’درس‘‘

عطا ربانی کہتے ہیں کہ جس طریقے سے روزے کی تفہیم قائد اعظم نے کی وہ میری زندگی کا ہمیشہ اثاثہ رہی

Warza10@hotmail.com

گو میری پٹاری میں میرے جگری توقیرچغتائی کی نئی کتاب ''حبیب جالب کی پنجابی شاعری'' کے بارے میں لکھنے کا قرض باقی ہے، مگر اس اثناء کراچی کی مذہبی رواداری کے مربی خانوادے اور شہرکراچی کے پہلے باضابطہ قاضی مولانا ظہور الحسن درس کے تاریخی داستان گو فرزند مولانا اصغر درس سے ہمارے معاشی تجزیہ نگار مسعود زیدی کے ذریعے ایک طویل مگر تشنہ سی نشست رہی جنہوں نے'' کراچی کی رواداری اور تہذیب و شائستگی'' کے ایسے دبستان کھولے کہ وقت کی ساعتیں گزرنے کا پتہ ہی نہ چلا، مولانا اصغر درس ایک عالم با عمل خانوادے کے وہ باشعور فرد ہیں کہ جن کے پاس سیاسی مذہبی اورکراچی کی سماجی زندگی کے وہ وہ نشانات اور تاریخ محفوظ ہے جو وہ اس نشست کے علاوہ ہر لمحے نئی نسل کو منتقل کرنے میں بیقرار سے نظر آئے۔

سو اس خیال سے ضروری جانا کہ اس کالم میں کراچی کی نئی نسل کو اس تاریخ ساز خانوادے کی کراچی کے لیے کی گئی خدمات اور مذہبی رواداری کے اس منصب وکوششوں سے آگاہ کر کے وہ گم گشتہ واقعات ضبط تحریر میں لائے جائیں جوکراچی کے کل کی درخشاں تاریخ اور ذکر ہے،کراچی کی اس قربت محبت اور رواداری کی روشن خیال تاریخ کو چار دہائی پہلے آمر جنرل ضیا نے اسلام کے غلاف میں تعصب، فرقہ پرستی اور زہریلی تنگ نظر فکر کی ''جہادی گود'' فراہم کی اور من پسند بیرونی آقاؤں کے ذریعے پر امن سندھ کے شہرکراچی کو نفرت اور فتنہ پروری کی طرف ڈالنے کے لیے جنوبی وزیرستان، وسیب اورگلگت بلتستان کے زرخریدوں کو حکومتی سطح پر مذہبی ترویج کے نام پر پلاٹ اور بیرونی فنڈز دیے اورکراچی میں محبت و یگانگت پھیلانے والے عوام کے تعاون سے تعمیر شدہ عبادت گاہوں پر مذکورہ علاقوں کے ہدایت یافتہ علما کو حکومت کی سرپرستی میں لا کر کراچی کی تمام عبادت گاہوں کا مہتمم بنا کر مذہبی رواداری کے اس مضبوط اور اعتدال پسند شعبے کو بھی برباد کردیا۔

50 اور 60 کی دہائی کے زندہ لوگ اب تک اس تاریخی اور اُس آپسی قرابت داری سے واقف ہیں کہ جو ہندوستان کے مختلف علاقوں سے ہجرت کرنے والے علما نے جہاں اپنی عبادتوں کے لیے مسجد و امام بارگاہ میں دینی فرائض ادا کیے، وہیں انہوں نے نسل کی درس و تدریس سے '' قرابت داری'' کا ایسا ماحول فرض سمجھ کر بلامعاوضہ سر انجام دیا کہ جس سے کراچی تہذیبی رواداری اور جمہوریت پسند سوچ کا سماج بنا، اس وقت کے تمام مکتبہ فکر کے علماء ذریعہ معاش دکانداری، درزی اور اسکول کی نوکری ہوا کرتی تھی اور یہ وہ علما تھے جو آپس کی قرابت داری اور محبتوں کو اپنے اپنے حلقوں میں بڑی فراخدلی سے تقسیم کیا کرتے تھے، یہاں سوال یہ بھی ہے کہ کیا کراچی کو جمہوری، پرامن اور محبت میں پڑنے والے ان علما کو نکالا دے کر اپنے ہدایت یافتہ علما کراچی کے امن اور رواداری کو بحال کرا پائے ہیں یا کرا پائیں گے؟


اس وقت کی رواداری کے حوالے سے مولانا اصغر درس نے ایک اہم واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ '' جب میرا خاندان میرٹھ سے یہاں منتقل ہوا تو میرے والد مولانا ظہور الحسن درس '' قاضی شہر'' نے اہلسنت علما سے رواداری کے فروغ کا نہ صرف تقاضہ کیا بلکہ عملی طرح سے میرٹھ کے شیعہ عالم لقا حیدری کو کراچی بلوایا اور مل کر مذہبی رواداری کا مشن آگے بڑھایا۔'' مجھے مولانا اصغر درس کی رواداری اور قربت کی یہ ادا بہت بھلی لگی اور توانائی بڑھی کہ اب بھی امید کی روشن کرنیں پھیلانے والے اصغر درس ایسے علمائے حق ہمارے درمیان ہیں جو ہر سال کھارادر میں بغیر تعطل ذکر اہلبیت کے ذریعے رواداری، محبت اور درگذر کے پیغام کو عام کرنے میں جتے ہوئے ہیں۔

ہماری تہذیبی، شائستگی میں علمائے حق کے کردار اور رویے اتنے مضبوط رہے ہیں کہ ان کی رواداری اور حق کہنے کی طاقت اب بھی ان کی نسلوں میں کسی نہ کسی طرح پیوست یا محفوظ ہے،کراچی کو پاکستان کے دارالخلافہ کے لیے جب قائد اعظم نے چنا تو ان کی نظر اے ڈی سی کے لیے عطا ربانی پر پڑی اور یوں عطا ربانی قائداعظم کے پہلے اے ڈی سی ٹہرے،آکسفورڈ سے شائع شدہ عطا ربانی کی کتاب میں پاکستان بننے کے بعد 18 اگست کو پہلی عید کا واقعہ درج ہے، وہ لکھتے ہیں کہ''جب میں نے روزے رکھنے کی اہمیت اور غرض و غایت کے بارے میں قائد اعظم سے دریافت کیا تو قائد بولے کہ'' روزہ انسان کے اندر نظم و ضبط پیدا کرنے کا بہترین وسیلہ ہے، روزے کا مطلب خود پر قابو پانا، قربانی کا جذبہ رکھنا اور خود کے اندر مکمل عقیدت لانا ہے، خود کو ایک ماہ کے اندر تمام منفی عادتوں سے چھٹکارا دلانا ہے تاکہ وہ نظم و ضبط میں آئے اور ثابت قدم رہے'' قائد اعظم کے بقول ''افطار میں کم غذا اور احتیاط ہی انسان کے اندر نظم و ضبط اور رواداری پیدا کرتی ہے۔''

عطا ربانی کہتے ہیں کہ جس طریقے سے روزے کی تفہیم قائد اعظم نے کی وہ میری زندگی کا ہمیشہ اثاثہ رہی، عید کی نماز کے سلسلے میں عطا ربانی لکھتے ہیں کہ قاضی شہر مولانا ظہور الحسن درس کی اقتدا میں نمازکے دوران قائد اعظم تیسری صف میں خاموشی سے نماز عید کا خطبہ سنتے رہے اور بعد نماز مولانا ظہورالحسن درس سے خندہ پیشاں ہوکر ان کا شکریہ ادا کیا، تیسری صف کے واقعے کی تشریح کرتے ہوئے مولانا اصغر درس گویا ہوئے کہ نماز عید میں سرکاری طور پر قائد اعظم کو عین وقت پر لایا گیا اور مولانا ظہور الحسن سے ان کے اے ڈی سی نے استدعا کی کہ قائد اعظم کے لیے پہلی صف میں جگہ بنوا دیں تو اس پر قاضی شہر اور عالم حق مولانا ظہور نے معذرت کر لی اور کہا کہ تیسری صف میں جو جگہ خالی ہے وہاں قائداعظم کو بٹھا دیا جائے، اس موقعہ پر بانی پاکستان کی رواداری اور انکساری پوری ملت کے لیے درگذر اور مرتبے کے غرور توڑنے کا وہ پیغام ہے جس سے یہ قوم دور ہوتی ہوئی فتنہ پروری اور تنگ نظر سوچ کی غلام ہوچکی ہے، مولانا درس کے نزدیک اب بھی وقت ہے کہ قوم کی نئی نسل میں حق گو علما کا چلن عام کیا جائے اور من پسند علمائے سو کے نفرت بھرے شر سے نئی نسل کو بچایا جائے وگرنہ جنرل ایوب کی نفرت اور تقسیم کی پالیسیوں کی نظر اس قوم میں فتنہ پروری اور قربت و رواداری کے جرثومے ختم ہو جائیں گے جو جمہوریت، سماج اور انسان کی حرمت و عزت کو چبا ڈالیں گے۔
Load Next Story