سندھ کے مفاد میں

ایم کیو ایم کی ان سولہ برسوں کے دوران پیپلز پارٹی کی حکومت کے دور میں تنقید زیادہ مؤثر ثابت ہوئی

tauceeph@gmail.com

برطانوی ہند حکومت نے جب جدید انتظامی نظام نافذکیا تو اس نظام کو عملی شکل دینے کے لیے قواعد و ضوابط بھی تیارکیے گئے۔ ان قواعد و ضوابط میں ایک شق یہ بھی تھی کہ ہر ضلع میں گریڈ 1سے گریڈ 15 تک کی تقرریاں اسی ضلع کے باشندوں پر مشتمل ہوں گی۔

اگست 1947میں جب ہندوستان کا بٹوارہ ہوا تو انڈیپنڈنٹ ایکٹ کے تحت وہ تمام قوانین جو برطانوی ہند حکومت کے دور میں نافذ تھے، وہ نئے ملک میں بھی نافذ ہوئے، یوں پاکستان میں ان قواعد و ضوابط پر مکمل طور پر عملدرآمد ہوتا رہا۔ اس قانون کو تیار کرنے والے اکابرین نے ہر ضلع کے افراد کو ملازمتیں دینے کے لیے یہ قواعد و ضوابط بنائے تھے مگر سندھ میں 2008میں قائم ہونے والی حکومت نے قواعد و ضوابط کو نظرانداز کر کے ملازمتیں بانٹنے کی پالیسی اختیارکی، یوں انتظامی قوانین کی خلاف ورزی ہی نہیں ہوئی بلکہ اکاؤنٹنٹ جنرل آف پاکستان کے نامزد کردہ آڈیٹرز نے بھی اعتراضات کی بھرمارکردی۔

اس ضمن میں نیب کے لیے ایک ریفرنس کی تیاری کی افواہیں بھی اخبارات میں شایع ہوئی تھیں، مگر پھر یہ معاملہ فائلوں کے نیچے دب گیا، مگر ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے اس مسئلے پر شور مچایا۔ ان کے اراکین نے پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی میں آواز اٹھائی مگر پھر اربابِ اختیار نے توجہ نہ دی تو ایم کیو ایم کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے سندھ ہائی کورٹ میں عرضداشت داخل کی اور طویل سماعت کے بعد سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس ظفر راجپوت نے 4 ہزار تقرریوں کو غیر قانونی قرار دیدیا۔

سندھ کے وزیر قانون ضیاء النجار نے ایک انگریزی معاصر کو انٹرویو دیتے ہوئے واضح کیا کہ حکومت سندھ اس فیصلے کو چیلنج نہیں کرے گی، اگر یہ سندھ حکومت کا پالیسی بیان ہے تو صوبہ کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے انتہائی مثبت فیصلہ ہے مگر ایم کیو ایم کی قیادت نے اپنی کامیابی کا جشن منانے کے لیے انتہائی جارحانہ رویہ اختیار کیا۔ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو پر ملک توڑنے کی سازش میں ملوث ہونے کے الزام لگانے کے ساتھ ذوالفقار علی بھٹو حکومت کی تعلیمی اداروں، بینکوں اور قومی صنعتوں کو قومیانے کی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

دوسری طرف سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن اور ناصر حسین شاہ نے ایک پریس کانفرنس میں فوری طور پر مطالبہ کیا کہ گورنر سندھ مستعفیٰ ہوجائیں اور ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی زیڈ اے بھٹو کے خلاف بیان دینے پر معذرت کریں۔ پھر اس مہم میں کراچی کے میئر مرتضیٰ وہاب بھی شامل ہوگئے۔ ایم کیو ایم کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے ویسا ہی بیانیہ اختیار کیا جیسا بیانیہ دائیں بازو کی مذہبی جماعتیں 70ء کی دہائی کے آخری عشرے میں بیان کرتی تھیں۔

مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کی ایک الگ داستان ہے۔ مغربی پاکستان کی حکمران اشرافیہ نے مشرقی پاکستان کو نوآبادی بنایا ہوا تھا اور مغربی پاکستان کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں سوائے نیشنل عوامی پارٹی کے مغربی پاکستان کی حکمران اشرافیہ کی ہم نوا تھیں ۔ اس حقیقت کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ سندھ میں سرکاری ملازمتوں کے لیے شہری اور دیہی کوٹہ جنرل یحییٰ خان کے گورنر جنرل رحمان گل نے نافذ کیا تھا۔


بھٹو حکومت کی تعلیمی پالیسی ایک بہترین پالیسی تھی۔ اس پالیسی کے تحت پاکستانی ریاست نے شہری کے تعلیم حاصل کرنے کے حق کو تسلیم کیا تھا، یوں تعلیمی ادارے قومیائے گئے تھے اور اس کے ساتھ ہی اساتذہ کے حالات کار اسی پالیسی کے تحت بہتر ہوئے تھے مگر المیہ یہ ہے کہ پھر تعلیمی اداروں کو ایمپلائمنٹ ایکسچینج میں تبدیل کرلیا گیا تھا اور اس سہولت سے برسر اقتدار آنے والی سیاسی جماعتوں اور بیوروکریسی نے خوب فائدہ اٹھایا تھا۔ان میں ایم کیو ایم بھی شامل تھی۔

قومی صنعتوں کو قومیانے سے مزدوروں کے حالاتِ کار بہتر ہوئے تھے، مگر پھر بیوروکریسی اور سیاسی جماعتوں کے لیبر ونگ نے ان صنعتی اداروں کو معاشی طور پر بدحالی کا شکار کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ یہ سلسلہ 1977 سے نئی صدی کے آغاز تک جاری رہا ۔ گزشتہ دنوں معاشیات کے ایک ماہر نے اپنی تحقیق کا ذکرکرتے ہوئے بتایا تھا کہ 1977تک تمام قومیائے ہوئے بینک اور صنعتی ادارے منافع میں چل رہے تھے۔ جنرل ضیاء کے دور سے ان اداروں کا زوال شرو ع ہوا۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کے سولہ سال بیڈ گورننس کی اعلیٰ مثال ہیں۔

ایم کیو ایم کی ان سولہ برسوں کے دوران پیپلز پارٹی کی حکومت کے دور میں تنقید زیادہ مؤثر ثابت ہوئی۔ پیپلز پارٹی کے وزراء کو بھی احتیاط کا درس نہیں چھوڑنا چاہیے۔ گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی کارکردگی قابلِ رشک ہے۔ انھوں نے گورنر ہاؤس کو عوام کے لیے کھول کر ان رہنماؤں کے دعوؤں کو عملی شکل دی ہے جو اقتدار میں آنے سے پہلے گورنر ہاؤس، وزیر اعظم ہاؤس اور ایوانِ صدر کو عوام کے لیے کھولنے کے دعوے کرتے ہیں مگر اقتدار میں آنے کے بعد سب کچھ بھول جاتے ہیں۔

گورنر ہاؤس میں جو سرگرمیاں ہوتی ہیں، کراچی کے تاجر ان کی مالی اعانت کرتے ہیں، ان پر سرکاری فنڈ خرچ نہیں کیا جاتا۔ پیپلز پارٹی کو گورنر سندھ کی سرگرمیوں سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ ایوانِ صدر اور پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں قائم گورنر ہاؤس کو بھی عوام کے لیے کھولنے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ شرجیل میمن نے اس پریس کانفرنس میں ایک اہم نکتہ اٹھایا کہ ایم کیو ایم قائدین نے پیپلز پارٹی کی قیادت سے جب بھی مذاکرات کیے کوٹہ سسٹم کے خاتمہ کے مسئلے کو ایجنڈا میں شامل نہیں کرایا، یوں بقول شرجیل اس معاملے میں ایم کیو ایم کی غیر سنجیدگی واضح طور پر نظر آتی ہے ۔

ایم کیو ایم میاں نواز شریف کی حکومت اور پھر پرویز مشرف حکومت کا حصہ رہے ہیں۔ ایک وقت ایسا تھی تھا کہ ایم کیو ایم پرویز مشرف کو بچانے کے لیے میدانِ عمل میں آئی اور 12 مئی کا افسوس ناک سانحہ رونما ہوا اور شہری علاقوں کے لیے ایک تضاد برقرار رہا، مگر اب جب صوبے کی سب سے اہم بااختیار شخصیت یہ اقرار کررہی ہے کہ صوبے کا نظام چلانے والی بیوروکریسی میں اچھی طرزِ حکومت کی اہلیت نہیں ہے تو پھر کوٹہ سسٹم پر نظرثانی پر غور ہونا چاہیے۔

حکومت کو بتانا چاہیے کہ سندھ کے کون کون سے اضلاع پسماندہ رہ گئے ہیں اور یہ اضلاع کب ترقی کی دوڑ میں شامل ہوںگے۔ ان اضلاع کو برسوں سے فراہم کیے جانے والے فنڈز کے استعمال کے بارے میں تحقیقات ہونی چاہئیں اور کوٹہ سسٹم کے نفاذ کی مدت کا تعین ہونا چاہیے مگر ان سب اقدامات سے پہلے دونوں جماعتوں کو انتہا پسندانہ مؤقف اختیار کرنے کے بجائے نرم رویہ کو اختیار کرنا چاہیے۔ دونوں جماعتوں کی قیادت کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ مہنگائی نے صوبہ کی تمام کمیونٹیز کے لوگوں کی کمر توڑ دی ہے۔ کوئی بھی قوت ان نئے تضادات سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ دونوں جماعتوں کو صوبے کے وسیع مفاد میں ایک دوسرے پر رکیک حملوں کے بجائے پرامن طریقہ اور بامقصد سیاست کے بیانیے پر توجہ دینی چاہیے۔
Load Next Story