معیشت میں ریفارمز لائی جائیں
بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں ہر تھوڑے عرصے بعد اضافہ ایک معمول بن چکا ہے
کراچی سمیت ملک بھرکے لیے بجلی مہنگی کردی گئی ہے، اور وفاقی حکومت نے نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔ بجلی کا یونٹ 48.84 روپے، صارفین پر ہزار روپے تک فکسڈ ٹیکس نافذ، ماہانہ200 یونٹ تک گھریلو صارفین3 ماہ کے لیے اضافے سے مستثنٰی،باقی ٹیرف فی یونٹ7.12 روپے تک بڑھا دیا گیا۔ دوسری جانب آئی ایم ایف سے آیندہ 37 ماہ کے لیے اسٹاف لیول معاہدہ طے پاگیا ہے، یہ خبرخوش آیند ہے، اس طرح معیشت میں بہتری کے مزید امکانات پیدا ہونگے۔
عوام کا شکوہ ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے سارا بوجھ ان پر ڈال دیا گیا ہے، جس سے ملک میں مزید مہنگائی اور بے روزگاری کی شرح بڑھ گئی ہے۔ یہ اب موجودہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ ایسی جامع پالیسیاں بنائے کہ معیشت اپنے پاؤں پرکھڑی ہو، جس کے لیے معیشت میں ریفارمز لانا ممکن ہوسکے۔
اس وقت ملک میں ایک عام شہری کے لیے ایک اوسط درجے کے گھر میں بجلی،گیس اور پٹرول کے خرچے کے لیے وسائل سخت تنگ ہو چکے ہیں اور اسٹیٹ بینک میں بیرونی زر مبادلہ میں صرف آٹھ بلین ڈالر ہیں جو مشکل سے دو ماہ کے درآمدی اخراجات کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 9 کروڑ افراد غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں ہر تھوڑے عرصے بعد اضافہ ایک معمول بن چکا ہے، جس کا فوری اثر ایک عام آدمی کی زندگی پر پڑتا ہے اور ضروری استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہی شہر اور شہر سے باہر سفرکے اخراجات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
دراصل کسی ملک کی معیشت کی سمت کا اندازہ کرنے کے لیے عموماً جو پیمانہ اختیارکیا جاتا ہے،اس میں تین چیزیں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔ ریاست کی جانب سے عام شہری کو روزگار، تعلیم اور صحت کے لحاظ سے کیا سہولیات حاصل ہیں؟ اور ایک عام شہری اپنے روزانہ کے اخراجات کے لیے کم ازکم کتنی آمدنی پیدا کر پا رہا ہے؟ آمدنی کا کم ازکم پیمانہ عموماً تین اعشاریہ چھ پانچ ڈالر یا ایک ہزار پندرہ روپے سمجھا جاتا ہے۔
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستان میں ایک محنت کش اس معیار سے بھی کم، یعنی مشکل سے دو ڈالر روزانہ میں گزارا کر رہا ہے۔ ملک میں روزانہ بڑھتی ہوئی قیمتیں، بے روزگاری، عدم تحفظ،گلی کوچہ و بازار میں جرائم کی وارداتوں میں اضافہ جیسے معاشرتی مسائل کا ہمیں سامنا ہے۔ ملک میں محنت کش اور معاشی کارکن کے مرتبہ اور حقوق کا تحفظ اعلیٰ کارکردگی کے لیے بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ معاشی عدل اور محنت کش کے حقوق کے تحفظ کے لیے مناسب قانون سازی کے ساتھ ایسے اداروں کا قیام ضروری ہے جو جلد انصاف کی فراہمی کریں اورکاروبارکرنے والوں کو قانون کے احترام پر آمادہ کر سکیں۔ اس میں خواتین اور کم عمر معاشی کارکنوں کے حقوق کے تحفظ پر خاص توجہ کی ضرورت ہے۔
ملک گیر پیمانے پر قابلِ کاشت زمینوں میں پیداوار بڑھانے کے ذرایع کا استعمال اور قابلِ کاشت زمینوں کو رہائشی آبادیوں کے تعمیری منصوبوں میں تبدیل کرنے پر قانونی پابندی کی ضرورت ہے، تاکہ آنے والے وقت میں ملکی آبادی میں اضافے کے بعد غذائی ضروریات کی تکمیل اور غذائی اجناس کی برآمد کے ذریعے معاشی ترقی کے حصول کو ممکن بنایا جا سکے۔ اس وقت ملک میں ایسے تحقیقی ادارے جو زراعت کے حوالے سے کسان کی عملی رہنمائی کرسکیں، انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔
ہماری فی ایکڑ پیداوار گندم کی ہو یا چاول کی اور ایسے ہی پھلوں کی، ہم ہر میدان میں دیگر ممالک سے بہت پیچھے ہیں، جب کہ ہمارے پھل اور چاول کی اس کی اعلیٰ قسم ہونے کی بنا پر بھاری مانگ موجود ہے۔ ایک عرصے سے ہمارے چاول کو ہمارا دشمن ملک اپنے ملک کا ٹھپہ لگا کر فروخت کرتا رہا ہے اور اب اس نے ہمارے یہاں کے بیج اپنے ہاں لگا کر ہماری مارکیٹ کو اپنے قبضے میں کرنا شروع کر دیا ہے، لیکن ہم آنکھیں بند کیے یہ سب کچھ گوارا کر رہے ہیں۔
ہماری زراعت سونے کی طرح ملکی معیشت کو استحکام دے سکتی ہے۔ ملک کی زرعی پالیسی کی تیاری میں نہ صرف اعلیٰ تعلیمی اداروں بلکہ کسان بورڈوں اور تنظیمات کو بھی شامل کیا جائے تاکہ زمینی حقائق کی روشنی میں ملک گیر پالیسی وہ ہو جو قابلِ عمل ہو اور جسے متعلقہ افراد خود تیار کریں۔پاکستان کو بعض صنعتوں میں خصوصی مقام حاصل رہا ہے۔ مثلاً سیالکوٹ کے ساتھ کھیل اور جراحت کے سامان کا نام خود بخود ذہن میں ابھرتا ہے۔
فیصل آباد ٹیکسٹائل کے لیے شہرت رکھتا ہے۔ ان میدانوں میں اضافے اور مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ یہاں کی تیار کردہ اشیا اپنے معیار کے لحاظ سے دنیا بھر میں ممتاز رہیں۔ ان اشیاء کی تیاری میں جو خام مال اور جو فنی محنت درکار ہوتی ہے، اس کی تربیت اور سائنسی اصولوں پر اس میں مہارت کے لیے ان صنعتوں سے وابستہ افراد کو ایسے ادارے، جامعات کی وابستگی کے ساتھ قائم کرنے پر متوجہ کیا جائے جو ان فنون میں تربیت اور مارکیٹ کی ضروریات کے پیش نظر افرادی قوت تیار کر سکیں۔ پاکستان کی معیشت کا حجم تقریباً 300 ارب ڈالر کے برابر ہے 67 فی صد آبادی دیہاتوں میں رہتی اور اپنی گزر بسر کے لیے زراعت اور اس سے وابستہ پیشوں پر انحصار کرتی ہے۔
ہماری صنعت اور اس کی پیداوار کا انحصار بھی زرعی خام مال پر ہے، ہماری برآمدات کا 60/70 فی صد زراعت و اس سے منسلک شعبہ جات پر انحصار کرتا ہے کپاس، چاول، چینی، چمڑے کی مصنوعات وغیرہ کا تعلق زراعت سے ہے ہماری سب سے بڑی برآمدی شے، ٹیکسٹائل بھی زراعت پر منحصر ہے۔ زرعی شعبہ ہماری خام قومی آمدنی کے 23 فی صد کے برابر ہے۔ زراعت کے لیے پانی، روح کی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان میں دنیا کا بڑا نہری نظام موجود ہے جسے پانچ دریا پانی مہیا کرتے ہیں۔ ہم سندھ طاس معاہدے کے تحت تین دریاؤں کے پانی پر اپنا حق ختم کر چکے ہیں۔ اب ان تین دریاؤں کا پانی قانونی طور پر ہندوستان کے قبضے میں چلا گیا ہے وہ جب چاہتا ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے۔
وہ پانی روک کر ہمیں خشک سالی کا شکار بھی کرتا ہے اور مون سون کے موسم میں بے دریغ پانی چھوڑ کر سیلاب کی نذر بھی کر دیتا ہے۔ ہم مجبور محض بن کر دیکھتے رہتے ہیں۔ آبپاشی کا دوسرا ذریعہ بارشیں ہیں اور ان کے ساتھ جڑا ہوا زیر زمین پانی۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث مون سون نہ صرف الٹ پلٹ ہوچکا ہے بلکہ بارشوں کی اوسط میں بھی تبدیلی واقع ہو چکی ہے ہم نے دستیاب پانی کو بھر پور انداز میں استعمال کرنے کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی ہے جس کا نتیجہ پانی کی کمیابی اور فی ایکڑ پیداوار میں مطلوبہ بڑھوتی حاصل نہیں ہو سکی ہے ہماری آبادی بڑھتی چلی جارہی ہے لیکن ہماری زمین کی پیداواری صلاحیت اس حساب سے بڑھ نہیں پائی ہے جس کے باعث ہمارے ہاں خوراک و اجناس کی حسب ضرورت دستیابی ممکن نہیں ہوسکی ہے۔
زرعی ملک ہونے کے باوجود ہمیں گندم، دالیں، ادرک، پیاز، چینی وغیرہ درآمد کرنا پڑتا ہے۔ ہماری سب سے بڑی پرابلم روٹی کا حصول بن چکا ہے۔ اندرونی اور بیرونی غیر موافق حالات کے باعث معاشی نمو سکڑ چکی ہے۔ روزگار کے مواقع نہ ہونے کے ساتھ ساتھ بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ دوسری جانب دہشت گردی کی نئی لہر کا اٹھنا اور پھیلتے ہی چلے جانا قومی سلامتی کے لیے انتہائی مضر ہے ایسے حالات میں ابھی تک کسی سیاسی جماعت یا قائد نے کوئی ایسا لائحہ عمل تجویز نہیں کیا ہے جو قوم کو امیدکی کرن دکھا کر تعمیروترقی کی راہ پر ڈال سکے۔
پاکستان دنیا میں نوجوان آبادی رکھنے والے ممالک کی فہرست میں پہلے نمبر پر ہے، اس کی آبادی کا 64 فی صد30 سال اور اس سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے۔ اتنی بڑی نوجوان آبادی کو روزگار مہیا کرنا کسی بھی حکومت کے بس میں نہیں پھر 2.55 فی صد سالانہ کی افزائش آبادی بھی بہت زیادہ ہے جب کہ معاشی نموکی کم ترین سطح بھی ایک عظیم مسئلہ ہے، ایسے میں نوجوان نسل کو خود انحصاری اور خود کفالت کی راہ پر ڈالنے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
چین، سری لنکا، سنگا پور، ملائیشیا،کوریا، بنگلہ دیش اورانڈیا جیسے ترقی کرتے ہوئے بلکہ ترقی کی اعلیٰ منازل طے کرتے ہوئے ممالک نے اپنے نوجوانوں کو ہنرمند بنایا، انھیں آئی ٹی سے لیس کیا،انھیں لوکل اور عالمی مارکیٹ میں پنپنے اور اپنا مقام بنانے کا سلیقہ سکھایا اور اس کا نتیجہ ہے کہ یہ اقوام تعمیر وترقی کی منازل طے کرتی ہوئی آج کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہیں۔ ہندوستان اور چین نے اپنی آبادی کے نوجوانوں کے دو ہاتھوں کو معاشی ہتھیار بنایا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ عالمی اقتصادی منظر پر چھا گئے۔
بنگلہ دیش بھی ایسی ہی ایک مثال ہے۔ ہم تمام تر مشکلات اور ناموافق حالات کی موجودگی کے باوجود نوجوانوں کی کثیر تعداد کی موجودگی میں ایک عظیم نعمت سے مالا مال قوم ہیں۔ یہ ہمارا عالمی اعزاز بھی ہے ہمیں مثبت عامل کو ایک عملی حقیقت کی شکل دینا ہے۔
مشرق وسطیٰ تعمیر و ترقی کے عظیم الشان عمل سے گزر رہا ہے، وہاں اگلے دس بیس سال کے لیے افرادی قوت کی بکنگ ہورہی ہے یورپ ہنر مند افراد کی قلت کا شکار ہے۔ خطے میں سی پیک نے ہنر مند افراد کے لیے روزگارکے بے پناہ مواقعے پیدا کردیے ہیں۔ اب بھی موقع ہے کہ ہم، مقامی، علاقائی اور بین الاقوامی روزگار مارکیٹ کے رجحانات کو دیکھتے ہوئے اپنی نوجوان نسل کو ہنر مند بنانے کی پالیسی تشکیل دیں اور مواقعے سے فائدہ اٹھائیں۔
عوام کا شکوہ ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے سارا بوجھ ان پر ڈال دیا گیا ہے، جس سے ملک میں مزید مہنگائی اور بے روزگاری کی شرح بڑھ گئی ہے۔ یہ اب موجودہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ ایسی جامع پالیسیاں بنائے کہ معیشت اپنے پاؤں پرکھڑی ہو، جس کے لیے معیشت میں ریفارمز لانا ممکن ہوسکے۔
اس وقت ملک میں ایک عام شہری کے لیے ایک اوسط درجے کے گھر میں بجلی،گیس اور پٹرول کے خرچے کے لیے وسائل سخت تنگ ہو چکے ہیں اور اسٹیٹ بینک میں بیرونی زر مبادلہ میں صرف آٹھ بلین ڈالر ہیں جو مشکل سے دو ماہ کے درآمدی اخراجات کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 9 کروڑ افراد غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں ہر تھوڑے عرصے بعد اضافہ ایک معمول بن چکا ہے، جس کا فوری اثر ایک عام آدمی کی زندگی پر پڑتا ہے اور ضروری استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہی شہر اور شہر سے باہر سفرکے اخراجات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
دراصل کسی ملک کی معیشت کی سمت کا اندازہ کرنے کے لیے عموماً جو پیمانہ اختیارکیا جاتا ہے،اس میں تین چیزیں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔ ریاست کی جانب سے عام شہری کو روزگار، تعلیم اور صحت کے لحاظ سے کیا سہولیات حاصل ہیں؟ اور ایک عام شہری اپنے روزانہ کے اخراجات کے لیے کم ازکم کتنی آمدنی پیدا کر پا رہا ہے؟ آمدنی کا کم ازکم پیمانہ عموماً تین اعشاریہ چھ پانچ ڈالر یا ایک ہزار پندرہ روپے سمجھا جاتا ہے۔
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستان میں ایک محنت کش اس معیار سے بھی کم، یعنی مشکل سے دو ڈالر روزانہ میں گزارا کر رہا ہے۔ ملک میں روزانہ بڑھتی ہوئی قیمتیں، بے روزگاری، عدم تحفظ،گلی کوچہ و بازار میں جرائم کی وارداتوں میں اضافہ جیسے معاشرتی مسائل کا ہمیں سامنا ہے۔ ملک میں محنت کش اور معاشی کارکن کے مرتبہ اور حقوق کا تحفظ اعلیٰ کارکردگی کے لیے بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ معاشی عدل اور محنت کش کے حقوق کے تحفظ کے لیے مناسب قانون سازی کے ساتھ ایسے اداروں کا قیام ضروری ہے جو جلد انصاف کی فراہمی کریں اورکاروبارکرنے والوں کو قانون کے احترام پر آمادہ کر سکیں۔ اس میں خواتین اور کم عمر معاشی کارکنوں کے حقوق کے تحفظ پر خاص توجہ کی ضرورت ہے۔
ملک گیر پیمانے پر قابلِ کاشت زمینوں میں پیداوار بڑھانے کے ذرایع کا استعمال اور قابلِ کاشت زمینوں کو رہائشی آبادیوں کے تعمیری منصوبوں میں تبدیل کرنے پر قانونی پابندی کی ضرورت ہے، تاکہ آنے والے وقت میں ملکی آبادی میں اضافے کے بعد غذائی ضروریات کی تکمیل اور غذائی اجناس کی برآمد کے ذریعے معاشی ترقی کے حصول کو ممکن بنایا جا سکے۔ اس وقت ملک میں ایسے تحقیقی ادارے جو زراعت کے حوالے سے کسان کی عملی رہنمائی کرسکیں، انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔
ہماری فی ایکڑ پیداوار گندم کی ہو یا چاول کی اور ایسے ہی پھلوں کی، ہم ہر میدان میں دیگر ممالک سے بہت پیچھے ہیں، جب کہ ہمارے پھل اور چاول کی اس کی اعلیٰ قسم ہونے کی بنا پر بھاری مانگ موجود ہے۔ ایک عرصے سے ہمارے چاول کو ہمارا دشمن ملک اپنے ملک کا ٹھپہ لگا کر فروخت کرتا رہا ہے اور اب اس نے ہمارے یہاں کے بیج اپنے ہاں لگا کر ہماری مارکیٹ کو اپنے قبضے میں کرنا شروع کر دیا ہے، لیکن ہم آنکھیں بند کیے یہ سب کچھ گوارا کر رہے ہیں۔
ہماری زراعت سونے کی طرح ملکی معیشت کو استحکام دے سکتی ہے۔ ملک کی زرعی پالیسی کی تیاری میں نہ صرف اعلیٰ تعلیمی اداروں بلکہ کسان بورڈوں اور تنظیمات کو بھی شامل کیا جائے تاکہ زمینی حقائق کی روشنی میں ملک گیر پالیسی وہ ہو جو قابلِ عمل ہو اور جسے متعلقہ افراد خود تیار کریں۔پاکستان کو بعض صنعتوں میں خصوصی مقام حاصل رہا ہے۔ مثلاً سیالکوٹ کے ساتھ کھیل اور جراحت کے سامان کا نام خود بخود ذہن میں ابھرتا ہے۔
فیصل آباد ٹیکسٹائل کے لیے شہرت رکھتا ہے۔ ان میدانوں میں اضافے اور مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ یہاں کی تیار کردہ اشیا اپنے معیار کے لحاظ سے دنیا بھر میں ممتاز رہیں۔ ان اشیاء کی تیاری میں جو خام مال اور جو فنی محنت درکار ہوتی ہے، اس کی تربیت اور سائنسی اصولوں پر اس میں مہارت کے لیے ان صنعتوں سے وابستہ افراد کو ایسے ادارے، جامعات کی وابستگی کے ساتھ قائم کرنے پر متوجہ کیا جائے جو ان فنون میں تربیت اور مارکیٹ کی ضروریات کے پیش نظر افرادی قوت تیار کر سکیں۔ پاکستان کی معیشت کا حجم تقریباً 300 ارب ڈالر کے برابر ہے 67 فی صد آبادی دیہاتوں میں رہتی اور اپنی گزر بسر کے لیے زراعت اور اس سے وابستہ پیشوں پر انحصار کرتی ہے۔
ہماری صنعت اور اس کی پیداوار کا انحصار بھی زرعی خام مال پر ہے، ہماری برآمدات کا 60/70 فی صد زراعت و اس سے منسلک شعبہ جات پر انحصار کرتا ہے کپاس، چاول، چینی، چمڑے کی مصنوعات وغیرہ کا تعلق زراعت سے ہے ہماری سب سے بڑی برآمدی شے، ٹیکسٹائل بھی زراعت پر منحصر ہے۔ زرعی شعبہ ہماری خام قومی آمدنی کے 23 فی صد کے برابر ہے۔ زراعت کے لیے پانی، روح کی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان میں دنیا کا بڑا نہری نظام موجود ہے جسے پانچ دریا پانی مہیا کرتے ہیں۔ ہم سندھ طاس معاہدے کے تحت تین دریاؤں کے پانی پر اپنا حق ختم کر چکے ہیں۔ اب ان تین دریاؤں کا پانی قانونی طور پر ہندوستان کے قبضے میں چلا گیا ہے وہ جب چاہتا ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے۔
وہ پانی روک کر ہمیں خشک سالی کا شکار بھی کرتا ہے اور مون سون کے موسم میں بے دریغ پانی چھوڑ کر سیلاب کی نذر بھی کر دیتا ہے۔ ہم مجبور محض بن کر دیکھتے رہتے ہیں۔ آبپاشی کا دوسرا ذریعہ بارشیں ہیں اور ان کے ساتھ جڑا ہوا زیر زمین پانی۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث مون سون نہ صرف الٹ پلٹ ہوچکا ہے بلکہ بارشوں کی اوسط میں بھی تبدیلی واقع ہو چکی ہے ہم نے دستیاب پانی کو بھر پور انداز میں استعمال کرنے کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی ہے جس کا نتیجہ پانی کی کمیابی اور فی ایکڑ پیداوار میں مطلوبہ بڑھوتی حاصل نہیں ہو سکی ہے ہماری آبادی بڑھتی چلی جارہی ہے لیکن ہماری زمین کی پیداواری صلاحیت اس حساب سے بڑھ نہیں پائی ہے جس کے باعث ہمارے ہاں خوراک و اجناس کی حسب ضرورت دستیابی ممکن نہیں ہوسکی ہے۔
زرعی ملک ہونے کے باوجود ہمیں گندم، دالیں، ادرک، پیاز، چینی وغیرہ درآمد کرنا پڑتا ہے۔ ہماری سب سے بڑی پرابلم روٹی کا حصول بن چکا ہے۔ اندرونی اور بیرونی غیر موافق حالات کے باعث معاشی نمو سکڑ چکی ہے۔ روزگار کے مواقع نہ ہونے کے ساتھ ساتھ بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ دوسری جانب دہشت گردی کی نئی لہر کا اٹھنا اور پھیلتے ہی چلے جانا قومی سلامتی کے لیے انتہائی مضر ہے ایسے حالات میں ابھی تک کسی سیاسی جماعت یا قائد نے کوئی ایسا لائحہ عمل تجویز نہیں کیا ہے جو قوم کو امیدکی کرن دکھا کر تعمیروترقی کی راہ پر ڈال سکے۔
پاکستان دنیا میں نوجوان آبادی رکھنے والے ممالک کی فہرست میں پہلے نمبر پر ہے، اس کی آبادی کا 64 فی صد30 سال اور اس سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے۔ اتنی بڑی نوجوان آبادی کو روزگار مہیا کرنا کسی بھی حکومت کے بس میں نہیں پھر 2.55 فی صد سالانہ کی افزائش آبادی بھی بہت زیادہ ہے جب کہ معاشی نموکی کم ترین سطح بھی ایک عظیم مسئلہ ہے، ایسے میں نوجوان نسل کو خود انحصاری اور خود کفالت کی راہ پر ڈالنے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
چین، سری لنکا، سنگا پور، ملائیشیا،کوریا، بنگلہ دیش اورانڈیا جیسے ترقی کرتے ہوئے بلکہ ترقی کی اعلیٰ منازل طے کرتے ہوئے ممالک نے اپنے نوجوانوں کو ہنرمند بنایا، انھیں آئی ٹی سے لیس کیا،انھیں لوکل اور عالمی مارکیٹ میں پنپنے اور اپنا مقام بنانے کا سلیقہ سکھایا اور اس کا نتیجہ ہے کہ یہ اقوام تعمیر وترقی کی منازل طے کرتی ہوئی آج کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہیں۔ ہندوستان اور چین نے اپنی آبادی کے نوجوانوں کے دو ہاتھوں کو معاشی ہتھیار بنایا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ عالمی اقتصادی منظر پر چھا گئے۔
بنگلہ دیش بھی ایسی ہی ایک مثال ہے۔ ہم تمام تر مشکلات اور ناموافق حالات کی موجودگی کے باوجود نوجوانوں کی کثیر تعداد کی موجودگی میں ایک عظیم نعمت سے مالا مال قوم ہیں۔ یہ ہمارا عالمی اعزاز بھی ہے ہمیں مثبت عامل کو ایک عملی حقیقت کی شکل دینا ہے۔
مشرق وسطیٰ تعمیر و ترقی کے عظیم الشان عمل سے گزر رہا ہے، وہاں اگلے دس بیس سال کے لیے افرادی قوت کی بکنگ ہورہی ہے یورپ ہنر مند افراد کی قلت کا شکار ہے۔ خطے میں سی پیک نے ہنر مند افراد کے لیے روزگارکے بے پناہ مواقعے پیدا کردیے ہیں۔ اب بھی موقع ہے کہ ہم، مقامی، علاقائی اور بین الاقوامی روزگار مارکیٹ کے رجحانات کو دیکھتے ہوئے اپنی نوجوان نسل کو ہنر مند بنانے کی پالیسی تشکیل دیں اور مواقعے سے فائدہ اٹھائیں۔