کراچی ایوننگ کالج تدریس کے بجائے انرولمنٹ ایکزامینیشن کی فراہمی کا ذریعہ بن گئے
طلبہ کلاسز لینے آتے ہیں اور نہ ہی اساتذہ کو تدریسی ذمے داری ادا کرنا ہوتی ہے
محکمہ کالج ایجوکیشن سندھ کے تحت کراچی میں شام کی شفٹ میں چلنے والے سرکاری کالج ڈپارٹمنٹ کی عدم توجہی اور غفلت کے سبب طلبہ کو محض انرولمنٹ اور ایکزامینیشن پلیٹ فارم فراہم کرنے کا ذریعہ بن گئے ہیں۔
ان کالجوں میں سے بیشتر میں طلبہ کلاسز لینے آتے ہیں اور نہ ہی اساتذہ کو تدریسی ذمے داری ادا کرنا ہوتی ہے، ان میں سے اکثر کالجوں کے پرنسپلز کے پاس طلبہ کو کالجوں میں کلاسز کے لیے لانے کے سلسلے میں کوئی منصوبہ یا حکمت عملی موجود ہی نہیں ہے جس کے سبب شام کی شفٹ کے نام سے چلنے والے کراچی کے 17سرکاری کالج ادارے کا رخ کرنے والے اساتذہ و غیر تدریسی عملے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر صرف ''نشستن، گفتن اور برخاستن" کا ذریعے بنے ہوئے ہیں یا پھر کچھ اساتذہ ان کالجوں میں اپنی تعیناتیوں کا فائدہ اٹھا کر ان اوقات میں اپنے دیگر امور کی انجام دہی کر رہے ہیں۔
شہر کے صرف چند کالج ایسے ہیں جن کے پرنسپلز کا دعویٰ ہے کہ ان کے کالجوں میں طلبہ کی 50فیصد سے زیادہ تعداد کلاسز لینے آتی ہے۔
واضح رہے کہ انٹر بورڈ کراچی کے اعداد وشمار کے مطابق ان 17کالجوں میں زیر تعلیم طلبہ کی انرولمنٹ ساڑھے 5ہزار کے قریب ہے لیکن ایک محدود اندازے کے مطابق ان ساڑھے پانچ ہزار طلبہ میں سے کالجوں کا رخ کرنے والے طلبہ 500 بھی نہیں ہیں۔
سرکاری دستاویزات کے مطابق محکمہ کالج ایجوکیشن ان کے کالجوں پر سالانہ ترقیاتی و غیر ترقیاتی بجٹ کے نام پر 76کروڑ 43لاکھ 16ہزار روپے کا بجٹ خرچ کر رہا ہے جن میں 72کروڑ سے زائد تنخواہوں جبکہ 4کروڑسے زائد کا بجٹ کالجوں کے لیے مختص ہے۔ ان کالجوں میں مجموعی طور پر 439ملازمین تعینات ہیں جس میں سے 271اساتذہ جبکہ 168غیر تدریسی ملازمین ہیں۔
ادھر ڈائریکٹر جنرل کالج سندھ زاہد راجپر سے جب ''ایکسپریس'' نے اس سلسلے میں دریافت کیا تو ان کا کہنا تھا کہ کراچی کا بڑا مسئلہ ہے کہ بچے ایوننگ اور مارننگ دونوں شفٹ میں ہی کالج نہیں آتے ہیں اس لیے حاضری کم رہتی ہے، والدین کالج پرنسپلز سے جا کر پوچھتے ہی نہیں کہ ہمارا بچہ کالج آرہا ہے یا نہیں، بچے گھروں سے موٹرسائیکل پر کالج جانیں کے لیے نکلتے ہیں لیکن پھر کالج نہیں پہنچتے، والدین ان پر نظر نہیں رکھتے۔ سیکریٹری کالج سندھ نے اس بار کالجوں میں کونسلرز کی تربیت کرائی ہے کہ وہ طلبہ کو کالجوں کی جانب راغب کریں۔
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اسلامیا کالج دور جانے کے سبب یہاں بچے نہیں آتے، یہ کالج قریب کی ہی کسی آبادی میں منتقل ہوناچاہیے تھا تاہم ایسا نہیں ہوا۔ عائشہ بوانی کالج کے حوالے سے کیے گئے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ یہ عمارتیں ہی اصل وجوہات ہیں یہ کالج اسکول میں منتقل کیا گیا، اس لیے بہتر منتقلی سے بہتر نتائج نہیں آسکے۔
واضح رہے کہ کراچی کے مختلف علاقوں میں قائم ان سرکاری کالجوں میں سائنس (پری انجینیئرنگ اور پری میڈیکل) کی تعلیم نہیں دی جاتی بلکہ صرف کامرس، ہیومینیٹریز او رکچھ میں کمپیوٹر سائنس فیکلٹی دستاویز پر موجود ہے تاہم عملی طور پر 17 میں سے بیشتر کالجوں میں ان تینوں فیکلٹیز میں تدریس دور دور تک نہیں، اساتذہ و پرنسپل اور عملہ باقاعدگی سے تنخواہیں تو لے رہا ہے لیکن دفتری اوقات میں ان کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہے۔
گورنمنٹ اسلامیا آرٹس اینڈ کامرس کالج ایوننگ کے ایک استاد نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ جب سے کالج گرومندر سے بنگالی پاڑے بفرزون منتقل کیا گیا ہے تب سے اس کا ایڈرس تبدیل نہیں ہوا، آج تک پورٹل پر کالج کا ایڈرس جمشید ٹاؤن ہی درج ہے اور طلبہ جمشید ٹاؤن کا کالج سمجھ کر داخلہ لیتے ہیں اور جب انھیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ کالج منتقل ہو کر بفرزون جا چکا ہے تو اپنے داخلہ منسوخ کرا لیتے ہیں، بمشکل 100طلبہ نے انٹرمیڈیٹ میں گزشتہ برس داخلے لیے تھے تاہم وہ بھی کالج نہیں آتے۔
استاد نے بتیا کہ اگر طلبہ وہ کالج آ بھی جائیں تو کالج میں ان کی تدریس کے لیے کوئی انتظام نہیں ہے کیونکہ کالج منتقلی کے بعد ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کی جانب سے طلبہ کے بیٹھنے کے لیے فرنیچر فراہم ہی نہیں کیا گیا، کلاس رومز خالی پڑے ہیں لہٰذا انھیں کہاں بٹھا کر پڑھائیں گے۔ انہوں نے تصدیق کی کہ طلبہ نے انرولمنٹ اور ایکزامینیشن کرائی اس کے بعد نہیں آئے۔ واضح رہے کہ بجٹ بک کے مطابق اس کالج کا مجموعی بجٹ 11کروڑ 43لاکھ 39ہزار روپے ہے جس میں ملازمین کی تنخواہوں میں 10کروڑ 84لاکھ 91ہزار جبکہ آپریٹنگ بجٹ 58لاکھ 48ہزار روپے ہے۔
ان کالجوں میں گورنمنٹ اسلامیہ آرٹس اینڈ کامرس کالج، گورنمنٹ جامعہ ملیہ ڈگری کالج، گورنمنٹ سپریریئر کالج، علامہ اقبال گورنمنٹ کالج، گورنمنٹ ڈگری آرٹس اینڈ کامرس کامرس لانڈھی، لیاقت ڈگری گورنمنٹ بوائز کالج، حاجی عبداللہ ہارون گورنمنٹ ڈگری کالج، گورنمنٹ کالج کامرس اینڈ اکنامکس، ایس ایم آرٹس اینڈ کامرس کالج، گورنمنٹ سٹی کالج، سراج الدولہ گورنمنٹ کالج، قائد ملت گورنمنٹ ڈگری کالج، گورنمنٹ ڈگری بوائز کالج گلستان جوہر اور گورنمنٹ ڈگری آرٹس اینڈ کامرس کالج ملیر شامل ہیں۔
علاوہ ازیں، نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک پروفیسر نے عائشہ بوانی گورنمنٹ کالج کے بارے میں بتایا کہ اس کالج کو شارع فیصل کے معروف اور مصروف علاقے سے یہاں اے بی سینیالائن کے ایک سرکاری اسکول میں منتقل کیا گیا ہے جہاں صرف 4کمرے ہیں، اس کالج میں کچھ اساتذہ عرصہ دراز سے ادارے کا رخ ہی نہیں کرتے اور ان سے کوئی پوچھ گھچ بھی نہیں ہوتی جو اساتذہ پڑھانا چاہتے ہیں اور کالج آتے ہیں ان کو پڑھانے کے لیے طلبہ نہیں ملتے۔ کالج کا بجٹ 15لاکھ روپے سالانہ کے لگ بھگ ہے لیکن کوئی پرنسپل موجود نہیں ہے جو بتائے کہ فنڈ کہاں اور کیسے خرچ کریں۔ سابق ڈی جی کالج سندھ پروفیسر شاداب کا یہاں تبادلہ کیا گیا تھا، کچھ روز پرنسپل رہنے کے بعد وہ ریٹائرڈ ہوگئے ہیں، اس کالج کا مجموعی بجٹ 3کروڑ 35لاکھ 96ہزار روپے ہے جس میں تنخواہوں کے لیے 3کروڑ 13لاکھ 17ہزار جبکہ آپریٹنگ بجٹ 22لاکھ 79ہزار روپے ہے۔
ایک کالج کے پرنسپل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کے کالج سمیت کئی دیگر کالجوں میں کچھ اساتذہ آتے ہیں، طلبہ کا انتظار کرتے ہیں لیکن طلبہ کلاسز کے لیے نہیں آتے، اساتذہ وقت گزارتے ہیں سیاسی و سماجی امور اور بین الاقوامی امور پر گپ شپ رہتی ہے پھر چلے جاتے ہیں جبکہ کچھ اساتذہ ایسے بھی ہیں جو بائیو میٹرک لگا کر چلے جاتے ہیں اور شام کو پھر آتے ہیں، بائیو میٹرک لگاتے ہیں اور پھر چلے جاتے ہیں ہم سختی اس لیے نہیں کرتے کہ طلبہ نہیں ہیں تو وہ کس کو پڑھائیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں متعلقہ پرنسپل کا کہنا تھا کہ اصل میں کراچی میں کم از کم 10 ماہ گرمی کے ہیں جس میں سے تدریسی مہینے گرمی میں ہی آتے ہیں، اتنی شدید گرمی اور لوڈ شیڈنگ میں تپتی دوپہر میں طلبہ پڑھنا نہیں چاہتے، یہ کالج پہلے شامل کے اوقات میں نسبتاً بہترموسم میں کھلتے تھے پھر کم از کم دو دہائی یا اس سے بھی قبل لوڈ شیڈنگ کے سبب ان کے اوقات شام سے دوپہر کر دیے گئے جس کے بعد سے طلبہ کا کالج آنے کا رجحان کم یا تقریباً ختم ہی ہوگیا ہے تاہم کالج اب تک شام کے کالج کے عنوان سے ہی شناخت کیے جاتے ہیں۔
جامعہ ملیہ گورنمنٹ کالج کے سابق پرنسپل پروفیسر ذکاء اللہ کا کہنا تھا کہ وہ تبادلہ ہو کر ایجوکیشن کالج آگئے ہیں جن وہ جامعہ ملیہ کالج میں بطور پرنسپل گئے تھے تو کلاسز نہیں ہوتی تھیں۔ انھوں نے اپنی کوششوں سے واٹس ایپ گروپ پر مہم چلا کر طلبہ کو کالج میں لے کر آئے اور کلاسز کا سلسلہ شروع ہوا، کمپیوٹر سائنس فیکلٹی بھی کھل گئی اب ان کی جگہ سپلا کے رہنما پروفیسر کریم ناریجو اس کالج کے پرنسپل ہیں، انھوں نے یہاں کمپیوٹر سائنس میں فزکس کی تدریس بھی شروع کرا دی ہے۔
ان کالجوں میں سے بیشتر میں طلبہ کلاسز لینے آتے ہیں اور نہ ہی اساتذہ کو تدریسی ذمے داری ادا کرنا ہوتی ہے، ان میں سے اکثر کالجوں کے پرنسپلز کے پاس طلبہ کو کالجوں میں کلاسز کے لیے لانے کے سلسلے میں کوئی منصوبہ یا حکمت عملی موجود ہی نہیں ہے جس کے سبب شام کی شفٹ کے نام سے چلنے والے کراچی کے 17سرکاری کالج ادارے کا رخ کرنے والے اساتذہ و غیر تدریسی عملے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر صرف ''نشستن، گفتن اور برخاستن" کا ذریعے بنے ہوئے ہیں یا پھر کچھ اساتذہ ان کالجوں میں اپنی تعیناتیوں کا فائدہ اٹھا کر ان اوقات میں اپنے دیگر امور کی انجام دہی کر رہے ہیں۔
شہر کے صرف چند کالج ایسے ہیں جن کے پرنسپلز کا دعویٰ ہے کہ ان کے کالجوں میں طلبہ کی 50فیصد سے زیادہ تعداد کلاسز لینے آتی ہے۔
واضح رہے کہ انٹر بورڈ کراچی کے اعداد وشمار کے مطابق ان 17کالجوں میں زیر تعلیم طلبہ کی انرولمنٹ ساڑھے 5ہزار کے قریب ہے لیکن ایک محدود اندازے کے مطابق ان ساڑھے پانچ ہزار طلبہ میں سے کالجوں کا رخ کرنے والے طلبہ 500 بھی نہیں ہیں۔
سرکاری دستاویزات کے مطابق محکمہ کالج ایجوکیشن ان کے کالجوں پر سالانہ ترقیاتی و غیر ترقیاتی بجٹ کے نام پر 76کروڑ 43لاکھ 16ہزار روپے کا بجٹ خرچ کر رہا ہے جن میں 72کروڑ سے زائد تنخواہوں جبکہ 4کروڑسے زائد کا بجٹ کالجوں کے لیے مختص ہے۔ ان کالجوں میں مجموعی طور پر 439ملازمین تعینات ہیں جس میں سے 271اساتذہ جبکہ 168غیر تدریسی ملازمین ہیں۔
ادھر ڈائریکٹر جنرل کالج سندھ زاہد راجپر سے جب ''ایکسپریس'' نے اس سلسلے میں دریافت کیا تو ان کا کہنا تھا کہ کراچی کا بڑا مسئلہ ہے کہ بچے ایوننگ اور مارننگ دونوں شفٹ میں ہی کالج نہیں آتے ہیں اس لیے حاضری کم رہتی ہے، والدین کالج پرنسپلز سے جا کر پوچھتے ہی نہیں کہ ہمارا بچہ کالج آرہا ہے یا نہیں، بچے گھروں سے موٹرسائیکل پر کالج جانیں کے لیے نکلتے ہیں لیکن پھر کالج نہیں پہنچتے، والدین ان پر نظر نہیں رکھتے۔ سیکریٹری کالج سندھ نے اس بار کالجوں میں کونسلرز کی تربیت کرائی ہے کہ وہ طلبہ کو کالجوں کی جانب راغب کریں۔
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اسلامیا کالج دور جانے کے سبب یہاں بچے نہیں آتے، یہ کالج قریب کی ہی کسی آبادی میں منتقل ہوناچاہیے تھا تاہم ایسا نہیں ہوا۔ عائشہ بوانی کالج کے حوالے سے کیے گئے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ یہ عمارتیں ہی اصل وجوہات ہیں یہ کالج اسکول میں منتقل کیا گیا، اس لیے بہتر منتقلی سے بہتر نتائج نہیں آسکے۔
واضح رہے کہ کراچی کے مختلف علاقوں میں قائم ان سرکاری کالجوں میں سائنس (پری انجینیئرنگ اور پری میڈیکل) کی تعلیم نہیں دی جاتی بلکہ صرف کامرس، ہیومینیٹریز او رکچھ میں کمپیوٹر سائنس فیکلٹی دستاویز پر موجود ہے تاہم عملی طور پر 17 میں سے بیشتر کالجوں میں ان تینوں فیکلٹیز میں تدریس دور دور تک نہیں، اساتذہ و پرنسپل اور عملہ باقاعدگی سے تنخواہیں تو لے رہا ہے لیکن دفتری اوقات میں ان کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہے۔
گورنمنٹ اسلامیا آرٹس اینڈ کامرس کالج ایوننگ کے ایک استاد نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ جب سے کالج گرومندر سے بنگالی پاڑے بفرزون منتقل کیا گیا ہے تب سے اس کا ایڈرس تبدیل نہیں ہوا، آج تک پورٹل پر کالج کا ایڈرس جمشید ٹاؤن ہی درج ہے اور طلبہ جمشید ٹاؤن کا کالج سمجھ کر داخلہ لیتے ہیں اور جب انھیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ کالج منتقل ہو کر بفرزون جا چکا ہے تو اپنے داخلہ منسوخ کرا لیتے ہیں، بمشکل 100طلبہ نے انٹرمیڈیٹ میں گزشتہ برس داخلے لیے تھے تاہم وہ بھی کالج نہیں آتے۔
استاد نے بتیا کہ اگر طلبہ وہ کالج آ بھی جائیں تو کالج میں ان کی تدریس کے لیے کوئی انتظام نہیں ہے کیونکہ کالج منتقلی کے بعد ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کی جانب سے طلبہ کے بیٹھنے کے لیے فرنیچر فراہم ہی نہیں کیا گیا، کلاس رومز خالی پڑے ہیں لہٰذا انھیں کہاں بٹھا کر پڑھائیں گے۔ انہوں نے تصدیق کی کہ طلبہ نے انرولمنٹ اور ایکزامینیشن کرائی اس کے بعد نہیں آئے۔ واضح رہے کہ بجٹ بک کے مطابق اس کالج کا مجموعی بجٹ 11کروڑ 43لاکھ 39ہزار روپے ہے جس میں ملازمین کی تنخواہوں میں 10کروڑ 84لاکھ 91ہزار جبکہ آپریٹنگ بجٹ 58لاکھ 48ہزار روپے ہے۔
ان کالجوں میں گورنمنٹ اسلامیہ آرٹس اینڈ کامرس کالج، گورنمنٹ جامعہ ملیہ ڈگری کالج، گورنمنٹ سپریریئر کالج، علامہ اقبال گورنمنٹ کالج، گورنمنٹ ڈگری آرٹس اینڈ کامرس کامرس لانڈھی، لیاقت ڈگری گورنمنٹ بوائز کالج، حاجی عبداللہ ہارون گورنمنٹ ڈگری کالج، گورنمنٹ کالج کامرس اینڈ اکنامکس، ایس ایم آرٹس اینڈ کامرس کالج، گورنمنٹ سٹی کالج، سراج الدولہ گورنمنٹ کالج، قائد ملت گورنمنٹ ڈگری کالج، گورنمنٹ ڈگری بوائز کالج گلستان جوہر اور گورنمنٹ ڈگری آرٹس اینڈ کامرس کالج ملیر شامل ہیں۔
علاوہ ازیں، نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک پروفیسر نے عائشہ بوانی گورنمنٹ کالج کے بارے میں بتایا کہ اس کالج کو شارع فیصل کے معروف اور مصروف علاقے سے یہاں اے بی سینیالائن کے ایک سرکاری اسکول میں منتقل کیا گیا ہے جہاں صرف 4کمرے ہیں، اس کالج میں کچھ اساتذہ عرصہ دراز سے ادارے کا رخ ہی نہیں کرتے اور ان سے کوئی پوچھ گھچ بھی نہیں ہوتی جو اساتذہ پڑھانا چاہتے ہیں اور کالج آتے ہیں ان کو پڑھانے کے لیے طلبہ نہیں ملتے۔ کالج کا بجٹ 15لاکھ روپے سالانہ کے لگ بھگ ہے لیکن کوئی پرنسپل موجود نہیں ہے جو بتائے کہ فنڈ کہاں اور کیسے خرچ کریں۔ سابق ڈی جی کالج سندھ پروفیسر شاداب کا یہاں تبادلہ کیا گیا تھا، کچھ روز پرنسپل رہنے کے بعد وہ ریٹائرڈ ہوگئے ہیں، اس کالج کا مجموعی بجٹ 3کروڑ 35لاکھ 96ہزار روپے ہے جس میں تنخواہوں کے لیے 3کروڑ 13لاکھ 17ہزار جبکہ آپریٹنگ بجٹ 22لاکھ 79ہزار روپے ہے۔
ایک کالج کے پرنسپل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کے کالج سمیت کئی دیگر کالجوں میں کچھ اساتذہ آتے ہیں، طلبہ کا انتظار کرتے ہیں لیکن طلبہ کلاسز کے لیے نہیں آتے، اساتذہ وقت گزارتے ہیں سیاسی و سماجی امور اور بین الاقوامی امور پر گپ شپ رہتی ہے پھر چلے جاتے ہیں جبکہ کچھ اساتذہ ایسے بھی ہیں جو بائیو میٹرک لگا کر چلے جاتے ہیں اور شام کو پھر آتے ہیں، بائیو میٹرک لگاتے ہیں اور پھر چلے جاتے ہیں ہم سختی اس لیے نہیں کرتے کہ طلبہ نہیں ہیں تو وہ کس کو پڑھائیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں متعلقہ پرنسپل کا کہنا تھا کہ اصل میں کراچی میں کم از کم 10 ماہ گرمی کے ہیں جس میں سے تدریسی مہینے گرمی میں ہی آتے ہیں، اتنی شدید گرمی اور لوڈ شیڈنگ میں تپتی دوپہر میں طلبہ پڑھنا نہیں چاہتے، یہ کالج پہلے شامل کے اوقات میں نسبتاً بہترموسم میں کھلتے تھے پھر کم از کم دو دہائی یا اس سے بھی قبل لوڈ شیڈنگ کے سبب ان کے اوقات شام سے دوپہر کر دیے گئے جس کے بعد سے طلبہ کا کالج آنے کا رجحان کم یا تقریباً ختم ہی ہوگیا ہے تاہم کالج اب تک شام کے کالج کے عنوان سے ہی شناخت کیے جاتے ہیں۔
جامعہ ملیہ گورنمنٹ کالج کے سابق پرنسپل پروفیسر ذکاء اللہ کا کہنا تھا کہ وہ تبادلہ ہو کر ایجوکیشن کالج آگئے ہیں جن وہ جامعہ ملیہ کالج میں بطور پرنسپل گئے تھے تو کلاسز نہیں ہوتی تھیں۔ انھوں نے اپنی کوششوں سے واٹس ایپ گروپ پر مہم چلا کر طلبہ کو کالج میں لے کر آئے اور کلاسز کا سلسلہ شروع ہوا، کمپیوٹر سائنس فیکلٹی بھی کھل گئی اب ان کی جگہ سپلا کے رہنما پروفیسر کریم ناریجو اس کالج کے پرنسپل ہیں، انھوں نے یہاں کمپیوٹر سائنس میں فزکس کی تدریس بھی شروع کرا دی ہے۔