کراچی میں بوہری برادری کی گہما گہمی

برداری کے راہ بر’’سیدنا مفضل سیف الدین‘‘ کی آمد کے باعث رونق اور تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ

فوٹو : فائل

کراچی کا دل اگرکسی علاقے کوکہا جاسکتا ہے تو وہ صدر ہے، یہاں روزانہ شہر اور بیرون شہر سے کم وبیش لاکھو ں لوگ تو آتے ہوں گے، مجھے یاد ہے تیس بتیس سال پہلے جب میں ابو کے ساتھ صدر آتا تو دو چیزیں بچے کی حیثیت سے میرے لیے بڑی دل چسپی اور پسندیدگی کا سبب تھی، ایک تو ایمپریس مارکیٹ کے قریب واقع ایک مشہور دکان کی آئسکریم اور دوسرا آج کی زیب النسا اور اس وقت کی الفنسٹن اسٹریٹ پر ٹہلتے غیرملکی، آہستہ آہستہ آئسکریم کی دکان پر تورش بڑھتا رہا لیکن غیرملکی سیاح گھٹتے چلے گئے، اب جب صدر کا چکر لگتا تو خال خال ہی کوئی میم نظر آتی، صرف آئسکریم کھاکر گھر لوٹ آتے۔ پھر سوویت یونین کا انہدام ہوا اور کراچی میں روسیوں کا ازدحام لگ گیا۔

یہ غیرملکی سوویت یونین ٹوٹنے سے آزاد ہونے والی ریاستوں کے باشندے تھے جو چھوٹے موٹے کاروبار کے لیے کراچی کا رخ کرتے، یہ لوگ اور چیزوں کے ساتھ روسی کاٹن بھی لاتے جو بہت ہی سستا یعنی پانچ روپے میٹر ہوا کرتا تھا۔ کپڑے کی کوالٹی بھی اچھی ہوتی۔ سابق روسی ریاستوں کے یہ شہری صدر میں فٹ پاتھوں پر بھی تھان رکھ کر روسی کاٹن بیچتے۔ سستا اور معیاری ہونے کی وجہ سے کراچی والوں نے یہی کپڑا خریدنا شروع کردیا تھا۔ یہ لوگ زینب مارکیٹ سے پتلون قمیصیں خریدتے یا چھوٹے بڑے آرڈر دیتے۔ ان دنوں کراچی میں نوازشریف اسکیم کی پیلی ٹیکسیوں کی بھی بھرمار تھی۔

زینب مارکیٹ کے اطراف پیلی ٹیکسیوں سے یہی مسافر اترتے چڑھتے نظر آتے۔ روسی اور دوسری سابق سوویت ریاستوں کے شہری اتنی بڑی تعداد میں اور مسلسل یہاں آتے کہ ٹیکسی والے تک روسی زبان سیکھ گئے تھے۔ صدر کے ٹو اور تھری اسٹار ہوٹلوں میں بھی انہیں لوگوں کا رش نظر آتا تھا۔ وہ کراچی کے اچھے دن تھے جب غیرملکیوں کی وجہ سے گارمنٹس اور ہوٹلنگ والوں کے کاروبار میں کافی تیزی آگئی تھی۔ ٹیکسی والوں کے بھی وارے نیارے تھے۔ دنیا کی بدلتی صورت حال اور کراچی میں بدامنی کا جنگ بوتل سے باہر آنے کی وجہ سے یہ دن زیادہ نہیں رہے۔ سابق سوویت ریاستوں کے باشندوں کی کراچی آمد بھی بند ہوگئی۔ اب کراچی میں مہمان نظر نہیں آتے، جس گھر یا شہر میں مہمان نہ آئیں شاید وہاں سے برکت بھی اٹھ جاتی ہے۔

کراچی سے بھی برکت ایسی اٹھی کہ مہمان خانے ویران ہوگئے۔ تقریباً بیس سال سے شہر میں کوئی نیا فائیو یا فور اسٹار ہوٹل نہیں کھلا۔ نئے ہوٹل توخیرکیا کھلنے پرانے بھی وقتاً فوقتاً بند ہوتے رہے۔ تازہ ترین مثال شارع فیصل پرواقع ریجنٹ پلازہ ہوٹل ہے۔ یہ ہوٹل تاج محل کے نام سے اسی کی دہائی میں بڑی شان سے کھلا تھا۔ اس کی خوب صورت عمارت واقعی کراچی کے لینڈ اسکیپ میں کسی تاج کی مانند تھا۔ ہوٹل تاج محل کی لوکیشن بھی بڑی زبردست تھی۔



ایک تو ہوائی اڈے سے سیدھی سڑک یہاں آتی تھی۔ دوسرا یہ کہ کینٹ اسٹیشن بھی بہت قریب جب کہ صدر کا تجارتی مرکز اور برنس روڈ کی فوڈ اسٹریٹ تو تقریباً پیدل فاصلے (واکنگ ڈسٹنس) پر ہے۔ ان سب خوبیوں اور سہولتوں سے مالامال ہونے کے باوجود یہ ہوٹل نہ چل سکا۔ پہلے تاج محل سے ریجنٹ پلازہ ہوا اور اب ہوٹل کی پیشانی پر امراض قلب کے ادارے کا بینر لگ گیا۔ این آئی سی وی ڈی نے ساڑھے چار ارب میں ریجنٹ پلازہ ہوٹل خرید لیا ہے۔ ہوٹل کے چارسو کمروں میں دل کے مریضوں کا علاج ہوگا۔ ایک چینی کہاوت یاد آرہی ہے کہ بدترین سماج وہ ہے جہاں حکیم اور نجومی زیادہ ہوں۔ یعنی اسپتال بڑھنے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ معاشرہ بیمار ہے۔

حال ہی میں اس بیمار اور مہمانوں سے محروم معاشرے کو امید کی کرن نظر آئی ہے۔ صدر کے تقریباً تمام ٹو اور تھری اسٹار ہوٹل بہت دن بعد مہمانوں سے لبالب بھرے ہیں۔ بچے کھچے فائیو اور فوراسٹار ہوٹل بھی مکمل بُک ہیں۔ شہر کے گیسٹ ہاؤسوں میں بھی تل دھرنے کی جگہ نہیں۔ آخر ایسا ہوا کیا ہے وہ بھی ایام محرم میں؟ جب لوگ غم منارہے ہوتے ہیں، واقعی یہ غم کا مہینہ ہے اور ان ہوٹلوں میں بھی غم گسارہی ٹھہرے ہوئے ہیں۔


دنیا کی دس لاکھ نفوس پر مشتمل بوہرہ برادری کے لیے کراچی اس وقت سب سے اہم اور متبرک مرکز بنا ہوا ہے۔ بوہرہ برادری کے راہ بر سیدنامفضل سیف الدین عشرہ مبارکہ کے لیے کراچی آئے ہوئے ہیں۔ ان کی صحبت اور معیت کے لیے بھارت سمیت اکناف عالم سے چالیس ہزار بوہرہ افراد نے کراچی کا رخ کررکھا ہے۔ آج کل میں آپ صدر کا چکر لگائیں تو آپ کو جگہ جگہ سفید لباس اور سنہری رنگ کی کشیدہ کاری والی ٹوپیوں والے مرد اور خاص طرزکا برقع جسے ردا کہتے ہیں، پہنی خواتین نظر آئیں گی۔ یہ مردوخواتین روزانہ صدر کی طاہرمسجد میں سیدنا کا وعظ سنتے ہیں۔

یہ وعظ براہ راست شہر میں بیس مقامات کے علاوہ سری لنکا میں بھی دکھایا جارہا ہے۔ بوہرہ راہ بر سیدنا مفضل سیف الدین ہر سال کسی الگ شہر میں عشرہ مبارکہ کے لیے جاتے ہیں۔ پچھلے سال وہ متحدہ عرب امارات حکومت کی خصوصی دعوت پر دبئی میں تھے۔ ان کی معیت کے لیے دنیا بھر سے لاکھوں بوہروں نے دبئی کارخ کیا تھا جس سے شہر کی کاروباری سرگرمیوں میں زبردست تیزی آگئی تھی۔ اس بار کراچی کا مقدر کھلا ہے لیکن شہر میں ہوٹلوں کی تعداد اتنی نہیں، تقریباً بائیس ہزار افراد کو کراچی کی بوہرہ برادری نے اپنا مہمان بنایا ہوا ہے۔ اس چہل پہل اور کاروباری سرگرمی سے صرف ہوٹل والوں کو فائدہ نہیں ہورہا۔ صدر کے علاقے میں واقع ریستوراں اور چائے خانے بھی دن رات آباد نظر آرہے ہیں۔ رینٹ اے کار، بائیک کی آن لائن سواری فراہم کرنے اور رکشے والوں کو بھی خوب سواریاں مل رہی ہیں۔ شہر کی سب سے پرانی فوڈاسٹریٹ برنس روڈ پر بھی سفید کرتے ٹوپی اور رداؤں والی فیملیز پہلے سے بہت زیادہ نظرآرہی ہیں۔ یہ سب لوگ کراچی کی مہمان نوازی سے لطف اٹھارہے ہیں۔

شہر کا موسم تو گرم ہے لیکن سیکیوریٹی کی صورت حال قدرے بہتر ہے۔ غیرملکی مہمانوں کی آمد کے باعث صدر اور اطراف میں پولیس اہل کاروں کی تعداد بھی زیادہ ہے۔ مستعد پولیس اہل کاروں کی موجودگی میں غیرملکی مہمان خود کو محفوظ اور مطمئن محسوس کررہے ہیں۔

کراچی میں بوہری برادری کی تعداد لگ بھگ چالیس ہزار ہے۔ چالیس ہزار لوگ باہر سے آئے ہیں۔ اس طرح مجموعی طور پر اسی ہزار افراد کا روزانہ دو وقت کا کھانا بھی بوہرہ جماعت خانوں کی جانب سے کھلایا جاتا ہے۔ یہ ایک بہت بڑی سرگرمی ہے، جب ہزاروں کی تعداد میں تھال سجائے جاتے ہیں۔ برادری کے تمام افراد کسی اونچ نیچ کے فرق کے بغیر انہیں تھالوں سے ایک جیسا کھانا کھاتے ہیں۔ کھانے کی تیاری میں ہزاروں من اناج، گوشت اور دوسرے لوازمات استعمال ہورہے ہیں۔

کئی سو باورچی اور ان کے مدد گار کام کررہے ہیں۔ اس سے بھی روزگار اور کاروباری سرگرمیوں میں بھی اضافہ نظرآرہا ہے۔ بوہری برادری اپنی سماجی خوبیوں کے لیے بھی نیک نام ہے۔ یہ لوگ صفائی ستھرائی کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں صدر اور دوسرے علاقوں میں موجودگی کے باوجود یہ لوگ کہیں کچرا پھیلاتے اور گندگی کرتے نظر نہیں آئیں گے۔ اس کے برعکس طاہری مسجد صدر کے اطراف تو مجھے صفائی کی صورت حال بہت بہتر نظر آئی۔ مسجد آنے والی سڑک پر جگہ جگہ کوڑے دان رکھے ہوئے ہیں اور آنے والوں سے یہی درخواست کی جارہی ہے کہ وہ صفائی کا خیال رکھیں۔

جہاں کہیں بھی کوئی اتنی بڑی سرگرمی ہوتی ہے وہاں کچھ نہ کچھ مشکلات اور مسائل بھی جنم لیتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو یہ جائز شکایت ہے کہ سیکیوریٹی کی وجہ سے کچھ سڑکیں بند ہونے سے انہیں مشکل کا سامنا ہے۔ میں نے انتظامیہ کے لوگوں سے اس متعلق بات کی تو انہوں نے یقین دلایا کہ وہ پوری کوشش کررہے ہیں کہ اگلے محرم نہیں بلکہ انہیں چند دنوں میں اس کا کوئی قابل عمل حل نکال لیں، جس سے اس مشکل کا ازالہ ہوسکے۔

کراچی جو کبھی اپنی رونق، چہل پہل، سیاحوں اور مہمانوں کی آمد کے لیے مشہور تھا اور پھر اس شہر کو کسی کی نظر لگ گئی تھی۔ ایک بار پھر انگڑائی لے رہا ہے۔ آج بوہری برادری کے غیرملکی مہمان آئے ہیں وہ اپنے اپنے ملکوں میں جاکر اس شہر کی مہمان نوازی کا اچھے لفظوں میں تذکرہ کریں گے تو اس مارکیٹنگ کی وجہ سے دوسرے غیرملکی سیاح بھی کراچی کا رخ کریں گے۔۔۔اور یہ شہر پھر روشنی اور رونق کا گہوارہ بن جائے گا۔
Load Next Story