بُک شیلف
ادبی کتابوں کا دلچسپ مجموعہ
آزادی کا طویل سفر
مصنف: نیلسن منڈیلا، مترجم: خالد محمود خان
قیمت:1100روپے، صفحات:534
ناشر:نگارشات پبلشرز ،24 مزنگ روڈ ، لاہور (03219414442)
رنگ و نسل کی بنیاد پر انسانوں سے امتیازی سلوک کرنا اخلاقی لحاظ سے انتہائی قبیح فعل ہے مگر کیا کریں ایسے معاشروں کا جہاں پر قوانین ہی رنگ و نسل کی بنیاد پر بنائے گئے، ان قوانین کی وجہ سے گورے اور کالے رنگ میں زمین و آسمان کا تفاوت پیدا کر دیا گیا ، کوئی بھی گورا کسی کالے کو کسی بھی وقت اپنا کوئی بھی ذاتی کام کہہ سکتا تھا اور وہ کالا اس کا کام کرنے پر مجبور تھا ورنہ اسے سزا کا سامنا کرنا پڑتا تھا، یہاں تک کہ بسوں میں سفر، رہائشی علاقوں اور دیگر بہت سے معاملات میں امتیازی قوانین بنائے گئے، یوں لگتا تھا کہ جانوروں کو زیادہ اور کالی رنگت والوں کو کم حقوق حاصل ہیں ، کوئی بھی گورا جب چاہے کسی بھی کالے کی بے عزتی کر سکتا تھا ۔
ذرا تصور کریں کہ کوئی ایسا فرد جو آپ کو ناپسند ہو اور وہ آپ کو اپنا ذاتی کام کرنے کے لیے کہے اور آپ چوں چراں کیے بغیر اسے کرنے پر مجبور ہوں تو آپ کے دل پر کیا گزرے گی، جنوبی افریقہ میں بھی کسی زمانے میں سیاہ فام افراد کو ایسے ہی جبر کا سامنا تھا ، گورے انھیں سرعام ذلیل و رسوا کرتے حالانکہ یہ ملک بھی ان کا تھا اور سفید فام وہاں قابض تھے مگر حکمرانی اور طاقت کے نشے میں چور سفید فام اخلاقیات سے کوسوں دور تھے۔ تب قدرت کو سیاہ فاموں کی بے بسی پر رحم آیا اور ان میں ایک ایسا فرد پیدا ہوا جس نے اس استحصالی نظام کے خلاف آواز بلند کی، جسے تاریخ نیلسن منڈیلا کے نام سے جانتی ہے ، قدرت نے اس قوم کو نجات دہندہ دینے کیلئے نیلسن منڈیلا کی ایسے ماحول میں تربیت کی کہ پہاڑوں سے بھی ٹکرانے کی ہمت اس میں پیدا ہوگئی ۔
افریقہ کے تھیمبو قبیلے کے اس بچے کو تمام تر امتیازی قوانین کے باوجود اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا ، گو اس میں ان کی اپنی غرض تھی جن کے زیر سایہ وہ پل بڑھ رہا تھا۔ نیلسن منڈیلا کو تعلیم کے دوران ایسی بہت سی چیزوں کو سمجھنے کا موقع ملا جو بعد میں ان کی جدوجہد میں کام آئیں ۔
وہ لوگ جو پہلے سے استحصالی نظام کے خلاف جدوجہد کر رہے تھے ان کے ساتھ کام کرنے سے ان کی صلاحیتوں کو بہت جلا ملی ، ورنہ پہلے خود ان کی اپنے بارے یہ رائے تھی کہ وہ کوئی زیادہ سرگرم کارکن نہ تھے مگر یہ ان کی کسر نفسی دکھائی دیتی ہے کیونکہ جو فرد طالبعلمی کے دور میں ہی اصولوں پر اختلاف کی بنا پر دوسروں سے جدا ہو جائے وہ کوئی معمولی شخصیت نہیں ہو سکتی ۔
ان کو اس سیاسی جدوجہد میں طویل عرصہ تک قیدو بند کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا ، مگر انھوں نے صبر و استقامت کا دامن نہ چھوڑا اور بالآخر استعماری طاقتوں کو ان کی اصولی جدوجہد کے آگے گھٹنے ٹیکنا پڑے ۔ ان کی طویل اور مصائب سے پر جدوجہد دوسروں کے لیے مشعل راہ ہے ، ان کا نام تاریخ کے صفحات میں زریں الفاظ میں لکھا جائے گا۔ کتاب کو گیارہ مختلف ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ مترجم نے بھی ترجمے کا حق ادا کر دیا ہے۔ بہت شاندار کتاب ہے نوجوان نسل کو ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
اسلامی قانون وراثت
تالیف: مولانا ابونعمان بشیر احمد ، صفحات : 104، قیمت : 300روپے
ناشر : دارالسلام انٹرنیشنل ، نزد سیکرٹریٹ سٹاپ، لوئر مال، لاہور
برائے رابطہ :042-37324034
علم میراث کا شمار علم فرائض میں ہوتا ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں اس اہم ترین علم ۔۔۔۔۔ یعنی علم میراث کو بالکل ہی نظر انداز کردیا گیا ہے۔ اکثر علمائے کرام بھی اس سے بے بہرہ ہیں، حالانکہ رسول اللہﷺ نے علم میراث کے متعلق بہت تاکید فرمائی ہے۔ فرمان نبوی کا ترجمہ ہے ''علم وراثت سیکھو اور دوسروں کو بھی سکھائو کیونکہ جلد ہی میری موت واقع ہو جائے گی ، علم فرائض بھی اٹھا لیا جائے گا ، فتنے ظاہر ہوں گے یہاں تک کہ دو آدمی کسی مقررہ حصے میں اختلاف کریں گے اور کوئی آدمی ایسا نہیں پائیں گے جو ان میں فیصلہ کر سکے۔'' اس حدیث سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ علم میراث کو سیکھنا اور سمجھنا کس قدر ضروری ہے۔
موت اور میراث کاچولی دامن کا ساتھ ہے۔ موت اٹل ہے تو میراث کے مسائل ومعاملات بھی ناگزیر ہیں۔ یہ مسائل ومعاملات کس طرح حل کئے جائیں۔۔۔۔؟ اس سے بیشتر لوگ آگاہ نہیں ہیں حالانکہ اسلام میں میراث کے تمام مسائل کے انتہائی اطمینان بخش جوابات موجود ہیں۔ عام لوگوں کی تو بات ہی کیا۔۔۔۔؟ اکثر علمائے کرام بھی میراث کے مسائل سے آشنا نہیں ہیں۔ اسی ضرورت کے پیش نظر دارالسلام نے '' اسلام کا قانون وراثت '' کے نام سے یہ کتاب شائع کی ہے۔کتاب کے مولف مولانا ابونعمان بشیر احمد ہیں جبکہ شیخ الحدیث، محدث دوراں حافظ عبدالستار الحماد نے نہ صرف موضوع کے حوالے سے گرانقدر تحقیقی مواد فراہم کیا ہے بلکہ اس کتاب کے مسودے پر نظر ثانی کی ذمہ داری بھی احسن طور پر ادا کی ہے اس طرح سے اس کتاب کی علمی اہمیت دو چند ہوگئی ہے۔
یہ کتاب سادہ اور عام فہم اسلوب میں لکھی گئی ہے تاکہ علما، اساتذہ کے ساتھ ساتھ طلبہ اور عام لوگ بھی اس سے مستفید ہو سکیں۔ عام طور پر اسلام کے قانون وراثت کو ایک مشکل اور پیچیدہ علم سمجھا جاتا ہے جبکہ اس کتاب میں جو عام فہم اور سادہ اسلوب اختیار کیا گیا ہے اس سے یہ بات آشکارا ہوتی ہے کہ میراث کا علم ہرگز مشکل نہیں۔ کتاب میں سوال وجواب کا انداز اختیار کیا گیا اس سے یہ کتاب مزید مفید طلب اور عام فہم ہوگئی ہے۔ کتاب میں جہاں اسلام کے احکام میراث پر بات کی گئی ہے وہاں حقیقت بھی واضح کی گئی کہ اسلامی احکام میراث عدل وانصاف پر مبنی ہیں جو کہ تنازعات کے امکانات ختم کر دیتے ہیں اور پرامن فلاحی معاشرے کی بنیادیں مستحکم کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔
زیر تبصرہ کتاب ''اسلامی قانون وراثت'' کے مطالعہ سے یہ حقیقت بھی واضح ہوتی کہ اسلام تنازعاتِ ملکیت کو خوش اسلوبی سے اور انتہائی بروقت طے کرنے کی تعلیم وتربیت دیتا ہے۔ کتاب میں درج ذیل موضوعات کو زیر بحث بنایا گیا ہے: علم میراث کی تعریف ، علم میراث کا موضوع اور غرض وغایت، میت کا ترکہ ورثا میں کب تقسیم کیا جائے؟وہ اسباب جن کی وجہ سے وارث وراثت سے محروم کردیا جاتا ہے؟ مال میراث میں مقررہ حصے اور ان کی تقسیم، میت کے وہ رشتے دار جن کے حصے وراثت میں متعین نہیں ان رشتے داروں کیلئے اسلام میں کیا احکام ہیں۔۔۔۔۔؟ تقسیم ترکہ کا طریقہ کارکیا ہے۔۔۔؟ محنث کا وراثت میں حصہ۔۔۔۔؟ وہ گم شدہ شخص جس کے زندہ یا فوت ہونے کا علم نہ ہو سکے اس کیلئے احکام وراثت۔۔۔۔؟ میت کے وہ کون سے رشتے دار ہیں جن کے حصے وراثت میں متعین نہیں، کن صورتوں میں ورثا کے مقررہ حصوں میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔
میت کا ترکہ تقسیم ہونے سے پہلے اس کے ورثا میں سے ایک یا ایک سے زیادہ فوت ہو جائیں تو ایسی صورت میں ترکہ کی تقسیم کیسے ہو گی۔۔۔؟ وہ گمشدہ شخص جس کے زندہ یا مردہ ہونے کے بارے میں علم نہ ہو سکے تو اس کیلئے کیا احکام ہیں، عاق نامے کی شرعی حیثیت، یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ۔ کتاب میں میت کے تمام ورثا کے حصے نکالنے کا طریقہ کار بھی بتایا گیا ہے اسی طرح ایک تفصیلی نقشہ بھی دیا گیا ہے جس سے وراثت کے تمام مسائل اور حصوں کو سمجھنا مزید آسان ہوگیا ہے۔ دریں اثنا ان تمام وجوہات کی بنا پر یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ یہ کتاب اپنے موضوع پر لاجواب اور باکمال کتاب ہے اس کتاب کا مطالعہ ہر مرد وعورت کیلئے بے حد ضروری ہے۔
علم کی راہداریاں
مصنف: سعید احمد بزدار، قیمت: 1200 روپے
ناشر: بک کارنر، جہلم 03215440882
زیر نظر کتاب میں مغرب میں واقع اْن دس غیر معمولی یونیورسٹیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے جنھوں نے دنیا کو بدل ڈالا۔ ان میں میسا چوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، یونیورسٹی اصف آکسفرڈ، یونیورسٹی آف کیمبرج، یونیورسٹی کالج لندن، ہارورڈ یونیورسٹی ، کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، سٹینفورڈ یونیورسٹی، امپیریل کالج لندن ، ای ٹی ایچ زیورک اور دی یونیورسٹی آف شکاگو شامل ہیں ۔
مصنف نے ان یونیورسٹیوں میں ہونے والے کارناموں اور ان جامعات سے جڑی تاریخ ساز شخصیات کا اس انداز میں ذکر کیا ہے کہ یہ تذکرے دلچسپ قصے کہانیوں اور حکایات کی صورت اختیار کر گئے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کے ان ارفع اداروں اور علم و دانش کی راہداریوں کا ذکر کیوں اس انداز میں کیا گیا، اس بابت مصنف لکھتے ہیں:
'یہ کامیابی، کامرانی، عزم و ہمت کی داستانیں ہیں جو آج کے یونیورسٹی اساتذہ اور طلبہ کے اندر آگے بڑھنے کی، جستجو کی اور تحقیق کی وجہ بن سکتے ہیں۔ ان کو اکسا سکتے ہیں کہ جب ٹیکنالوجی اتنی طاقت ور نہیں تھی، جب انٹرنیٹ بھی نہیں آیا تھا، کمپیوٹرز کی میموری اور سپیڈ بھی بہت محدود تھی تو بھی اس وقت کی منظم کوششوں سے، انسان چاند تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا تھا تو اب تو ہمارے وسائل کہیں بہتر ہیں اور آج کا تحقیق دان، اس سے کئی گنا آگے کے کام کر سکتا ہے۔
مصنف ڈاکٹر سعید بزدار نے یہ ان تعلیمی اداروں کے تذکرے اس لیے بھی لکھے کہ یہاں غیر معمولی ذہانت والے لوگ، تعمیری اور تخلیقی صلاحیتوں والے عالم باعمل افراد انسانیت کی فلاح کے لیے راستے تلاش کرتے ہیں۔ ان اداروں میں اور ان اداروں میں موجود سہولیات اور ماہرین کی وجہ سے ترقی کی رفتار میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ مصنف نے جو ایک سائنس دان، محقق اور استاد ہیں، ان یونیورسٹیوں کا ذکر اس لیے بھی کیا کہ خود انھیں بھی یہاں تعلیم و تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا۔
یقیناً علم کی ان راہداریوں کے تذکرے جہاں طلبا و طالبات کے لیے موٹیویشنل ثابت ہوں گے، وہاں شاید پاکستان میں شعبہ تعلیم و تدریس کے کرتا دھرتا بھی کچھ سوچنے پر مجبور ہوں۔ اور ممکن ہے کہ اسی سوچ بچار کے نتیجے میں پاکستان کی جامعات کا معیار کچھ بلند ہو سکے۔
بغاوت
مصنف: عمار مسعود، قیمت: 1500 روپے
ناشر: بک کارنر، جہلم ، رابطہ: 03215440882
ممکن ہے کہ آپ کو اپنے عنوان سے یہ کتاب کوئی تاریخی ناول لگے یا کسی فوجی بغاوت کا قصہ معلوم ہو، ایسا نہیں ہے بلکہ یہ کتاب اس سے بڑھ کر ہے۔ یہ ایسے نثر پاروں کا مجموعہ ہے جو قلب کو گرما دیتے ہیں اور روح کو تڑپا دیتے ہیں۔ میں ایک عرصہ سے جناب عمار مسعود کے کالموں کا قاری ہوں۔ شروع میں خیال پیدا ہوا کہ یہ بھی کالم نگار کے روپ میں کسی پارٹی اور جماعت کے پراپیگنڈا سیکرٹری ہوں گے لیکن پھر ان کے اگلے کالموں نے یہ تاثر جمنے نہ دیا۔ پھر یہ سوال کلبلاتا رہا کہ یہ صاحب ہیں کیا؟ پتہ چلا کہ جناب عمار مسعود بڑی حیران کردینے والی شخصیت ہیں۔
برسوں پہلے ہم ایک ہی ادارے میں تھے، ان سے کچھ زیادہ علیک سلیک نہ تھی۔ بس! یہ سنا تھا کہ انھوں نے کسی نابینا خاتون سے شادی کی ہے۔ یہ سن کر ان سے متاثر ہوا۔ پھر برسوں بعد ایک روز ان سے اس شادی کے بارے میں ڈرتے ڈرتے پوچھا۔ خوف یہ تھا کہ نجانے وہ کس کیفیت میں مبتلا ہو جائیں۔ عموماً لوگ اپنے غم کے تازہ کیے جانے سے بہت تکلیف محسوس کرتے ہیں۔
حیران کن طور پر جناب عمار مسعود نے سارا قصہ نہایت تفصیل سے سنا دیا۔ ریڈیو پاکستان ، نصف شب کا پروگرام، بہت سے سامعین کی کالز، ایک لڑکی کا ریڈیو پاکستان آ پہنچنا، ملنا اور پھر مزید ملاقاتیں۔ بعدازاں ایک پراجیکٹ میں دونوں کا رفیق کار بننا ۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر ایک دوسرے کا شریک حیات بن جانا۔ محبت کی یہ کہانی اس سے آگے بھی ہے اور بہت آگے تک چلتی ہے۔ جناب عمار مسعود نے یہ بھی بتا دیا کہ اس حوالے سے آپ میری فلاں اور فلاں تحریر پڑھ لیں۔
یہ ساری کہانی ان کی زبانی سن کر میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ ایک شفاف، حساس اور خوبصورت دل والا شخص!
جناب عمار مسعود شہرہ آفاق مزاحیہ شاعر انور مسعود کے فرزند ارجمند ہیں۔ عموماً بڑے درخت کے نیچے کوئی درخت بڑا نہیں ہوتا۔ لیکن یہاں بھی عمار صاحب نے حیران کر دیا۔ وہ ریڈیو پاکستان میں رہے، پاکستان ٹیلی ویژن میں رہے، غرضیکہ جہاں بھی رہے، ایک دنیا کو متاثر کیا۔ افسانہ نگار بنے اور پھر کالم نگار۔ 'بغاوت' میں موجود ان کے سارے نثر پارے بتاتے ہیں کہ وہ کس پائے کے کالم لکھتے ہیں۔ ان کے زیر نظر نثر پارے سماجی موضوع رکھتے ہیں۔ اور یہ سب بتاتے ہیں کہ وہ کس قدر شفاف، حساس اور خوبصورت دل رکھتے ہیں۔
ہمارے ہاں بعض لوگ تحریر کے نام پر رونے دھونے ہی کا کام کرتے ہیں لیکن 'بغاوت' میں ایسا کچھ نہیں۔ یہاں مسئلے کا ذکر کیا گیا ہے تو زیادہ زور اس کے حل کی تلاش پر لگایا جاتا ہے۔ ہر حوالے سے کچھ کر گزرنے کے لیے روشنی کا ایک راستہ کھلتا ہے، حوصلہ و ہمت افزائی کا زاد راہ ملتا ہے۔ بہت سے ایسے عنوانات پر لکھا جس پر کوئی نہیں لکھتا کیونکہ ایسے عنوانات 'نوگو ایریاز' ہوتے ہیں جہاں داخل ہونے کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ جناب عمار مسعود نے کیا ، کہاں قیمت ادا کی، اس بارے میں وہ کچھ نہیں بتاتے، البتہ ہم کم از کم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ انھوں نے لفظ کی حرمت پر آنچ نہیں آنے دی۔
سیان فہمیاں
مصنفہ: فہمینہ ارشد، ناشر: سرائے اردو پبلی کیشنز، سیال کوٹ
صفحات:200، قیمت:1000روپے
یہ کتاب قلم کار اور براڈ کاسٹر فہمینہ ارشد کی تحریروں کا مجموعہ ہے، جنھیں وہ بجا طور پر اپنے احساسات کا مجموعہ کہتی ہیں۔ ان تحریروں کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کسی واقعے، خبر اور مشاہدے کا فوری ردعمل ہیں، جنھیں پوری حساسیت کے ساتھ قلم بند کیا گیا ہے۔
گویا کہا جا سکتا ہے کہ ''شعور کی رو'' کے ساتھ تخلیق پانے والے ادب کی طرح اس کتاب میں شامل قلمی کاوشیں جذبات اور احساس کی بہتی رو کا نتیجہ ہیں۔ مصنفہ نہایت اختصار پسند لکھاری ہے، چناں چہ ان کی بیشتر تحریریں بس ایک صفحے کا احاطہ کرتی ہیں، کچھ تو محض چند سطروں پر مشتمل ہیں۔ کتاب کے بعض مشتملات پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ اس موضوع پر اگر زیادہ تفصیل اور گہرائی سے لکھا جاتا تو شان دار تحریر وجود میں آتی۔ کتاب کا حصہ بننے والی کچھ تحریریں، جیسے ''بریانی کی پلیٹ''، فہمینہ ارشد میں چھپی کہانی کار کا پتا دیتی ہیں، خاص کر ''بریانی کی پلیٹ'' جو آنکھیں نم کر دینے والی تحریر ہے، اگر اسے ادبی اسلوب اختیار کرتے لکھا جاتا تو ایک اچھا اور دل گداز افسانہ وجود میں آسکتا تھا۔ شگفتگی، تیکھاپن، طنز اور ظریفانہ انداز فہمینہ ارشد کی نگارشات کی نمایاں خصوصیات ہیں، کہیں کہیں ظلم اور استحصال کا کوئی ماجرا ان کے احساسات کو اس قدر مشتعل کر دیتا ہے کہ لفظوں میں انگارے بھر جاتے ہیں۔
کتاب پڑھ کر سراغ ملتا ہے کہ مصنفہ کی طبیعت حساس اور مشاہدہ گہرا ہے، یہ دونوں صفات انھیں اپنی بات کہنے اور اپنی رائے، خیالات اور احساسات سامنے لانے پر اُکساتی ہیں، اور وہ وقت ضائع کیے بغیر سوچ کی لہروں کو لفظوں میں ڈھال دیتی ہیں۔ وہ اپنے قاری تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے عموماً عوامی بولی کا سہارا لیتی ہیں، جس سے ان کی تحریروں میں شگفتگی پیدا ہو جاتی اور لفظوں کی ذہنوں تک رسائی آسان ہو جاتی ہے۔ عورت، اس کے دکھ درد، مسائل ومصائب ان کا خاص موضوع ہیں، جنھیں انھوں نے اپنے ڈھنگ سے برتا ہے۔
''سیان فہمیاں'' میں اس کتاب کے بارے میں ادب وصحافت اور تخلیق وتنقید سے وابستہ شخصیات کی آرا اس تصنیف کو مؤقر بناتی ہیں، ان شخصیات میں محترم محمودشام، فصیح باری خان، ڈاکٹرارشد رضوی، زیب اذکار حُسین، پروفیسر ڈاکٹر جہاں آراء لطفی، سبین علی، سلیم صدیقی اور مطربہ شیخ شامل ہیں۔ فہمینہ ارشد کی تحریروں کے بارے میں محمود شام رقم طراز ہیں،''یہ مختصرمختصر شذرے، ان کی ہلکی پھلکی زبان، جو آج کی لڑکیوں لڑکوں کو براہ راست سمجھ میں آجاتی ہے، اس کے ذریعے یہ بڑی قیمتی نصیحتیں کر جاتی ہیں۔ ان میں محاورے بھی ہیں، ڈانٹ ڈپٹ بھی، انجام کا خوف بھی، آج کے پاکستانی سماج کی بگڑتی مسخ ہوتی شکلوں پر ایک رواں کمنٹری (تبصرہ) بھی۔''
''سیان فہمیاں'' سلیقے سے شایع شدہ اور مجموعی طور پر ایک دل چسپ کتاب ہے، جس کی بہت سی تحریریں سوچ کے نئے زاویے سامنے لاتی ہیں۔
مصنف: نیلسن منڈیلا، مترجم: خالد محمود خان
قیمت:1100روپے، صفحات:534
ناشر:نگارشات پبلشرز ،24 مزنگ روڈ ، لاہور (03219414442)
رنگ و نسل کی بنیاد پر انسانوں سے امتیازی سلوک کرنا اخلاقی لحاظ سے انتہائی قبیح فعل ہے مگر کیا کریں ایسے معاشروں کا جہاں پر قوانین ہی رنگ و نسل کی بنیاد پر بنائے گئے، ان قوانین کی وجہ سے گورے اور کالے رنگ میں زمین و آسمان کا تفاوت پیدا کر دیا گیا ، کوئی بھی گورا کسی کالے کو کسی بھی وقت اپنا کوئی بھی ذاتی کام کہہ سکتا تھا اور وہ کالا اس کا کام کرنے پر مجبور تھا ورنہ اسے سزا کا سامنا کرنا پڑتا تھا، یہاں تک کہ بسوں میں سفر، رہائشی علاقوں اور دیگر بہت سے معاملات میں امتیازی قوانین بنائے گئے، یوں لگتا تھا کہ جانوروں کو زیادہ اور کالی رنگت والوں کو کم حقوق حاصل ہیں ، کوئی بھی گورا جب چاہے کسی بھی کالے کی بے عزتی کر سکتا تھا ۔
ذرا تصور کریں کہ کوئی ایسا فرد جو آپ کو ناپسند ہو اور وہ آپ کو اپنا ذاتی کام کرنے کے لیے کہے اور آپ چوں چراں کیے بغیر اسے کرنے پر مجبور ہوں تو آپ کے دل پر کیا گزرے گی، جنوبی افریقہ میں بھی کسی زمانے میں سیاہ فام افراد کو ایسے ہی جبر کا سامنا تھا ، گورے انھیں سرعام ذلیل و رسوا کرتے حالانکہ یہ ملک بھی ان کا تھا اور سفید فام وہاں قابض تھے مگر حکمرانی اور طاقت کے نشے میں چور سفید فام اخلاقیات سے کوسوں دور تھے۔ تب قدرت کو سیاہ فاموں کی بے بسی پر رحم آیا اور ان میں ایک ایسا فرد پیدا ہوا جس نے اس استحصالی نظام کے خلاف آواز بلند کی، جسے تاریخ نیلسن منڈیلا کے نام سے جانتی ہے ، قدرت نے اس قوم کو نجات دہندہ دینے کیلئے نیلسن منڈیلا کی ایسے ماحول میں تربیت کی کہ پہاڑوں سے بھی ٹکرانے کی ہمت اس میں پیدا ہوگئی ۔
افریقہ کے تھیمبو قبیلے کے اس بچے کو تمام تر امتیازی قوانین کے باوجود اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا ، گو اس میں ان کی اپنی غرض تھی جن کے زیر سایہ وہ پل بڑھ رہا تھا۔ نیلسن منڈیلا کو تعلیم کے دوران ایسی بہت سی چیزوں کو سمجھنے کا موقع ملا جو بعد میں ان کی جدوجہد میں کام آئیں ۔
وہ لوگ جو پہلے سے استحصالی نظام کے خلاف جدوجہد کر رہے تھے ان کے ساتھ کام کرنے سے ان کی صلاحیتوں کو بہت جلا ملی ، ورنہ پہلے خود ان کی اپنے بارے یہ رائے تھی کہ وہ کوئی زیادہ سرگرم کارکن نہ تھے مگر یہ ان کی کسر نفسی دکھائی دیتی ہے کیونکہ جو فرد طالبعلمی کے دور میں ہی اصولوں پر اختلاف کی بنا پر دوسروں سے جدا ہو جائے وہ کوئی معمولی شخصیت نہیں ہو سکتی ۔
ان کو اس سیاسی جدوجہد میں طویل عرصہ تک قیدو بند کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا ، مگر انھوں نے صبر و استقامت کا دامن نہ چھوڑا اور بالآخر استعماری طاقتوں کو ان کی اصولی جدوجہد کے آگے گھٹنے ٹیکنا پڑے ۔ ان کی طویل اور مصائب سے پر جدوجہد دوسروں کے لیے مشعل راہ ہے ، ان کا نام تاریخ کے صفحات میں زریں الفاظ میں لکھا جائے گا۔ کتاب کو گیارہ مختلف ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ مترجم نے بھی ترجمے کا حق ادا کر دیا ہے۔ بہت شاندار کتاب ہے نوجوان نسل کو ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
اسلامی قانون وراثت
تالیف: مولانا ابونعمان بشیر احمد ، صفحات : 104، قیمت : 300روپے
ناشر : دارالسلام انٹرنیشنل ، نزد سیکرٹریٹ سٹاپ، لوئر مال، لاہور
برائے رابطہ :042-37324034
علم میراث کا شمار علم فرائض میں ہوتا ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں اس اہم ترین علم ۔۔۔۔۔ یعنی علم میراث کو بالکل ہی نظر انداز کردیا گیا ہے۔ اکثر علمائے کرام بھی اس سے بے بہرہ ہیں، حالانکہ رسول اللہﷺ نے علم میراث کے متعلق بہت تاکید فرمائی ہے۔ فرمان نبوی کا ترجمہ ہے ''علم وراثت سیکھو اور دوسروں کو بھی سکھائو کیونکہ جلد ہی میری موت واقع ہو جائے گی ، علم فرائض بھی اٹھا لیا جائے گا ، فتنے ظاہر ہوں گے یہاں تک کہ دو آدمی کسی مقررہ حصے میں اختلاف کریں گے اور کوئی آدمی ایسا نہیں پائیں گے جو ان میں فیصلہ کر سکے۔'' اس حدیث سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ علم میراث کو سیکھنا اور سمجھنا کس قدر ضروری ہے۔
موت اور میراث کاچولی دامن کا ساتھ ہے۔ موت اٹل ہے تو میراث کے مسائل ومعاملات بھی ناگزیر ہیں۔ یہ مسائل ومعاملات کس طرح حل کئے جائیں۔۔۔۔؟ اس سے بیشتر لوگ آگاہ نہیں ہیں حالانکہ اسلام میں میراث کے تمام مسائل کے انتہائی اطمینان بخش جوابات موجود ہیں۔ عام لوگوں کی تو بات ہی کیا۔۔۔۔؟ اکثر علمائے کرام بھی میراث کے مسائل سے آشنا نہیں ہیں۔ اسی ضرورت کے پیش نظر دارالسلام نے '' اسلام کا قانون وراثت '' کے نام سے یہ کتاب شائع کی ہے۔کتاب کے مولف مولانا ابونعمان بشیر احمد ہیں جبکہ شیخ الحدیث، محدث دوراں حافظ عبدالستار الحماد نے نہ صرف موضوع کے حوالے سے گرانقدر تحقیقی مواد فراہم کیا ہے بلکہ اس کتاب کے مسودے پر نظر ثانی کی ذمہ داری بھی احسن طور پر ادا کی ہے اس طرح سے اس کتاب کی علمی اہمیت دو چند ہوگئی ہے۔
یہ کتاب سادہ اور عام فہم اسلوب میں لکھی گئی ہے تاکہ علما، اساتذہ کے ساتھ ساتھ طلبہ اور عام لوگ بھی اس سے مستفید ہو سکیں۔ عام طور پر اسلام کے قانون وراثت کو ایک مشکل اور پیچیدہ علم سمجھا جاتا ہے جبکہ اس کتاب میں جو عام فہم اور سادہ اسلوب اختیار کیا گیا ہے اس سے یہ بات آشکارا ہوتی ہے کہ میراث کا علم ہرگز مشکل نہیں۔ کتاب میں سوال وجواب کا انداز اختیار کیا گیا اس سے یہ کتاب مزید مفید طلب اور عام فہم ہوگئی ہے۔ کتاب میں جہاں اسلام کے احکام میراث پر بات کی گئی ہے وہاں حقیقت بھی واضح کی گئی کہ اسلامی احکام میراث عدل وانصاف پر مبنی ہیں جو کہ تنازعات کے امکانات ختم کر دیتے ہیں اور پرامن فلاحی معاشرے کی بنیادیں مستحکم کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔
زیر تبصرہ کتاب ''اسلامی قانون وراثت'' کے مطالعہ سے یہ حقیقت بھی واضح ہوتی کہ اسلام تنازعاتِ ملکیت کو خوش اسلوبی سے اور انتہائی بروقت طے کرنے کی تعلیم وتربیت دیتا ہے۔ کتاب میں درج ذیل موضوعات کو زیر بحث بنایا گیا ہے: علم میراث کی تعریف ، علم میراث کا موضوع اور غرض وغایت، میت کا ترکہ ورثا میں کب تقسیم کیا جائے؟وہ اسباب جن کی وجہ سے وارث وراثت سے محروم کردیا جاتا ہے؟ مال میراث میں مقررہ حصے اور ان کی تقسیم، میت کے وہ رشتے دار جن کے حصے وراثت میں متعین نہیں ان رشتے داروں کیلئے اسلام میں کیا احکام ہیں۔۔۔۔۔؟ تقسیم ترکہ کا طریقہ کارکیا ہے۔۔۔؟ محنث کا وراثت میں حصہ۔۔۔۔؟ وہ گم شدہ شخص جس کے زندہ یا فوت ہونے کا علم نہ ہو سکے اس کیلئے احکام وراثت۔۔۔۔؟ میت کے وہ کون سے رشتے دار ہیں جن کے حصے وراثت میں متعین نہیں، کن صورتوں میں ورثا کے مقررہ حصوں میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔
میت کا ترکہ تقسیم ہونے سے پہلے اس کے ورثا میں سے ایک یا ایک سے زیادہ فوت ہو جائیں تو ایسی صورت میں ترکہ کی تقسیم کیسے ہو گی۔۔۔؟ وہ گمشدہ شخص جس کے زندہ یا مردہ ہونے کے بارے میں علم نہ ہو سکے تو اس کیلئے کیا احکام ہیں، عاق نامے کی شرعی حیثیت، یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ۔ کتاب میں میت کے تمام ورثا کے حصے نکالنے کا طریقہ کار بھی بتایا گیا ہے اسی طرح ایک تفصیلی نقشہ بھی دیا گیا ہے جس سے وراثت کے تمام مسائل اور حصوں کو سمجھنا مزید آسان ہوگیا ہے۔ دریں اثنا ان تمام وجوہات کی بنا پر یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ یہ کتاب اپنے موضوع پر لاجواب اور باکمال کتاب ہے اس کتاب کا مطالعہ ہر مرد وعورت کیلئے بے حد ضروری ہے۔
علم کی راہداریاں
مصنف: سعید احمد بزدار، قیمت: 1200 روپے
ناشر: بک کارنر، جہلم 03215440882
زیر نظر کتاب میں مغرب میں واقع اْن دس غیر معمولی یونیورسٹیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے جنھوں نے دنیا کو بدل ڈالا۔ ان میں میسا چوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، یونیورسٹی اصف آکسفرڈ، یونیورسٹی آف کیمبرج، یونیورسٹی کالج لندن، ہارورڈ یونیورسٹی ، کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، سٹینفورڈ یونیورسٹی، امپیریل کالج لندن ، ای ٹی ایچ زیورک اور دی یونیورسٹی آف شکاگو شامل ہیں ۔
مصنف نے ان یونیورسٹیوں میں ہونے والے کارناموں اور ان جامعات سے جڑی تاریخ ساز شخصیات کا اس انداز میں ذکر کیا ہے کہ یہ تذکرے دلچسپ قصے کہانیوں اور حکایات کی صورت اختیار کر گئے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کے ان ارفع اداروں اور علم و دانش کی راہداریوں کا ذکر کیوں اس انداز میں کیا گیا، اس بابت مصنف لکھتے ہیں:
'یہ کامیابی، کامرانی، عزم و ہمت کی داستانیں ہیں جو آج کے یونیورسٹی اساتذہ اور طلبہ کے اندر آگے بڑھنے کی، جستجو کی اور تحقیق کی وجہ بن سکتے ہیں۔ ان کو اکسا سکتے ہیں کہ جب ٹیکنالوجی اتنی طاقت ور نہیں تھی، جب انٹرنیٹ بھی نہیں آیا تھا، کمپیوٹرز کی میموری اور سپیڈ بھی بہت محدود تھی تو بھی اس وقت کی منظم کوششوں سے، انسان چاند تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا تھا تو اب تو ہمارے وسائل کہیں بہتر ہیں اور آج کا تحقیق دان، اس سے کئی گنا آگے کے کام کر سکتا ہے۔
مصنف ڈاکٹر سعید بزدار نے یہ ان تعلیمی اداروں کے تذکرے اس لیے بھی لکھے کہ یہاں غیر معمولی ذہانت والے لوگ، تعمیری اور تخلیقی صلاحیتوں والے عالم باعمل افراد انسانیت کی فلاح کے لیے راستے تلاش کرتے ہیں۔ ان اداروں میں اور ان اداروں میں موجود سہولیات اور ماہرین کی وجہ سے ترقی کی رفتار میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ مصنف نے جو ایک سائنس دان، محقق اور استاد ہیں، ان یونیورسٹیوں کا ذکر اس لیے بھی کیا کہ خود انھیں بھی یہاں تعلیم و تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا۔
یقیناً علم کی ان راہداریوں کے تذکرے جہاں طلبا و طالبات کے لیے موٹیویشنل ثابت ہوں گے، وہاں شاید پاکستان میں شعبہ تعلیم و تدریس کے کرتا دھرتا بھی کچھ سوچنے پر مجبور ہوں۔ اور ممکن ہے کہ اسی سوچ بچار کے نتیجے میں پاکستان کی جامعات کا معیار کچھ بلند ہو سکے۔
بغاوت
مصنف: عمار مسعود، قیمت: 1500 روپے
ناشر: بک کارنر، جہلم ، رابطہ: 03215440882
ممکن ہے کہ آپ کو اپنے عنوان سے یہ کتاب کوئی تاریخی ناول لگے یا کسی فوجی بغاوت کا قصہ معلوم ہو، ایسا نہیں ہے بلکہ یہ کتاب اس سے بڑھ کر ہے۔ یہ ایسے نثر پاروں کا مجموعہ ہے جو قلب کو گرما دیتے ہیں اور روح کو تڑپا دیتے ہیں۔ میں ایک عرصہ سے جناب عمار مسعود کے کالموں کا قاری ہوں۔ شروع میں خیال پیدا ہوا کہ یہ بھی کالم نگار کے روپ میں کسی پارٹی اور جماعت کے پراپیگنڈا سیکرٹری ہوں گے لیکن پھر ان کے اگلے کالموں نے یہ تاثر جمنے نہ دیا۔ پھر یہ سوال کلبلاتا رہا کہ یہ صاحب ہیں کیا؟ پتہ چلا کہ جناب عمار مسعود بڑی حیران کردینے والی شخصیت ہیں۔
برسوں پہلے ہم ایک ہی ادارے میں تھے، ان سے کچھ زیادہ علیک سلیک نہ تھی۔ بس! یہ سنا تھا کہ انھوں نے کسی نابینا خاتون سے شادی کی ہے۔ یہ سن کر ان سے متاثر ہوا۔ پھر برسوں بعد ایک روز ان سے اس شادی کے بارے میں ڈرتے ڈرتے پوچھا۔ خوف یہ تھا کہ نجانے وہ کس کیفیت میں مبتلا ہو جائیں۔ عموماً لوگ اپنے غم کے تازہ کیے جانے سے بہت تکلیف محسوس کرتے ہیں۔
حیران کن طور پر جناب عمار مسعود نے سارا قصہ نہایت تفصیل سے سنا دیا۔ ریڈیو پاکستان ، نصف شب کا پروگرام، بہت سے سامعین کی کالز، ایک لڑکی کا ریڈیو پاکستان آ پہنچنا، ملنا اور پھر مزید ملاقاتیں۔ بعدازاں ایک پراجیکٹ میں دونوں کا رفیق کار بننا ۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر ایک دوسرے کا شریک حیات بن جانا۔ محبت کی یہ کہانی اس سے آگے بھی ہے اور بہت آگے تک چلتی ہے۔ جناب عمار مسعود نے یہ بھی بتا دیا کہ اس حوالے سے آپ میری فلاں اور فلاں تحریر پڑھ لیں۔
یہ ساری کہانی ان کی زبانی سن کر میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ ایک شفاف، حساس اور خوبصورت دل والا شخص!
جناب عمار مسعود شہرہ آفاق مزاحیہ شاعر انور مسعود کے فرزند ارجمند ہیں۔ عموماً بڑے درخت کے نیچے کوئی درخت بڑا نہیں ہوتا۔ لیکن یہاں بھی عمار صاحب نے حیران کر دیا۔ وہ ریڈیو پاکستان میں رہے، پاکستان ٹیلی ویژن میں رہے، غرضیکہ جہاں بھی رہے، ایک دنیا کو متاثر کیا۔ افسانہ نگار بنے اور پھر کالم نگار۔ 'بغاوت' میں موجود ان کے سارے نثر پارے بتاتے ہیں کہ وہ کس پائے کے کالم لکھتے ہیں۔ ان کے زیر نظر نثر پارے سماجی موضوع رکھتے ہیں۔ اور یہ سب بتاتے ہیں کہ وہ کس قدر شفاف، حساس اور خوبصورت دل رکھتے ہیں۔
ہمارے ہاں بعض لوگ تحریر کے نام پر رونے دھونے ہی کا کام کرتے ہیں لیکن 'بغاوت' میں ایسا کچھ نہیں۔ یہاں مسئلے کا ذکر کیا گیا ہے تو زیادہ زور اس کے حل کی تلاش پر لگایا جاتا ہے۔ ہر حوالے سے کچھ کر گزرنے کے لیے روشنی کا ایک راستہ کھلتا ہے، حوصلہ و ہمت افزائی کا زاد راہ ملتا ہے۔ بہت سے ایسے عنوانات پر لکھا جس پر کوئی نہیں لکھتا کیونکہ ایسے عنوانات 'نوگو ایریاز' ہوتے ہیں جہاں داخل ہونے کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ جناب عمار مسعود نے کیا ، کہاں قیمت ادا کی، اس بارے میں وہ کچھ نہیں بتاتے، البتہ ہم کم از کم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ انھوں نے لفظ کی حرمت پر آنچ نہیں آنے دی۔
سیان فہمیاں
مصنفہ: فہمینہ ارشد، ناشر: سرائے اردو پبلی کیشنز، سیال کوٹ
صفحات:200، قیمت:1000روپے
یہ کتاب قلم کار اور براڈ کاسٹر فہمینہ ارشد کی تحریروں کا مجموعہ ہے، جنھیں وہ بجا طور پر اپنے احساسات کا مجموعہ کہتی ہیں۔ ان تحریروں کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کسی واقعے، خبر اور مشاہدے کا فوری ردعمل ہیں، جنھیں پوری حساسیت کے ساتھ قلم بند کیا گیا ہے۔
گویا کہا جا سکتا ہے کہ ''شعور کی رو'' کے ساتھ تخلیق پانے والے ادب کی طرح اس کتاب میں شامل قلمی کاوشیں جذبات اور احساس کی بہتی رو کا نتیجہ ہیں۔ مصنفہ نہایت اختصار پسند لکھاری ہے، چناں چہ ان کی بیشتر تحریریں بس ایک صفحے کا احاطہ کرتی ہیں، کچھ تو محض چند سطروں پر مشتمل ہیں۔ کتاب کے بعض مشتملات پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ اس موضوع پر اگر زیادہ تفصیل اور گہرائی سے لکھا جاتا تو شان دار تحریر وجود میں آتی۔ کتاب کا حصہ بننے والی کچھ تحریریں، جیسے ''بریانی کی پلیٹ''، فہمینہ ارشد میں چھپی کہانی کار کا پتا دیتی ہیں، خاص کر ''بریانی کی پلیٹ'' جو آنکھیں نم کر دینے والی تحریر ہے، اگر اسے ادبی اسلوب اختیار کرتے لکھا جاتا تو ایک اچھا اور دل گداز افسانہ وجود میں آسکتا تھا۔ شگفتگی، تیکھاپن، طنز اور ظریفانہ انداز فہمینہ ارشد کی نگارشات کی نمایاں خصوصیات ہیں، کہیں کہیں ظلم اور استحصال کا کوئی ماجرا ان کے احساسات کو اس قدر مشتعل کر دیتا ہے کہ لفظوں میں انگارے بھر جاتے ہیں۔
کتاب پڑھ کر سراغ ملتا ہے کہ مصنفہ کی طبیعت حساس اور مشاہدہ گہرا ہے، یہ دونوں صفات انھیں اپنی بات کہنے اور اپنی رائے، خیالات اور احساسات سامنے لانے پر اُکساتی ہیں، اور وہ وقت ضائع کیے بغیر سوچ کی لہروں کو لفظوں میں ڈھال دیتی ہیں۔ وہ اپنے قاری تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے عموماً عوامی بولی کا سہارا لیتی ہیں، جس سے ان کی تحریروں میں شگفتگی پیدا ہو جاتی اور لفظوں کی ذہنوں تک رسائی آسان ہو جاتی ہے۔ عورت، اس کے دکھ درد، مسائل ومصائب ان کا خاص موضوع ہیں، جنھیں انھوں نے اپنے ڈھنگ سے برتا ہے۔
''سیان فہمیاں'' میں اس کتاب کے بارے میں ادب وصحافت اور تخلیق وتنقید سے وابستہ شخصیات کی آرا اس تصنیف کو مؤقر بناتی ہیں، ان شخصیات میں محترم محمودشام، فصیح باری خان، ڈاکٹرارشد رضوی، زیب اذکار حُسین، پروفیسر ڈاکٹر جہاں آراء لطفی، سبین علی، سلیم صدیقی اور مطربہ شیخ شامل ہیں۔ فہمینہ ارشد کی تحریروں کے بارے میں محمود شام رقم طراز ہیں،''یہ مختصرمختصر شذرے، ان کی ہلکی پھلکی زبان، جو آج کی لڑکیوں لڑکوں کو براہ راست سمجھ میں آجاتی ہے، اس کے ذریعے یہ بڑی قیمتی نصیحتیں کر جاتی ہیں۔ ان میں محاورے بھی ہیں، ڈانٹ ڈپٹ بھی، انجام کا خوف بھی، آج کے پاکستانی سماج کی بگڑتی مسخ ہوتی شکلوں پر ایک رواں کمنٹری (تبصرہ) بھی۔''
''سیان فہمیاں'' سلیقے سے شایع شدہ اور مجموعی طور پر ایک دل چسپ کتاب ہے، جس کی بہت سی تحریریں سوچ کے نئے زاویے سامنے لاتی ہیں۔