رشتوں کے بندھن

نئے رشتے کو جوڑتے ہوئے کن باتوںکو مدنظر رکھنا چاہئے

فوٹو : فائل

انسانی زندگی میں رشتوں کی اہمیت سے مفر ممکن نہیں۔ رشتے بنانا اور انھیں نبھانا مشکل ہے۔

رشتوں کی نزاکتوں کو سمجھنا اورباریکیوں کو پرکھنا بہت ضروری ہے۔کہا جاتا ہے رشتے خدا نے خون سے جوڑے ہیں اور انسانوں میں یہ احساس کی ڈور سے جڑے ہیں۔اس بات میں کوئی دو رائے بھی نہیں کہ احساس ہی رشتوں کو جوڑنے کی بڑی وجہ ہے اگر رشتوں میں تعلقات میں سے احساس کو نکال دیا جائے تو پیچھے مطلب ہی رہ جاتا ہے۔ مطلب کے لئے بننے والے تعلقات دیر پا نہیںہوتے، مطلب ختم رشتہ ختم۔ جن بندھنوں کو اخلاص اور مروت کی حلاوت ملتی ہے وہی پنپ کر پروان چڑھتے ہیں۔

یوں تو ہمارے اردگرد بہت سے رشتے ہوتے ہیں جیسے ماں باپ، بہن بھائی، دادا دادی، نانا نانی، پھوپھو، تایا چاچا، خالہ، ماموں لیکن ایک رشتہ جوسب سے پہلے آدم اور حوا کے درمیان قائم ہوا وہ تھا میاںبیوی کا رشتہ۔ اس رشتے کی اہمیت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتاہے کہ تخلیق انسانی کے بعد جو رشتہ آدم اور حوا کے بیچ قائم ہوا وہ میاں اور بیوی کا تھا۔ اللّٰہ نے اس رشتے کو بقاء انسانی کا ضامن بنایا ۔ اسلام نے جہاں ماں باپ اور دیگر رشتوں کا تقدس اور حرمت پر ضرور دیا ہے وہیں میاں بیوی کے رشتے کو انتہائی اہمیت دی ہے۔قرآن اور احادیث مبارکہ میں بھی نکاح کے اوپر خصوصی زور دیا گیا ہے۔

نکاح کی حرمت و اہمیت کا اندازہ ایسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایجاب و قبول کے بعد دو اجنبی لوگ ایک دوسرے کے لئے محرم بن جاتے ہیں۔اس رشتے کی مضبوطی اور نزاکت دونوں کو مدنظر رکھا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر میاں بیوی ایک دوسرے کو دل سے قبول کرتے ہوں اور اعتماد و محبت موجودہو تو دنیا کی کوئی طاقت انھیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کر سکتی۔ اور دوسری جانب اس کی نزاکت کو دیکھاجائے تو ایک ہلکی سی شک کی دراڑ اس رشتے کی مضبوط عمارت کو مسمار کرسکتی ہے۔

شادی کو ہمارے معاشرے میں ایک مذہبی اور معاشرتی فریضے کے طور پر ہی دیکھا جاتا ہے جو کہ غلط نہیں، مگر درحقیقت شادی ایک اخلاقی و نفسیاتی اور انتہائی اہمیت کا حامل انسانی رشتہ بھی ہے۔ دو لوگوں کے درمیان ایسا معاہدہ ہے جو انھیں ایک دوسرے کے قریب لاتا ہے ایک دوسرے پر اعتبار کرنا سیکھاتا ہے۔عموماً شادی کے بعد مرد و عورت دونوں کو مختلف قسم کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کہ بعض اوقات شادی میں مسائل کا سبب بن کر ایک دوسرے سے راہیںجدا کرنے کی وجہ بن جاتے ہیں۔ آج ہم ایسے ہی مسائل کی وجوہات کو جاننے کی کوشش کریں گے اور حل تجویز کریں گے۔

مرد کے لئے چیلنجز

عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ شادی کے بعد چیلنچز کا سامنا صرف عورت کو ہی کرنا پڑتا ہے۔لیکن مرد کو جس طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا اندازہ لگانا شاید لوگوں کے لئے بہت مشکل ہے۔ شادی کے بعد مرد پر ذمہ داریوں کا ایک ان دیکھا بوجھ آپڑتا ہے ۔ اور بچوں کے بعد تو اس میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ مرداکثر معاش کے چکر میں گھر والوںکو وہ تمام وقت دینے سے محروم رہ جاتا ہے جو وہ دینے کا خواہاں ہوتا ہے۔جوائینٹ فیملی میں یہ مسائل اور بڑھ جاتے ہیںکیونکہ وقت کی تقسیم بھی بڑھ جاتی ہے۔ پھر ایک بڑا چیلنج مرد کے لئے رشتوں میں توازن کو قائم رکھنا بھی ہوتا ہے۔

عورت تو ایک گھر کو چھو ڑ کر نئے گھر والوں کے ساتھ تعلق بناتی ہے لیکن مرد اپنے سارے گھر والوں کے ساتھ برابر سلوک رکھنے کا رودار ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی بیوی کو بھی وقت اور توجہ دینے کا پابند ہوتا ہے، اس بیلنس کے چکر میں اکثر کبھی بیوی عدم توجہی کا شکار ہوتی ہے تو کبھی والدین۔یہاں اہم نکتہ یہ ہے کہ کیسے توازن کو برقرار رکھا جاسکے ؟اس ضمن میں اسلام نے ایک الگ حجرے کا تصور دیا ہے جس سے میاں بیوی کی رازداری بھی قائم رہتی ہے اور گھریلوسکون بھی میسر ہوتا ہے۔

برصغیر پاک و ہند کے معاشرتی اور معاشی حالات نے جوائنٹ فیملی سسٹم کو فروغ دیا جس کے اپنے فائدے اور نقصان ہیں جن میں کسی ایک فرد پر معاشی بوجھ اور ذمہ داریوں کا پڑنا نمایاں ہے۔ مردوں کو بھی مسائل درپیش آتے ہیں جس پر وہ کسی دوست سے مشورہ کرتے ہیں لیکن اس کا سب سے بڑا منفی پہلو یہ ہوتا ہے کہ دوست گھر کے ماحول یا حالات سے آگاہ نہ ہونے کی وجہ سے یکطرفہ مشورہ دیتے ہیں جس پر عمل کرناعموماً پیچیدگیوں کا سبب بنتا ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ معاملہ کوئی بھی ہو اس پر دونوں فریقین کی رائے جانے بنا فیصلہ کرنا نقصان دہ ہوسکتا ہے۔

عورت کے لئے چیلنجز

شادی کے بعد عورت کو بہت سے دیکھے اور ان دیکھے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور بعض اوقات ان سب سے نبردآزما ہونے کی کوشش میں بہت سی خواتین درست رہنمائی نہ ہونے اور غلط مشوروں کی بھینٹ چڑھ کر اپنا گھر تباہ کر بیٹھتی ہیں۔ سب سے پہلے تو عورت کے لئے شوہر کے مزاج کو سمجھنا ایک مشکل امر ہوتا ہے۔ کیونکہ شادی چاہے پسند کی ہو یا ارینج دونوں ہی صورتوں میں کسی کو دور سے جاننے اور ساتھ رہ کر جاننے میں بہت فرق ہوتا ہے۔

ساتھ راہ کر عادات اور فطرت کا پتہ چلتا ہے اور یہاں عورت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ ایک مرد جو زندگی کی دودہائیوں سے زیادہ عرصہ گزار چکا ہے یا اس سے زیادہ اس کی کچھ عادات پختہ ہوچکی ہوتی ہیں اور بعض تو فطرت کا حصہ بن چکی ہوتی ہیںان کو بدلنے کی کوشش میں خود کو ہلکان کرنا یا با ر بار اس کا طعنہ دینا، جھگڑا کرنا عبرت ہے۔ جیسے کچھ مردوں میں سستی کی عادت ہوتی ہے چیزوں کو بلا وجہ بکھیرنا دیر تک سونا وغیرہ وغیرہ۔ اس صورت میں اگر وہ اپنی باقی ذمہ دارویوں کو بخوبی پورا کر رہا ہے تو یہ جان لینا ضروری ہے کہ ہر انسان میں کچھ اچھائیاں اور برائیاں ہوں گی اگر برائی کا تعلق کردار سے ہو ایسی صورت میں تو دین بھی آپ کو اجازت دیتا ہے کہ آپ اپنی راہیں جدا کر سکتی ہیں لیکن اگر وہ کچھ منفی عادات ہوں تو انھیں بدلنے کی کوشش بھی کی جاسکتی ہے اور بعض اوقات انھیں جانتے بوجھتے نظرانداز کرنا بھی غلط نہیں ہوتا ۔ پھر خواتین کو جو ایک اور بڑا مسئلہ درپیش ہوتا ہے وہ یہ کہ وہ شوہر سے زیادہ وقت مانگتی ہیں جو کہ بے جا فرمائش نہیں۔سیانے کہتے ہیں عورت یکتا پرست ہے۔


عورت کے لئے اپنے مرد کو بانٹنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ لیکن شادی کے بعد اپنے باقی رشتوں کو بھی وقت دینا اور اس میں انصاف کرنا ضروری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ سمجھنا کہ شوہر کو معاش چلانے کے لئے گھر سے باہر بھی رہنا ہے اور باقی ذمہ داریوں کو بھی پورا کرنا ہے تو اس سب میں وہ شاید چاہ کر بھی آپ کو اتنا زیادہ وقت نہ دے سکے جتنا وہ دینا چاہتا ہو۔

یوں تو ماؤں کو اپنے بیٹوں کے سر پر سہرا سجانے کا بہت ارمان ہوتا ہے مگر شادی کے بعد سب سے زیادہ مسائل بھی ساس اور بہو کے درمیان جنم لیتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ ایشیائی معاشروں میں یہ بھی ہوتی ہے کہ گھر پہ جوائنٹ فیملی سسٹم ہوتا ہے اور خواتین کا ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ واسطہ پڑتا ہے۔ کیونکہ مرد عموماً روزگار کے سلسلے میں باہر رہتے ہیں۔ جب ان مسائل کا نفسیاتی سطح پر تجزیہ کیا جاتا ہے تو معلوم پڑتا ہے کہ بیٹوںکا ماؤں کے ساتھ قدرتی طور پر لگاؤ والد کی نسبت زیادہ ہوتا ہے اور ان کا زیادہ وقت بھی ماں کے ہمراہ گزرا ہوتا ہے۔شادی کے بعد ماں کے لئے سب سے بڑا چیلنج اپنے بیٹے کو اس کی بیوی کے ساتھ بانٹنا ہوتا ہے۔

شادی سے قبل بیٹے کی زندگی میں جو وقت اور سپیس ہوتی ہے وہ بعد میں بیو ی کے ساتھ تقسیم ہوجاتی ہے۔ایسے میں ماں غیر شعوری طور پر بہو کو ایک دشمن کی طرح دیکھنے لگتی ہے اور یہیں سے بنیادی اختلافات کی داغ بیل پڑتی ہے۔ اسی طرح وہ پہلے جس طرح بلا شرکت غیر اپنے گھر کی مالک ہوتی ہے اب اس کی ملکیت میں بہو کی صورت حصہ دار کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ماؤں کو اس ضمن میں اپنے دل اور ذہن کو وسعت دینے کی ضرورت ہوتی ہے اور گھر میں نئی آنے والی کو جگہ دینے اور ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کا موقع فراہم کریں۔ ایک دوسرے کے ساتھ رواداری اور حسن سلوک سے ہی گھر کو جنت نظیر بنایا جاسکتا ہے۔

شادی کو برقرار رکھنے کیلئے کیا کرنا چاہئے؟

شادی دو لوگوں کی زندگی کا ایک اہم سنگ میل ہے۔ اور شادی کو کامیاب بنانا یقیناً ایک مشکل اور محنت طلب امر ہے ۔ بڑے بڑے ستاروں اور مشہور شخصیات بھی اس کو نبھانے میں ناکام رہے ہیں۔ اس بندھن کو برقرار رکھنے کے لئے دونوں کو کچھ اہم باتوںکو سمجھنے اور مدِ نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ذیل میں ماہرین کی رائے کے مطابق چند اہم نصیحتیں پیش کر رہے ہیں جو نئے شادی شدہ جوڑوں کے لئے مفید ثابت ہوں گی۔

٭ شادی کرتے ہوئے جہاں مرد یا عورت کے کردار اور خاندان کے اخلاق و اطوار کو جاننا پرکھنا ضروری ہے وہاں دونوں کو خود سے یہ سوال بھی پوچھنا چاہیئے کہ کیا وہ ایک دوسرے کے لئے کشش محسوس کرتے ہیں اور عمر بھرکا سفر ایک دوسرے کے ساتھ وقت کی بدلتی کروٹوں کے ہمراہ گزار سکیں گے یا نہیں۔اٹریکشن ایک فیکٹ ہے اور جو لوگ اس سے انکاری ہو کر مال و دولت یا کسی بھی دوسری وجہ کی بنا پر رشتہ بنا لیتے ہیں وہ تادیر نبھا نہیں پاتے اور اگر مجبوراً نبھانے کی تگ و دو بھی کریں تو خوشگوار تجربہ نہیں رہتا۔ ذہنی مطابقت اور ہم آہنگی ضروری ہے۔

٭ شادی کے بعد اپنی زندگی کو پرانے انداز میں گزارنے کی کوشش اور خواہش کرنا حماقت ہے کیونکہ شادی ایک نئے بندھن کا نام ہے جس میں بندھ کر دو لوگوںکو مساوی انداز میںاسے کامیاب بنانے کی کوشش کرنا پڑتی ہے۔

٭ اپنے شریک حیات کو سمجھنے کے لئے وقت دیں،دو مختلف لوگوں کا شادی کی صور ت میں ملاپ یقیناً ایک نیا تجربہ ہوتا ہے اور اس بات کو تسلیم کرنا کہ ہر انسان ایک منفردحیثیت رکھتا ہے اس کی اپنی خوبیاں اورخامیاں ہوتی ہیں اور اس کے ساتھ ہی قبول کرنا عقلمندی کی علامت ہے۔

٭ ایک دوسرے سے غیر حقیقی توقعات وابستہ کرنے سے نقصان صرف آپ کا اپنا ہوگا۔ایک دوسرے کو بدلنے کے بجائے ایک دوسرے کو سمجھیں اور حقیقی حیثیت میں قبول کریں۔ ایک دوسرے کی پوزیٹو انرجی کو استعمال کرکے کامیاب زندگی گزاری جاسکتی ہے۔

٭ گھر کے ماحول کو خوشگوار بنانے کی کوشش کریں اور ایک دوسرے کے ساتھ کوالٹی ٹائم گزاریں، اور یاد رکھیںکہ زندگی نشیب و فراز کا نام ہے اچھے اور برے دونوں دنوں کے لئے خود کو تیار رکھیں ۔ کوئی بھی وقت سداایک جیسا نہیں رہتا۔

٭ میاں بیوی دونوں کے لئے ایک دوسرے کے والدین اور خاندان کا احترام کرنا صلح رحمی اور احساس کے جذبات کو فروغ دیتا ہے۔

٭ ایک دوسرے سے اظہارِ تشکر کرنا رشتے کو مضبوط کرتا ہے۔ایک دوسرے کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کرنے سے انسیت پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ شفقت و محبت بڑھتی ہے۔
Load Next Story