پریشاں روزگار و آشفتہ سر

دودھ والا دو تاریخ کو بل پیش کر دیتا ہے، مگر دو ایک روز سے زیادہ کی مہلت دینے کو تیار نہیں

گزشتہ دنوں ہمارے ایک دوست جوکسی نیم سرکاری محکمے میں برسر روزگار ہیں ہمارے پاس آئے۔ صورت سے انتہائی خستہ حال پریشان نظر آ رہے تھے، بقول اقبال۔

وہ پریشاں روزگار،آشفتہ سر،آشفتہ ہو

ہم نے کہا خیر تو ہے، اس پریشاں حالی اور خستگی طبع کی وجہ کیا ہے۔ بڑی دل گرفتگی اور پست آواز میں فرمانے لگے۔'' بھائی! کیا پوچھتے ہو، سوچتے ہیں کہ کہیں سے کچھ خیرات ویرات مل جائے تو اس عذاب سے نجات ملے، جس میں ہم مبتلا ہیں'' ہم نے ان کی بات کو مذاق اور ان کی حالت کو ایکٹنگ پر قیاس کر کے نظرانداز کرنے کی کوشش کی اور بات کو بدلنے کے لیے گفتگو کا پینترا بدلنے کی کوشش کی مگر وہ اپنا درد دل سنانے میں سنجیدہ نظر آئے تو ہمیں ہتھیار ڈالنا پڑے۔ عرض کیا اگر کچھ ایسی مالی پریشانی ہے جس میں ہم اپنی محدود استطاعت کے ذریعے کچھ مدد کرسکیں تو ہمیں اس سے انکار نہ ہوگا۔ کہنے لگے '' بھائی! اگر ایک دو روز کی بات ہو تو میں آپ سے قرض ادھار کر لوں، مگر اب تو یہ ہمارے محکمے کا وتیرہ ہو گیا ہے۔''

ہمارے کان کھڑے ہوئے اور ہم نے ان سے درد دل بیان کرنے کی استدعا کی۔ فرمانے لگے ''بدقسمتی سے پنشنر ہوں۔ کئی سال سے پنشن لے رہا ہوں، مگر اب محکمے کا طرز عمل یہ ہوگیا ہے کہ ملازمین کو تو تنخواہ کسی نہ کسی طور بروقت مل جاتی ہے مگر بے چارے پنشنرز کو آٹھ دس تاریخ سے قبل پنشن میسر نہیں آتی۔ اگر ملازم کو اس کی ماہانہ خدمات کے صلے میں تنخواہ ملتی ہے تو پنشنر کو اپنی زندگی کا سنہری عہد اپنے معاشرے کی خدمات انجام دینے کے سلسلے میں پنشن ملتی ہے۔ پھر یہ امتیاز آخرکیوں؟''

عرض کیا کہ '' اس کا حل یوں کیجیے کہ اپنے مہینے کو پہلی تاریخ کے بجائے دس تاریخ سے شروع کر دیجیے۔ دس تاریخ سے ایک ماہ شمار کرنے سے بڑی حد تک مسئلہ حل ہو جائے گا۔'' فرمانے لگے '' آپ اپنے آپ کو بزرجمہر خیال کرتے ہیں جو حل آپ بتا رہے ہیں، بہت پہلے ہمارے ذہن میں بھی یہی حل آیا تھا اور سچی بات یہ ہے کہ جہاں تک گھریلو مصارف کا تعلق ہے ہم پوری طرح نہ سہی کسی نہ کسی حد تک اس پر عمل پیرا بھی ہیں مگر آپ کو ہمارے دوسرے مگر اہم مسائل کا اندازہ نہیں۔ جمعدار پہلی تاریخ کو اپنی تنخواہ کا مطالبہ کرتا ہے اور ہمارے سمجھانے بجھانے پر بھی ہماری بات ماننے کو تیار نہیں، البتہ کام چھوڑنے پر آمادہ ہے۔

دودھ والا دو تاریخ کو بل پیش کر دیتا ہے، مگر دو ایک روز سے زیادہ کی مہلت دینے کو تیار نہیں۔ سقہ یعنی پانی کا کین لانے والا تین تاریخ کو سر پر مسلط ہو جاتا ہے کہ صاحب ہم غریب لوگ ہیں، ہمیں بھی آگے پیسہ دینا ہوتا ہے۔ چار تاریخ کو کھانا پکانے والی پیسوں کا مطالبہ کرتی ہے اور اپنے بچوں کی حالت زارکا ذمے دار ہم کو قرار دینے لگتی ہے کہ ہم دو تین گھروں میں کام کرکے کسی نہ کسی طرح بچوں کا پیٹ پالتے ہیں اگر پیسے نہ ملیں تو ہم تو فاقے مر جائیں گے۔ پانچ تاریخ کو وہ ملازمہ جو جھاڑو پوچھے پر متعین ہے تقریباً رونے لگتی،کبھی دہائیاں دیتی ہے اور ہمیں پوری توقع ہے کہ دل ہی دل میں ہمیں کوستی ہوگی کہ ہم اس کا معمولی سا معاوضہ بروقت دینے میں بھی ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں۔یہ حال تو گھریلو ملازمین کا ہے۔ سودا سلف بازار سے آتا ہے۔ کھانے پینے کی اشیا کی قیمت آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں، راشن اب ہم قسطوں میں خریدتے ہیں، دکان داروں کے یہاں کھاتا نہیں کھولا جا سکتا۔''


سب سے آخر میں مگر سب سے اہم بات رہی جا رہی ہے عمر کے جس حصے میں انسان کو پنشن ملتی ہے وہ حصہ خوشیوں، مسرتوں، بھاگ دوڑ، جدوجہد کا نہیں رہتا۔ یہ دور بیماریوں، عارضوں اور دوا داروکا دور ہوتا ہے۔ آپ کو علم ہے کہ ہم دل کے مریض ہیں، یہ مرض موت تک پیچھا نہیں چھوڑتا۔ نہ چھوڑے مگر کم بخت اس مرض کا تقاضا ہے کہ دوا ایک وقت کی قضا نہ ہو۔ اس لیے میڈیکل اسٹور سے اچھے تعلقات رکھنا، اپنے طبیب کو فیس دیتے رہنا بھی لازم ہے۔ اب اگر پنشن بروقت نہ ملے تو دوا میڈیکل اسٹور سے اللہ واسطے تقسیم نہیں ہوتی۔

آدمی خود پر جبر کر سکتا ہے۔ کپڑے لتے، کھانے پینے میں کفایت روا رکھ سکتا ہے یا تاخیرکر سکتا ہے۔ جو کچھ اپنی ذات تک ہو سکتا ہے وہ کر ہی سکتا ہے مگر جب محلے کے چوکیدار کو پیسے ملنے میں دیر ہو، جمعدار کو کیسے سمجھایا جائے کہ پنشن دیر سے ملتی ہے۔ دودھ والا ہمیں جھوٹا گردانتا ہے، سقہ پانی بند کرنے کی دھمکی دیتا ہے، نوکرانی کام چھوڑنے پر مائل ہے، غرض ہر خدمت گار ہمیں دروغ گو، وعدہ خلاف، کنجوس، دغا باز اور نہ جانے کیا کیا سمجھتا ہے۔

ہمیں نہ اپنے ریٹائر ہونے کا غم ہے، نہ پنشن دیر سے ملنے کا شکوہ ہے۔ یہ ہمارے چھوٹے چھوٹے کم آمدنی والے ملازمین جو کل تک ہماری خدمت بہ رضا و رغبت اور بہ خوشی و مسرت انجام دیتے تھے، اب اتنی ہی ناگواری اور ناپسندیدگی سے انجام دیتے ہیں اور ہر ماہ تاخیر سے سہی ان کو ان کی تنخواہ مل بھی جاتی ہے مگر وہ ہم سے راضی نہیں ہوتے۔

ہمارے بارے میں ان کی رائے میں جو تبدیلی واقع ہوئی ہے اس نے ہمیں کہیں کا نہیں رکھا۔ ہم اپنی مجبوریوں کا ان کو یقین دلانے میں ناکام رہے ہیں کیونکہ یہ لوگ سرکارِ دولت مدارکے ملازم نہیں رہے۔ یہ کبھی ریٹائر نہیں ہوتے، اس لیے انھیں ریٹائرمنٹ کے بعد کے مسائل سے دور دورکی واقفیت نہیں۔

ہماری یہ جو حالت تم دیکھ رہے ہو، یہ کچھ سبک دوش ہو جانے کے باعث نہیں بلکہ اس عدم اعتماد کے سبب ہے جو سبکدوشی کے باعث معاشرے نے بلاجواز ہم پر مسلط کر دی ہے۔

ہمارا خیال ہے کہ بڑھاپا صرف ہم پر نہیں آیا یہ تو سب پر آتا رہے گا اور سبھی کو اس انجام سے دوچار ہونا پڑے گا اگر وہ نوکری کریں تو۔
Load Next Story