تشدد اور زیر حراست اموات
یہ اظہاریہ اصولی طور پر 26 جون کو شایع ہونا چاہیے تھا،
یہ اظہاریہ اصولی طور پر 26 جون کو شایع ہونا چاہیے تھا، کیونکہ 26 جون 1987ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے زیر حراست ملزمان پر قبول جرم کے لیے بہیمانہ تشدد، انسانیت سوز اور توہین آمیز برتائو کے خلاف کنونشن کی منظوری دی تھی۔ جون 2010ء میں حکومت پاکستان نے بھی اس کنونشن کی توثیق کر دی تھی۔ مگر ملک کی تیزی سے بدلتی سیاسی صورتحال کے پیش نظر میری پوری توجہ تبدیل ہوتے سیاسی منظرنامے پر مرکوز رہی، جو انتشار و افتراق کا سبب بنی ہوئی ہے۔ جس میں اب خاصی حد تک ٹھہرائو آ چکا ہے، گو حالات کسی بھی طور پر پُرسکون قرار نہیں دیے جا سکتے۔
اس لیے ان موضوعات پر بات کرنے کا موقع مل گیا ہے، جو پوری دنیا میں عوامی توجہ کا باعث ہیں اور جن کی وجہ سے ہماری ریاست کا سیاسی، سماجی اور انتظامی ڈھانچہ بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ ان میں ایک اہم مسئلہ زیر حراست پر تشدد اور ہلاکتیں ہیں، جن کی وجہ سے کچھ لوگ تو جان کی بازی ہار جاتے ہیں، جب کہ بیشمار لوگ ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی معذوری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس لیے اس مسئلے کا پاکستان کے مخصوص سیاسی، سماجی اور انتظامی نظام کے تناظر میں جائزہ لینا ضروری ہے۔
تشدد (Torture) اپنے مفہوم کے اعتبار سے وسیع تشریح رکھتا ہے۔ یہ کسی ایک فرد کی کسی دوسرے فرد یا کسی ایک گروہ کی دوسرے گروہ کے ساتھ کی جانے والی ماردھاڑ سے شروع ہو کر ریاستی اداروں کے مختلف نوعیت کے جرائم کی تفتیش کے دوران زیر حراست ملزمان پر ذہنی، جذباتی اور جسمانی زیادتیوں کا احاطہ کرتا ہے۔ ریاستی تشدد کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے، جتنی ریاست کے قیام کی تاریخ ہے۔ بیسویں صدی کے اوائل تک دنیا کے تمام ممالک میں پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے ملزمان سے اقبال جرم کے لیے ان پر تشدد کو واحد کارگر ذریعہ سمجھتے تھے۔ لیکن ترقی یافتہ دنیا میں تحقیق اور جدید سائنسی طریقوں کے متعارف کیے جانے کے بعد تفتیش کا طریقہ کار تبدیل ہو گیا۔
دنیا بھر میں یہ تصور ابھر رہا ہے کہ کسی جرم کی تفتیش اور اقبالِ جرم کے لیے مشکوک فرد یا افراد پر تشدد کے علاوہ دیگر طریقے بھی اختیار کیے جا سکتے ہیں۔ خاص طور پر بیسویں صدی کے آخری نصف کے بعد سے ان ممالک میں اقبال جرم کے لیے نفسیاتی طریقہ استعمال کیا جا رہا ہے، جو خاصی حد تک کامیاب ہے، جب کہ تیسری دنیا کے بیشتر ممالک میں نوآبادیاتی نظام کے تھرڈ ڈگری تشدد کو آج بھی تفتیش کا واحد ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔
جنوبی ایشیا کے ان ممالک میں جہاں جمہوریت کی جڑیں کسی قدر گہری ہوئی ہیں، پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے خاصی حد تک جوابدہ ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کی روش اور رویوں میں کسی حد تک تبدیلی آئی ہے۔ لیکن پاکستان جیسے ممالک میں جو پہلے ہی نیم قبائلی اور نیم جاگیردارانہ معاشرت کے شکنجے میں جکڑے ہوئے تھے، وہاں آمریتوں نے جب ڈیرے جمائے، تو پورا ریاستی ڈھانچہ جوابدہی کے جھنجٹ سے آزاد ہو گیا۔ پاکستان کا دوسرا المیہ یہ ہے کہ یہاں نوآبادیاتی دور کے انتظامی ڈھانچے کو بھی قبائلیت کے رنگ میں رنگ لیا گیا۔ میرٹ کی جگہ کوٹے، قابلیت کی جگہ سفارش اور اہلیت کی جگہ رشوت نے لے لی۔ رہی سہی کسر سیاسی تقرریوں نے پوری کر دی۔
اس صورتحال کا شکار تعلیم سے صحت اور ضلعی انتظام سے پولیس تک ہر شعبہ ہوا۔ پولیس عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے بجائے حکمرانوں کی آلہ کار بن گئی۔ وہ عوام کے جان و مال کا محافظ بننے کے بجائے ان کی نقب زن بن گئی۔ پاکستانی معاشرے میں قبائلی سرداروں کی اپنی نجی جیلیں اور جاگیرداروں کے ذاتی عقوبت خانے ہیں۔ نجی جیلیں اور ذاتی عقوبت خانے بنانا باعث فخر اور طاقت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ان عقوبت خانوں میں سرکش ہاریوں اور کسانوں پر تیسرے درجے کا تشدد کیا جاتا ہے۔
چونکہ عقوبت خانے طاقت کے اظہار کا ذریعہ سمجھے جاتے ہیں، اس لیے حکمرانوں، سیاستدانوں اور مراعات یافتہ طبقے کی شہ پر پولیس نے بھی تھانوں میں عقوبت خانے قائم کیے ہوئے ہیں، جہاں مختلف تعزیرات کو بنیاد بنا کر ملزمان پر اقبال جرم کے لیے بدترین تشدد کیا جاتا ہے۔ اس تشدد کے نتیجے میں اندرونی چوٹوں کی تاب نہ لاتے ہوئے کئی ملزمان اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ مگر ایسا بہیمانہ تشدد کرنے والوں کو کبھی عدالت کے کٹہرے میں پیش نہیں کیا جاتا۔ اس صورتحال میں ایک سفاکانہ تبدیلی یہ آئی ہے کہ عدالتی مداخلت اور میڈیا سمیت سول سوسائٹی کے مختلف شراکت داروں کی تھانوں تک رسائی پر پولیس نے اپنے رویے تبدیل کرنے کے بجائے ان عقوبت خانوں کو تھانوں سے باہر نجی مقامات پر منتقل کر دیا ہے۔
پاکستان پینل کوڈ (PPC) اور کرمنل پروسیجر کوڈ (Cr.PC) پولیس کو پابند کرتا ہے کہ وہ کسی بھی جرم کے شک میں گرفتار کیے گئے ملزم کو 24 گھنٹوں کے اندر فوجداری عدالت کے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کر کے اس سے تفتیش کے لیے ریمانڈ حاصل کرے، مگر بیشتر کیسوں میں ایسا نہیں کیا جا رہا۔ خاص طور پر جنرل ضیاء کے دور سے بالخصوص ملزمان کی گرفتاری ظاہر کیے بغیر انھیں غیر قانونی طور پر کئی کئی روز تک پولیس کی غیر قانونی حراست (Custody) میں رکھا جاتا ہے۔
حالیہ چند برسوں کے دوران ایک نیا مظہر یہ بھی سامنے آیا ہے کہ سادہ لباس میں ملبوس پولیس اہلکار کسی بھی شخص کو اغوا کر کے اسے اس قسم کے نجی عقوبت خانوں میں پہنچا دیتے ہیں، جہاں ملزمان کو عدالت میں پیش کیے بغیر کئی کئی روز تک بدترین اور بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور انھیں اقبال جرم پر مجبور کیا جاتا ہے۔ تشدد کے نتیجے میں ملزم کے مر جانے کی صورت میں اس کی لاش کسی ویرانے میں پھینک دی جاتی ہے۔
پاکستان جیسے معاشروں میں پولیس ایک طرح سے Nuisance کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ یہ جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کرتی ہے اور بے گناہ شہریوں کو ہراساں کر کے ان سے رقم بٹورتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نجی طور پر قائم کردہ پولیس کے عقوبت خانے اوپر سے نیچے تک پولیس افسران اور اہلکاروں کی ناجائز آمدنی کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ اس کے علاوہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پولیس ریاستی دہشت گردی کی علامت بھی بن چکی ہے۔ 16 اور 17 جون کی درمیانی شب لاہور کے ماڈل ٹائون میں جو کچھ ہوا وہ پولیس کے ذریعے ریاستی دہشت گردی کی بدترین مثال تھی۔
سندھ بالخصوص کراچی میں دہشت گردی اور جرائم کے خاتمے کے نام پر گزشتہ سوا سال سے جو آپریشن جاری ہے، اس میں اصل ملزمان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر سے بھی کم ہے۔ البتہ بے گناہ شہری پولیس کی زیادتی کا زیادہ شکار ہوئے اور اب تک پولیس کروڑوں روپے اس مد میں وصول کر چکی ہے اور نہ جانے کب تک یہ سلسلہ یونہی جاری رہے اور عوام پولیس اور ان کے پروردہ مخبروں کے ہاتھوں لٹتے رہیں۔ کیونکہ وزیر اعظم کی سمجھ میں ابھی تک یہ بات نہیں آ سکی ہے کہ پولیس کو Depoliticise کیے بغیر کراچی میں کیا جانے والا آپریشن بے سود ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے منظور کیے گئے چارٹر کے مطابق ہر وہ شخص (ملزم) بے گناہ اور معصوم ہے، جب تک کہ عدالت اس پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے اسے اس جرم کا مرتکب قرار نہیں دے دیتی۔ دوسرے پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے کسی بھی ادارے کو یہ اختیار نہیں کہ وہ عدالتی ریمانڈ کے بغیر کسی بھی شہری کو اپنی تحویل (Custody) میں 24 گھنٹے سے زائد عرصے کے لیے رکھے۔
چونکہ پاکستان نے اس کنونشن پر دستخط کیے ہیں، اس لیے حکومت پاکستان کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ کنونشن کے تمام نکات پر نیک نیتی کے ساتھ عملدرآمد کرائے اور پولیس کو حاصل بے تحاشا اختیارات میں کمی لائے اور اسے پابند کرے کہ وہ اقبال جرم کے لیے جسمانی یا ذہنی تشدد کے علاوہ دیگر سائنسی طریقہ استعمال کرے۔ اس مقصد کے لیے حکومت کو مروجہ تھانہ کلچر کو بھی ختم کرنا ہو گا جو نوآبادیاتی دور کا بدترین ورثہ ہے۔
2010ء سے ایشین ہیومن رائٹس کمیشن، پاکستان میں حقوق انسانی کے لیے سرگرم دیگر تنظیموں کے تعاون سے ہر سال 26 جون کو اس کنونشن کی منظوری کی سالگرہ کے موقع پر ایک سیمینار کا اہتمام کرتی ہے۔ امسال بھی یہ سیمینار کراچی پریس کلب میں منعقد ہوا۔ یہ بات باعث تقویت ہے کہ حیدر عباس رضوی نے وعدہ کیا کہ ان کی جماعت اس بل کو قومی، صوبائی اسمبلیوں کے علاوہ سینیٹ میں پیش کر سکتی ہے۔
مگر چونکہ اس کے پاس اراکین کی مطلوبہ تعداد نہیں ہے، اس لیے بل پاس کرانے کی ذمے داری نہیں لے سکتی۔ تاج حیدر نے بھی وعدہ کیا کہ اگر انسانی حقوق کی تنظیمیں اس مسئلے پر بل تیار کر کے دے دیں تو وہ اس بل کے لیے تمام ایوانوں میں Mobilization کریں گے۔ توقع اچھی رکھنی چاہیے، مگر ماضی کے تلخ تجربات بھی ہمارے سامنے ہیں، اس لیے یہ بھی خدشہ ہے کہ جس طرح ''عزت کے نام پر قتل'' اور ''زرعی اصلاحات'' کے بل داخل دفتر ہو گئے، کہیں اس بل کے ساتھ بھی یہی نہ ہو۔
اس لیے ان موضوعات پر بات کرنے کا موقع مل گیا ہے، جو پوری دنیا میں عوامی توجہ کا باعث ہیں اور جن کی وجہ سے ہماری ریاست کا سیاسی، سماجی اور انتظامی ڈھانچہ بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ ان میں ایک اہم مسئلہ زیر حراست پر تشدد اور ہلاکتیں ہیں، جن کی وجہ سے کچھ لوگ تو جان کی بازی ہار جاتے ہیں، جب کہ بیشمار لوگ ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی معذوری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس لیے اس مسئلے کا پاکستان کے مخصوص سیاسی، سماجی اور انتظامی نظام کے تناظر میں جائزہ لینا ضروری ہے۔
تشدد (Torture) اپنے مفہوم کے اعتبار سے وسیع تشریح رکھتا ہے۔ یہ کسی ایک فرد کی کسی دوسرے فرد یا کسی ایک گروہ کی دوسرے گروہ کے ساتھ کی جانے والی ماردھاڑ سے شروع ہو کر ریاستی اداروں کے مختلف نوعیت کے جرائم کی تفتیش کے دوران زیر حراست ملزمان پر ذہنی، جذباتی اور جسمانی زیادتیوں کا احاطہ کرتا ہے۔ ریاستی تشدد کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے، جتنی ریاست کے قیام کی تاریخ ہے۔ بیسویں صدی کے اوائل تک دنیا کے تمام ممالک میں پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے ملزمان سے اقبال جرم کے لیے ان پر تشدد کو واحد کارگر ذریعہ سمجھتے تھے۔ لیکن ترقی یافتہ دنیا میں تحقیق اور جدید سائنسی طریقوں کے متعارف کیے جانے کے بعد تفتیش کا طریقہ کار تبدیل ہو گیا۔
دنیا بھر میں یہ تصور ابھر رہا ہے کہ کسی جرم کی تفتیش اور اقبالِ جرم کے لیے مشکوک فرد یا افراد پر تشدد کے علاوہ دیگر طریقے بھی اختیار کیے جا سکتے ہیں۔ خاص طور پر بیسویں صدی کے آخری نصف کے بعد سے ان ممالک میں اقبال جرم کے لیے نفسیاتی طریقہ استعمال کیا جا رہا ہے، جو خاصی حد تک کامیاب ہے، جب کہ تیسری دنیا کے بیشتر ممالک میں نوآبادیاتی نظام کے تھرڈ ڈگری تشدد کو آج بھی تفتیش کا واحد ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔
جنوبی ایشیا کے ان ممالک میں جہاں جمہوریت کی جڑیں کسی قدر گہری ہوئی ہیں، پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے خاصی حد تک جوابدہ ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کی روش اور رویوں میں کسی حد تک تبدیلی آئی ہے۔ لیکن پاکستان جیسے ممالک میں جو پہلے ہی نیم قبائلی اور نیم جاگیردارانہ معاشرت کے شکنجے میں جکڑے ہوئے تھے، وہاں آمریتوں نے جب ڈیرے جمائے، تو پورا ریاستی ڈھانچہ جوابدہی کے جھنجٹ سے آزاد ہو گیا۔ پاکستان کا دوسرا المیہ یہ ہے کہ یہاں نوآبادیاتی دور کے انتظامی ڈھانچے کو بھی قبائلیت کے رنگ میں رنگ لیا گیا۔ میرٹ کی جگہ کوٹے، قابلیت کی جگہ سفارش اور اہلیت کی جگہ رشوت نے لے لی۔ رہی سہی کسر سیاسی تقرریوں نے پوری کر دی۔
اس صورتحال کا شکار تعلیم سے صحت اور ضلعی انتظام سے پولیس تک ہر شعبہ ہوا۔ پولیس عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے بجائے حکمرانوں کی آلہ کار بن گئی۔ وہ عوام کے جان و مال کا محافظ بننے کے بجائے ان کی نقب زن بن گئی۔ پاکستانی معاشرے میں قبائلی سرداروں کی اپنی نجی جیلیں اور جاگیرداروں کے ذاتی عقوبت خانے ہیں۔ نجی جیلیں اور ذاتی عقوبت خانے بنانا باعث فخر اور طاقت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ان عقوبت خانوں میں سرکش ہاریوں اور کسانوں پر تیسرے درجے کا تشدد کیا جاتا ہے۔
چونکہ عقوبت خانے طاقت کے اظہار کا ذریعہ سمجھے جاتے ہیں، اس لیے حکمرانوں، سیاستدانوں اور مراعات یافتہ طبقے کی شہ پر پولیس نے بھی تھانوں میں عقوبت خانے قائم کیے ہوئے ہیں، جہاں مختلف تعزیرات کو بنیاد بنا کر ملزمان پر اقبال جرم کے لیے بدترین تشدد کیا جاتا ہے۔ اس تشدد کے نتیجے میں اندرونی چوٹوں کی تاب نہ لاتے ہوئے کئی ملزمان اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ مگر ایسا بہیمانہ تشدد کرنے والوں کو کبھی عدالت کے کٹہرے میں پیش نہیں کیا جاتا۔ اس صورتحال میں ایک سفاکانہ تبدیلی یہ آئی ہے کہ عدالتی مداخلت اور میڈیا سمیت سول سوسائٹی کے مختلف شراکت داروں کی تھانوں تک رسائی پر پولیس نے اپنے رویے تبدیل کرنے کے بجائے ان عقوبت خانوں کو تھانوں سے باہر نجی مقامات پر منتقل کر دیا ہے۔
پاکستان پینل کوڈ (PPC) اور کرمنل پروسیجر کوڈ (Cr.PC) پولیس کو پابند کرتا ہے کہ وہ کسی بھی جرم کے شک میں گرفتار کیے گئے ملزم کو 24 گھنٹوں کے اندر فوجداری عدالت کے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کر کے اس سے تفتیش کے لیے ریمانڈ حاصل کرے، مگر بیشتر کیسوں میں ایسا نہیں کیا جا رہا۔ خاص طور پر جنرل ضیاء کے دور سے بالخصوص ملزمان کی گرفتاری ظاہر کیے بغیر انھیں غیر قانونی طور پر کئی کئی روز تک پولیس کی غیر قانونی حراست (Custody) میں رکھا جاتا ہے۔
حالیہ چند برسوں کے دوران ایک نیا مظہر یہ بھی سامنے آیا ہے کہ سادہ لباس میں ملبوس پولیس اہلکار کسی بھی شخص کو اغوا کر کے اسے اس قسم کے نجی عقوبت خانوں میں پہنچا دیتے ہیں، جہاں ملزمان کو عدالت میں پیش کیے بغیر کئی کئی روز تک بدترین اور بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور انھیں اقبال جرم پر مجبور کیا جاتا ہے۔ تشدد کے نتیجے میں ملزم کے مر جانے کی صورت میں اس کی لاش کسی ویرانے میں پھینک دی جاتی ہے۔
پاکستان جیسے معاشروں میں پولیس ایک طرح سے Nuisance کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ یہ جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کرتی ہے اور بے گناہ شہریوں کو ہراساں کر کے ان سے رقم بٹورتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نجی طور پر قائم کردہ پولیس کے عقوبت خانے اوپر سے نیچے تک پولیس افسران اور اہلکاروں کی ناجائز آمدنی کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ اس کے علاوہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پولیس ریاستی دہشت گردی کی علامت بھی بن چکی ہے۔ 16 اور 17 جون کی درمیانی شب لاہور کے ماڈل ٹائون میں جو کچھ ہوا وہ پولیس کے ذریعے ریاستی دہشت گردی کی بدترین مثال تھی۔
سندھ بالخصوص کراچی میں دہشت گردی اور جرائم کے خاتمے کے نام پر گزشتہ سوا سال سے جو آپریشن جاری ہے، اس میں اصل ملزمان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر سے بھی کم ہے۔ البتہ بے گناہ شہری پولیس کی زیادتی کا زیادہ شکار ہوئے اور اب تک پولیس کروڑوں روپے اس مد میں وصول کر چکی ہے اور نہ جانے کب تک یہ سلسلہ یونہی جاری رہے اور عوام پولیس اور ان کے پروردہ مخبروں کے ہاتھوں لٹتے رہیں۔ کیونکہ وزیر اعظم کی سمجھ میں ابھی تک یہ بات نہیں آ سکی ہے کہ پولیس کو Depoliticise کیے بغیر کراچی میں کیا جانے والا آپریشن بے سود ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے منظور کیے گئے چارٹر کے مطابق ہر وہ شخص (ملزم) بے گناہ اور معصوم ہے، جب تک کہ عدالت اس پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے اسے اس جرم کا مرتکب قرار نہیں دے دیتی۔ دوسرے پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے کسی بھی ادارے کو یہ اختیار نہیں کہ وہ عدالتی ریمانڈ کے بغیر کسی بھی شہری کو اپنی تحویل (Custody) میں 24 گھنٹے سے زائد عرصے کے لیے رکھے۔
چونکہ پاکستان نے اس کنونشن پر دستخط کیے ہیں، اس لیے حکومت پاکستان کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ کنونشن کے تمام نکات پر نیک نیتی کے ساتھ عملدرآمد کرائے اور پولیس کو حاصل بے تحاشا اختیارات میں کمی لائے اور اسے پابند کرے کہ وہ اقبال جرم کے لیے جسمانی یا ذہنی تشدد کے علاوہ دیگر سائنسی طریقہ استعمال کرے۔ اس مقصد کے لیے حکومت کو مروجہ تھانہ کلچر کو بھی ختم کرنا ہو گا جو نوآبادیاتی دور کا بدترین ورثہ ہے۔
2010ء سے ایشین ہیومن رائٹس کمیشن، پاکستان میں حقوق انسانی کے لیے سرگرم دیگر تنظیموں کے تعاون سے ہر سال 26 جون کو اس کنونشن کی منظوری کی سالگرہ کے موقع پر ایک سیمینار کا اہتمام کرتی ہے۔ امسال بھی یہ سیمینار کراچی پریس کلب میں منعقد ہوا۔ یہ بات باعث تقویت ہے کہ حیدر عباس رضوی نے وعدہ کیا کہ ان کی جماعت اس بل کو قومی، صوبائی اسمبلیوں کے علاوہ سینیٹ میں پیش کر سکتی ہے۔
مگر چونکہ اس کے پاس اراکین کی مطلوبہ تعداد نہیں ہے، اس لیے بل پاس کرانے کی ذمے داری نہیں لے سکتی۔ تاج حیدر نے بھی وعدہ کیا کہ اگر انسانی حقوق کی تنظیمیں اس مسئلے پر بل تیار کر کے دے دیں تو وہ اس بل کے لیے تمام ایوانوں میں Mobilization کریں گے۔ توقع اچھی رکھنی چاہیے، مگر ماضی کے تلخ تجربات بھی ہمارے سامنے ہیں، اس لیے یہ بھی خدشہ ہے کہ جس طرح ''عزت کے نام پر قتل'' اور ''زرعی اصلاحات'' کے بل داخل دفتر ہو گئے، کہیں اس بل کے ساتھ بھی یہی نہ ہو۔