کراچی میں شام کے کالجز صرف انرولمنٹ اور امتحان دینے کا پلیٹ فارم بن گئے
بیشتر کالجز میں اساتذہ آتے ہیں نہ طلبا، تدریسی اوقات میں عملہ اپنے دیگر امور کی انجام دہی کرنے لگا
محکمہ کالج ایجوکیشن سندھ کی غفلت اور عدم توجہی کے سبب شہر قائد میں شام کی شفٹ میں چلنے والے سرکاری کالجز صرف انرولمنٹ اور امتحان دینے کا پلیٹ فارم بن گئے۔
ان کالجوں میں سے بیشتر میں طلبہ کلاسز لینے آتے ہیں اور نہ ہی اساتذہ کوتدریسی ذمہ داری ادا کرنا ہوتی ہے۔ ان میں سے اکثر کالجوں کے پرنسپلز کے پاس طلبہ کوکالجوں میں کلاسز کے لیے لانے کے سلسلے میں کوئی منصوبہ یاحکمت عملی موجود ہی نہیں ہے جس کے سبب شام کی شفٹ کے نام سے چلنے والے کراچی کے 17 سرکاری کالجز کا رخ کرنے والے اساتذہ وغیرتدریسی عملے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر صرف ''نشستن، گفتن اور برخاستن'' کا ذریعے بنے ہوئے ہیں۔
کچھ اساتذہ ان کالجوں میں اپنی تعیناتیوں کا فائدہ اٹھا کر تدریسی اوقات میں اپنے دیگرامور کی انجام دہی کر رہے ہیں، صرف چند کالج ایسے ہیں جن کے پرنسپلز کا دعویٰ ہے کہ ان کے کالجوں میں طلبہ کی 50 فیصد سے زیادہ تعداد کلاسز لینے آتی ہے۔
ڈائریکٹر جنرل کالج سندھ زاہد راجپر سے جب ''ایکسپریس'' نے اس سلسلے میں دریافت کیا تو ان کا کہنا تھا کہ کراچی کا بڑامسئلہ ہے کہ بچے ایوننگ اورمارننگ دونوں شفٹ میں ہی کالج نہیں آتے ہیں اس لیے حاضری کم رہتی ہے۔
گورنمنٹ اسلامیہ آرٹس اینڈ کامرس کالج ایوننگ کے ایک استاد نے ''ایکسپریس'' کوبتایا کہ جب سے کالج گرومندر سے بنگالی پاڑے بفرزون منتقل کیا گیا ہے، اس کا ایڈریس تبدیل نہیں ہوا ہے، آج تک پورٹل پر کالج کاایڈریس جمشید ٹاؤن ہی درج ہے طلبہ جمشید ٹاؤن کا کالج سمجھ کرداخلہ لیتے ہیں اورجب انہیں معلوم ہوتاہے کہ یہ کالج منتقل ہو کر بفرزون جاچکا ہے تواپنے داخلہ منسوخ کرالیتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بمشکل 100 طلبہ نے انٹرمیڈیٹ میں گزشتہ برس داخلے لیے تھے، تاہم وہ بھی کالج نہیں آتے، تاہم اگروہ کالج آبھی جائیں توکالج میں ان کی تدریس کے لیے کوئی انتظام نہیں ہے۔
واضح رہے کہ بجٹ بک کے مطابق اس کالج کا مجموعی بجٹ 11 کروڑ 43 لاکھ 39 ہزارروپے ہے جس میں ملازمین کی تنخواہوں میں 10 کروڑ 84 لاکھ 91 ہزار جبکہ آپریٹنگ بجٹ 58 لاکھ 48 ہزارروپے ہے۔
ان کالجوں میں گورنمنٹ اسلامیہ آرٹس اینڈ کامرس کالج، گورنمنٹ جامعہ ملیہ ڈگری کالج، گورنمنٹ سپریریئر کالج، علامہ اقبال گورنمنٹ کالج، گورنمنٹ ڈگری آرٹس اینڈ کامرس کامرس لانڈھی، لیاقت ڈگری گورنمنٹ بوائز کالج، حاجی عبداللہ ہارون گورنمنٹ ڈگری کالج، گورنمنٹ کالج کامرس اینڈ اکنامکس، ایس ایم آرٹس اینڈ کامرس کالج، گورنمنٹ سٹی کالج، سراج الدولہ گورنمنٹ کالج، قائد ملت گورنمنٹ ڈگری کالج، گورنمنٹ ڈگری بوائز کالج گلستان جوہر، گورنمنٹ ڈگری آرٹس اینڈ کامرس کالج ملیر شامل ہیں۔
علاوہ ازیں نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پر ایک پروفیسرنے عائشہ باوانی گورنمنٹ کالج کے بارے میں بتایا کہ اس کالج کو شاہراہ فیصل کے معروف اورمصروف علاقے سے یہاں اے بی سینیالائن کے ایک سرکاری اسکول میں منتقل کیا گیا ہے جہاں صرف 4 کمرے ہیں، اس کالج میں کچھ اساتذہ عرصہ دراز سے ادارے کارخ ہی نہیں کرتے اوران سے کوئی پوچھ گچھ بھی نہیں ہوتی جو اساتذہ پڑھانا چاہتے ہیں اور کالج آتے ہیں ان کوپڑھانے کے لیے طلبہ نہیں ملتے، کالج کا بجٹ 15 لاکھ روپے سالانہ کے لگ بھگ ہے۔
ایک کالج کے پرنسپل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کے کالج سمیت کئی دیگرکالجوں میں کچھ اساتذہ آتے ہیں، طلبہ کاانتظارکرتے ہیں لیکن طلبہ کلاسز کے لیے نہیں آتے اساتذہ وقت گزارتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں متعلقہ پرنسپل کا کہنا تھا کہ اصل میں کراچی میں کم از کم 10 ماہ گرمی کے ہیں جس میں سے بھی تدریسی مہینے گرمی میں ہی آتے ہیں، اتنی شدید گرمی اورلوڈ شیڈنگ میں تپتی دوپہرمیں طلبہ پڑھنا نہیں چاہتے۔
پرنسپل کے مطابق یہ کالج پہلے شام کے اوقات میں نسبتاً بہترموسم میں کھلتے تھے پھرکم از کم دودہائی یااس سے بھی قبل لوڈشیڈنگ کے سبب ان کے اوقات شام سے دوپہرکردیے گئے جس کے بعد سے طلبہ کا کالج آنے کارجحان کم یا تقریباً ختم ہی ہوگی اہے، تاہم کالج اب تک شام کے کالج کے عنوان سے ہی شناخت کیے جاتے ہیں۔
جامعہ ملیہ گورنمنٹ کالج کے سابق پرنسپل پروفیسر ذکاء اللہ کا کہنا تھا کہ وہ تبادلہ ہوکرایجوکیشن کالج آگئے ہیں، جب وہ جامعہ ملیہ کالج میں بطورپرنسپل گئے تھے تو کلاسز نہیں ہوتی تھیں، انہوں نے اپنی کوششوں سے واٹس ایپ گروپ پر مہم چلا کر طلبہ کو کالج میں لے کرآئے اورکلاسز کاسلسلہ شروع ہوا، کمپیوٹرسائنس فیکلٹی بھی کھل گئی، اب ان کی جگہ سپلا کے رہنما پروفیسرکریم ناریجو اس کالج کے پرنسپل ہیں، انہوں نے یہاں کمپیوٹر سائنس میں فزکس کی تدریس بھی شروع کرادی ہے۔
ان کالجوں میں سے بیشتر میں طلبہ کلاسز لینے آتے ہیں اور نہ ہی اساتذہ کوتدریسی ذمہ داری ادا کرنا ہوتی ہے۔ ان میں سے اکثر کالجوں کے پرنسپلز کے پاس طلبہ کوکالجوں میں کلاسز کے لیے لانے کے سلسلے میں کوئی منصوبہ یاحکمت عملی موجود ہی نہیں ہے جس کے سبب شام کی شفٹ کے نام سے چلنے والے کراچی کے 17 سرکاری کالجز کا رخ کرنے والے اساتذہ وغیرتدریسی عملے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر صرف ''نشستن، گفتن اور برخاستن'' کا ذریعے بنے ہوئے ہیں۔
کچھ اساتذہ ان کالجوں میں اپنی تعیناتیوں کا فائدہ اٹھا کر تدریسی اوقات میں اپنے دیگرامور کی انجام دہی کر رہے ہیں، صرف چند کالج ایسے ہیں جن کے پرنسپلز کا دعویٰ ہے کہ ان کے کالجوں میں طلبہ کی 50 فیصد سے زیادہ تعداد کلاسز لینے آتی ہے۔
ڈائریکٹر جنرل کالج سندھ زاہد راجپر سے جب ''ایکسپریس'' نے اس سلسلے میں دریافت کیا تو ان کا کہنا تھا کہ کراچی کا بڑامسئلہ ہے کہ بچے ایوننگ اورمارننگ دونوں شفٹ میں ہی کالج نہیں آتے ہیں اس لیے حاضری کم رہتی ہے۔
گورنمنٹ اسلامیہ آرٹس اینڈ کامرس کالج ایوننگ کے ایک استاد نے ''ایکسپریس'' کوبتایا کہ جب سے کالج گرومندر سے بنگالی پاڑے بفرزون منتقل کیا گیا ہے، اس کا ایڈریس تبدیل نہیں ہوا ہے، آج تک پورٹل پر کالج کاایڈریس جمشید ٹاؤن ہی درج ہے طلبہ جمشید ٹاؤن کا کالج سمجھ کرداخلہ لیتے ہیں اورجب انہیں معلوم ہوتاہے کہ یہ کالج منتقل ہو کر بفرزون جاچکا ہے تواپنے داخلہ منسوخ کرالیتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بمشکل 100 طلبہ نے انٹرمیڈیٹ میں گزشتہ برس داخلے لیے تھے، تاہم وہ بھی کالج نہیں آتے، تاہم اگروہ کالج آبھی جائیں توکالج میں ان کی تدریس کے لیے کوئی انتظام نہیں ہے۔
واضح رہے کہ بجٹ بک کے مطابق اس کالج کا مجموعی بجٹ 11 کروڑ 43 لاکھ 39 ہزارروپے ہے جس میں ملازمین کی تنخواہوں میں 10 کروڑ 84 لاکھ 91 ہزار جبکہ آپریٹنگ بجٹ 58 لاکھ 48 ہزارروپے ہے۔
ان کالجوں میں گورنمنٹ اسلامیہ آرٹس اینڈ کامرس کالج، گورنمنٹ جامعہ ملیہ ڈگری کالج، گورنمنٹ سپریریئر کالج، علامہ اقبال گورنمنٹ کالج، گورنمنٹ ڈگری آرٹس اینڈ کامرس کامرس لانڈھی، لیاقت ڈگری گورنمنٹ بوائز کالج، حاجی عبداللہ ہارون گورنمنٹ ڈگری کالج، گورنمنٹ کالج کامرس اینڈ اکنامکس، ایس ایم آرٹس اینڈ کامرس کالج، گورنمنٹ سٹی کالج، سراج الدولہ گورنمنٹ کالج، قائد ملت گورنمنٹ ڈگری کالج، گورنمنٹ ڈگری بوائز کالج گلستان جوہر، گورنمنٹ ڈگری آرٹس اینڈ کامرس کالج ملیر شامل ہیں۔
علاوہ ازیں نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پر ایک پروفیسرنے عائشہ باوانی گورنمنٹ کالج کے بارے میں بتایا کہ اس کالج کو شاہراہ فیصل کے معروف اورمصروف علاقے سے یہاں اے بی سینیالائن کے ایک سرکاری اسکول میں منتقل کیا گیا ہے جہاں صرف 4 کمرے ہیں، اس کالج میں کچھ اساتذہ عرصہ دراز سے ادارے کارخ ہی نہیں کرتے اوران سے کوئی پوچھ گچھ بھی نہیں ہوتی جو اساتذہ پڑھانا چاہتے ہیں اور کالج آتے ہیں ان کوپڑھانے کے لیے طلبہ نہیں ملتے، کالج کا بجٹ 15 لاکھ روپے سالانہ کے لگ بھگ ہے۔
ایک کالج کے پرنسپل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کے کالج سمیت کئی دیگرکالجوں میں کچھ اساتذہ آتے ہیں، طلبہ کاانتظارکرتے ہیں لیکن طلبہ کلاسز کے لیے نہیں آتے اساتذہ وقت گزارتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں متعلقہ پرنسپل کا کہنا تھا کہ اصل میں کراچی میں کم از کم 10 ماہ گرمی کے ہیں جس میں سے بھی تدریسی مہینے گرمی میں ہی آتے ہیں، اتنی شدید گرمی اورلوڈ شیڈنگ میں تپتی دوپہرمیں طلبہ پڑھنا نہیں چاہتے۔
پرنسپل کے مطابق یہ کالج پہلے شام کے اوقات میں نسبتاً بہترموسم میں کھلتے تھے پھرکم از کم دودہائی یااس سے بھی قبل لوڈشیڈنگ کے سبب ان کے اوقات شام سے دوپہرکردیے گئے جس کے بعد سے طلبہ کا کالج آنے کارجحان کم یا تقریباً ختم ہی ہوگی اہے، تاہم کالج اب تک شام کے کالج کے عنوان سے ہی شناخت کیے جاتے ہیں۔
جامعہ ملیہ گورنمنٹ کالج کے سابق پرنسپل پروفیسر ذکاء اللہ کا کہنا تھا کہ وہ تبادلہ ہوکرایجوکیشن کالج آگئے ہیں، جب وہ جامعہ ملیہ کالج میں بطورپرنسپل گئے تھے تو کلاسز نہیں ہوتی تھیں، انہوں نے اپنی کوششوں سے واٹس ایپ گروپ پر مہم چلا کر طلبہ کو کالج میں لے کرآئے اورکلاسز کاسلسلہ شروع ہوا، کمپیوٹرسائنس فیکلٹی بھی کھل گئی، اب ان کی جگہ سپلا کے رہنما پروفیسرکریم ناریجو اس کالج کے پرنسپل ہیں، انہوں نے یہاں کمپیوٹر سائنس میں فزکس کی تدریس بھی شروع کرادی ہے۔