میر انیس پہلاحصہ

دو سو سالہ یادگارِ انیس نمبر نہایت منفرد و وقیع ادبی کام ہے جسے ہادی عسکری اور ڈاکٹر ہلال نقوی نے مرتب کیا ہے

zahedahina@gmail.com

برادرم ہلال نقوی نے 3 ستمبر 2008 کو رِثائی ادب کا شمارہ نمبر 27، 28، 2002 مجھے ارسال کیا تھا، لیکن یہ میری نظر سے اوجھل رہا۔ اب اچانک مجھے اپنی کوتاہی کا احساس ہوا تو میں نے فیصلہ کیا کہ اس پرکچھ لکھا جائے تاکہ ہلال صاحب کے اس تحقیقی اور دقیق کام کو سراہا جا سکے۔ گیارہ سو صفحات سے زیادہ ہر مشتمل یہ دو سو سالہ یادگارِ انیس نمبر نہایت منفرد و وقیع ادبی کام ہے جسے ہادی عسکری اور ڈاکٹر ہلال نقوی نے مرتب کیا ہے۔


اس اہم شمارے میں نیر مسعود، ظ انصاری، جوش ملیح آبادی، علی جواد زیدی، حسن علی خان ٹالپر، انتظار حسین، احتشام حسین، صالح عابد حسین، انیس اشفاق، جمیل مظہری، سردار جعفری، ڈیوڈ میتھیوز، شاہد نقوی، عرفان صدیقی، فرمان فتح پوری،گوپی چند نارنگ، مجتبیٰ حسین، نصیر ترابی، فہیم اعظمی، راج بہادرگوڑ، سلیم احمد، قدرت نقوی، سلیم آغا اور بہت سے دوسرے اہم اور نامی گرامی دانشوروں کے مضامین شامل کیے گئے ہیں۔


ڈاکٹر راج بہادر گوڑ اپنے مضمون بعنوان ''انیس کی شاعری کا سماجی مقصد'' میں لکھتے ہیں کہ ''ہر فنکار اپنے اطراف واکناف کی حقیقتوں سے ذہنی ارتسامات حاصل کرتا ہے اور پھر انھی حقیقتوں کو فنکارانہ چابک دستی سے کینوس پر منتقل کرکے عوام کی خدمت میں پیش کرتا ہے۔ بڑا فنکار وہی ہے جس کی فنی تخلیق قبولِ عام کی سند حاصل کرے اور وہی فنی تخلیق قبول عام کو اعزاز حاصل کرے گی جس میں عوام کو اپنے آلام، اپنے ارمانوں اور اپنے دل کی دھڑکنوں کی صدائے بازگشت سنائی دے۔ وہی فنکار بڑا ہوگا جو اس عظیم کشمکش میں ڈوب کر اُبھرے اور انھی ریاضتوں کے نتیجے کے طور پر جو فن تخلیق ہوگا وہی عظیم بھی ہوگا اور آفاقی بھی۔''


انیس کو سمجھنے کے لیے ڈاکٹر راج بہادر گوڑ کا یہ نایاب مضمون تاریخ و تہذیب کو ایک دوسرے سے پیوست کرتا ہے اور ہماری نسلوں کو راہ دکھاتا ہے۔ ڈاکٹر راج بہادر کے مطابق ''میر انیس کے مرثیے محض المیہ نہیں ہیں، انھوں نے بڑی مہارت سے رزمیہ نقشے بھی کھینچے ہیں۔ تلوار کے چلنے کی ایسی منظر کشی کی ہے کہ خون جوش کھانے لگتا ہے اور بوڑھی ہڈیاں بھی کڑکڑانے لگتی ہیں۔ انیس کے ہاں ڈرامائی کردار نگاری اپنے عروج پر ہے۔


حضرت امام حسین، حضرت بی بی زینب، حضرت عباس، حضرت علی اکبر غرض المیہ کربلا کے کرداروں کو بڑی ادبی شان سے پیش کیا ہے۔ ہر عظیم فنکار اس قسم کی کردار نگاری سے قوم کے کردار کا معمار بنتا ہے۔ انیس ایسے ہی ایک عظیم معمار قوم ہیں۔ غور فرمائیے! اودھ پورے ہندوستان کی طرح انگریز سامراجیوں کی دست برہ کا شکار ہے اور ایک 'مخصوص غم' عوام کو گھن کی طرح کھا رہا ہے۔ ایسے میں انیس جیسا عظیم فنکار کیا کرے؟ زبان و ادب اور تاریخ کو کھنگال کر انیس ایسی چیزیں پیش کرتے ہیں جن سے قوم کا کردار بنتا ہے۔ رزمیہ روایات تازہ ہوتی ہیں، بہترین انسانی جذبات بیدار ہوتے ہیں اور فرض کا احساس جلا پاتا ہے۔ یہی انیس کی عظیم شاعری کی سماجی افادیت ہے۔


تاریخ شاہد ہے اسی لکھنو سے 1857 کی عظیم جنگ آزادی میں ایک زبردست کردار اُبھرا اور وہ حضرت محل ہیں۔ کون کہہ سکتا ہے کہ انیس کے مرثیوں کے کردار، حضرت زینب کو، حضرت محل کی شخصیت کی تعمیر میں دخل نہیں ہے۔''


جنگ کا منظر چاہے وہ پہلے کا ہو یا آج کا، یکساں ہے۔ میر انیس کے ان اشعار پر غور کیجیے:


یہ کہہ کے آئے سر کو جھکائے دلہن کے پاس


آنکھوں میں اشکِ درد، کلیجہ میں دل اُداس



فرمایا ہم کو ہائے یہ شادی نہ آئی راس


سب مر گئے عزیز شہنشاہِ حق شناس


بستی تمام لُٹ گئی ویرانہ ہوگیا


شادی کا جو گھر تھا وہ عزا خانہ ہو گیا


سوچو تمہیں گلا نہ کٹائیں توکیا کریں


فریاد فاطمہ کی صدائیں سنا کریں


رخصت کرو تو فوجِ ستم سے وفا کریں


کھولو جو لعلِ لب تو گُہر ہم فدا کریں


صاحب ہمیں سپرد عروسِ اجل کرو


مشکل کشا کی پوتی ہو مشکل کو حل کرو


(جاری ہے)

Load Next Story