رمضان کریم کا تحفہ
رمضان المبارک کے فیوض و برکات سے مسلمان نہ صرف جسمانی بلکہ روحانی طور پر بھی مستفید ہوتے ہیں
رمضان المبارک کے فیوض و برکات سے مسلمان نہ صرف جسمانی بلکہ روحانی طور پر بھی مستفید ہوتے ہیں۔ کل انشاء اﷲ پہلا روزہ ہوگا اور دنیا بھر کے تمام تر مسلمان اس ماہ کی برکات سمیٹنے اور رب کائنات کو راضی کرنے کے لیے طلوع سحر سے غروب آفتاب تک خود کو کھانے پینے سے دور رکھیں گے۔ ہمارے کالموں کا موضوع خاص نفسیات ومابعد نفسیات ہے اور ہم اپنے ان ہی کالموں میں کردار سازی و تعمیر و تنظیم شخصیت کے حوالے سے تیار کی گئی مشقوں بطور خاص سانس کی مشقوں کے دوران خالی پیٹ مشقیں کرنے کے فوائد پر بحث کرچکے ہیں۔ وہ تمام قارئین جو ہماری ہدایات کے مطابق مشقیں کررہے ہیں دوران رمضان احتیاط کے تقاضوں کے مطابق مشقیں جاری رکھیں اور اگر آپ نے مشقوں کے اوقات کار دن کے اوقات میں مقرر کیے ہوئے ہیں تو صرف اسی صورت دن کی مشقیں کریں اگر آپ روزے کے ساتھ باآسانی جاری رکھ سکیں ورنہ دن کی مشقوں کا وقت تبدیل کرکے رات میں مقرر کرلیں۔
کراچی سے محمد اشرف ہمارے پرانے قاری ہیں اور نفسیات ومابعد نفسیات سے متعلق مختلف جہات پر ہم سے گفتگو کرتے رہتے ہیں۔ ان سے کی گئی خط و کتابت کے کچھ حصے ہم پہلے بھی اپنے کالموں میں پیش کرچکے ہیں۔ محمد اشرف کی جانب سے تازہ موصولہ ای میل میں نہایت خوبصورت مضمون پیش کیا گیا ہے جسے قارئین کے لیے ہم یہاں شامل اشاعت کررہے ہیں۔
''رمضان کو قرآن کریم نے بہت ہی بابرکت مہینہ قرار دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ماہ مبارک کو تمام مسلمانوں کا تربیتی (Training) مہینہ قرار دیا گیا ہے۔ روزوں کی شکل میں ہم جہاں اپنی جسمانی سطح زندگی پر بھوک پیاس اور دیگر نفسانی خواہشات پر قابو پانا سیکھتے ہیں وہاں ہم دوسری طرف روحانی سطح زندگی پر اپنی کردار سازی بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ بشرطیکہ یہ تمام محنت نہایت خلوص دل سے کی جا رہی ہو۔ تو آئیے اس دفعہ ہم ایک بار پھر پورے خلوص دل سے اپنے تربیتی کورس کا آغاز کرتے ہیں۔ اس بار ہم پورے ماہ میں اس بات کو سیکھیں گے کہ اپنی سوچ کو کس طرح سے مثبت سوچ بنائیں، زندگی کے ہر پہلو میں مثبت رویہ اپنائیں اور اپنی سوچ کو منفیت یعنی negativity سے بچائیں۔ دیکھیں قرآن بھی ہم پر اس بات کی شرط عائد کرتا ہے کہ قرآن کی ہدایت صرف متقی کے لیے ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ آج انسانیت تباہی کے جس دہانے پر کھڑی ہے وہ صرف اور صرف منفی سوچ کا نتیجہ ہے۔ منفیت negativity کیا ہے؟ یہ چیز دراصل کائنات میں اپنا وجود نہیں رکھتی، بلکہ جب بھی کبھی کائناتی اصولوں (Divine Laws) کی خلاف ورزی کی جائے تو اس کے نتیجے میں جنم لیتی ہے اور اصولوں کے خلاف کام کرنے والی قوت کو تباہ و برباد کردیتی ہے۔ گویا کہ یہ کائناتی قوانین کی حفاظت کرنے والی قوت ہے۔ (اس مقام پر آپ کو دس منٹ دیے جاتے ہیں، آپ منفیت negativity کی اس تعریف پر غور کیجیے۔ اپنے آپ سے غور کرنا شروع کیجیے اور جہاں تک سوچ سکتے ہیں سوچیے)۔
انسانی تاریخ کی مثبت ترین شخصیات، روحانی شخصیات اور دنیا کی وہ تمام شخصیات جنھوں نے انسانیت کی فلاح کے لیے تکالیف اٹھائیں اور آج تاریخ انسانی ان کے نام ہمیشہ سنہری حروف میں لکھنے پر مجبور ہے۔ آئیے ایک نظر ان اصولوں پر بھی ڈال لیں جنھیں اپناکر انھوں نے دنیا اور آخرت میں اونچے مقام پائے۔
یہ صرف دس اصول ہیں، جن میں سے پانچ فرد واحد کی کردار سازی کے لیے اور پانچ معاشرہ سازی کے لیے۔
پانچ اصول کردار و شخصیت سازی کے لیے:
1۔طہارت...پاکیزہ ذہن، پاکیزہ سوچ اور پاکیزہ جسم۔
2۔ شکر... حاصل نعمتوں کا جاننا اور جو کچھ بھی حاصل ہے اس پر تہہ دل سے شکر گزار ہونا۔
3۔ یک سو ہونا... مقصد حیات کا جاننا اور اس پر مستقل مزاجی سے کاربند ہونا۔ (اگر آج تک ہم نے اپنے مقصد حیات کا تعین نہیں کیا ہے تو اس ماہ مبارک میں ضرور اس کا تعین کرلیں)
4۔ عبادت کرنا... روزانہ عبادت کرنا۔
5۔ اپنا آپ مکمل طور پر خالق کے سپرد کردینا۔
پانچ اصول معاشرہ سازی کے لیے:
1۔ عدم تشدد... اپنی سوچ کو کسی بھی سطح پر تشدد کے خیالات سے بالکل پاک و صاف رکھنا۔
2۔ سچ بولنا... ہمیشہ سچ اور حق بات بولنا۔ اپنی سوچ کو جھوٹ سے پاک و صاف رکھنا۔
3۔ امانت میں خیانت نہ کرنا... ہمیشہ لوگوں کی امانت (جان، مال، عزت و آبرو اور راز) کی حفاظت کرنا۔
4۔ اپنی عصمت کی حفاظت کرنا۔
5۔ صبر کرنا یعنی اپنے مقصد پر مستقل مزاجی سے جمے رہنا اور مستقل کوشش کرتے رہنا۔
(کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہم مندرجہ بالا کسی بھی ایک اصول پر مستقل مزاجی سے عمل کرتے ہیں؟) میری، آپ کی اور ہماری نسلوں کی بہترین کردار اور شخصیت سازی کے لیے مندرجہ بالا اصول، سنہری اصولوں کا درجہ رکھتے ہیں۔ آپ یہ بات مان لیں کہ یہ اصول دراصل مستقل اور نہ تبدیل ہونے والے کائناتی اصول جنھیں ہم UNIVERSAL CONSTANTS یا Divine Laws بھی کہہ سکتے ہیں، جنھیں اپنانے میں ہی انسانیت کی کامیابی اور سرخروئی کا راز پوشیدہ ہے۔''
اور اب اپنی بات... رمضان کے مہینے میں خدا کو راضی کرنے کے لیے روزہ رکھنے اور دیگر عبادات کے ساتھ ان غریبوں کا خیال رکھنے کی بھی اشد ضرورت ہے جو پورے سال فاقے کی کیفیت میں گزارتے ہیں، ہمارے قارئین جو صاحب حیثیت بھی ہیں ان سے گزارش ہے کہ اپنے ارد گرد موجود ایسے ضرورت مندوں کی اپنے مال میں سے حسب توفیق امداد کریں، ہمارے کچھ قریبی ساتھی خلق خدا کی بھلائی کے لیے اپنی اپنی کمائی میں سے ہر ماہ ایک حصہ نکال کر ایسے ضرورت مندوں کی امداد کرتے ہیں، اگر آپ بھی ان کا ہاتھ بٹانا چاہیں اور مالی امداد کرنا چاہتے ہیں تو بتوسط ایکسپریس ہم سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ اﷲ ہم سب کو صحیح عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)
کراچی سے محمد اشرف ہمارے پرانے قاری ہیں اور نفسیات ومابعد نفسیات سے متعلق مختلف جہات پر ہم سے گفتگو کرتے رہتے ہیں۔ ان سے کی گئی خط و کتابت کے کچھ حصے ہم پہلے بھی اپنے کالموں میں پیش کرچکے ہیں۔ محمد اشرف کی جانب سے تازہ موصولہ ای میل میں نہایت خوبصورت مضمون پیش کیا گیا ہے جسے قارئین کے لیے ہم یہاں شامل اشاعت کررہے ہیں۔
''رمضان کو قرآن کریم نے بہت ہی بابرکت مہینہ قرار دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ماہ مبارک کو تمام مسلمانوں کا تربیتی (Training) مہینہ قرار دیا گیا ہے۔ روزوں کی شکل میں ہم جہاں اپنی جسمانی سطح زندگی پر بھوک پیاس اور دیگر نفسانی خواہشات پر قابو پانا سیکھتے ہیں وہاں ہم دوسری طرف روحانی سطح زندگی پر اپنی کردار سازی بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ بشرطیکہ یہ تمام محنت نہایت خلوص دل سے کی جا رہی ہو۔ تو آئیے اس دفعہ ہم ایک بار پھر پورے خلوص دل سے اپنے تربیتی کورس کا آغاز کرتے ہیں۔ اس بار ہم پورے ماہ میں اس بات کو سیکھیں گے کہ اپنی سوچ کو کس طرح سے مثبت سوچ بنائیں، زندگی کے ہر پہلو میں مثبت رویہ اپنائیں اور اپنی سوچ کو منفیت یعنی negativity سے بچائیں۔ دیکھیں قرآن بھی ہم پر اس بات کی شرط عائد کرتا ہے کہ قرآن کی ہدایت صرف متقی کے لیے ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ آج انسانیت تباہی کے جس دہانے پر کھڑی ہے وہ صرف اور صرف منفی سوچ کا نتیجہ ہے۔ منفیت negativity کیا ہے؟ یہ چیز دراصل کائنات میں اپنا وجود نہیں رکھتی، بلکہ جب بھی کبھی کائناتی اصولوں (Divine Laws) کی خلاف ورزی کی جائے تو اس کے نتیجے میں جنم لیتی ہے اور اصولوں کے خلاف کام کرنے والی قوت کو تباہ و برباد کردیتی ہے۔ گویا کہ یہ کائناتی قوانین کی حفاظت کرنے والی قوت ہے۔ (اس مقام پر آپ کو دس منٹ دیے جاتے ہیں، آپ منفیت negativity کی اس تعریف پر غور کیجیے۔ اپنے آپ سے غور کرنا شروع کیجیے اور جہاں تک سوچ سکتے ہیں سوچیے)۔
انسانی تاریخ کی مثبت ترین شخصیات، روحانی شخصیات اور دنیا کی وہ تمام شخصیات جنھوں نے انسانیت کی فلاح کے لیے تکالیف اٹھائیں اور آج تاریخ انسانی ان کے نام ہمیشہ سنہری حروف میں لکھنے پر مجبور ہے۔ آئیے ایک نظر ان اصولوں پر بھی ڈال لیں جنھیں اپناکر انھوں نے دنیا اور آخرت میں اونچے مقام پائے۔
یہ صرف دس اصول ہیں، جن میں سے پانچ فرد واحد کی کردار سازی کے لیے اور پانچ معاشرہ سازی کے لیے۔
پانچ اصول کردار و شخصیت سازی کے لیے:
1۔طہارت...پاکیزہ ذہن، پاکیزہ سوچ اور پاکیزہ جسم۔
2۔ شکر... حاصل نعمتوں کا جاننا اور جو کچھ بھی حاصل ہے اس پر تہہ دل سے شکر گزار ہونا۔
3۔ یک سو ہونا... مقصد حیات کا جاننا اور اس پر مستقل مزاجی سے کاربند ہونا۔ (اگر آج تک ہم نے اپنے مقصد حیات کا تعین نہیں کیا ہے تو اس ماہ مبارک میں ضرور اس کا تعین کرلیں)
4۔ عبادت کرنا... روزانہ عبادت کرنا۔
5۔ اپنا آپ مکمل طور پر خالق کے سپرد کردینا۔
پانچ اصول معاشرہ سازی کے لیے:
1۔ عدم تشدد... اپنی سوچ کو کسی بھی سطح پر تشدد کے خیالات سے بالکل پاک و صاف رکھنا۔
2۔ سچ بولنا... ہمیشہ سچ اور حق بات بولنا۔ اپنی سوچ کو جھوٹ سے پاک و صاف رکھنا۔
3۔ امانت میں خیانت نہ کرنا... ہمیشہ لوگوں کی امانت (جان، مال، عزت و آبرو اور راز) کی حفاظت کرنا۔
4۔ اپنی عصمت کی حفاظت کرنا۔
5۔ صبر کرنا یعنی اپنے مقصد پر مستقل مزاجی سے جمے رہنا اور مستقل کوشش کرتے رہنا۔
(کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہم مندرجہ بالا کسی بھی ایک اصول پر مستقل مزاجی سے عمل کرتے ہیں؟) میری، آپ کی اور ہماری نسلوں کی بہترین کردار اور شخصیت سازی کے لیے مندرجہ بالا اصول، سنہری اصولوں کا درجہ رکھتے ہیں۔ آپ یہ بات مان لیں کہ یہ اصول دراصل مستقل اور نہ تبدیل ہونے والے کائناتی اصول جنھیں ہم UNIVERSAL CONSTANTS یا Divine Laws بھی کہہ سکتے ہیں، جنھیں اپنانے میں ہی انسانیت کی کامیابی اور سرخروئی کا راز پوشیدہ ہے۔''
اور اب اپنی بات... رمضان کے مہینے میں خدا کو راضی کرنے کے لیے روزہ رکھنے اور دیگر عبادات کے ساتھ ان غریبوں کا خیال رکھنے کی بھی اشد ضرورت ہے جو پورے سال فاقے کی کیفیت میں گزارتے ہیں، ہمارے قارئین جو صاحب حیثیت بھی ہیں ان سے گزارش ہے کہ اپنے ارد گرد موجود ایسے ضرورت مندوں کی اپنے مال میں سے حسب توفیق امداد کریں، ہمارے کچھ قریبی ساتھی خلق خدا کی بھلائی کے لیے اپنی اپنی کمائی میں سے ہر ماہ ایک حصہ نکال کر ایسے ضرورت مندوں کی امداد کرتے ہیں، اگر آپ بھی ان کا ہاتھ بٹانا چاہیں اور مالی امداد کرنا چاہتے ہیں تو بتوسط ایکسپریس ہم سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ اﷲ ہم سب کو صحیح عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)