دہشت گردی مذموم مقاصد کار فرما
پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے واقعات کے پیچھے مذموم مقاصد کارفرما ہیں۔
دو روز قبل بنوں چھاؤنی پر دہشت گردوں نے حملہ کیا جسے ہمارے جوانوں نے بروقت کارروائی کرکے قوم کو بڑے نقصان سے بچا لیا۔ وزیراعظم نے پاک فوج اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کے شہید جوانوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے 10دہشت گردوں کو ہلاک کرنے پر سیکیورٹی فورسز کی کارکردگی کی تعریف کی۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پوری قوم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سیکیورٹی فورسز کے ساتھ کھڑی ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے واقعات کے پیچھے مذموم مقاصد کارفرما ہیں۔ چینی انجینئرز اور عملے سمیت غیر ملکیوں پر حملے ہوں یا اہم معاشی و دفاعی تنصیبات کو نشانہ بنانے کی کارروائیاں، ان سے دہشت گردوں کے مقاصد اور ان کے سہولت کاروں کی تفہیم مشکل نہیں رہتی، پس پردہ کردار بھی اس بابت پوری طرح عیاں ہوجاتے ہیں۔
حالیہ کچھ عرصے کے دوران خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں کی ایک نئی لہر دیکھی گئی جس کا مقصد داخلی سلامتی کو غیر مستحکم کرنے اور ملکی ترقی کو نشانہ بنانا ہے۔ یہ کن عناصر کا ایجنڈا ہے' اس حوالے سے نہ صرف سیکیورٹی ادارے قوم کو بار ہا بریف کرچکے ہیں بلکہ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بھی خبردار کیا گیا ہے کہ القاعدہ اور طالبان ایک علامتی تعلق برقرار رکھتے ہیں اور افغانستان القاعدہ اور داعش سمیت عالمی دہشت گردوں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ بن رہا ہے۔
پاکستان میں موجودہ دہشت گردی کا بنیادی ماخذ افغانستان ہے، جہاں سے پاکستان میں حملے کیے جا رہے ہیں اور جس کی ذمے داری افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی قبول کرتی رہی ہے۔ ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ دہشت گردی پہلے سے پاکستان کے اندر موجود ہے، یہ جو جاری حالیہ دہشت گردی کی لہر ہے اس میں سابقہ حکومت پی ٹی آئی حکومت بھی شامل ہے، کیونکہ دہشت گردوں کو افغانستان سے باقاعدہ طور پر جرگہ کر کے منا کر اور دعوت دے کرا نہیں اسلحہ سمیت پاکستان میں لائے تھے اور یہاں سہولتیں دی گئیں، یعنی سکونت اور مختلف امداد فراہم کی گئی ہے اور وہ مختلف علاقوں میں آ کر مضبوط ہوئے ہیں۔
داعش سمیت افغانستان میں لگ بھگ 20 عسکریت پسند تنظیمیں موجود ہیں۔ ان تنظیموں میں مقامی افغان جنگجوؤں کے علاوہ بڑی تعداد میں پڑوسی ممالک کے عسکریت پسند بھی شامل ہیں۔ ان میں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے جنگجوؤں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ درحقیقت ٹی ٹی پی افغان طالبان کے لیے مسئلہ نہیں بلکہ یہ پاکستان کے لیے مسئلہ ہے۔ افغانستان میں داعش سمیت کوئی بھی تنظیم، چاہے شمالی اتحاد ہی کیوں نہ ہو، اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ افغان طالبان کے ساتھ بڑی جنگ لڑ سکیں۔ داعش 'حملہ کرو اور بھاگ جاؤ' والی پوزیشن رکھتی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کی موجودگی پاکستان کے لیے مستقل خطرہ ہے۔ افغانستان میں ٹی ٹی پی اور دیگر عسکریت پسند گروہوں کی موجودگی عالمی برادری کے لیے بھی باعثِ تشویش ہے۔ طالبان حکومت اپنے وعدے سے پِھر گئی ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ کسی دوسرے ملک کے خلاف کارروائی میں افغان زمین کو استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ طالبان حکومت کے ان شرپسند گروہوں کے ساتھ روابط نے دنیا اور خصوصاً خطے کے ممالک کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔
دہشت گردی کے بارے میں عموماً یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ اس کی وجوہات غربت، جہالت یا بے روزگاری ہیں، لیکن اعداد و شمار اور زمینی حقائق اس کی تائید نہیں کرتے، نہ ملکی، نہ عالمی، چنانچہ دہشت گردی کا شکار علاقوں یا جہاں سے دہشت گرد اُٹھ کر آتے ہیں، وہاں سڑکیں بنانا، اسکول کھولنا یا روزگار وغیرہ کے مواقعے پیدا کرنا گو اپنی جگہ انتہائی مثبت اور قابل تحسین اقدامات ہیں اور یہ اُن علاقوں میں رہنے والوں کا بنیادی حق ہے جو اُنہیں ہر صورت ملنا چاہیے، لیکن یہ دہشت گردی کے مسئلے کا حل نہیں، کیونکہ ان علاقوں میں یہ سب کچھ کسی نہ کسی حد تک کرنے کے بعد بھی دہشت گردی کم نہیں ہوئی۔ اسی طرح زیادہ سے زیادہ دہشت گرد پکڑنے سے بھی مسائل ختم نہیں ہو رہے ہیں۔
گزشتہ گیارہ بارہ سال میں دہشت گردی کے واقعات میں ہلاک ہونے والے ہزاروں افراد میں تقریباً نصف تعداد اُن دہشت گردوں اور شدت پسندوں کی ہے جو قانون نافذ کرنے والے اداروں سے محاذ آرائی کے دوران یا خود اپنے ہاتھوں ہلاک ہوئے، لیکن اس کے باوجود ان کے حملوں میں کوئی کمی نہیں آئی۔
دوسری جانب بھارت کا مقصد دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کی امن و سلامتی کو نقصان پہنچانا ہے، بھارت سیزیادہ کسی ملک نے دہشت گردی کا استعمال نہیں کیا۔ بھارت دہشت گردوں کو بھرتی کرنے، ان کی مالی مدد کرنے والا ملک بنا ہوا ہے۔ درحقیقت بھارت کے شر سے اُس کا کوئی بھی پڑوسی محفوظ نہیں ہے۔ بھارت، پاکستان، سری لنکا، بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان اور مالدیپ میں کھلم کھلا مداخلت کی تاریخ رکھتا ہے۔ دنیا بھر میں بھارت کی دہشت گردانہ کارروائیوں کی تاریخ بڑی پرانی اور شرمناک واقعات سے بھری پڑی ہے۔
پہلے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کا پاکستان کو اپنی گرے لسٹ سے آزاد کرنا اور پھر ناروے کا پاکستان کو نیشنل تھریٹ اسیسمنٹ لسٹ سے نکالنا پاکستان کی مثبت کاوشوں اور بہترین سفارت کاری کا نتیجہ ہے۔ بھارتی سازشیں پوری دنیا کے سامنے ہیں، اس کے شر سے اب امریکا اور کینیڈا جیسے ملک بھی محفوظ نہیں رہے۔ بھارت کے دہشت گردوں کی سر پرستی اورفنڈنگ کے ٹھوس ثبوت پوری دنیا کے پاس موجود ہیں۔ عالمی طاقتوں بالخصوص ایف اے ٹی ایف کو اپنے رولز اینڈ ریگولیشن کے تحت بھارت کے خلاف کارروائی عمل میں لانا چاہیے۔
آج پاکستان کے بیشتر ماہر اقتصادیات اس بات پر متفق ہیں کہ ایک ایسی ریاست جسے ہر سال چالیس لاکھ نوجوانوں کو روزگار مہیا کرنا ہو، وہ ریاست علاقائی تعاون کے بغیر ترقی کی راہ پرگامزن نہیں ہو سکتی جس کے لیے ضروری ہے کہ افغانستان کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ رکھا جائے لیکن اگر افغان حکومت دہشت گردی کے معاملات میں تعاون کرنے پر تیار نہیں تو پاکستان کو دہشت گردوں کے خلاف بغیرکسی امتیاز کے سخت ترین اقدامات کرنے چاہئیں۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب پاکستان کی حکومت نے طالبان کی حکومت کو دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خلاف اقدامات کرنے پر زور دیا لیکن کوئی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔ اس کے بجائے افغان طالبان نے پاکستان کی تنبیہ پر سخت ردِ عمل دیا۔ طالبان کے ترجمان نے کہا کہ یہ پاکستان کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے ملک میں مسائل سے نمٹے۔ ایسی صورت حال میں خطے میں اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ طالبان حکومت کو ان گروہوں کی سرپرستی کرنے سے روکا جاسکے جو خود افغانستان کی اپنی سلامتی کے لیے بھی خطرہ ہیں۔ افغان حکومت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی دونوں ممالک کا مشترکہ مسئلہ ہے جس سے مل کر ہی نمٹا جاسکتا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان بڑھتا ہوا تناؤ ایک کھُلے تنازعے کی صورت اختیار کررہا ہے۔ یہ واضح ہے کہ افغان حکومت کی جانب سے اقدامات نہ کیے جانے پر پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے، اگر پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ٹی ٹی پی اور کالعدم گروہوں کے خلاف طالبان انتظامیہ نے اقدامات نہ کیے تو پاکستان دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ کو سرحد پار بھی لے جاسکتا ہے جس کے حوالے سے تنبیہ بھی کی جارہی ہے۔گزشتہ سال پاکستان نے چند سرحد پار آپریشنز بھی کیے تھے جن میں افغانستان کے کُنڑ اور ننگرہار صوبوں میں موجود دہشت گرد قیادت کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ یہ پاکستان کے لیے امتحان ہوگا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان رکاوٹوں کا کیسے مقابلہ کرتا ہے۔ بلاشبہ پاکستان کو افغانستان سے بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی کو قابو کرنے کی ضرورت ہے۔
یقیناً یہ بات درست ہے کہ عوام اور سیکیورٹی فورسز مل کر ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کردیں گے لیکن سیاسی قیادت کو بھی گھسے پٹے بیانات سے آگے بڑھ کر قومی سطح پر ایک ایسا اتحاد تشکیل دینا چاہیے جس کو دیکھ کر دشمن کو اندازہ ہوکہ اس مسئلے پر پاکستان میں سیاسی قیادت کے مابین کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تمام پاکستانی یک زبان اور یکسو ہیں۔تمام سیاسی جماعتوں کو دہشت گردی کے خاتمے اور ملکی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے۔ عالمی طاقتوں کو مل کر دہشت گردی کے خلاف کوئی ٹھوس حکمت عملی بنانا ہوگی اور کسی اگر، مگر کے بغیر اس کا نفاذ عالمی سطح پرکرنا ہوگا۔
پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے واقعات کے پیچھے مذموم مقاصد کارفرما ہیں۔ چینی انجینئرز اور عملے سمیت غیر ملکیوں پر حملے ہوں یا اہم معاشی و دفاعی تنصیبات کو نشانہ بنانے کی کارروائیاں، ان سے دہشت گردوں کے مقاصد اور ان کے سہولت کاروں کی تفہیم مشکل نہیں رہتی، پس پردہ کردار بھی اس بابت پوری طرح عیاں ہوجاتے ہیں۔
حالیہ کچھ عرصے کے دوران خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں کی ایک نئی لہر دیکھی گئی جس کا مقصد داخلی سلامتی کو غیر مستحکم کرنے اور ملکی ترقی کو نشانہ بنانا ہے۔ یہ کن عناصر کا ایجنڈا ہے' اس حوالے سے نہ صرف سیکیورٹی ادارے قوم کو بار ہا بریف کرچکے ہیں بلکہ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بھی خبردار کیا گیا ہے کہ القاعدہ اور طالبان ایک علامتی تعلق برقرار رکھتے ہیں اور افغانستان القاعدہ اور داعش سمیت عالمی دہشت گردوں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ بن رہا ہے۔
پاکستان میں موجودہ دہشت گردی کا بنیادی ماخذ افغانستان ہے، جہاں سے پاکستان میں حملے کیے جا رہے ہیں اور جس کی ذمے داری افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی قبول کرتی رہی ہے۔ ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ دہشت گردی پہلے سے پاکستان کے اندر موجود ہے، یہ جو جاری حالیہ دہشت گردی کی لہر ہے اس میں سابقہ حکومت پی ٹی آئی حکومت بھی شامل ہے، کیونکہ دہشت گردوں کو افغانستان سے باقاعدہ طور پر جرگہ کر کے منا کر اور دعوت دے کرا نہیں اسلحہ سمیت پاکستان میں لائے تھے اور یہاں سہولتیں دی گئیں، یعنی سکونت اور مختلف امداد فراہم کی گئی ہے اور وہ مختلف علاقوں میں آ کر مضبوط ہوئے ہیں۔
داعش سمیت افغانستان میں لگ بھگ 20 عسکریت پسند تنظیمیں موجود ہیں۔ ان تنظیموں میں مقامی افغان جنگجوؤں کے علاوہ بڑی تعداد میں پڑوسی ممالک کے عسکریت پسند بھی شامل ہیں۔ ان میں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے جنگجوؤں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ درحقیقت ٹی ٹی پی افغان طالبان کے لیے مسئلہ نہیں بلکہ یہ پاکستان کے لیے مسئلہ ہے۔ افغانستان میں داعش سمیت کوئی بھی تنظیم، چاہے شمالی اتحاد ہی کیوں نہ ہو، اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ افغان طالبان کے ساتھ بڑی جنگ لڑ سکیں۔ داعش 'حملہ کرو اور بھاگ جاؤ' والی پوزیشن رکھتی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کی موجودگی پاکستان کے لیے مستقل خطرہ ہے۔ افغانستان میں ٹی ٹی پی اور دیگر عسکریت پسند گروہوں کی موجودگی عالمی برادری کے لیے بھی باعثِ تشویش ہے۔ طالبان حکومت اپنے وعدے سے پِھر گئی ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ کسی دوسرے ملک کے خلاف کارروائی میں افغان زمین کو استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ طالبان حکومت کے ان شرپسند گروہوں کے ساتھ روابط نے دنیا اور خصوصاً خطے کے ممالک کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔
دہشت گردی کے بارے میں عموماً یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ اس کی وجوہات غربت، جہالت یا بے روزگاری ہیں، لیکن اعداد و شمار اور زمینی حقائق اس کی تائید نہیں کرتے، نہ ملکی، نہ عالمی، چنانچہ دہشت گردی کا شکار علاقوں یا جہاں سے دہشت گرد اُٹھ کر آتے ہیں، وہاں سڑکیں بنانا، اسکول کھولنا یا روزگار وغیرہ کے مواقعے پیدا کرنا گو اپنی جگہ انتہائی مثبت اور قابل تحسین اقدامات ہیں اور یہ اُن علاقوں میں رہنے والوں کا بنیادی حق ہے جو اُنہیں ہر صورت ملنا چاہیے، لیکن یہ دہشت گردی کے مسئلے کا حل نہیں، کیونکہ ان علاقوں میں یہ سب کچھ کسی نہ کسی حد تک کرنے کے بعد بھی دہشت گردی کم نہیں ہوئی۔ اسی طرح زیادہ سے زیادہ دہشت گرد پکڑنے سے بھی مسائل ختم نہیں ہو رہے ہیں۔
گزشتہ گیارہ بارہ سال میں دہشت گردی کے واقعات میں ہلاک ہونے والے ہزاروں افراد میں تقریباً نصف تعداد اُن دہشت گردوں اور شدت پسندوں کی ہے جو قانون نافذ کرنے والے اداروں سے محاذ آرائی کے دوران یا خود اپنے ہاتھوں ہلاک ہوئے، لیکن اس کے باوجود ان کے حملوں میں کوئی کمی نہیں آئی۔
دوسری جانب بھارت کا مقصد دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کی امن و سلامتی کو نقصان پہنچانا ہے، بھارت سیزیادہ کسی ملک نے دہشت گردی کا استعمال نہیں کیا۔ بھارت دہشت گردوں کو بھرتی کرنے، ان کی مالی مدد کرنے والا ملک بنا ہوا ہے۔ درحقیقت بھارت کے شر سے اُس کا کوئی بھی پڑوسی محفوظ نہیں ہے۔ بھارت، پاکستان، سری لنکا، بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان اور مالدیپ میں کھلم کھلا مداخلت کی تاریخ رکھتا ہے۔ دنیا بھر میں بھارت کی دہشت گردانہ کارروائیوں کی تاریخ بڑی پرانی اور شرمناک واقعات سے بھری پڑی ہے۔
پہلے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کا پاکستان کو اپنی گرے لسٹ سے آزاد کرنا اور پھر ناروے کا پاکستان کو نیشنل تھریٹ اسیسمنٹ لسٹ سے نکالنا پاکستان کی مثبت کاوشوں اور بہترین سفارت کاری کا نتیجہ ہے۔ بھارتی سازشیں پوری دنیا کے سامنے ہیں، اس کے شر سے اب امریکا اور کینیڈا جیسے ملک بھی محفوظ نہیں رہے۔ بھارت کے دہشت گردوں کی سر پرستی اورفنڈنگ کے ٹھوس ثبوت پوری دنیا کے پاس موجود ہیں۔ عالمی طاقتوں بالخصوص ایف اے ٹی ایف کو اپنے رولز اینڈ ریگولیشن کے تحت بھارت کے خلاف کارروائی عمل میں لانا چاہیے۔
آج پاکستان کے بیشتر ماہر اقتصادیات اس بات پر متفق ہیں کہ ایک ایسی ریاست جسے ہر سال چالیس لاکھ نوجوانوں کو روزگار مہیا کرنا ہو، وہ ریاست علاقائی تعاون کے بغیر ترقی کی راہ پرگامزن نہیں ہو سکتی جس کے لیے ضروری ہے کہ افغانستان کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ رکھا جائے لیکن اگر افغان حکومت دہشت گردی کے معاملات میں تعاون کرنے پر تیار نہیں تو پاکستان کو دہشت گردوں کے خلاف بغیرکسی امتیاز کے سخت ترین اقدامات کرنے چاہئیں۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب پاکستان کی حکومت نے طالبان کی حکومت کو دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خلاف اقدامات کرنے پر زور دیا لیکن کوئی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔ اس کے بجائے افغان طالبان نے پاکستان کی تنبیہ پر سخت ردِ عمل دیا۔ طالبان کے ترجمان نے کہا کہ یہ پاکستان کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے ملک میں مسائل سے نمٹے۔ ایسی صورت حال میں خطے میں اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ طالبان حکومت کو ان گروہوں کی سرپرستی کرنے سے روکا جاسکے جو خود افغانستان کی اپنی سلامتی کے لیے بھی خطرہ ہیں۔ افغان حکومت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی دونوں ممالک کا مشترکہ مسئلہ ہے جس سے مل کر ہی نمٹا جاسکتا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان بڑھتا ہوا تناؤ ایک کھُلے تنازعے کی صورت اختیار کررہا ہے۔ یہ واضح ہے کہ افغان حکومت کی جانب سے اقدامات نہ کیے جانے پر پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے، اگر پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ٹی ٹی پی اور کالعدم گروہوں کے خلاف طالبان انتظامیہ نے اقدامات نہ کیے تو پاکستان دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ کو سرحد پار بھی لے جاسکتا ہے جس کے حوالے سے تنبیہ بھی کی جارہی ہے۔گزشتہ سال پاکستان نے چند سرحد پار آپریشنز بھی کیے تھے جن میں افغانستان کے کُنڑ اور ننگرہار صوبوں میں موجود دہشت گرد قیادت کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ یہ پاکستان کے لیے امتحان ہوگا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان رکاوٹوں کا کیسے مقابلہ کرتا ہے۔ بلاشبہ پاکستان کو افغانستان سے بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی کو قابو کرنے کی ضرورت ہے۔
یقیناً یہ بات درست ہے کہ عوام اور سیکیورٹی فورسز مل کر ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کردیں گے لیکن سیاسی قیادت کو بھی گھسے پٹے بیانات سے آگے بڑھ کر قومی سطح پر ایک ایسا اتحاد تشکیل دینا چاہیے جس کو دیکھ کر دشمن کو اندازہ ہوکہ اس مسئلے پر پاکستان میں سیاسی قیادت کے مابین کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تمام پاکستانی یک زبان اور یکسو ہیں۔تمام سیاسی جماعتوں کو دہشت گردی کے خاتمے اور ملکی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے۔ عالمی طاقتوں کو مل کر دہشت گردی کے خلاف کوئی ٹھوس حکمت عملی بنانا ہوگی اور کسی اگر، مگر کے بغیر اس کا نفاذ عالمی سطح پرکرنا ہوگا۔