کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
شاید اسد منیر کے اہل خانہ کے پاس اب کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے، وہ کس کو اپنا مجرم کہیں؟
چیئرمین نیب لیفٹیننٹ جنرل (ر) نذیر بٹ بریگیڈئیر اسد منیر کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے گئے ہیں اور انھوں نے قبر پر پھول بھی رکھے ہیں۔ بریگیڈیئر (ر) اسد منیر وہی ہیں جنھوں نے نیب کی جانب سے ہراسانی کی وجہ سے خود کشی کر لی تھی اور مرنے سے قبل اپنے لکھے ہوئے نوٹ میں انھوں نے نیب کو اپنی خودکشی کا ذمے دار ٹھہرایا تھا۔ ان کی خودکشی کے تین سال بعد احتساب عدالت نے بریگیڈیئر (ر) اسد منیر کو تمام الزامات سے بری کر دیا اور مکمل طور پر ایک ایماندار شخص قرار دے دیا۔ لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی اور وہ دنیا میں واپس نہیں آسکتے تھے۔
انھوں نے اپنے نوٹ میں جہاں اپنی بے گناہی کی بات کی تھی وہاں یہ بھی لکھا تھا کہ وہ ایسا اس لیے کر رہے ہیں کہ آیندہ نیب حکام کسی بے گناہ کو اس طرح ہراساں نہ کر سکیں۔ چیئرمین نیب اسد منیر مرحوم کی قبر پر پھول چڑھانے کے بعد ان کے اہل خانہ کے پاس بھی گئے ہیں۔ پہلے مرحوم اسد منیر کے اہل خانہ انھیں ملنے سے ہچکچاہٹ کر رہے تھے لیکن پھر ملاقات ہو گئی ۔ چیئرمین نیب نے مرحوم اسد منیر کی خودکشی کے محرکات جاننے کی کوشش کی اور اسد منیر کے گھر والوں سے تعزیت کی۔ نیب کو بریگیڈیئر (ر) اسد منیر کی خود کشی کے پانچ سال بعد یہ خیال آیا کہ ان کے اہل خانہ سے تعزیت بھی کی جانی چاہیے اور ان کی قبر پر پھول بھی چڑھانے چاہیے۔
شاید اسد منیر کے اہل خانہ کے پاس اب کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے، وہ کس کو اپنا مجرم کہیں؟ خبر یہی ہے کہ چیئرمین نیب اپنے اگلے دورہ لاہور میں میاں جاوید احمد کے گھر جانے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔ میاں جاوید احمد یونیورسٹی آف سرگودھا کے لاہور کیمپس کے وائس چانسلر تھے۔ نیب کی حراست میں کیمپ جیل میں انھیں دل کا دورہ پڑا، انھیں بروقت طبی امداد نہیں دی جا سکی اور وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ دکھی کر دینے والا منظر یہ تھا کہ جب ان کی لاش اسپتال کے اسٹریچر پر پڑی ہوئی تھی، اس لاش کو بھی جیل اور نیب حکام نے ہتھکڑی لگائی ہوئی تھی۔ نیب اور جیل حکام کو ڈر تھا کہ کہیں استاد کی لاش بھی ان کی حراست سے نہ بھاگ جائے۔
ہتھکڑی لگی لاش کی تصویر میڈیا پر آئی تو درد دل رکھنے والا ہر شہری غمگین ہو گیا۔ یہ تصاویر اب بھی کسی نہ کسی کے پاس محفوظ ہوں گی۔ چیئرمین نیب اب میاں جاوید مرحوم کی قبر پر بھی جانا چاہتے ہیں اور ان کے اہل خانہ سے بھی ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ چیئرمین نیب ان متاثرین کے گھر اور ان کی قبروں پر جا کر اچھا کام کر رہے ہیں۔ یہ ریاست اور نیب کا ایک مثبت قدم ہے۔
لہٰذا اس پر تنقید نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن میں ایسا نہیں سمجھتا۔ اگر اسد منیر کو ہراساں کرنے والے قانون کے کٹہرے میں نہیں ہیں تو قبر پر پھول چڑھانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ چیئرمین نیب کو چاہیے کہ وہ پہلے نیب میں ایک شفاف انکوائری کروائیں، ذمے داران کو سامنے لائیں پھر اسد منیر کے لواحقین سے پوچھا جائے کہ کیا آپ مدعی بننا چاہتے ہیں۔ شاید پھر انصاف کے کچھ تقاضے پورے ہو سکیں۔ اسی طرح میاں جاوید کی ہتھکڑی لگی لاش آج بھی ہم سے سوال کر رہی ہے، ان کے ذمے داران بھی اگر اپنے گھروں میں آرام سے سو رہے ہیں تو پھر کیا فائدہ۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر) نذیر بٹ سے پہلے چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال تھے۔ وہ تھے تو ایک ریٹائرڈ جج ۔ لیکن وہ اپنے دور میں کسی کو انصاف نہیں دے سکے۔ بے گناہ لوگ نیب کی وجہ سے خودکشی کر رہے تھے۔ لیکن ان کے ضمیر پر کوئی بوجھ نہیں تھا۔ وہ فخر کر رہے تھے کہ میں اور میری ٹیم بہت اچھا کام کر رہی ہے۔ یہ درست ہے کہ نیب احتساب کا ادارہ ہے۔ لیکن احتساب کے ساتھ نیب کو ظلم کا لائسنس بھی نہیں دیا جا سکتا۔ نیب کے یکطرفہ قوانین اور تفتیشی افسران کے احتساب کا میکنزم نہ ہونے کی وجہ سے ظلم اور زیادتی کا دروازہ کھلا۔ میں سیاسی مقدمات کی بات نہیں کر رہا۔ میں کسی سیاستدان کے ساتھ ہونے والے ظلم کی بات نہیں کر رہا۔ جنھوں نے کل ظلم کیا تھا وہ آج بھگت رہے ہیں۔
یہ میوزیکل چیئر جاری ہے اور جاری رہے گی۔ شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ نیب کو ختم کر دیا جائے۔ میں بھی کسی حد تک اس کا حامی ہوں۔ لیکن کرپشن مافیا کو کھلا بھی نہیں چھوڑا جا سکتا، مسئلہ قوانین واختیارات میں چیک اینڈ بیلنس کا نہ ہونا ہے۔ اگر سرکاری ادارے اور افسروں کو لامحدود اختیارات ہوں لیکن ان کے احتساب کا کوئی میکنزم اور قانون نہ ہو تو ظلم وزیادتی کبھی بند نہیں ہو سکتی۔ بار ثبوت ملزم پر ڈالنا کہ وہ خود اپنی بے گناہی ثابت کرے جب کہ افسران کا کام محض الزامات کی لسٹ تیار کر کے مبینہ ملزم کے سامنے رکھنا، کیا یہ انصاف کے تقاضوں پر پورا اترتا ہے؟ ریاست کی ضروریات ہوتی ہیں لیکن ریاست اپنی ضروریات کا حل نکال لیتی ہے۔
سوال عام آدمی کا ہے۔ اس کے ساتھ ظلم تو ریاست کی ضرورت نہیں۔ اسد منیر تو ریاست کی ضرورت نہیں تھا، میاں جاوید علی تو ریاست کی ضرورت نہیں تھا، مفتاح اسماعیل بھی نیب کی حراست کی روداد بتاتے ہوئے رو پڑتے ہیں۔ وہ بھی کہتے ہیں کہ ان کا خاندان شدید ہراسانی کا شکار رہا۔ ویسے تو پولیس اور ایف آئی اے سمیت تمام تفتیشی اداروں کی حراست میں ظلم ہوتا ہے۔ جو نیب کے تفتیشی کرتے ہیں وہ پولیس تھانوں میں بھی ہوتا ہے۔ لوگ پولیس کے ظلم سے بھی مر جاتے ہیں۔لوگ پولیس کے حراست میں بھی مر جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس سسٹم کو ایسے ہی چلنا چاہیے۔ نیب میں اصلاحات وقت کی ضرورت ہیں۔ نیب سمیت تمام اداروں کی تفتیش کا طریقہ بدلنے کی ضرورت ہے۔ بغیر ثبوت کے کسی شہری کو حراست میں لینا درست نہیں ہے، اس حوالے سے پارلیمنٹ کو واضح اور ٹھوس قوانین بنانے چاہئیں۔
انھوں نے اپنے نوٹ میں جہاں اپنی بے گناہی کی بات کی تھی وہاں یہ بھی لکھا تھا کہ وہ ایسا اس لیے کر رہے ہیں کہ آیندہ نیب حکام کسی بے گناہ کو اس طرح ہراساں نہ کر سکیں۔ چیئرمین نیب اسد منیر مرحوم کی قبر پر پھول چڑھانے کے بعد ان کے اہل خانہ کے پاس بھی گئے ہیں۔ پہلے مرحوم اسد منیر کے اہل خانہ انھیں ملنے سے ہچکچاہٹ کر رہے تھے لیکن پھر ملاقات ہو گئی ۔ چیئرمین نیب نے مرحوم اسد منیر کی خودکشی کے محرکات جاننے کی کوشش کی اور اسد منیر کے گھر والوں سے تعزیت کی۔ نیب کو بریگیڈیئر (ر) اسد منیر کی خود کشی کے پانچ سال بعد یہ خیال آیا کہ ان کے اہل خانہ سے تعزیت بھی کی جانی چاہیے اور ان کی قبر پر پھول بھی چڑھانے چاہیے۔
شاید اسد منیر کے اہل خانہ کے پاس اب کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے، وہ کس کو اپنا مجرم کہیں؟ خبر یہی ہے کہ چیئرمین نیب اپنے اگلے دورہ لاہور میں میاں جاوید احمد کے گھر جانے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔ میاں جاوید احمد یونیورسٹی آف سرگودھا کے لاہور کیمپس کے وائس چانسلر تھے۔ نیب کی حراست میں کیمپ جیل میں انھیں دل کا دورہ پڑا، انھیں بروقت طبی امداد نہیں دی جا سکی اور وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ دکھی کر دینے والا منظر یہ تھا کہ جب ان کی لاش اسپتال کے اسٹریچر پر پڑی ہوئی تھی، اس لاش کو بھی جیل اور نیب حکام نے ہتھکڑی لگائی ہوئی تھی۔ نیب اور جیل حکام کو ڈر تھا کہ کہیں استاد کی لاش بھی ان کی حراست سے نہ بھاگ جائے۔
ہتھکڑی لگی لاش کی تصویر میڈیا پر آئی تو درد دل رکھنے والا ہر شہری غمگین ہو گیا۔ یہ تصاویر اب بھی کسی نہ کسی کے پاس محفوظ ہوں گی۔ چیئرمین نیب اب میاں جاوید مرحوم کی قبر پر بھی جانا چاہتے ہیں اور ان کے اہل خانہ سے بھی ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ چیئرمین نیب ان متاثرین کے گھر اور ان کی قبروں پر جا کر اچھا کام کر رہے ہیں۔ یہ ریاست اور نیب کا ایک مثبت قدم ہے۔
لہٰذا اس پر تنقید نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن میں ایسا نہیں سمجھتا۔ اگر اسد منیر کو ہراساں کرنے والے قانون کے کٹہرے میں نہیں ہیں تو قبر پر پھول چڑھانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ چیئرمین نیب کو چاہیے کہ وہ پہلے نیب میں ایک شفاف انکوائری کروائیں، ذمے داران کو سامنے لائیں پھر اسد منیر کے لواحقین سے پوچھا جائے کہ کیا آپ مدعی بننا چاہتے ہیں۔ شاید پھر انصاف کے کچھ تقاضے پورے ہو سکیں۔ اسی طرح میاں جاوید کی ہتھکڑی لگی لاش آج بھی ہم سے سوال کر رہی ہے، ان کے ذمے داران بھی اگر اپنے گھروں میں آرام سے سو رہے ہیں تو پھر کیا فائدہ۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر) نذیر بٹ سے پہلے چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال تھے۔ وہ تھے تو ایک ریٹائرڈ جج ۔ لیکن وہ اپنے دور میں کسی کو انصاف نہیں دے سکے۔ بے گناہ لوگ نیب کی وجہ سے خودکشی کر رہے تھے۔ لیکن ان کے ضمیر پر کوئی بوجھ نہیں تھا۔ وہ فخر کر رہے تھے کہ میں اور میری ٹیم بہت اچھا کام کر رہی ہے۔ یہ درست ہے کہ نیب احتساب کا ادارہ ہے۔ لیکن احتساب کے ساتھ نیب کو ظلم کا لائسنس بھی نہیں دیا جا سکتا۔ نیب کے یکطرفہ قوانین اور تفتیشی افسران کے احتساب کا میکنزم نہ ہونے کی وجہ سے ظلم اور زیادتی کا دروازہ کھلا۔ میں سیاسی مقدمات کی بات نہیں کر رہا۔ میں کسی سیاستدان کے ساتھ ہونے والے ظلم کی بات نہیں کر رہا۔ جنھوں نے کل ظلم کیا تھا وہ آج بھگت رہے ہیں۔
یہ میوزیکل چیئر جاری ہے اور جاری رہے گی۔ شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ نیب کو ختم کر دیا جائے۔ میں بھی کسی حد تک اس کا حامی ہوں۔ لیکن کرپشن مافیا کو کھلا بھی نہیں چھوڑا جا سکتا، مسئلہ قوانین واختیارات میں چیک اینڈ بیلنس کا نہ ہونا ہے۔ اگر سرکاری ادارے اور افسروں کو لامحدود اختیارات ہوں لیکن ان کے احتساب کا کوئی میکنزم اور قانون نہ ہو تو ظلم وزیادتی کبھی بند نہیں ہو سکتی۔ بار ثبوت ملزم پر ڈالنا کہ وہ خود اپنی بے گناہی ثابت کرے جب کہ افسران کا کام محض الزامات کی لسٹ تیار کر کے مبینہ ملزم کے سامنے رکھنا، کیا یہ انصاف کے تقاضوں پر پورا اترتا ہے؟ ریاست کی ضروریات ہوتی ہیں لیکن ریاست اپنی ضروریات کا حل نکال لیتی ہے۔
سوال عام آدمی کا ہے۔ اس کے ساتھ ظلم تو ریاست کی ضرورت نہیں۔ اسد منیر تو ریاست کی ضرورت نہیں تھا، میاں جاوید علی تو ریاست کی ضرورت نہیں تھا، مفتاح اسماعیل بھی نیب کی حراست کی روداد بتاتے ہوئے رو پڑتے ہیں۔ وہ بھی کہتے ہیں کہ ان کا خاندان شدید ہراسانی کا شکار رہا۔ ویسے تو پولیس اور ایف آئی اے سمیت تمام تفتیشی اداروں کی حراست میں ظلم ہوتا ہے۔ جو نیب کے تفتیشی کرتے ہیں وہ پولیس تھانوں میں بھی ہوتا ہے۔ لوگ پولیس کے ظلم سے بھی مر جاتے ہیں۔لوگ پولیس کے حراست میں بھی مر جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس سسٹم کو ایسے ہی چلنا چاہیے۔ نیب میں اصلاحات وقت کی ضرورت ہیں۔ نیب سمیت تمام اداروں کی تفتیش کا طریقہ بدلنے کی ضرورت ہے۔ بغیر ثبوت کے کسی شہری کو حراست میں لینا درست نہیں ہے، اس حوالے سے پارلیمنٹ کو واضح اور ٹھوس قوانین بنانے چاہئیں۔