کوچۂ سخن

تاب دیکھوں دلِ منّور کا<br /> منتظر ہوں میں ایسے منظر کا

فوٹو: فائل

غزل
تاب دیکھوں دلِ منّور کا
منتظر ہوں میں ایسے منظر کا
گردشوں میں ہی ڈوبا رہتا ہے
''ہر ستارہ مرے مقدر کا''
سنگ زادوں کے درمیاں رہ کر
بن گیا دل مرا بھی پتھّر کا
دل کی بستی بکھیر دیتا ہے
عشق طوفان ہے سمندر کا
ہم بھی کھیلیں گے جان کی بازی
کوئی پیدا تو ہو برابر کا
اے بقاؔ! ہنستی پھرتی دنیا میں
حال دیکھا ہے کس نے اندر کا
(بقا محمد بقا۔ کوئٹہ)


۔۔۔
غزل
تیرے کہنے پہ بھی یہ راکھ بنایا نہ گیا
مٹ گئے حرف مگر خط کو جلایا نہ گیا
وہ تصور میں اکیلا ہی تھا مہماں دل کا
میں نے آنا تھا مگر مجھ کو بلایا نہ گیا
آج بھی جاؤں تو ملتا ہے وہی راہوں میں
ایک پتھر وہ جو رستے سے ہٹایا نہ گیا
میرے چہرے میں نظر آئے ترا چہرہ بھی
عکس چہرے میں کسی طور چھپایا نہ گیا
بن گئے وہ بھی کسی آج شکاری کا شکار
جن پرندوں سے کوئی گیت بھی گایا نہ گیا
خاک صحرا کی بھی چھانی ہے مگر قیس کے سا
دل نے چاہا تو بہت نام کمایا نہ گیا
لڑکھڑاتا ہی رہا وقت کی راہوں میں سدا
بوجھ غم کا بھی سروہیؔ سے اٹھایا نہ گیا
(خالد سروہی۔ گکھڑ سٹی، گوجرانوالہ)


۔۔۔
غزل
اچھا! تمھیں بھی مجھ سے محبت نہیں رہی
یعنی، تمھیں بھی میری ضرورت نہیں رہی
سوچا نہ تھا کہ اتنے بدل جائیں گے جناب
مجھ ہی سے بات کرنے کی فرصت نہیں رہی
دل سے اُتر گئے ہیں سبھی لوگ دل جلے
اب تو کسی بھی یار کی حاجت نہیں رہی
اک پل میں لوگ کتنے بدل جاتے ہیں میاں
اِس واسطے کسی سے رفاقت نہیں رہی
کیونکر کریدتے ہیں مرے زخمِ نامراد
بس کہہ دیا کہ آپ سے حضرت نہیں رہی
ہر اک جگہ پہ گیسوئے جاناں ہیں مضطرب
بلبل کو بھی وہ راگ سے اُلفت نہیں رہی
وہ شخص آخری تھا، ملا جو نہیں مجھے
اب تو کسی بھی چیز کی حسرت نہیں رہی
میں بھی اَنا پرست ہوں کہہ دوں گا ایک روز
جا بے مجھے بھی تم سے محبت نہیں رہی
اِس زندگی سے موت ہی بہتر ہے یارنورؔ
جب دید کو وہ سانولی صورت نہیں رہی
(سید نور شہباز نور۔لطف آباد، ملتان)


۔۔۔
غزل
تو مجھے اس قدر ضروری ہے
جیسے بھٹکے کو گھر ضروری ہے
گھر بنائیں گے بعد میں اے دوست
پہلے دستک کو در ضروری ہے
میں ترے ساتھ بھی ہوں خوش لیکن
چھوڑ جانے کا ڈر ضروری ہے
سرد موسم ہے رات تو اور میں
خیر جاؤ اگر ضروری ہے
آندھیوں سے مقابلے کے لیے
اس زمیں پر شجر ضروری ہے
( منیب احمد ۔ مانسہرہ)


۔۔۔
غزل
تم جدا ہوئے تو کیا، قربتیں نہیں گئیں
دل سے اب بھی وصل کی خواہشیں نہیں گئیں
ہجر یا وصال سب جاگ کر بسر ہوئے
وقت کے بدلنے سے عادتیں نہیں گئیں
مانا ہیں یہ ہجر کی کرب ناک ساعتیں
پر وہ وصلِ یار کی راحتیں نہیں گئیں
اُس نے تھا چھوا مجھے برسوں پہلے چاہ سے
اب بھی میرے جسم سے خوشبوئیں نہیں گئیں
اک تو مبتلا ہیں ہم عشق میں غریب لوگ
ساتھ روزگار کی مشکلیں نہیں گئیں
زندگی گزار دی یار کو منانے میں
دل سے پھر بھی یار کے رنجشیں نہیں گئیں
جس کے کہنے پر ہوا بزم سے کنارہ کش
اب وہ میرِ بزم ہے، محفلیں نہیں گئیں
کچھ برے دنوں کے ہیں، چہرے پر نشان ثبت
وقت تو گیا مگر، سلوٹیں نہیں گئیں
(ثمرؔ جمال۔ جھنگ)


۔۔۔
غزل
کیا ہی پر کیف ترا جلوۂ زیبائی ہے
جس کو دیکھا وہ ترے حسن کا شیدائی ہے
راہ چلتوں کی نہ باتوں پہ توجہ کرنا
مجھ کو یہ بات مرے عشق نے سمجھائی ہے
کیا کہوں،کیا ہے سبب زیست کی بربادی کا
زندگی خود ہی خرابات میں الجھائی ہے
اس پہ غیروں کی شناسائی کا الزام نہ دھر
لوگ کہہ دیں گے ترا یار بھی ہرجائی ہے
کتنا سادہ ہے بدلتا نہیں خود کو نازشؔ
اور حالات بدلنے کا تمنائی ہے
(ا ے آرنازش۔ فیصل آباد)


۔۔۔


غزل
مت پوچھ کہاں ہے مرے یارا! مری دنیا
سب کچھ مرا یہ ہی، ترا کوچہ مری دنیا
باتیں، تری باتیں، یہی موسم، مرے موسم
آنکھیں، تری آنکھیں، یہی دنیا، مری دنیا
ہر سانس مرا اک ترے ہنسنے پہ ہے موقوف
اے دوست نہیں اِس سے زیادہ مری دنیا
دل چیرتی ہیں میرا وہ روتی ہوئی آنکھیں
کرپا ہو مہاراج، بچانا مری دنیا
پھر کوئی الٹ دیتا ہے آ کر مرا سب کچھ
میں چیختا رہتا ہوں خدایا مری دنیا
تتلی ہے نہ کوئی، نہ کسی پھول کی خوشبو
کیا ایسے ہی رہنا ہے ہمیشہ مری دنیا؟
بچھڑا ہوا اک یار نظر آیا تھا اور میں
کہتے ہوئے بھاگامری دنیا، مری دنیا
اب کیفؔ میں بے نور پڑا سوچ رہا ہوں
کون ایسے سجائے گا دوبارہ مری دنیا
(نوید کیف ۔چنیوٹ)


۔۔۔
غزل
گیاہِ خام پہ سر رکھا خواب اوڑھے ہوئے
یوں شب بسر ہوئی ساری سراب اوڑھے ہوئے
گلوں کو ناز نہ ہوتا شگفتگی کا کبھی
جو تیرے گال نہ ہوتے گلاب اوڑھے ہوئے
یہی بہت ہے کہ در پیش کچھ نہیں مجھ کو
میں خوش ہوں میرے خدا دستیاب اوڑھے ہوئے
زیاں کدے میں حسابِ گناہ بھی رکھا ہے
یہاں پہ بھی ہے تُو خود پر عذاب اوڑھے ہوئے
کھڑا ہے تیرا احد ؔساحلِ تمنا پر
سپردگی کا ہے جاں پر عذاب اوڑھے ہوئے
(زبیر احد۔ فیصل آباد)


۔۔۔
غزل
وہ چاند رات میں مثل بہار چھایا رہا
توروز عید بھی دل پر خمار چھایا رہا
بہت سے لوگ یہاں خود کو خاص کہتے ہیں
مری نظر میں فقط تو ہی یار چھایا رہا
کیا جو کوچ دل بے کراں سے تم نے بھی
تو دیر تک یہاں گردو غبار چھایا رہا
مجھے سمیٹ لیا اس نے اپنی بانہوں میں
بدن کی اوٹ میں دل پر قرار چھایا رہا
(راحیلہ اشرف۔ لاہور)


۔۔۔
غزل
ربط میرا ہے کس گھرانے سے
خوب ظاہر ہے یہ زمانے سے
میرے اپنوں کو ہی کھٹکتا ہے
رہ کے الجھن میں مسکرانے سے
غازیوں کو سکون ملتا ہے
قلعہ الحاد کا گرانے سے
ہوگا مضبوط قلب کا رشتہ
نین سے نین یوں لڑانے سے
مجھ سے بے بس کی رہ ہوئی ہموار
حوصلہ آپ کا بڑھانے سے
رب کا بندہ ہوں، رب سے ڈرتا ہوں
میں نہیں ڈرتا ہوں زمانے سے
رب بھی ناراض ہوتا ہے بیشک
رب کے بندوں کا دل دکھانے سے
عشق آساں نہیں ہے، جاں تک بھی
چھین لیتا ہے اک دوانے سے
بااثر ہوگئی زباں نازاںؔ
نغمۂ عشق گنگنانے سے
(صدام حسین نازاؔں۔ پورنوی، بہار، بھارت)


۔۔۔
غزل
کوئی دعا مرے حق میں دلیل ہو جائے
ہمارے واسطے دنیا قلیل ہو جائے
میں چاہتی ہوں کہ اک بحث ہو ہمارے بیچ
کہ جس کا حل نہ ملے اور طویل ہوجائے
مرا علاج کرے اک طبیب برسوں تک
علاج ختم ہو دل پھر علیل ہو جائے
کسی کو دھوکہ ملے دوستی میں اور پھر وہ
بڑے ہی ظرف سے سہہ کر عقیل ہو جائے
پھر ایک جنگ چھڑے اس کے اور میرے بیچ
پھر اس کے حق میں مرا دل وکیل ہو جائے
وہ بھول جائے مرے پاس اپنے سائے کو
پھر اس کو سننے کی کوئی سبیل ہوجائے
میں تیرا نام جو لکھ دوں کسی بھی مصرعے میں
غزل وہ ساری کی ساری اصیل ہو جائے
کہیں پہ تم نظر آؤ کہیں سے ہم گزریں
تمام چاہنے والوں میں ڈیل ہو جائے
(خنساء غزال۔ڈیرہ غازی خان)


۔۔۔
غزل
آنکھوں میں بس گیا ہے ترا پھول سا بدن
جب سے نگاہ نے ہے چھوا پھول سا بدن
گھر کی فضائیں جیسے معطّر سی ہوگئیں
آنگن میں میرے جب یہ کھلا پھول سا بدن
پھر محوِ رقص چاروں طرف تتلیاں ہوئیں
کاغذ پہ میں نے جب بھی لکھاپھول سا بدن
پھر انگلیوں سے میری اچانک مہک اٹھی
جب میری انگلیوں نے چھوا پھول سا بدن
وہ آمدِ بہار تھی یا خواب تھا کوئی
جھولی میں آکے جب تھا گراا پھول سا بدن
ہمراہ اُس کے ارض و سماوات چل دیے
انصرؔ جدھر جدھر وہ گیا پھول سا بدن
(راشد انصر۔پاک پتن)


سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

Load Next Story