جی ایس پی پلس اور بجلی گیس کے نرخ
برصغیر پاک و ہند میں پندرہویں صدی سے ہی یورپی اقوام کی جانب سے بحری تجارت میں اضافہ ہونا شروع ہو چکا تھا۔ اس سے قبل بحری تجارت میں ترکوں اور عربوں کی طرف سے تجارتی جہاز آیا کرتے تھے جب کہ بری راستے سے ہندوستانی مال یورپ کی منڈیوں تک پہنچتا تھا لیکن یورپی اقوام کی جانب سے برصغیر تک پہنچنے کے لیے بحری راستوں کی دریافت کے بعد کئی یورپی اقوام نے تجارت کی غرض سے برصغیر میں اپنے قدم جمانے کی کوشش کی پہلے پرتگالی خوب تجارت کرتے رہے پھر ولندیزی آگئے اور انگریزوں نے تجارت کے ساتھ قلعہ بند ہونا بھی شروع کردیا تھا۔
1611 میں سورت میں انھوں نے فیکٹری بنا ڈالی۔ اس کے ساتھ فرانسیسی بھی متحرک تھے اور اس میں 1660میں فرانس نے اپنی فیکٹری لگا لی تھی اور انگریزوں کے مخالف کے طور پر مقامی حکمرانوں کے ساتھ سیاست میں ملوث ہوگئے تھے۔ اس طرح کئی یورپی اقوام نے برصغیر میں کامیاب ترین تجارت کی۔ یہاں کی دولت کو خوب لوٹا۔ عوام کی جیب خالی کی اور انگریزوں کی برتری کے باعث دیگر اقوام یورپ بتدریج یہاں سے چلتے بنے۔
انگریزوں کو بہت اہم ترین تجارتی مراعات و آزادی کا پروانہ مل چکا تھا جس کی بنا پر انھوں نے بتدریج پورے برصغیر پر حکمرانی کا خواب دیکھنا شروع کردیا تھا، اگرچہ وہ پورے برصغیر میں اپنی لوٹ مارکا آغاز کرچکے تھے، لیکن 1757 میں جنگ پلاسی (بنگال) کے بعد حکمرانی کا آغاز ہو چکا تھا۔ اس طرح ایک سو سال بعد 1857 کی جنگ آزادی کے اختتام کے ساتھ پورے برصغیر میں ان کی حکمرانی قائم ہوچکی تھی۔ اس حکمرانی کا آغاز اس تجارتی مراعات کے پروانے سے شروع ہو چکا تھا اور یہ مراعات تجارتی آزادی کا حکم نامہ انھوں نے مغل بادشاہ سے چند منٹوں میں حاصل کر لیا تھا۔ادھر 1947 آ پہنچا، پاکستان آزاد ہوا، مختلف یورپی ممالک کے ساتھ تجارت کا آغاز ہوا۔
نئی صدی کا آغاز ہوتا ہے، پاکستان کا تجارتی خسارہ بڑھنے لگتا ہے، یورپ کی جانب سے مختلف ترقی پذیر ممالک کے لیے تجارتی مراعات دی جانے لگیں، ایسے میں پاکستان نے بھی اپنی جدوجہد شروع کر رکھی تھی اور پاکستانی حکمران پرامید تھے کہ یورپی یونین کی کئی اقوام ایسی ہیں جنھوں نے برصغیر میں تجارت کی۔ برطانیہ جوکہ اس وقت یورپی یونین میں شامل تھا۔
اس کی طرف سے ہر طرح سے بھرپور حمایت اور برطانیہ کی طرف سے تجارتی مراعات کا حصول اپنا حق سمجھ رہے تھے، لیکن کئی عشروں تک پاپڑ بیلنے کے بعد پاکستان کو دیگر اقوام کے مقابلے میں کافی تاخیر کے ساتھ 2014 سے جی ایس پی پلس کا درجہ حاصل ہوا۔ یوں سمجھ لیں کہ کچھ نہ کچھ ایسی مراعات حاصل ہوئیں جس کی بنا پر یہ امید ہو چلی تھی کہ یورپی یونین کے لیے پاکستانی برآمدات میں کئی گنا اضافہ ہو جائے گا۔ ہمارا تجارتی خسارہ غائب ہو جائے گا۔
ہماری بیرونی تجارت موافق ہو جائے گی، پھر کون سا قرضہ، کیسا قرضہ۔ کون ہے آئی ایم ایف؟ یہ تمام خواب تو سجا لیے گئے تھے، اب تجارتی مراعات کچھ نہ کچھ حاصل تو ہوئیں لیکن اس کے ساتھ 52 شرائط کی لسٹ بھی تھما دی گئی۔ ہر دم یہ خطرہ بھی منڈلاتا رہتا ہے کہ کب جی ایس پی پلس کا اسٹیٹس واپس لے لیا جائے۔ قصہ مختصر نتائج کچھ یوں نکل آئے اخباری اطلاعات کے مطابق یورپ میں پاکستانی اشیا کی مانگ میں کمی واقع ہوتی ہے۔ برآمدات 3.5 فی صد گر گئیں، پاکستان کے جی ایس پی پلس اسٹیٹس کے باوجود گزشتہ مالی سال کے 11 مہینوں میں کل برآمدات 7 ارب 73 کروڑ70 لاکھ ڈالر تھیں جب کہ مالی سال 2022-23 کے 11 ماہ میں کل برآمدی مالیت 8 ارب 2 کروڑ 40 لاکھ ڈالرز کے باعث 3.5 فی صد کمی نوٹ کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ کچھ عرصہ ہوا برطانیہ یورپی یونین کو خیرباد کہہ چکا ہے، لہٰذا آج اپنی توجہ ان چند یورپی ممالک کی طرف مبذول کرکے یہ دیکھتے ہیں کہ ہماری طرف سے کی گئی کل برآمدات میں سے کتنا حصہ ان ملکوں کو ایکسپورٹ کیا گیا۔ پی بی ایس کی ایک رپورٹ کے مطابق جولائی تا مارچ 2024 تک جرمنی کے لیے پاکستانی برآمدات کی مالیت 10820 ملین روپے کے باعث کل برآمدات میں جرمنی کا شیئر 4.99 فی صد رہا جب کہ اس سے گزشتہ مالی سال یعنی جولائی تا مارچ 2023 تک یہ حصہ 5.14 فی صد تھا۔ اب نیدر لینڈ کی بات کرتے ہیں، پاکستان کا اہم تجارتی شراکت دار بھی ہے اور ہم بہت سی مصنوعات ان سے درآمد بھی کرتے ہیں۔
اس ملک کے لیے ہماری برآمدات کا حجم 105867 ملین روپے کے باعث حصہ4.77 فی صد بنا اور اس کے بالمقابل مدت یعنی جولائی تا مارچ 2023 میں یہ شیئر 5.43 فی صد تھا۔ اسپین کے لیے ہماری ایکسپورٹ کی مالیت 97909 ملین روپے بمطابق جولائی تا مارچ 2024 تک کی تھیں، اس طرح کل حصہ 4.41 فی صد بنا اور اس کے بالمقابل مدت جولائی تا مارچ 2023 تک اس کا شیئر 5.33 فی صد تھا۔
اٹلی کا حصہ جولائی مارچ 2024، 3.67 فی صد تھا جب کہ جولائی تا مارچ 2023 یہ حصہ 4.18 فی صد تھا۔ اس طرح ہماری کل ایکسپورٹ کی مالیت میں سے محض 1.49 فی صد حصے کی برآمدات فرانس کے لیے جوکہ اس سے قبل جولائی مارچ 2023 کے لیے 1.78 فی صد تھا۔ اس طرح مجموعی طور پر جب جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات درست نکل آئے گی کہ گزشتہ 11 مہینوں میں یورپ کے لیے پاکستانی برآمدات میں 3.5 فی صد کمی واقع ہوئی ہے۔ حکومت آئی ایم ایف سے ٹیبل ٹاک کرے اور بتائے کہ بجلی نرخوں میں اضافے کے باعث جی ایس پی پلس اسٹیٹس کا پاکستان کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہو رہا ہے لہٰذا بجلی گیس نرخوں میں اضافے کا مطالبہ واپس لیا جائے۔