صلاح الدین بھی ایک جہادی تھا
ہماری خوش قسمت فوج ان دنوں جہاد میں مصروف ہے۔ افسوس کہ یہ جہاد سامنے موجود کسی بیرونی دشمن کے خلاف نہیں
ہماری خوش قسمت فوج ان دنوں جہاد میں مصروف ہے۔ افسوس کہ یہ جہاد سامنے موجود کسی بیرونی دشمن کے خلاف نہیں بلکہ ایسے چند لوگوں کے خلاف ہے جنھیں دہشت گرد کہا جاتا ہے۔ وہ ہمارے ملک میں مقیم ہیں مگر دشمن کے ایجنٹ ہیں اور دن رات دشمنی میں مصروف رہتے ہیں اس لیے نہ صرف کھلے دشمن سے زیادہ خطرناک ہیں بلکہ پہلے ان کی تلاش کرنی پڑتی ہے بعد میں وہ ضرب عضب کا شکار بنتے ہیں۔
ہمارے اس کوہستانی علاقے میں جو دنیا کا ایک خوبصورت ترین ٹکڑا ہے یہاں کئی غار بھی ہیں اور دہشت گردوں نے ان پہاڑوں میں کئی خفیہ پناہ گاہیں بھی بنا لی ہیں اس لیے یہ اسلامی تاریخ کا ایک مشکل ترین جہاد ہے جس سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سپاہ گزر رہی ہے۔ آمنے سامنے دشمن والی جنگ ہمارے جوانوں کے لیے ایک کھیل ہے۔ ان کے جہادی جذبات کو کسی توپ کا گولہ خاموش نہیں کر سکتا لیکن ان دنوں وہ جس جنگ سے گزر رہے ہیں اور جس آزمائش سے دوچار ہیں اس میں انھیں اللہ کی مدد ہی سرخرو کر سکتی ہے یا پھر وہ عزم صمیم جو ان کے ایک تاریخی سپہ سالار نے دنیا کو دکھایا تھا۔
یورپ کے عیسائیوں کے خلاف جنگ جاری تھی۔ ایک طرف دنیا بھر کی عیسائی مملکتوں کی فوجیں صف آراء تھیں تو دوسری طرف صرف مسلمانوں کی فوج۔ فلسطین کی سرزمین پر یہ معرکہ برپا ہونے والا تھا اور مقام کا نام تھا عکہ۔ عیسائیوں کے لیے یہ زندگی اور موت کا معرکہ تھا چنانچہ مسیحیوں کے بادشاہوں، نوجوانوں اور پادریوں نے جنگ کا اعلان کر دیا اور اس جنگ میں شرکت کو مذہباً بھی لازم قرار دے دیا۔ اس طرح ایک بہت ہی بڑا لشکر جمع ہو گیا اور کئی دنوں کی مسافت کے بعد عکہ کے میدان میں پہنچ گیا۔
مسلمان جرنیلوں نے اس مخالف لشکر کی تعداد اور اسلحہ وغیرہ پر نظر ڈالی تو فیصلہ کیا کہ سلطان سے کہا جائے کہ کسی بہانے یہ معرکہ ملتوی کر دیں کیونکہ دشمن تعداد اور جنگی تیاری میں بہت آگے ہے چنانچہ مسلمان لشکر کے یہ جرنیل سپہ سالار اعظم سلطان صلاح الدین ایوبی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے جنگی خدشات کو بیان کیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی یہ سب سنتا رہا، اس نے اپنے خیمے میں بیٹھے ہوئے اس کا ایک پردہ اٹھوا کر باہر کا نظارہ بھی کیا اور سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔
سلطان کے جرنیلوں کو یقین تھا کہ دشمن کی جنگی طاقت کو دیکھ کر سلطان جنگ کا فیصلہ بدل دے گا لیکن اللہ کے اس مجاہد اور عزم و ہمت کی نایاب مثال نے اپنے خیمے کے ایک پردے کو اپنی تلوار سے کاٹا، باہر نکلنے کا راستہ بنایا اور پھر عزم و ہمت کی انسانی تاریخ کا یہ بے مثال اور ناقابل تصور فیصلہ سنایا کہ میرے ساتھیو دشمن آج جتنی تعداد میں ہمارے سامنے جمع ہے تاریخ میں بھی پھر کبھی اس کا اتنا اجتماع نہیں ہو گا، اس کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا یہ بہترین موقع ہے جو خدا نے ہمیں عطا کر دیا ہے۔ پھر سلطان نے تلوار لہرا کر اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا اور دشمن پر ٹوٹ پڑا۔ تاریخوں میں اس جنگ کی حیران کن تفصیلات درج ہیں۔ صلاح الدین نے دنیا بھر کے مسیحیوں کے اس اجتماع کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ مسیحی فوج فرار ہو گئی اور عکہ کے میدان سے برسوں تک انسانی ہڈیاں نکلتی رہیں۔
اپنی سپاہ کو میدان جنگ میں دیکھ سن کر میرا جی چاہا کہ ہمارے سپہ سالاروں کے اندر بھی سلطان والا جذبہ زندہ ہو جائے کیونکہ ہمیں ابھی بہت سی جنگیں لڑنی ہیں۔ بلاشبہ جنگ سے سب سے زیادہ خوفزدہ جرنیل ہوتے ہیں کیونکہ انھیں اپنے اوپر یہ جنگ لڑنی ہوتی ہے لیکن وہ جنگ سے خوفزدہ ہوں یا نہ ہوں جنگ تو بہرحال انھیں ہی لڑنی ہوتی ہے اور اب یہ انتہائی مشکل جنگ بھی ہمارے جرنیل ہی لڑ رہے ہیں جب کہ سیاست دان جلسوں جلوسوں میں مصروف ہیں اور اپنی کسی نئی حکومت کی تلاش میں سرگرداں ہیں حالانکہ یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ جنگ فوج نہیں پوری قوم لڑتی ہے اور آج سے پہلے بھی ہر جنگ میں پوری قوم شریک رہی۔ گھر کی خواتین میٹھی روٹیاں پکا کر محاذ جنگ پر بھجواتی رہیں۔
موسیقار خوبصورت گانوں سے فوجیوں کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔ عام ٹرک فوجی سامان اٹھا کر محاذ کی طرف بھاگتے رہے اور کسی فوجی کے کہنے سے بھی نہ رکے۔ ایک فوجی نے مجھے بتایا کہ جب ایک بار راشن میں ایک میٹھی روٹی مجھے ملی تو میں نے اسے ہاتھ میں لیا اور گھر کی یاد میں رونے لگا اور ان ہاتھوں کو دعائیں دینے لگا جن کے پیار نے یہ روٹی پکائی تھی پھر میں نے اس روٹی کا ایک لقمہ لیا اور سامنے دشمن پر ٹوٹ پڑا۔ میں نے بڑی تباہی مچائی اور ان ہاتھوں کو سلام کیا جنھوں نے یہ زندگی بخش روٹی پکائی تھی اور دل میں کہا میری بہن میری ماں میں تمہاری حفاظت میں زندگی لڑا دوں گا۔
لاریب کہ تیر و تفنگ کے بغیر جنگ نہیں لڑی جا سکتی لیکن تلوار اگر سلطان ایوبی کے ہاتھ میں ہو تو یہ جنگی اصول موقوف بھی ہو سکتا ہے جو ساتھیوں سے کہتا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں دشمن ایک جگہ پھر کبھی نہیں ملے گا۔ میں عرض کرتا ہوں کہ میرا جرنیل راحیل شریف بھی اپنا یہ تاریخی موروثی نعرہ بلند کر سکتا ہے جو اسے اس کے ایک سپہ سالار سے ورثہ میں ملا ہے اور جسے اس کے حقیقی بھائی نشان حیدر نے زندہ بھی کیا ہے۔
میں یہ چند سطریں صرف فوجیوں کی خدمت میں پیش نہیں کر رہا بلکہ ان کا زیادہ حصہ ہماری سول آبادی کی خدمت میں بھی پیش ہے جو فوج کو حالت جنگ میں دیکھ کر بھی جشن منا رہی ہے اور پھر بھی اپنے آپ کو طاہر القادری اور نہ جانے کن کن خود ساختہ القاب سے یاد کر رہی ہے۔ پاکستانیوں کو معلوم ہے کہ ہم ایک حقیقی جنگ سے گزر رہے ہیں اور ہمارا چالاک اور ہمارے کئی سیاستدانوں کا ممدوح دشمن ان دہشت گردوں کے پیچھے ہے جن کی کارروائیوں سے مجبور ہو کر ہمیں اس جنگ پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ جنگ ہمیشہ ایک مجبوری ہوتی ہے لیکن جہاد ہمارے لیے نیا نہیں ہے۔
ہمارے اس کوہستانی علاقے میں جو دنیا کا ایک خوبصورت ترین ٹکڑا ہے یہاں کئی غار بھی ہیں اور دہشت گردوں نے ان پہاڑوں میں کئی خفیہ پناہ گاہیں بھی بنا لی ہیں اس لیے یہ اسلامی تاریخ کا ایک مشکل ترین جہاد ہے جس سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سپاہ گزر رہی ہے۔ آمنے سامنے دشمن والی جنگ ہمارے جوانوں کے لیے ایک کھیل ہے۔ ان کے جہادی جذبات کو کسی توپ کا گولہ خاموش نہیں کر سکتا لیکن ان دنوں وہ جس جنگ سے گزر رہے ہیں اور جس آزمائش سے دوچار ہیں اس میں انھیں اللہ کی مدد ہی سرخرو کر سکتی ہے یا پھر وہ عزم صمیم جو ان کے ایک تاریخی سپہ سالار نے دنیا کو دکھایا تھا۔
یورپ کے عیسائیوں کے خلاف جنگ جاری تھی۔ ایک طرف دنیا بھر کی عیسائی مملکتوں کی فوجیں صف آراء تھیں تو دوسری طرف صرف مسلمانوں کی فوج۔ فلسطین کی سرزمین پر یہ معرکہ برپا ہونے والا تھا اور مقام کا نام تھا عکہ۔ عیسائیوں کے لیے یہ زندگی اور موت کا معرکہ تھا چنانچہ مسیحیوں کے بادشاہوں، نوجوانوں اور پادریوں نے جنگ کا اعلان کر دیا اور اس جنگ میں شرکت کو مذہباً بھی لازم قرار دے دیا۔ اس طرح ایک بہت ہی بڑا لشکر جمع ہو گیا اور کئی دنوں کی مسافت کے بعد عکہ کے میدان میں پہنچ گیا۔
مسلمان جرنیلوں نے اس مخالف لشکر کی تعداد اور اسلحہ وغیرہ پر نظر ڈالی تو فیصلہ کیا کہ سلطان سے کہا جائے کہ کسی بہانے یہ معرکہ ملتوی کر دیں کیونکہ دشمن تعداد اور جنگی تیاری میں بہت آگے ہے چنانچہ مسلمان لشکر کے یہ جرنیل سپہ سالار اعظم سلطان صلاح الدین ایوبی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے جنگی خدشات کو بیان کیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی یہ سب سنتا رہا، اس نے اپنے خیمے میں بیٹھے ہوئے اس کا ایک پردہ اٹھوا کر باہر کا نظارہ بھی کیا اور سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔
سلطان کے جرنیلوں کو یقین تھا کہ دشمن کی جنگی طاقت کو دیکھ کر سلطان جنگ کا فیصلہ بدل دے گا لیکن اللہ کے اس مجاہد اور عزم و ہمت کی نایاب مثال نے اپنے خیمے کے ایک پردے کو اپنی تلوار سے کاٹا، باہر نکلنے کا راستہ بنایا اور پھر عزم و ہمت کی انسانی تاریخ کا یہ بے مثال اور ناقابل تصور فیصلہ سنایا کہ میرے ساتھیو دشمن آج جتنی تعداد میں ہمارے سامنے جمع ہے تاریخ میں بھی پھر کبھی اس کا اتنا اجتماع نہیں ہو گا، اس کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا یہ بہترین موقع ہے جو خدا نے ہمیں عطا کر دیا ہے۔ پھر سلطان نے تلوار لہرا کر اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا اور دشمن پر ٹوٹ پڑا۔ تاریخوں میں اس جنگ کی حیران کن تفصیلات درج ہیں۔ صلاح الدین نے دنیا بھر کے مسیحیوں کے اس اجتماع کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ مسیحی فوج فرار ہو گئی اور عکہ کے میدان سے برسوں تک انسانی ہڈیاں نکلتی رہیں۔
اپنی سپاہ کو میدان جنگ میں دیکھ سن کر میرا جی چاہا کہ ہمارے سپہ سالاروں کے اندر بھی سلطان والا جذبہ زندہ ہو جائے کیونکہ ہمیں ابھی بہت سی جنگیں لڑنی ہیں۔ بلاشبہ جنگ سے سب سے زیادہ خوفزدہ جرنیل ہوتے ہیں کیونکہ انھیں اپنے اوپر یہ جنگ لڑنی ہوتی ہے لیکن وہ جنگ سے خوفزدہ ہوں یا نہ ہوں جنگ تو بہرحال انھیں ہی لڑنی ہوتی ہے اور اب یہ انتہائی مشکل جنگ بھی ہمارے جرنیل ہی لڑ رہے ہیں جب کہ سیاست دان جلسوں جلوسوں میں مصروف ہیں اور اپنی کسی نئی حکومت کی تلاش میں سرگرداں ہیں حالانکہ یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ جنگ فوج نہیں پوری قوم لڑتی ہے اور آج سے پہلے بھی ہر جنگ میں پوری قوم شریک رہی۔ گھر کی خواتین میٹھی روٹیاں پکا کر محاذ جنگ پر بھجواتی رہیں۔
موسیقار خوبصورت گانوں سے فوجیوں کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔ عام ٹرک فوجی سامان اٹھا کر محاذ کی طرف بھاگتے رہے اور کسی فوجی کے کہنے سے بھی نہ رکے۔ ایک فوجی نے مجھے بتایا کہ جب ایک بار راشن میں ایک میٹھی روٹی مجھے ملی تو میں نے اسے ہاتھ میں لیا اور گھر کی یاد میں رونے لگا اور ان ہاتھوں کو دعائیں دینے لگا جن کے پیار نے یہ روٹی پکائی تھی پھر میں نے اس روٹی کا ایک لقمہ لیا اور سامنے دشمن پر ٹوٹ پڑا۔ میں نے بڑی تباہی مچائی اور ان ہاتھوں کو سلام کیا جنھوں نے یہ زندگی بخش روٹی پکائی تھی اور دل میں کہا میری بہن میری ماں میں تمہاری حفاظت میں زندگی لڑا دوں گا۔
لاریب کہ تیر و تفنگ کے بغیر جنگ نہیں لڑی جا سکتی لیکن تلوار اگر سلطان ایوبی کے ہاتھ میں ہو تو یہ جنگی اصول موقوف بھی ہو سکتا ہے جو ساتھیوں سے کہتا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں دشمن ایک جگہ پھر کبھی نہیں ملے گا۔ میں عرض کرتا ہوں کہ میرا جرنیل راحیل شریف بھی اپنا یہ تاریخی موروثی نعرہ بلند کر سکتا ہے جو اسے اس کے ایک سپہ سالار سے ورثہ میں ملا ہے اور جسے اس کے حقیقی بھائی نشان حیدر نے زندہ بھی کیا ہے۔
میں یہ چند سطریں صرف فوجیوں کی خدمت میں پیش نہیں کر رہا بلکہ ان کا زیادہ حصہ ہماری سول آبادی کی خدمت میں بھی پیش ہے جو فوج کو حالت جنگ میں دیکھ کر بھی جشن منا رہی ہے اور پھر بھی اپنے آپ کو طاہر القادری اور نہ جانے کن کن خود ساختہ القاب سے یاد کر رہی ہے۔ پاکستانیوں کو معلوم ہے کہ ہم ایک حقیقی جنگ سے گزر رہے ہیں اور ہمارا چالاک اور ہمارے کئی سیاستدانوں کا ممدوح دشمن ان دہشت گردوں کے پیچھے ہے جن کی کارروائیوں سے مجبور ہو کر ہمیں اس جنگ پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ جنگ ہمیشہ ایک مجبوری ہوتی ہے لیکن جہاد ہمارے لیے نیا نہیں ہے۔