آپریشن کا فیصلہ کن مرحلہ آ رہا ہے
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ جو بھی ہتھیار اٹھائے گا ‘اس کے خلاف کارروائی ہو گی
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ جو بھی ہتھیار اٹھائے گا 'اس کے خلاف کارروائی ہو گی۔ انھوں نے کہا کہ شمالی وزیرستان آپریشن پاکستان کی بقا کی جنگ ہے۔ یہ علاقہ ہر قسم کے دہشت گردوں کا گڑھ اور ملک بھر میں ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں کا محور بن چکا تھا۔ ان تمام کا خاتمہ کیا جائے گا۔ شمالی وزیرستان تحریک طالبان پاکستان کی آخری پناہ گاہ بھی تھا۔ آپریشن ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کا آغاز ہے۔
انھوں نے کہا کہ شمالی وزیرستان سو فیصد پاکستان کا اپنا آپریشن ہے۔ امریکا کے ساتھ مل کر کارروائی ہو رہی ہے نہ ہی ڈرون حملے پاکستان کی مدد سے ہو رہے ہیں۔ دہشت گردوں کے گرد گھیرا ڈال رکھا ہے۔ انھوں نے نکلنے کی کوشش کی مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ اس جنگ میں پوری قوم کا کردار اہم ہے۔ انھوں نے کہا کہ آپریشن کے بعد ردعمل کا خطرہ ہے جس کو روکنے کے لیے انتظامات کرائے گئے ہیں۔ دہشت گردوں کے فرار ہونے یا آپریشن سے قبل ہی نکل جانے کی خبریں غلط ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ازبک چیچن ہمارے علاقوں میں کر رہے ہیں۔ یہ اپنے ملکوں میں جا کر اپنی حکومتوں کے خلاف جہاد کیوں نہیں کرتے۔ پاکستان پر ہی کیوں ان کی نظر کرم ہے۔ عجیب تماشا ہے کہ دنیا بھر کے تمام دہشت گرد جنھیں کہیں پناہ نہیں ملتی انھیں شمالی وزیرستان میں پناہ مل جاتی ہے۔ یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کا یہ علاقہ دنیا بھر کے دہشت گردوں کی جنت کیوں بنا۔ اس میں کس کی کمزوری، غفلت اور لاپرواہی ہے۔ میرے خیال میں حکومت اور پاکستانی عوام دونوں ہی قصور وار ہیں۔
شاید عوام حکومت سے زیادہ قصور وار ہیں کہ وہ ان دہشت گردوں کو جنہوں نے مذہب کی نقاب اوڑھ رکھی تھی پہچان نہ سکے اور آج پاکستان ان دہشت گردوں کے ہاتھوں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اگر ہم ان کے خلاف برسوں پہلے ایکشن لے لیتے تو آج ہمیں یہ دن دیکھنے نہ پڑتے ۔ ان حقائق کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پاک فوج جو جنگ لڑ رہی ہے قوم اس سے مکمل طور پر باخبر ہے۔ اب کسی قسم کی غفلت کی کوئی گنجائش نہیں۔ پچھلے تیس سالوں میں دہشت گردوں کی شکل میں بوئے ہوئے کانٹے اب ہمیں پلکوں سے چننے پڑ رہے ہیں۔
دہشت گردی اور اس کے نتیجے میں حکومتوں کی بے عملی کے طویل عمل نے عوام کو بے حس اور لاتعلق بنا دیا ہے۔ لیکن قوم کی عملی شرکت اس جنگ میں کہیں نظر نہیں آ رہی۔ عوام اس وقت تماش بینوں کی طرح اس جنگ کو دیکھ رہے ہیں۔ فوجی آپریشن کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کو پوری قوم اس کی پشت پر ہو بلکہ اس کا عملی ثبوت بھی پیش کرے۔ وہ اس طرح کہ رمضان المبارک کے مہینے میں پوری قوم ان مہاجرین کی بحالی کے لیے اٹھ کھڑی ہو جو اپنے گھر سے بے گھر ہو گئے ہیں۔
کوشش یہ کی جائے کہ حکومت اور فوج کی طرف دیکھے بغیر ان کو ہر سہولت مہیا کریں اور ان کی تکلیف کو حتی الامکان کم کرنے کی کوشش کریں اس آزمائش کی گھڑی میں ہم اپنے محفوظ ٹھنڈے گھروں میں بیٹھ کر دنیا کی آسائشوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں جب کہ ہمارے فوجی جوان اس گرمی میں مورچوں میں بیٹھ کر اپنا آج ہمارے کل کے لیے قربان کر رہے ہیں تا کہ ہم اور ہمارے پیارے اس ملک میں کسی خوف و دہشت گردی کے بغیر آزادی سے زندگی گزار سکیں۔ کیا ہمیں اس بات کا ذرا سا بھی احساس ہے کہ جب ان جوانوں کی شہادت کی خبر ان کے گھروں میں پہنچتی ہے تو وہ کس کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں۔
اس عید پر بہت سے گھرانے اپنے بیٹوں، بھائیوں والد سے محروم ہو جائیں گے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا جو کم از کم ہے کہ پاکستان کے ہر شہر اور اس کے گلی کوچے میں شہدا فنڈ قائم کیے جائیں اور پوری قوم حسب توفیق اس میں حصہ ڈالے۔ اپنی جان قربان کر کے ہماری اور ہمارے بال بچوں کی جان و مال عزتوں کو محفوظ کرنے والوں کے لیے کیا ہم اتنا بھی نہیں کر سکتے یا جو کچھ بھی ان کے لیے کرنا ہے صرف فوج اور حکومت نے ہی کرنا ہے۔
کیا ان شہیدوں کا یہ حق نہیں بنتا کہ ان کی شہادت کے بعد ان کے لواحقین کو پھولوں کی طرح سنبھال رکھیں۔ بہرحال اس فوجی آپریشن کے حوالے سے یہ حوصلہ افزا خبر ہے کہ پاکستان اور افغانستان نے دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کا فیصلہ کیا ہے اس کا اعلان چند دن پیشتر پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے افغانستان کے مشیر برائے قومی سلامتی امور نے کیا ہے۔ دہشت گرد اپنی فطرت میں دہشت گرد ہوتا ہے وہ نہ پاکستان کا ہوتا ہے نہ افغانستان کا۔ پاکستان نے افغانستان کو یقین دلایا کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن حقانی نیٹ ورک سمیت تمام دہشت گردوں کے خلاف جاری ہے۔
فوجی آپریشن کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت یہ ہے کہ طالبان میں تقسیم ہو چکی ہے۔ سجنا گروپ نے ایک مہینہ پیشتر ملا فضل اللہ سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ فضل اللہ اسلام دشمن خفیہ طاقتوں کا ایجنٹ ہے اور تحریک طالبان جرائم پیشہ تنظیم بن گئی ہے اور تحریک طالبان پاکستان کا موجودہ انتظام سازشی ٹولے کی وجہ سے نادیدہ ہاتھوں میں چلا گیا ہے۔ طالبان میں تقسیم سے بھی بہت سے حقائق آشکار ہو گئے ہیں۔ بعض حقائق پردے میں تھے لیکن وہ اب باہر آ گئے ہیں۔
بہر حال شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن سے یہ حقیقت بھی ثابت ہو گئی ہے کہ ہتھیار اٹھانے والا کوئی گروہ کسی بھی ریاست کے لیے قابل قبول نہیں ہوتا۔ پاکستان کے قبائلی علاقے اگر اس ملک کا حصہ ہیں تو پھر وہاں پاکستان کا اقتدار اعلیٰ بھی قائم ہونا چاہیے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی گروہ وہاں اپنی حاکمیت قائم کر لے اور پھر پاکستان کو دھمکی بھی دے' یہ صورت حال زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتی تھی اور بلا آخر پاکستان کو شمالی وزیرستان میں آپریشن کر کے وہاں اقتدار اعلیٰ قائم کرنے کا آپشن اختیار کرنا پڑا۔
٭... پاک فوج کا آپریشن جولائی سے دوسرے تیسرے ہفتے میں فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو جائے گا اور 2 سے 5 جولائی کے درمیان زمینی آپریشن شروع ہو جائے گا۔
سیل فون:۔ 0346-4527997
انھوں نے کہا کہ شمالی وزیرستان سو فیصد پاکستان کا اپنا آپریشن ہے۔ امریکا کے ساتھ مل کر کارروائی ہو رہی ہے نہ ہی ڈرون حملے پاکستان کی مدد سے ہو رہے ہیں۔ دہشت گردوں کے گرد گھیرا ڈال رکھا ہے۔ انھوں نے نکلنے کی کوشش کی مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ اس جنگ میں پوری قوم کا کردار اہم ہے۔ انھوں نے کہا کہ آپریشن کے بعد ردعمل کا خطرہ ہے جس کو روکنے کے لیے انتظامات کرائے گئے ہیں۔ دہشت گردوں کے فرار ہونے یا آپریشن سے قبل ہی نکل جانے کی خبریں غلط ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ازبک چیچن ہمارے علاقوں میں کر رہے ہیں۔ یہ اپنے ملکوں میں جا کر اپنی حکومتوں کے خلاف جہاد کیوں نہیں کرتے۔ پاکستان پر ہی کیوں ان کی نظر کرم ہے۔ عجیب تماشا ہے کہ دنیا بھر کے تمام دہشت گرد جنھیں کہیں پناہ نہیں ملتی انھیں شمالی وزیرستان میں پناہ مل جاتی ہے۔ یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کا یہ علاقہ دنیا بھر کے دہشت گردوں کی جنت کیوں بنا۔ اس میں کس کی کمزوری، غفلت اور لاپرواہی ہے۔ میرے خیال میں حکومت اور پاکستانی عوام دونوں ہی قصور وار ہیں۔
شاید عوام حکومت سے زیادہ قصور وار ہیں کہ وہ ان دہشت گردوں کو جنہوں نے مذہب کی نقاب اوڑھ رکھی تھی پہچان نہ سکے اور آج پاکستان ان دہشت گردوں کے ہاتھوں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اگر ہم ان کے خلاف برسوں پہلے ایکشن لے لیتے تو آج ہمیں یہ دن دیکھنے نہ پڑتے ۔ ان حقائق کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پاک فوج جو جنگ لڑ رہی ہے قوم اس سے مکمل طور پر باخبر ہے۔ اب کسی قسم کی غفلت کی کوئی گنجائش نہیں۔ پچھلے تیس سالوں میں دہشت گردوں کی شکل میں بوئے ہوئے کانٹے اب ہمیں پلکوں سے چننے پڑ رہے ہیں۔
دہشت گردی اور اس کے نتیجے میں حکومتوں کی بے عملی کے طویل عمل نے عوام کو بے حس اور لاتعلق بنا دیا ہے۔ لیکن قوم کی عملی شرکت اس جنگ میں کہیں نظر نہیں آ رہی۔ عوام اس وقت تماش بینوں کی طرح اس جنگ کو دیکھ رہے ہیں۔ فوجی آپریشن کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کو پوری قوم اس کی پشت پر ہو بلکہ اس کا عملی ثبوت بھی پیش کرے۔ وہ اس طرح کہ رمضان المبارک کے مہینے میں پوری قوم ان مہاجرین کی بحالی کے لیے اٹھ کھڑی ہو جو اپنے گھر سے بے گھر ہو گئے ہیں۔
کوشش یہ کی جائے کہ حکومت اور فوج کی طرف دیکھے بغیر ان کو ہر سہولت مہیا کریں اور ان کی تکلیف کو حتی الامکان کم کرنے کی کوشش کریں اس آزمائش کی گھڑی میں ہم اپنے محفوظ ٹھنڈے گھروں میں بیٹھ کر دنیا کی آسائشوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں جب کہ ہمارے فوجی جوان اس گرمی میں مورچوں میں بیٹھ کر اپنا آج ہمارے کل کے لیے قربان کر رہے ہیں تا کہ ہم اور ہمارے پیارے اس ملک میں کسی خوف و دہشت گردی کے بغیر آزادی سے زندگی گزار سکیں۔ کیا ہمیں اس بات کا ذرا سا بھی احساس ہے کہ جب ان جوانوں کی شہادت کی خبر ان کے گھروں میں پہنچتی ہے تو وہ کس کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں۔
اس عید پر بہت سے گھرانے اپنے بیٹوں، بھائیوں والد سے محروم ہو جائیں گے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا جو کم از کم ہے کہ پاکستان کے ہر شہر اور اس کے گلی کوچے میں شہدا فنڈ قائم کیے جائیں اور پوری قوم حسب توفیق اس میں حصہ ڈالے۔ اپنی جان قربان کر کے ہماری اور ہمارے بال بچوں کی جان و مال عزتوں کو محفوظ کرنے والوں کے لیے کیا ہم اتنا بھی نہیں کر سکتے یا جو کچھ بھی ان کے لیے کرنا ہے صرف فوج اور حکومت نے ہی کرنا ہے۔
کیا ان شہیدوں کا یہ حق نہیں بنتا کہ ان کی شہادت کے بعد ان کے لواحقین کو پھولوں کی طرح سنبھال رکھیں۔ بہرحال اس فوجی آپریشن کے حوالے سے یہ حوصلہ افزا خبر ہے کہ پاکستان اور افغانستان نے دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کا فیصلہ کیا ہے اس کا اعلان چند دن پیشتر پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے افغانستان کے مشیر برائے قومی سلامتی امور نے کیا ہے۔ دہشت گرد اپنی فطرت میں دہشت گرد ہوتا ہے وہ نہ پاکستان کا ہوتا ہے نہ افغانستان کا۔ پاکستان نے افغانستان کو یقین دلایا کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن حقانی نیٹ ورک سمیت تمام دہشت گردوں کے خلاف جاری ہے۔
فوجی آپریشن کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت یہ ہے کہ طالبان میں تقسیم ہو چکی ہے۔ سجنا گروپ نے ایک مہینہ پیشتر ملا فضل اللہ سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ فضل اللہ اسلام دشمن خفیہ طاقتوں کا ایجنٹ ہے اور تحریک طالبان جرائم پیشہ تنظیم بن گئی ہے اور تحریک طالبان پاکستان کا موجودہ انتظام سازشی ٹولے کی وجہ سے نادیدہ ہاتھوں میں چلا گیا ہے۔ طالبان میں تقسیم سے بھی بہت سے حقائق آشکار ہو گئے ہیں۔ بعض حقائق پردے میں تھے لیکن وہ اب باہر آ گئے ہیں۔
بہر حال شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن سے یہ حقیقت بھی ثابت ہو گئی ہے کہ ہتھیار اٹھانے والا کوئی گروہ کسی بھی ریاست کے لیے قابل قبول نہیں ہوتا۔ پاکستان کے قبائلی علاقے اگر اس ملک کا حصہ ہیں تو پھر وہاں پاکستان کا اقتدار اعلیٰ بھی قائم ہونا چاہیے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی گروہ وہاں اپنی حاکمیت قائم کر لے اور پھر پاکستان کو دھمکی بھی دے' یہ صورت حال زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتی تھی اور بلا آخر پاکستان کو شمالی وزیرستان میں آپریشن کر کے وہاں اقتدار اعلیٰ قائم کرنے کا آپشن اختیار کرنا پڑا۔
٭... پاک فوج کا آپریشن جولائی سے دوسرے تیسرے ہفتے میں فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو جائے گا اور 2 سے 5 جولائی کے درمیان زمینی آپریشن شروع ہو جائے گا۔
سیل فون:۔ 0346-4527997