پاکستان ایک نظر میں سندھ کے باسی مبارک باد کے مستحق ہیں

اگر سندھ کے باسیوں کے نمائندے اِس عمارت کے قیام پر خوش ہیں تو ہم اس رنگ میں بھنگ ڈالنے والے آخر ہم کون ہوتے ہیں

یہ عمارت دیکھ کر خیال آتا ہے کہ شکر پی پی کی صوبائی حکومت کے6 برس میں آخر کوئی تو تعمیری و ترقیاتی کام نظر آیا۔ اگر چہ یہ ترقیاتی کام 5کروڑ کی آبادی کیلئے نہ سہی مگر 168اراکین اسمبلی کیلئے ہی ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

سندھ اسمبلی کی نئی عمارت 4 ارب پچاس کروڑ روپے میں بننے کی خبر کیا آئی ،میں خوشی اور افسوس کی ملی جلی کیفیت کا شکار ہوگیا ہوں۔ایک جانب میں شکر ادا کررہا ہوں کہ چلیں شکر پی پی کی صوبائی حکومت کے6 برس میں آخر کوئی تو تعمیری و ترقیاتی کام نظر آیا۔ اگر چہ یہ ترقیاتی کام 5کروڑ کی آبادی کیلئے نہ سہی مگر 168اراکین اسمبلی کیلئے ہی ہے۔اب بھلا 5 کروڑ کی آبادی اِن 168 اراکین سے زیادہ اہم تو نہیں ہے نہ۔

پرانی عمارت کے مقابلے میں نئی عمارت کا ہال کافی کشادہ ہے،جس سے اراکین اسمبلی کے ذہن اور نظر میں وسعت پیدا ہونے کا امکان روشن ہوگیا ہے۔ پہلے والی اسمبلی میں قابل عزت ارکان ایسے بیٹھتے تھے کہ جیسے اُنہیں زبردستی اسمبلی میں بٹھایا گیا، ایک کا کندھا دوسرے کے کندھے سے بغل گیر ہوجایا کرتا تھا، مگر نئی عمارت میں ہر ایک عوامی خدمت گار( رکن اسمبلی) کوگھومنے والی آرام دہ کرسی ملی ہے۔ وہ دائیں اور بائیں کے ساتھ 360 ڈگری کے زائوئے میں گھوم کر بھی کارروائی کا حصہ بن سکے گا،ویسے اراکین کو اس زحمت سے بچانے کیلئے معزز اسپیکر اسمبلی کے ٹھیک اوپر بڑی اسکرین بھی لگائی گئی ہے تاکہ عوامی مسائل پر آواز بلند کرنے والا رکن اسمبلی پیچھے بیٹھا ہونے کے باوجود سب کی آنکھوں کے سامنے ہو۔

سندھ اسمبلی کی اس نئی اور پرکشش عمارت میں اراکین کیلئے کیفے ٹیریا بھی بنایا گیا تاکہ اگر جلدی میں گھر سے نکلتے وقت وہ ناشتہ کرنے یا کھانا کھانے سے رہ جائیں تو انتہائی مناسب ماحول میں تھوڑی بہت رقم دے کر بہت اچھا کھا سکتے ہیں۔ بعض خواتین اراکین اسمبلی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جو تصاویر جاری کی ہیں ،انہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ (خواتین ایم پی ایز) کراچی کی عوام کی حالت زار سے زیادہ نئی عمارت سے متاثر ہوئی ہیں۔ ویسے نئی چیزیں تو سب ہی کو اچھی لگتی ہیں اگر چند خواتین اراکان کو خوبصورت عمارت دیکھ کر فطری خوشی ہوئی ہے تو ہم اس رنگ میں بھنگ ڈالنے والے آخر ہم کون ہوتے ہیں۔ بس ہم تو صوبائی اسمبلی کے ارکان کو نئی عمارت ، نئی کرسی اور کافی اچھی سہولیات کی دستیابی پر مبارکباد دینا چاہتے ہیں۔


ٹھہرئیے۔ اب آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہورہا گا کہ 6 کھرب 86 ارب کا بجٹ رکھنے والے صوبے سندھ کیلئے یہ اقدام کتنا درست ہے؟ ۔جبکہ دوسری طرف وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کے اپنے شہر خیر پور میں لوگ آج بھی سیوریج ملے پینے کے پانی کیخلاف دہائیاں دے رہے ہیں، کراچی کے عوام آپریشن کے باوجود امن و امان کی ابتر حالت میں سکھ چین کی سانس اور بہتر روزگار کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ سکھر کا گھنٹہ گھر تو اب وقت بھی نہیں بتاتا، مہران مرکز کے باہر موجودکئی سالوں سے کھڑا سیوریج کا پانی، اسلامیہ آرٹس اینڈ کامرس کالج کی خستہ حال عمارت، حیدر آباد، میر پور خاص، نوابشاہ سمیت کئی شہروں کے اندر سڑکوں کی خراب حالت دیکھ کر مجھے عجیب سا سندھ نظر آتا ہے۔ ایسا سندھ جہاں آج بھی عورت کاری ہوتی ہے،وڈیروں ( غلطی پر معذرت) جاگیرداروں نے پورے پورے گائوں کو اپنا غلام بنا رکھا، مجال ہے ،21ویں صدی میں بھی کوئی'' سائیں بڑے'' کی مرضی کے خلاف تعلیم، دوا اور کھیت کیلئے پانی لے سکے ،اور ادھر اسمبلی ارکان اے سی میں بیٹھ کر قانون سازی کررہے ہیں اور عمل درآمد کیسے ہو؟۔اس سوال اور تصویر کے دوسرے رخ کے باوجود مجھے یقین ہے کہ تماماراکین اسمبلی کیلئے یہ صورتحال نئی نہ ہوگی،انہوں نے اس تصویر کو بدل کر نیا سندھ بنانے کی اپنے بس بھر کوشش بھی کی ہوگی، مگر یہ کچھ نا اہل انتظامی افسران ہیں جو کچھ اچھا ہونے ہی نہیں دیتے۔

سندھ حکومت نے موہن جو درڑو سمیت کراچی بھر میں400 ملین روپے خرچ کرکے سندھی ثقافت سے دنیا کو روشناس کرانے کیلئے تقاریب کا انعقاد کیا تو کچھ افسران یہاں بھی بگڑ گئے، فورا تھر میں پانی ، خوراک اور صحت کا مسئلہ کھڑا کرکے خوش باش عوام کو پریشان کردیا ورنہ حکومت نے تو تھر کی ساری صورتحال کے حل تجویز کردئیے تھے بس عمل ہونا باقی تھا جو بروقت نہ ہوا۔ چلیں بعد میں ہی سہی مگر سندھ حکومت نے تھر کی صورتحال کا سنجیدہ انداز سے نوٹس لے کر وہاں صوبائی کابینہ کا اجلاس بلا یا تو ان ہی افسران نے یہ خبر بھی لیک کردی کہ بھوک سے مرتے تھر کے عوام کیلئے بلائے گئے اجلاس میں ارکان نے وہ وہ کھانے کھائے ہیں، جن کا تصور آج بھی 12 ہزار کمانے والا مزدور نہیں کرسکتا۔ ویسے12ہزار کی معیار ی کمائی میں لذیذ کھانے تو چھوڑیں عام آدمی گھر کا کرایہ ادا کرنے کے بعد پورے ماہ سبزی ، دال ، چائول، گوشست ، دو وقت کی چائے اور آمد و رفت کے اخراجات بھی پورے نہیں کرسکتا۔ حالات کی سختی سے پیدا شاید یہ میری بدگمانی ہے ، ورنہ مسائل کے بالکل درست حل تجویز کرنے والوں نے سوچ سمجھ کر ہی اتنی بڑی رقم مزدور کے نصیب میں لکھی ہوگی ۔ اب یہ سوال کوئی اٹھائے کہ ''4ارب 50 کروڑ کی عالی شان عمارت میں قرآن آیات کے زیر سایہ بیٹھے معزز اراکین اسمبلی عوامی خدمت کے بدلے کیا کیا لیتے ہیں'' ۔ ایسے بے تکے سوالات کا جواب پوچھنے سے اچھا ہے، ہم چھپ ہی رہیں۔ اور اس پر خوش ہور ہیں کہ سندھ میں ترقی کی رفتار بڑھی تو صحیح۔شکر ہے میرے خدا۔۔۔


نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story