استاد کے قتل کا سودا

جرگے کے فیصلے کے مطابق ڈاکٹر اجمل ساوند کے خون کا معاوضہ ایک کروڑ روپے طے پایا

tauceeph@gmail.com

ڈاکٹر اجمل ساوند کے قتل کا سودا ہوگیا۔ جرگے کے فیصلے کے مطابق ڈاکٹر اجمل ساوند کے خون کا معاوضہ ایک کروڑ روپے طے پایا۔ ڈاکٹر اجمل ساوند ایک ذہین طالب علم تھے، انھوں نے دنیا کی مشہور فرانس کی Descartes University سے آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے مضمون میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔


ڈاکٹر اجمل ساوند کا مستقبل روشن تھا، وہ یورپ اور امریکا کی کسی یونیورسٹی میں ملازمت کرسکتے تھے مگر اجمل ساوند نے ملک واپس آکر سندھ کی خدمت کرنے کا فیصلہ کیا اور آئی بی اے سکھر کے کمپیوٹر سائنس کے شعبے میں تدریس کے فرائض انجام دیتے تھے۔ ڈاکٹر اجمل کسی قبائلی جھگڑے میں کبھی شامل نہ ہوئے، وہ اور ان کے قبیلے کے کئی تعلیم یافتہ نوجوان سکھر اور کراچی میں اس لیے رہنے لگے تھے، تاکہ قبائلی جھگڑوں سے محفوظ رہیں۔


انھیں گزشتہ سال ایک قبیلے کے جنگجوؤں نے اس وقت قتل کیا تھا جب وہ کندھ کوٹ کے کچے کے علاقے میں اپنی زمینوں پر گئے تھے۔ ڈاکٹر اجمل ساوند کے قتل کا تعلیمی حلقوں میں خاصا غم منایا گیا تھا۔ سندھ کی حکومت نے قاتلوں کی گرفتاری کے عزم کا اظہار کیا مگر ڈاکٹر اجمل ساوند کے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے عملا کچھ نہ ہوا۔ ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ڈاکٹر اجمل ساوند نے قبیلہ کے جنگجوؤں کو بھتہ دینے سے انکار کیا تھا۔


قومی اخبارات میں شایع ہونے اور ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والے مواد سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ مہینے سندھ اور پنجاب کی سرحد سے متصل گھوٹکی ضلع کے گاؤں خان گڑھ میں گرانڈ جرگہ منعقد ہوا۔ اس جرگہ میں برسرِ اقتدار جماعت کے ارکان بھی شامل تھے ۔ سکھر ضلع کی پولیس نے جرگہ کے ارکان کے تحفظ کے لیے انتہائی سخت اقدامات کیے تھے۔ جرگہ نے فریقین کے دلائل و واقعات کو غور سے سنا تو پتا چلا کہ سندرانی قبیلہ کو 12 افراد کے قتل کا ذمے دار قرار دیا گیا جس میں ڈاکٹر اجمل ساوند کا قتل بھی شامل تھا۔ ایک رپورٹ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ جرگہ کے دو سیشن ہوئے۔


ساوند اور سندرانی قبیلہ کے عمائدین نے رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں دلائل دیے۔ فیصلہ جرگہ کے شرکاء کے سامنے پڑھا گیا۔ اس فیصلہ میں کہا گیا کہ دونوں قبائل کے درمیان گزشتہ دو برسوں کے دوران ہونے والے تصادم کے مختلف واقعات میں 24 افراد ہلاک اور 20 کے قریب افراد زخمی ہوئے تھے۔ جرگہ کے فیصلہ میں مرنے اور زخمی ہونے والے افراد کے سماجی مرتبہ کے تحت معاوضہ کی رقم کا تعین کیا گیا۔


اس فیصلے کے تحت ساوند قبیلہ کے 13 افراد کی ہلاکت اور 12 زخمیوں کا معاوضہ 32.1 ملین طے ہوا۔ جرگہ کے فیصلے کے مطابق ساوند قبیلہ کے افراد سندرانی قبیلہ کے 11 افراد کے قتل اور 8 کے زخمی ہونے کے معاوضہ کے طور پر 35.1 ملین رقم ادا کرنے کے پابند ہونگے۔ اسی طرح پروفیسر اجمل ساوند اور ایک وکیل نور الٰہی کے قتل کے عوض ایک ایک کروڑ روپے اور ساوند قبیلہ کی ایک نوجوانی لڑکی بشرہ ساوند کے قتل کا معاوضہ 4 ملین طے ہوا۔ جرگہ کے اختتام پر واضح طور پر اعلان کیا گیا کہ اگر کوئی فریق اس معاہدے کی خلاف ورزی کرے گا تو اس فریق پر 20 ملین روپے جرمانہ ہوگا۔


سندھ میں جرگہ کے انعقاد پر پابندی ہے۔ سندھ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس رحمت حسین جعفری نے 23 اپریل 2004 کو ایک معرکتہ الآراء فیصلے میں جرگہ کے نظام کو آئین اور قانون کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے جرگہ کے انعقاد کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلہ کو رد کرتے ہوئے جرگہ کے انعقاد کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ فاضل عدالتوں کے ججوں نے لکھا تھا کہ جرگہ کا نظام انصاف کے جدید نظام کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔



ان فیصلوں میں کہا گیا تھا کہ ان جرگوں میں عورتوں کو شرکت کی اجازت نہیں ہوتی اور جرگہ کا انعقاد کرنے والے عورتوں کا مؤقف جانے بغیر فیصلہ صادر کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے 2019میں کیے گئے فیصلہ میں یہ بھی کہا تھا کہ پاکستان انسانی حقوق کے عالمی چارٹر (UDHR)) کا پابند ہے۔ اس چارٹر کی شق 7اور 8 کے تحت ریاست ہر فرد کو انصاف کے حصول کے لیے یکساں مواقعے فراہم کرنے کی پابند ہے، مگر جرگہ میں اس اصول کو پامال کیا جاتا ہے۔


انسانی حقوق کی تحریک کے سرگرم کارکن اور سینئر صحافی آئی اے رحمن نے جرگہ کے نظام کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے مضامین تحریر کیے اور اس بارے میں عدالتوں کے فیصلوں پر عملدرآمد کرنے کے لیے مسلسل کوشش کی۔ آئی اے رحمن نے ایک آرٹیکل میں لکھا تھا کہ جرگہ کا انعقاد انسانی حقوق کے بارے میں بین الاقوامی کنونشنز اور آئین کی متعلقہ دفعات کی واضح خلاف ورزی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جرگہ کے نظام میں خواتین کی نمایندگی نہیں ہوتی۔ اندرونِ سندھ کام کرنے والے انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ جرگہ کے انعقاد کے بہت سے مضمرات ہیں۔


ان کا کہنا ہے کہ جب بھی جرگہ کا انعقاد ہوتا ہے تو جن فریقوں کے مقدمات جرگہ میں پیش ہوتے ہیں متعلقہ سردارکو خطیر معاوضہ ادا کرتے ہیں، تب کہیں جاکر متعلقہ سردار جرگہ کے انعقاد پر تیار ہوتے ہیں۔ اگرچہ جرگہ کے فیصلہ کے تحت دو قبائل میں فوری طور پر تو جنگ بندی ہوجاتی ہے مگر جرگہ میں کبھی قاتلوں کی نشاندہی نہیں ہوتی، یوں قاتلوں کو سزا نہیں ہوتی اور اپنے حلقہ میں سرخ رو ہوجاتے ہیں۔


اس طرح نوجوانوں کے لیے ان افراد کی شخصیت پرکشش ہوجاتی ہے۔ برسوں بعد یہ خبریں بھی آتی ہیں کہ نوجوان لڑکے نے برسوں قبل ہونے والے والد، بھائی، چچا اور ماموں کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے دوسرے قبیلے کے شخص کو قتل کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ جرگوں کے انعقاد اور ان میں کیے گئے فیصلوں کے باوجود اندرونِ سندھ مخالفین کے قتل کا سلسلہ جاری رہتا ہے مگر بعض وکلاء جرگہ کے انعقاد کی ذمے داری انصاف کے جدید نظام کے نقائص اور پولیس کے نظام پر عائد کرتے ہیں۔


ابھی تک ملک میں پولیس کا نظام اتنا فرسودہ ہے کہ عام آدمی کے کسی بھی مقدمے کی تفتیش فوری طور پر ممکن نہیں ہوتی اور عموماً پولیس والے ملزمان کو بچانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ مقدمات کے فیصلوں میں برسوں لگ جاتے ہیں۔ عام آدمی انصاف کی خواہش لیے دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے مگر ایک اور حقیقت یہ بھی ہے کہ سندھی معاشرے میں جدید تقاضوں کے مطابق تبدیلیاں ہوتی نظر آتی ہیں۔ اب ہر گھر میں لڑکے کے ساتھ لڑکی کے تعلیم حاصل کرنے کے حق کو تسلیم کرلیا گیا ہے۔


نوجوان جدید تعلیم کے ساتھ نئے پیشے اختیار کر رہے ہیں اور اپنے آبائی گھروں کو چھوڑ کر شہروں میں منتقل ہو رہے ہیں بلکہ یورپ اور امریکا جارہے ہیں۔ اسی طرح خواتین تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ تعلیم، صحت، پولیس اور انتظامی محکموں میں کام کررہی ہیں، یوں معروف سماجی سائنس دان پائی (Pye) کے جدید معاشرے کے کچھ لوازمات پورے ہوتے نظر آتے ہیں مگر ان تمام لوازمات کے پورے ہونے کے باوجود قبائلی نظام کی مضبوطی کچھ دیگر حقائق کی نشاندہی کررہی ہے۔ سندھی سماج کے ماہر سہیل سانگی نے جرگہ نظام کے بارے میں یہ تجزیہ کیا ہے۔


'' سندھ میں تنازعات کے حل کے لیے ریاستی قانون ہاتھ میں لینے کے بجائے جرگوں کا راستہ چنا گیا ہے۔ پہلا بڑا جرگہ ساوند سندرانی تنازع ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ریاستی قانون کے نفاذ کے لیے اقدامات کیے جاتے لیکن اس کے بجائے ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے والے سرداری نظام کو مضبوط کرنے پر زور دیا جاتا ہے... سرداروں کا دعویٰ رہا ہے کہ جرگے فوری انصاف کا ذریعہ ہیں۔


غیر قانونی اور ناانصافی پر مبنی عمل سے کس قسم کا فوری انصاف مل سکتا ہے؟ ماضی میں کئی برادریوں کے تنازعات جرگوں میں طے پاچکے ہیں لیکن کچھ عرصے بعد یہ جھگڑے پھر بھڑک اٹھتے ہیں۔ غیر قانونی اسلحہ سندھ میں قبائلی دہشت گردی کی لائف لائن ہے۔ جب تک ان کی یہ لائف لائن نہیں کٹتی یہ لڑائیاں ہوتی رہیں گی اور یہ جرگے کوئی نتیجہ نہیں دے سکیں گے، نہ ملزمان کو سزا ہوئی نہ ملزمان سامنے آئے۔ ہرجانہ بھی ملزمان نے نہیں برادری نے ادا کیا۔ مزید یہ کہ ملزمان کی سماجی طور پر بھی مذمت نہ ہوئی، بلکہ اب تو قاتل ہونے کے باوجود شیر بن کر گھومیں گے اور عام لوگوں کے دہشت بنے رہیں گے۔''


ترقیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جدید صنعتی نظام ہی سماج کی شکل تبدیل کرتا ہے مگر سندھ میں مجموعی طور پر صنعتیں نہیں لگی ہیں۔ اسی بناء پر سماج کی ہیت تبدیل نہیں ہو پارہی، یوں عام آدمی ذہنی طور پر قبائلی معاشرے سے جڑا ہوا ہے۔ اندرونِ سندھ پیپلزپارٹی پر سرداروں اور بڑی جاگیر رکھنے والوں کا غلبہ بڑھتا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس جرگہ میں پیپلز پارٹی کے سینئر رہنماؤں نے شرکت کی جو قانون کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہے۔ ایک سندھی صحافی نے لکھا ہے کہ ''آخرکار پروفیسر اجمل ساوند کا خون بھی فروخت ہوگیا۔ ''

Load Next Story