یہ خون خاک نشیناں تھا

اگر ایسا نہیں ہوتا تو کیا ان کے دیے گئے مینڈیٹ کے بعد ان کے گھروں میں خوشحالی کے چراغ نہ جلتے

umerkazi555@yahoo.com

کبھی کبھی کسی اتفاق کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ اس اتفاق میں کوئی پیغام پنہاں ہے۔ ایک ایسا پیغام اس اتفاق میں بھی ہے جو بینظیر بھٹو کے نام سے منسوب ہونے والے ضلع نواب شاہ میں پیش آیا ہے۔ اتفاق کے حوالے سے پیش ہونے والا یہ واقعہ خون کی ڈھائی ہزار بوتلوں کے متعلق ہے جنہیں سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے کرتا دھرتا آصف علی زرداری کے آبائی گاؤں ''بالو جا قبا'' کے حدود میں دفن کیا گیا۔

یہ خون اس علاقے کے غریب کسانوں اور محنت کش طبقے کے جسموں سے نچوڑا گیا تھا۔ مگر اس خون کو ملک کے بلڈ بینکوں میں تھیلسیمیا کے غریب مریضوں کو دینے کے بجائے دھرتی میں دفن کیا گیا۔ جب دفن کیے جانے والے اس خون کا سراغ ملا تب میڈیا کو معلوم ہوا کہ خون کی ان بوتلوں پر بینظیر بھٹو کی تصویر چسپاں تھی اور خون دینے والے ناموں میں کوئی نام فیصل تھا تو کوئی کریماں! ان لوگوں نے یہ خون اپنی محبوب رہنما شہید بینظیر بھٹو کی 61 ویں سالگرہ پر محبت اور عقیدت کے ساتھ بطور عطیہ دیا تھا۔

وہ بینظیر بھٹو جو شہید ہونے کے بعد اس دھرتی میں دفن ہوگئی مگر اس سے عوام کی محبت ابھی تک دفن نہیں ہوئی۔ وہ غریب لوگ جو کل تک بینظیر بھٹو کے لیے صرف ووٹ دیا کرتے تھے اب وہ ان کی سالگرہ پر ازراہ ثواب خون کا عطیہ بھی دیتے ہیں مگر بینظیر بھٹو کے نام پر پانچ برس تک پورے ملک پر حکمرانی کرنے والے وہ لوگ جن کے ہاتھوں میں اب تک سندھ کی حکومت ہے وہ سب آج بینظیر بھٹو کے نام پر ووٹ بھی لیتے اور خون بھی مگر عوام سے لیے گئے ووٹوں اور ان کے لہو کا ایک جیسا حشر کرتے ہیں۔

اگر ایسا نہیں ہوتا تو کیا ان کے دیے گئے مینڈیٹ کے بعد ان کے گھروں میں خوشحالی کے چراغ نہ جلتے۔ مگر بینظیر کے نام پر حکومت کرنے والوں کو اس کی کیا پرواہ؟ انھیں تو صرف اپنی اقتداری عیاشیوں کی فکر ہے۔ وہ عوام کی حالت زار کو بہتر بنانے کے لیے ان کے دیے گئے ووٹوں کا احسان اتارنے کے لیے کچھ کیوں کریں؟ جن اقتدار پرستوں کو عوام کے وجود سے بہنے والے خون کی قدر نہیں انھیں ووٹوں کی قدر کیا ہوگی؟

اگر ہم ایک مہذب معاشرے میں ہوتے تو بینظیر بھٹو کے جنم دن پر عوام کی طرف سے دیے گئے خون کے اس عطیے کی اس قدر توہین بہت بڑا اسکینڈل بن جاتا۔ مگر یہ ایک دن کی خبر بن کر میڈیا کے سمندر جیسی دنیا میں واپس جاتی ہوئی لہر کی طرح دفن ہوگئی۔ مگر اس خبر میں ایک پیغام ہے۔ وہ پیغام جس پر سوچتے ہوئے مجھے اردو زباں کے عظیم انقلابی شاعر فیض احمد فیض کی وہ نظم یاد آرہی ہے جس کا عنوان تھا ''لہو کا سراغ''۔

آج جب ایک طرف عوام کو بینظیر بھٹو کے قاتلوں کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا گیا اور دوسری طرف بینظیر بھٹو کے نام پر عوام کی رگوں سے نچوڑے جانے والے خون کی اس طرح توہین ہو رہی ہو تو ہمارے احساسات اس نظم کی تال سے تال ملا کر چلنے لگتے ہیں جس میں فیض صاحب بتاتے ہیں کہ:

نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا

یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا

اب فیض صاحب کی اس نظم میں یہ دونوں لہو آپس میں اس طرح مل جل گئے ہیں کہ انھیں اک دوسرے سے الگ کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ اک طرف تو اس لہو کا تذکرہ ہے جس کا سراغ ہمیں ابھی تک نہیں ملا۔ پیپلز پارٹی نے ٹھاٹھ کے ساتھ پانچ برس تک حکومت کی اور جب بھی اس دور کے وزیر داخلہ رحمان ملک سے پوچھا جاتا تو وہ بتاتا کہ بینظیر کے قاتل پکڑے جا چکے ہیں مگر ابھی تک پیپلز پارٹی نے اس قتل کی مکمل حقیقت عوام کو نہیں بتائی۔ وہ خون جو راولپنڈی میں بہا وہ خون انصاف کے حوالے سے ابھی تک اپنے قاتل کا سراغ تلاش کر رہا ہے۔ کسی کو کچھ بھی نہیں معلوم کہ اس عوامی رہنما کے خون کے چھینٹے کس کس کے دامن پر ہیں؟


مگر اس شہید لیڈر کے لیے عوام نے جو عقیدت میں خون کا عطیہ دیا اور جس خون کو صرف میڈیا میں اپنی سیاسی نمائش کے لیے بوتلوں میں بھرتے ہوئے دکھایا گیا اور بعد میں اس خون کو کچرا سمجھ کر زمین میں دفن کیا گیا، وہ خون بھی تو مظلوموں کا خون ہے۔ وہ خون خدمت شاہاں میں نہیں بہا، وہ خون کسی جہاد میں نہیں بہا، وہ خون وطن کے لیے کی جانے والی جنگ میں بھی نہیں بہا اور نہ کسی علم پر رقم ہوا۔ وہ بے آسرا اور یتیم خون تھا۔ وہ مظلوم عوام کا خون تھا۔ وہ خون اپنی محبوب رہنما کو پکارتا رہا، اس کو آوازیں دیتا رہا۔ مگر کسی کو بہر سماعت تھی نہ وقت تھا نہ دماغ!

کہیں نہیں کہیں بھی نہیں ہے لہو کا سراغ!!

مگر میڈیا نے اس لہو کا سراغ تلاش کرلیا۔ میڈیا نے ہمیں بتایا کہ بینظیر سے محبت کرنے والے کسانوں اور مزدوروں کا خون نواب شاہ کے دور افتادہ گاؤں میں دفن کیا گیا تھا اور وہ خون محبت کی مدفون گواہی کی طرح پردہ خاک کو چیر کر باہر نکل آیا۔

یہ محنت کشوں کا خون تھا۔ یہ خون کسی برگر اور بار بی کیو سے نہیں بلکہ روکھی سوکھی روٹی سے بنا تھا۔ اس خون میں منافقت کی ملاوٹ نہیں تھی۔ اس خون میں کسی سیاسی سازش کے جراثیم نہ تھے۔ یہ خون امپورٹیڈ ادویات سے نہیں بنا تھا۔ یہ ولایتی نہیں بلکہ دیسی خون تھا۔ یہ اس دھرتی کا خون تھا ا ور اس دھرتی میں دفن ہوگیا۔ اس خون کو دینے والوں کے نام بھی میڈیا میں آچکے ہیں مگر جن انسانوں کا یہ خون خراب کرکے دفن کیا گیا وہ لوگ اس ملک کی کسی عدالت میں نہیں جائیں گے۔

اس خون کے باررے میں سوموٹو ایکشن بھی نہیں لیا جائے گا۔ کیوں کہ یہ ان مظلوموں کا خون ہے جو ظلم تو سہتے ہیں مگر بغاوت نہیں کرتے۔ اس لیے حکومت سندھ نے اس المیے پر کوئی انکوائری بٹھانا تو دور صرف افسوس کے دو الفاظ بھی جاری نہیں کیے۔ کیوں کہ خواص کا نہیں بلکہ اس عوام کا خون تھا جس کو استحصالی طبقات تاریخ کے ہر دور میں چوستے آئے ہیں۔ انھیں اس خون کے بارے میں کوئی احساس ہوتا تو آج سندھ اور اس ملک کے مظلوم عوام کی حالت ایسی نہ ہوتی۔

اس خون کے حوالے سے میں یہ الفاظ لکھتے ہوئے اردو زبان کے اس انقلابی شاعر کو کس طرح فراموش کرسکتا ہوں جس کے ساتھ ''اج آکھاں وارث شاہ نوں'' والا گیت لکھنے والی امرتا پریتم نے افسانوی عشق کیا تھا۔ مظلوموں اور محکوموں کی آزادی کے لیے انقلاب کے ترانے لکھنے والے ساحر نے بھی تو اس مظلوم لہو کے بارے میں لکھا تھا۔ اس نے لکھا تھا کہ:

تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا

آج وہ کوچہ بازار میں آ نکلا ہے

مگر وہ مقتل جو راولپنڈی میں بنا اور اس میں جو لہو بہا وہ ابھی تک کوچہ بازار میں نہیں نکلا۔ وہ خون ابھی تک انصاف کا طلبگار ہے اور جس شہید لیڈر کا وہ خون تھا اس کے لیے خون کا عطیہ دینے والے مظلوم لوگوں کا خون بھی دفن کیا گیا۔

کاش! یہ خون ایک عظیم تبدیلی کا سونامی بن کر ابھرتا اور اپنے ساتھ اس چیز کو بہا لے جاتا جو انصاف کا راستہ روک کر کھڑی ہے۔
Load Next Story