زباں فہمی نمبر215 اردو اور سندھی کے لسانی تعلق پر ایک نظرحصہ اوّل
جس کو ہم آج اردو کہتے ہیں اس کا ہیولا اس وادیٔ سندھ میں تیار ہوا
علامہ سید سلیمان ندوی نے اپنی کتاب 'نقوش سلیمانی' میں ارشاد فرمایا کہ "مسلمان سب سے پہلے سندھ میں پہنچتے ہیں (یعنی ہندوستان میں سب سے پہلے سندھ میں پہنچے تھے: س ا ص) اس لیے قرین قیاس یہی ہے کہ جس کو ہم آج اردو کہتے ہیں اس کا ہیولا اس وادئی سندھ میں تیار ہوا ہوگا۔"
یہ بات تو بہت پُرانی اور مشہور ہے، مگر اس کی حیثیت محض قیاس سے زیادہ کچھ نہیں۔جاننے والے جانتے ہیں کہ سید صاحب عالم دین تھے،ماہر لسانیات نہیں!
اس بابت گفتگو کرتے ہوئے یارلوگ یہاں تک کہنے لگے کہ اُس دورمیں یعنی جب محمد بن قاسم (رحمۃ اللہ علیہ) نے 712ء میں سندھ فتح کیا تو یہاں کی زبان سندھی تھی،اردو نہیں اور عربی کا اثر سندھی پرہوا ہوگا نہ کہ اردوپر.....بات یہ ہے کہ سینہ گزٹ صحیح مان لیں تو سندھی یقینا پانچ ہزارسال پرانی زبان ہے یا ہوگی، مگر اس کا کوئی ثبوت تاریخ سے یا لسانی تاریخ سے ابھی تک فراہم نہیں ہوسکا۔خاکسارکی یہ جسارت نام نہاد قوم پرست حضرات کو بہت کھَلتی ہے، مگر علمی جواب آج تک کہیں سے نہیں دیا گیا۔
"سندھ نے کئی ہزار سال قبل ایک ثقافتی و لسانی اتحاد، آریوں سے کیا تھا اور یہ اتحاد اِتنا مضبوط تھا کہ سندھ کی عوامی بولی پر ایک طرح سے سنسکِرِت کی مُہر لگ گئی تھی، مگر نئے فاتح (یعنی عرب مسلمان: س اص)، اس سرزمین کے ذرّوں سے اس طرح سے گھُل مِل گئے کہ اقتدارکے دباؤ سے ہٹ کر عام زندگی پر اَپنے ا ثرات مرتب کر نے لگے اور برسو ں کے فصل (فاصلے: س ا ص) سے بڑے بڑے شہروں کی بولی میں عربی الفاظ نے اپنی مستقل جگہ بنالی۔اِس مقام پر ایک سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا پورے سندھ میں ایک ہی بولی یا زبان رائج تھی.................مولانا ابوظفر ندوی کے (بیان کے) مطابق، سندھ اور ملتان کی اصل زبان، جس میں وہا ں کے سندھی عوام بات کرتے تھے، وہ متعدد تھی۔بھاٹیہ سے لے کر سندھ کے بالائی حصے تک تو اَرد ناگری کا رِواج تھا یعنی نصف ناگری،کیونکہ یہ مختلف زبانوں سے مل کر پچ میل زبان بن گئی تھی۔اسی زبان میں یہ لوگ خط کتابت کرتے تھے اور کتابیں بھی لکھی جاتی تھیں"۔(سندھ میں اردو اَز ڈاکٹر شاہدہ بیگم بحوالہ تاریخ ّسندھ اَز ابوظفر ندوی)۔
ابوظفر ندوی صاحب نے اس باب میں مزید روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ"جنوب سندھ کے ساحلی علاقو ں میں ملگاری زبان کا زیادہ رِواج تھا۔اسی ملگاری زبان میں تمام قسم کا پڑھنا لکھنا ہوتا تھا، لیکن منصورہ اور برہمن آباد میں ایک اور زبان رائج تھی جس کو 'سین دب' کہتے تھے (بحوالہ کتاب الہند اَز البےِرونی)۔اسی سین دب ہی کا ترمیمی نام سندھی ہے"۔(تاریخ ّسندھ اَز ابوظفر ندوی: مطبوعہ المعارف، اعظم گڑھ۔1947)۔اسی کتاب میں سندھی زبان کے مخصوص علاقوں تک رواج کے ساتھ ساتھ عربی اور فارسی کے غلبے کا ذکر بھی ملتا ہے نیز ایک زبان مکرانی کانام لیاگیا جو درحقیقت مکران کی بلوچی ہے۔ویسے بھی مکرانی نامی کوئی زبان تھی نہ ہے، البتہ کراچی کے شِیدی یا مکرانی جس مخصوص لہجے میں بلوچی بولتے ہیں، اُسے 'مکرانی بلوچی' کہاجاسکتا ہے، کیونکہ اس میں بہت کچھ معیاری بلوچی سے مختلف ہے۔
اردو کی سندھ میں پرورش یا فروغ کا موضوع یقینا ماہرین لسانیات کے لیے اُتنا ہی دل چسپ ہے،جتناکہ کسی اور علاقے کا، البتہ یہاں کام قدرے سُست رَوِی سے ہوا ہے۔ابھی اس جہت میں بہت کچھ ہونا باقی ہے۔
سید سلیمان ندوی کی محوّلہ بالا نکتہ آرائی میں کئی حقائق نظراَنداز ہوگئے،مثلاً:
ا)۔برّعظیم پاک وہند میں (مختلف روایات کی رُوسے) اسلام کا داخلہ جنوب یعنی مالابار وغیرہ [Kerala or Keralam]سے ہوا۔یہ بات بہرحال بحث طلب ہے کہ ڈاکٹر حمیداللہ سمیت بعض اہل علم نے تَمِل راجہ تاج الدین (سابق چیرامن پِیرومَل)کے معجزہ شق القمر دیکھ کر، سرزمین حجاز کا سفرکرکے اسلام قبول کرنے اور شرفِ صحابیت حاصل کرنے کی روایت یا حکایت محض مقامی روایت یا سینہ گزٹ کی بناء پر قبول کی ہے جبکہ ہمارے مشہور مآخذِسیرت میں یہ شامل نہیں،البتہ یہ ثابت ہے کہ یہاں اَزمنہ قدیم سے عرب وہند کے مابین تجارت وسیاحت جاری تھی تو بالکل ابتداء ہی میں یہاں اسلام داخل اور کسی حد تک رائج ہوچکا تھا۔(میں نے اپنے بچپن میں ایک کتاب 'سیرت ِ رسول اللہ ﷺ میں یہ رِوایت پڑھی تھی، مدتوں بعد ڈاکٹر حمید اللہ اور دیگر کے بیانات دیکھے)۔مقامی حکایت کے مطابق راجہ صاحب کو مکّہ مکرّمہ کی زیارت کے سبب Makkahvukkupona Perumal(مکّہ جانے والا بادشاہ) کہا جانے لگا تھا۔وِکی پیڈیا نے انٹرنیٹ پر دستیاب بیش قیمت مواد سے قطع نظر،اس حکایت کو ایک فسانہ قراردیا ہے۔
ب)۔ عہدرسالت مآب (ﷺ) کے اس ذکر کے بعد زیادہ مشہور حوالہ امیرالمؤمنین سیدنا عمر فاروق (رضی اللہ عنہ') کے عہد ِ خلافت میں تھانہ، نزد بمبئی اور دیبل (سندھ) پر مسلم لشکر کی چڑھائی اور فتح کے نتیجے میں یہاں صحابہ کرام سمیت متعدد بزرگوں کا ورودِ مسعود اور مکران ونواح میں اسلام کی آمد کا ہے، جسے لوگ نظراَنداز کرتے ہوئے سندھ کو 'باب الاسلام' کہہ جاتے ہیں، حالانکہ مکمل فتحِ سندھ کا تاریخی واقعہ تو کوئی چھہتر برس بعد کا ہے،جبکہ ابتدائی حملوں اورفتح کا ذکر بھی ہمارے بہت سے خواندہ لوگوں کے علم میں نہیں!
ج)۔اردو کی قدامت کے متعلق سلسلہ زباں فہمی وسخن شناسی میں بارہا لکھا جاچکا ہے۔یہاں مختصراً عرض کرتاہوں کہ تمام شواہد اور بیانات کے پیش ِ نظر، راقم کی یہ رائے اصحح ہے کہ اردو نے(سنسکِرِت کی پیدائش سے بھی پہلے لکھی گئی) قدیم ہندو کتب ویدوں کے عہد سے الفاظ کی پیدائش اور جمع کے ذریعے ابتدائی پنیری لگائی جو صدیوں کے سفر کے بعد، اس خطے کے متعدد مقامات(بشمول دکن، نواحِ دکن، شمالی ہند، بِہار، بنگال، آسام، اُڑیسہ، متحدہ پنجاب، سابق صوبہ سرحد، بلوچستان و سندھ) پر، وہاں کی مقامی زبانوں اور بولیوں کے اشتراک واختلاط کے نتیجے میں کم وبیش ایک ہزار سال قبل باقاعدہ زبان کی شکل اختیار کی۔یوں ہر علاقے کی ہر بڑی زبان کا اردو سے تعلق واشتراک کا دعویٰ اپنی اپنی جگہ کم یا بیش درست ہے۔اس فہرست میں گوجری، کھڑی بولی یا ہریانی/ہریانوی، دکنی(اردو ہی کی ابتدائی قدیم بولی)،گجراتی،اُڑیہ،بنگلہ، پہاڑی، پوٹھوہاری،پنجابی، سرائیکی، ہندکو، پشتو اور سندھی کے نام شامل ہیں، جبکہ جنوب کی خاص زبانوں بشمول تَمِل، تیلگو،ملیالم اور کنڑ سے بھی الفاظ کے مستعار لینے کا عمل جاری رہا۔یوں ہندآریائی زبانوں کے گروہ میں شامل زبان، اردو کا دَراوڑی زبانوں سے بھی رشتہ ثابت ہوگیا۔اسی سلسلے کی ایک کڑی براہوئی زبان بھی ہے، جس سے تعلق واشتراک پر زباں فہمی کا مضمون ابھی لکھا جانا باقی ہے۔
یہاں ایک محقق کی کتاب سے ایک اہم اقتباس نقل کرتاہوں:
"ماہرین ِ لسانیات نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ہندآریائی زبانیں، بلکہ سنسکرت بھی کم وبیش، دراوڑی زبانوں سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔کم از کم الفاظ کا لین دین تویقیناہواہوگا۔اس لین دین کے نشانات آج بھی ہمیں سنسکرت کی جانشین زبانوں میں ملتے ہیں۔کُٹیا (جھونپڑی)، کوٹ (قلعہ)، نِیر (پانی)وغیرہ دراوڑی اصل کے الفاظ ہیں جو آج بھی اردو،سندھی اور دیگر ہندآریائی زبانوں میں پائے جاتے ہیں۔آریائی اور دراوڑی خاندانوں کا تقابلی مطالعہ ابھی ٹھیک طور سے نہیں کیا گیا ;بہت سے وہ الفاظ جنھیں ہم آریائی سمجھتے ہیں، ممکن ہے کہ وہ خود آریائی زبانوں نے دراوڑی خاندان کی زبانوں سے مستعار لیے ہوں۔بہرحال ہم یہاں بالِاجمال اتنا کہنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ اردو، سندھی کے مشترک سرمایہئ الفاظ کا ایک حصہ ایسا بھی ہے جو دراوڑی اثرات کا نتیجہ ہے۔عین الحق فریدکوٹی نے اپنے مضمون 'وادی سندھ میں دراوڑی زبان کی باقیات' (مشمولہ اُردونامہ، کراچی، شمارہ نمبر 6)میں کثرت سے ایسے الفاظ درج کیے ہیں جو آج نہ صرف سندھی،بلکہ ہندوپاکستا ن کی اکثر زبانوں میں پائے جاتے ہیں"۔(اردو،سندھی کے لسانی روابط اَز شرف الدین اصلاحی۔سنِ تصنیف 1965ء، سنِ اشاعت 1970ء: ناشر مرکزی اردوبورڈ، لاہور)
د)۔ زباں فہمی میں قارئین کرام کی معلومات کے لیے، یہ انکشاف بھی ایک سے زائد بارکیا گیاکہ ڈاکٹر ابوالجلال ندوی کو برسوں کی محنت ِ شاقّہ کے نتیجے میں موئن جو دَڑو کی قدیم تحریریں پڑھنے میں کامیابی ملی تو معلوم ہوا کہ یہ تصویری رسم الخط (Cuneiform script)میں لکھی گئی ابتدائی، قدیم عربی زبان کے نمونے ہیں۔تاریخ،خصوصاً مذہبی تاریخ سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچی کہ اس خطے میں (سرزمین عرب کے ساتھ ساتھ) یہ عظیم زبان بھی نمو پاتی رہی۔ماہرین کے اندازے کے مطابق،یہ رسم الخطMesopotamiaیعنی قدیم عراق(نیز مشرقی شام) میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش سے کوئی تین ہزار چارسوسال سے تین ہزار دوسو سال قبل کے دورمیں [3400-3200 BC]ایجاد کیاگیا۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ موئن جودَڑو اور اُس سے بھی پرانی مہر گڑھ تہذیب کا عراق سے تعلق، ربط ضبط،خصوصاً تجارت وسیاحت بھی محققین کے لیے دل چسپ موضوع ہے۔اس ضمن میں قدیم سندھی ہی نہیں، بلوچی اور براہوئی کا ماضی بھی کھنگالا جاسکتا ہے۔قدیم تصویری رسم الخط کی زندہ مثالوں میں چینی وجاپانی اور اُن سے جُڑی ہوئی کئی زبانیں شامل ہیں،البتہ یہ اُس قدر مُہمل نہیں جتنی ابتداء میں عراق، شام، مصر اور ہندوسندھ وبلوچستان کی تحریر تھی۔
(1985ء میں،راقم کی اوّلین مطبوعہ تحریر،بعنوان، 'رَنی کوٹ یا نیرون کوٹ: ایک تحقیق' نے اچھی خاصی ہلچل مچادی تھی جو اُس وقت کے سب سے بڑے اردو اخبار میں شایع ہوئی تھی۔ کسی خاص علاقے کی تاریخ کے متعلق سینہ گزٹ کو(بلاتحقیق، سندوحوالہ) صحیفہ سمجھ کر بیان کرنا ایک عام وتیرا رہا ہے اور نقل کرنے والے یہ دیکھ کر آگے پھیلادیتے ہیں کہ فُلاں بڑے نے لکھا ہے تو بالکل صحیح ہوگا۔پھر توجناب سلسلہ چل نکلا۔کوئی دوتین مضامین بلکہ'مضمون چے' (مضمونچہ یعنی مختصر مضمون)رَدِتحقیق کے سلسلے میں شایع ہوئے،اور سارے کے سارے مشاہیر کی تحریروں کے رَد میں، توایسے میں خود نگِراں صفحہ (وہ بھی صدیقی مرحوم) تلملا اُٹھے اور کہنے لگے کہ آپ کو کس نے لائسنس دے دیا کہ بڑوں کے خلاف لکھیں۔ (رَدِّ تحقیق پرمبنی مزیدمضمون لکھ کر بھیجا تو روک لیا گیا)۔ہم نے بھی غصے میں، تُرکی بہ تُرکی جواب دے دیا کہ اُنھیں کس نے یہ اختیار دیاکہ جو مُنھ میں آئے بک دیں، جو جی چاہیں لکھ دیں۔ٹیلیفون کال پر ہونے والی اس تلخ گفتگو کے بعد خاکسار نے دیگر موضوعات پر طبع آزمائی کی)۔
جس طرح اردو کی قدامت کا ذکر ہوا، سندھ اور سندھی زبان وتہذیب کی قدامت کا موضوع بھی اپنی جگہ اہم ہے۔ابوالقاسم فرشتہ اور میرعلی شیر قانع نے یہ قراردیا کہ مُلک سند (سندھ) اصل میں حضرت نوح (علیہ السلام) کے پوتے اور ہِند کے بھائی، سِند کے نام پر آباد ہوا۔اوّل الذّکر نے یہ بھی لکھا کہ سِند بن حام بن نوح نے اپنے دوبیٹوں کے نام پر شہر ٹھٹھہ اور ملتان آباد کیے۔یہ بیانات کسی قسم کی تحقیق وتصدیق کے بغیر ہی نقل ہوتے رہے ہیں، سو ہم نے بھی کردیے۔حقیقت یہ ہے کہ بائبل سے ان ناموں کی تصدیق نہیں ہوتی۔
رہی بات کہ سندھ نام کیسے پڑا، اس بابت مشہور آراء یہ ہیں:
ا)۔آریہ یا آریا یہاں آئے تو اُنھوں نے اس علاقے کا نام سندھ رکھا۔اُن کی زبان میں اس کا مطلب دریا تھا،سو اُنھوں نے اس دریا کے کنارے آباد علاقے کو یہ نام دے دیا۔
ب)۔اس علاقے کانام آریوں کی آمد سے بھی قبل سند تھا جو بعدمیں سندھ بن گیا۔راقم اس سے اتفاق کرتا ہے کہ سنسکِرِت میں سندھو بمعنی دریا موجودتھا اور اس کی تفصیل بھی قدیم ہندو کتب میں منقول ہے۔
حضرت نوح کے بیٹوں کے متعلق یہ روایت بھی بہت مشہور ہے کہ اُن کے بیٹے سام سے زرد نسل[Yellow race] چلی یعنی ایشیا کے لوگ، حام کی رنگت سیاہ تھی، اُن کی نسل سے حامی یا سیاہ فام نسل[Black race] اور یافث گورے چِٹّے تھے،اُن سے مغرب کی سفید فام اقوام[White nations] پیداہوئیں۔آگس برگ (Augsburg)سے 1472ء میں شایع ہونے والے نقشے کے مطابق برّ اعظم تین ہی تھے ;ایشیا جسے سام بن نوح (Sem or Shem)کی اولاد نے بسایا،دوسرا یورپ جسے آباد کرنے والے یافث بن نوح (Iafeth or Japheth)کی آل تھی اور تیسرا تھا افریقہ جسے حام بن نوح (Cham or Ham)کی نسل نے تعمیرکیا۔اس نکتے کی مزید وضاحت تحقیق ِ جدید کی روشنی میں کی جائے تو معلوم ہوگا کہ تمام زردنسل کے لوگ،خواہ کہیں مقیم ہوں، سامی ہیں،اسی طرح تمام سیاہ فام حامی ہیں،
خواہ وہ برّاعظم شمالی و برّ اعظم جنوبی امریکا میں مقیم ہوں یا آسٹریلیا میں۔ اگر زمانہ ماقبل تاریخ کی ہندومذہبی کتب سے اکتساب کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ سندھ کی تاریخ رام چندر جی کے فوراً بعد کے دور سے شروع ہوتی ہے۔ (جاری)
یہ بات تو بہت پُرانی اور مشہور ہے، مگر اس کی حیثیت محض قیاس سے زیادہ کچھ نہیں۔جاننے والے جانتے ہیں کہ سید صاحب عالم دین تھے،ماہر لسانیات نہیں!
اس بابت گفتگو کرتے ہوئے یارلوگ یہاں تک کہنے لگے کہ اُس دورمیں یعنی جب محمد بن قاسم (رحمۃ اللہ علیہ) نے 712ء میں سندھ فتح کیا تو یہاں کی زبان سندھی تھی،اردو نہیں اور عربی کا اثر سندھی پرہوا ہوگا نہ کہ اردوپر.....بات یہ ہے کہ سینہ گزٹ صحیح مان لیں تو سندھی یقینا پانچ ہزارسال پرانی زبان ہے یا ہوگی، مگر اس کا کوئی ثبوت تاریخ سے یا لسانی تاریخ سے ابھی تک فراہم نہیں ہوسکا۔خاکسارکی یہ جسارت نام نہاد قوم پرست حضرات کو بہت کھَلتی ہے، مگر علمی جواب آج تک کہیں سے نہیں دیا گیا۔
"سندھ نے کئی ہزار سال قبل ایک ثقافتی و لسانی اتحاد، آریوں سے کیا تھا اور یہ اتحاد اِتنا مضبوط تھا کہ سندھ کی عوامی بولی پر ایک طرح سے سنسکِرِت کی مُہر لگ گئی تھی، مگر نئے فاتح (یعنی عرب مسلمان: س اص)، اس سرزمین کے ذرّوں سے اس طرح سے گھُل مِل گئے کہ اقتدارکے دباؤ سے ہٹ کر عام زندگی پر اَپنے ا ثرات مرتب کر نے لگے اور برسو ں کے فصل (فاصلے: س ا ص) سے بڑے بڑے شہروں کی بولی میں عربی الفاظ نے اپنی مستقل جگہ بنالی۔اِس مقام پر ایک سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا پورے سندھ میں ایک ہی بولی یا زبان رائج تھی.................مولانا ابوظفر ندوی کے (بیان کے) مطابق، سندھ اور ملتان کی اصل زبان، جس میں وہا ں کے سندھی عوام بات کرتے تھے، وہ متعدد تھی۔بھاٹیہ سے لے کر سندھ کے بالائی حصے تک تو اَرد ناگری کا رِواج تھا یعنی نصف ناگری،کیونکہ یہ مختلف زبانوں سے مل کر پچ میل زبان بن گئی تھی۔اسی زبان میں یہ لوگ خط کتابت کرتے تھے اور کتابیں بھی لکھی جاتی تھیں"۔(سندھ میں اردو اَز ڈاکٹر شاہدہ بیگم بحوالہ تاریخ ّسندھ اَز ابوظفر ندوی)۔
ابوظفر ندوی صاحب نے اس باب میں مزید روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ"جنوب سندھ کے ساحلی علاقو ں میں ملگاری زبان کا زیادہ رِواج تھا۔اسی ملگاری زبان میں تمام قسم کا پڑھنا لکھنا ہوتا تھا، لیکن منصورہ اور برہمن آباد میں ایک اور زبان رائج تھی جس کو 'سین دب' کہتے تھے (بحوالہ کتاب الہند اَز البےِرونی)۔اسی سین دب ہی کا ترمیمی نام سندھی ہے"۔(تاریخ ّسندھ اَز ابوظفر ندوی: مطبوعہ المعارف، اعظم گڑھ۔1947)۔اسی کتاب میں سندھی زبان کے مخصوص علاقوں تک رواج کے ساتھ ساتھ عربی اور فارسی کے غلبے کا ذکر بھی ملتا ہے نیز ایک زبان مکرانی کانام لیاگیا جو درحقیقت مکران کی بلوچی ہے۔ویسے بھی مکرانی نامی کوئی زبان تھی نہ ہے، البتہ کراچی کے شِیدی یا مکرانی جس مخصوص لہجے میں بلوچی بولتے ہیں، اُسے 'مکرانی بلوچی' کہاجاسکتا ہے، کیونکہ اس میں بہت کچھ معیاری بلوچی سے مختلف ہے۔
اردو کی سندھ میں پرورش یا فروغ کا موضوع یقینا ماہرین لسانیات کے لیے اُتنا ہی دل چسپ ہے،جتناکہ کسی اور علاقے کا، البتہ یہاں کام قدرے سُست رَوِی سے ہوا ہے۔ابھی اس جہت میں بہت کچھ ہونا باقی ہے۔
سید سلیمان ندوی کی محوّلہ بالا نکتہ آرائی میں کئی حقائق نظراَنداز ہوگئے،مثلاً:
ا)۔برّعظیم پاک وہند میں (مختلف روایات کی رُوسے) اسلام کا داخلہ جنوب یعنی مالابار وغیرہ [Kerala or Keralam]سے ہوا۔یہ بات بہرحال بحث طلب ہے کہ ڈاکٹر حمیداللہ سمیت بعض اہل علم نے تَمِل راجہ تاج الدین (سابق چیرامن پِیرومَل)کے معجزہ شق القمر دیکھ کر، سرزمین حجاز کا سفرکرکے اسلام قبول کرنے اور شرفِ صحابیت حاصل کرنے کی روایت یا حکایت محض مقامی روایت یا سینہ گزٹ کی بناء پر قبول کی ہے جبکہ ہمارے مشہور مآخذِسیرت میں یہ شامل نہیں،البتہ یہ ثابت ہے کہ یہاں اَزمنہ قدیم سے عرب وہند کے مابین تجارت وسیاحت جاری تھی تو بالکل ابتداء ہی میں یہاں اسلام داخل اور کسی حد تک رائج ہوچکا تھا۔(میں نے اپنے بچپن میں ایک کتاب 'سیرت ِ رسول اللہ ﷺ میں یہ رِوایت پڑھی تھی، مدتوں بعد ڈاکٹر حمید اللہ اور دیگر کے بیانات دیکھے)۔مقامی حکایت کے مطابق راجہ صاحب کو مکّہ مکرّمہ کی زیارت کے سبب Makkahvukkupona Perumal(مکّہ جانے والا بادشاہ) کہا جانے لگا تھا۔وِکی پیڈیا نے انٹرنیٹ پر دستیاب بیش قیمت مواد سے قطع نظر،اس حکایت کو ایک فسانہ قراردیا ہے۔
ب)۔ عہدرسالت مآب (ﷺ) کے اس ذکر کے بعد زیادہ مشہور حوالہ امیرالمؤمنین سیدنا عمر فاروق (رضی اللہ عنہ') کے عہد ِ خلافت میں تھانہ، نزد بمبئی اور دیبل (سندھ) پر مسلم لشکر کی چڑھائی اور فتح کے نتیجے میں یہاں صحابہ کرام سمیت متعدد بزرگوں کا ورودِ مسعود اور مکران ونواح میں اسلام کی آمد کا ہے، جسے لوگ نظراَنداز کرتے ہوئے سندھ کو 'باب الاسلام' کہہ جاتے ہیں، حالانکہ مکمل فتحِ سندھ کا تاریخی واقعہ تو کوئی چھہتر برس بعد کا ہے،جبکہ ابتدائی حملوں اورفتح کا ذکر بھی ہمارے بہت سے خواندہ لوگوں کے علم میں نہیں!
ج)۔اردو کی قدامت کے متعلق سلسلہ زباں فہمی وسخن شناسی میں بارہا لکھا جاچکا ہے۔یہاں مختصراً عرض کرتاہوں کہ تمام شواہد اور بیانات کے پیش ِ نظر، راقم کی یہ رائے اصحح ہے کہ اردو نے(سنسکِرِت کی پیدائش سے بھی پہلے لکھی گئی) قدیم ہندو کتب ویدوں کے عہد سے الفاظ کی پیدائش اور جمع کے ذریعے ابتدائی پنیری لگائی جو صدیوں کے سفر کے بعد، اس خطے کے متعدد مقامات(بشمول دکن، نواحِ دکن، شمالی ہند، بِہار، بنگال، آسام، اُڑیسہ، متحدہ پنجاب، سابق صوبہ سرحد، بلوچستان و سندھ) پر، وہاں کی مقامی زبانوں اور بولیوں کے اشتراک واختلاط کے نتیجے میں کم وبیش ایک ہزار سال قبل باقاعدہ زبان کی شکل اختیار کی۔یوں ہر علاقے کی ہر بڑی زبان کا اردو سے تعلق واشتراک کا دعویٰ اپنی اپنی جگہ کم یا بیش درست ہے۔اس فہرست میں گوجری، کھڑی بولی یا ہریانی/ہریانوی، دکنی(اردو ہی کی ابتدائی قدیم بولی)،گجراتی،اُڑیہ،بنگلہ، پہاڑی، پوٹھوہاری،پنجابی، سرائیکی، ہندکو، پشتو اور سندھی کے نام شامل ہیں، جبکہ جنوب کی خاص زبانوں بشمول تَمِل، تیلگو،ملیالم اور کنڑ سے بھی الفاظ کے مستعار لینے کا عمل جاری رہا۔یوں ہندآریائی زبانوں کے گروہ میں شامل زبان، اردو کا دَراوڑی زبانوں سے بھی رشتہ ثابت ہوگیا۔اسی سلسلے کی ایک کڑی براہوئی زبان بھی ہے، جس سے تعلق واشتراک پر زباں فہمی کا مضمون ابھی لکھا جانا باقی ہے۔
یہاں ایک محقق کی کتاب سے ایک اہم اقتباس نقل کرتاہوں:
"ماہرین ِ لسانیات نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ہندآریائی زبانیں، بلکہ سنسکرت بھی کم وبیش، دراوڑی زبانوں سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔کم از کم الفاظ کا لین دین تویقیناہواہوگا۔اس لین دین کے نشانات آج بھی ہمیں سنسکرت کی جانشین زبانوں میں ملتے ہیں۔کُٹیا (جھونپڑی)، کوٹ (قلعہ)، نِیر (پانی)وغیرہ دراوڑی اصل کے الفاظ ہیں جو آج بھی اردو،سندھی اور دیگر ہندآریائی زبانوں میں پائے جاتے ہیں۔آریائی اور دراوڑی خاندانوں کا تقابلی مطالعہ ابھی ٹھیک طور سے نہیں کیا گیا ;بہت سے وہ الفاظ جنھیں ہم آریائی سمجھتے ہیں، ممکن ہے کہ وہ خود آریائی زبانوں نے دراوڑی خاندان کی زبانوں سے مستعار لیے ہوں۔بہرحال ہم یہاں بالِاجمال اتنا کہنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ اردو، سندھی کے مشترک سرمایہئ الفاظ کا ایک حصہ ایسا بھی ہے جو دراوڑی اثرات کا نتیجہ ہے۔عین الحق فریدکوٹی نے اپنے مضمون 'وادی سندھ میں دراوڑی زبان کی باقیات' (مشمولہ اُردونامہ، کراچی، شمارہ نمبر 6)میں کثرت سے ایسے الفاظ درج کیے ہیں جو آج نہ صرف سندھی،بلکہ ہندوپاکستا ن کی اکثر زبانوں میں پائے جاتے ہیں"۔(اردو،سندھی کے لسانی روابط اَز شرف الدین اصلاحی۔سنِ تصنیف 1965ء، سنِ اشاعت 1970ء: ناشر مرکزی اردوبورڈ، لاہور)
د)۔ زباں فہمی میں قارئین کرام کی معلومات کے لیے، یہ انکشاف بھی ایک سے زائد بارکیا گیاکہ ڈاکٹر ابوالجلال ندوی کو برسوں کی محنت ِ شاقّہ کے نتیجے میں موئن جو دَڑو کی قدیم تحریریں پڑھنے میں کامیابی ملی تو معلوم ہوا کہ یہ تصویری رسم الخط (Cuneiform script)میں لکھی گئی ابتدائی، قدیم عربی زبان کے نمونے ہیں۔تاریخ،خصوصاً مذہبی تاریخ سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچی کہ اس خطے میں (سرزمین عرب کے ساتھ ساتھ) یہ عظیم زبان بھی نمو پاتی رہی۔ماہرین کے اندازے کے مطابق،یہ رسم الخطMesopotamiaیعنی قدیم عراق(نیز مشرقی شام) میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش سے کوئی تین ہزار چارسوسال سے تین ہزار دوسو سال قبل کے دورمیں [3400-3200 BC]ایجاد کیاگیا۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ موئن جودَڑو اور اُس سے بھی پرانی مہر گڑھ تہذیب کا عراق سے تعلق، ربط ضبط،خصوصاً تجارت وسیاحت بھی محققین کے لیے دل چسپ موضوع ہے۔اس ضمن میں قدیم سندھی ہی نہیں، بلوچی اور براہوئی کا ماضی بھی کھنگالا جاسکتا ہے۔قدیم تصویری رسم الخط کی زندہ مثالوں میں چینی وجاپانی اور اُن سے جُڑی ہوئی کئی زبانیں شامل ہیں،البتہ یہ اُس قدر مُہمل نہیں جتنی ابتداء میں عراق، شام، مصر اور ہندوسندھ وبلوچستان کی تحریر تھی۔
(1985ء میں،راقم کی اوّلین مطبوعہ تحریر،بعنوان، 'رَنی کوٹ یا نیرون کوٹ: ایک تحقیق' نے اچھی خاصی ہلچل مچادی تھی جو اُس وقت کے سب سے بڑے اردو اخبار میں شایع ہوئی تھی۔ کسی خاص علاقے کی تاریخ کے متعلق سینہ گزٹ کو(بلاتحقیق، سندوحوالہ) صحیفہ سمجھ کر بیان کرنا ایک عام وتیرا رہا ہے اور نقل کرنے والے یہ دیکھ کر آگے پھیلادیتے ہیں کہ فُلاں بڑے نے لکھا ہے تو بالکل صحیح ہوگا۔پھر توجناب سلسلہ چل نکلا۔کوئی دوتین مضامین بلکہ'مضمون چے' (مضمونچہ یعنی مختصر مضمون)رَدِتحقیق کے سلسلے میں شایع ہوئے،اور سارے کے سارے مشاہیر کی تحریروں کے رَد میں، توایسے میں خود نگِراں صفحہ (وہ بھی صدیقی مرحوم) تلملا اُٹھے اور کہنے لگے کہ آپ کو کس نے لائسنس دے دیا کہ بڑوں کے خلاف لکھیں۔ (رَدِّ تحقیق پرمبنی مزیدمضمون لکھ کر بھیجا تو روک لیا گیا)۔ہم نے بھی غصے میں، تُرکی بہ تُرکی جواب دے دیا کہ اُنھیں کس نے یہ اختیار دیاکہ جو مُنھ میں آئے بک دیں، جو جی چاہیں لکھ دیں۔ٹیلیفون کال پر ہونے والی اس تلخ گفتگو کے بعد خاکسار نے دیگر موضوعات پر طبع آزمائی کی)۔
جس طرح اردو کی قدامت کا ذکر ہوا، سندھ اور سندھی زبان وتہذیب کی قدامت کا موضوع بھی اپنی جگہ اہم ہے۔ابوالقاسم فرشتہ اور میرعلی شیر قانع نے یہ قراردیا کہ مُلک سند (سندھ) اصل میں حضرت نوح (علیہ السلام) کے پوتے اور ہِند کے بھائی، سِند کے نام پر آباد ہوا۔اوّل الذّکر نے یہ بھی لکھا کہ سِند بن حام بن نوح نے اپنے دوبیٹوں کے نام پر شہر ٹھٹھہ اور ملتان آباد کیے۔یہ بیانات کسی قسم کی تحقیق وتصدیق کے بغیر ہی نقل ہوتے رہے ہیں، سو ہم نے بھی کردیے۔حقیقت یہ ہے کہ بائبل سے ان ناموں کی تصدیق نہیں ہوتی۔
رہی بات کہ سندھ نام کیسے پڑا، اس بابت مشہور آراء یہ ہیں:
ا)۔آریہ یا آریا یہاں آئے تو اُنھوں نے اس علاقے کا نام سندھ رکھا۔اُن کی زبان میں اس کا مطلب دریا تھا،سو اُنھوں نے اس دریا کے کنارے آباد علاقے کو یہ نام دے دیا۔
ب)۔اس علاقے کانام آریوں کی آمد سے بھی قبل سند تھا جو بعدمیں سندھ بن گیا۔راقم اس سے اتفاق کرتا ہے کہ سنسکِرِت میں سندھو بمعنی دریا موجودتھا اور اس کی تفصیل بھی قدیم ہندو کتب میں منقول ہے۔
حضرت نوح کے بیٹوں کے متعلق یہ روایت بھی بہت مشہور ہے کہ اُن کے بیٹے سام سے زرد نسل[Yellow race] چلی یعنی ایشیا کے لوگ، حام کی رنگت سیاہ تھی، اُن کی نسل سے حامی یا سیاہ فام نسل[Black race] اور یافث گورے چِٹّے تھے،اُن سے مغرب کی سفید فام اقوام[White nations] پیداہوئیں۔آگس برگ (Augsburg)سے 1472ء میں شایع ہونے والے نقشے کے مطابق برّ اعظم تین ہی تھے ;ایشیا جسے سام بن نوح (Sem or Shem)کی اولاد نے بسایا،دوسرا یورپ جسے آباد کرنے والے یافث بن نوح (Iafeth or Japheth)کی آل تھی اور تیسرا تھا افریقہ جسے حام بن نوح (Cham or Ham)کی نسل نے تعمیرکیا۔اس نکتے کی مزید وضاحت تحقیق ِ جدید کی روشنی میں کی جائے تو معلوم ہوگا کہ تمام زردنسل کے لوگ،خواہ کہیں مقیم ہوں، سامی ہیں،اسی طرح تمام سیاہ فام حامی ہیں،
خواہ وہ برّاعظم شمالی و برّ اعظم جنوبی امریکا میں مقیم ہوں یا آسٹریلیا میں۔ اگر زمانہ ماقبل تاریخ کی ہندومذہبی کتب سے اکتساب کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ سندھ کی تاریخ رام چندر جی کے فوراً بعد کے دور سے شروع ہوتی ہے۔ (جاری)