گوہر جان کلکتے والی پہلا حصہ
یہ وہ زمانہ تھا جب شملہ کی مال روڈ پر بورڈ لگا تھا کہ ’’ کتوں اورکالوں کا داخلہ ممنوع ہے‘‘
ڈیڑھ سو سال پہلے غیر منقسم ہندوستان میں کلکتہ (اب کولکتہ) کی سڑک پر شام کو چھ گھوڑوں والی بگھی میں ایک خوبصورت حسینہ قیمتی لباس اور سونے کے زیورات زیب تن کیے بیٹھی تھی۔ گھوڑوں کی زین بھی قیمتی تھی اور بگھی کو چلانے والا کوچوان بھی صاف ستھرے قیمتی لباس میں بیٹھا بگھی کوکلکتہ کی سڑکوں پر دوڑا رہا تھا، سامنے سے ایک انگریز افسر اپنی گاڑی میں آرہا تھا وہ سمجھا کہ کوئی شاہی خاندان کی خاتون ہوا خوری کو نکلی ہے۔
اس نے بگھی رکوائی خود اپنی گاڑی سے اترا سر پر سے ہیٹ اتارا اور حسینہ کی طرف دیکھ کر سر کو ہلا سا جھکایا۔ حسینہ نے ایک بے نیازی سے اس کی طرف دیکھا سرکو ہلایا اور بگھی رواں دواں ہوگئی۔ بعد میں اس انگریز افسرکو جب یہ پتہ چلا کہ وہ خاتون ہندوستان کی نامور مغنیہ گوہر جان ہے تو وہ بہت جز بز ہوا اور اس نے گوہر جان پر ایک ہزار روپیہ کا جرمانہ کردیا،کیونکہ چھ گھوڑوں کی گاڑی میں صرف شاہی خاندان کے لوگ ہی سفرکرسکتے تھے، لیکن گوہر جان کو اس سے کوئی فرق نہ پڑا وہ اسی شان سے چھ گھوڑوں کی بگھی میں سفرکرتی رہی اور روزانہ جرمانہ بھی ادا کرتی رہی۔
یہ وہ زمانہ تھا جب شملہ کی مال روڈ پر بورڈ لگا تھا کہ '' کتوں اورکالوں کا داخلہ ممنوع ہے'' گورے ہمارے ہی وطن میں آکر ہمیں ذلیل کرتے تھے، سونے کی چڑیا ہندوستان سے کوہ نور ہیرا بھی لے گئے اور مقامی لوگوں کو ذلیل کرنے میں کوئی کسر بھی نہ چھوڑی۔ گوہرجان کی مسلسل بگھی میں سواری اور روز جرمانہ ادا کرنے کی بات جب ملکۂ انگلستان تک پہنچی تو اس نے گوہر جان کو لندن بلوایا اور وہاں اس سے گانا سنا، گانا سننے کے بعد ملکہ نے کہا '' میں اپنے ملک کی ملکہ ہوں اورگوہر جان اپنے فن کی ملکہ ہے، اسے چھ گھوڑوں کی بگھی میں بیٹھنے کی اجازت ہے۔ ساتھ ہی ملکہ نے گوہرجان کو بیش قیمت تحائف بھی دیے اور اس کے فن کو سراہا۔
اپنے وقت کی ملکہ موسیقی گوہر جان 26 جنوری 1873 میں پٹنہ (انڈیا) میں پیدا ہوئی چونکہ اس کی زندگی زیادہ تر اعظم گڑھ میں گزری، اس لیے وہ اعظم گڑھ کی کہلائی،گوہر جان کے ماں باپ عیسائی تھے۔ اس کا اصل نام انجلینا تھا،اس کا باپ ولیم رابرٹ ایک آئس فیکٹری میں آفیسر تھا اور ماں وکٹوریہ ایک بہترین کتھک ڈانسر تھی۔
انجلینا جب چھ برس کی ہوئی تو اس کے والدین کے درمیان علیحدگی ہوگئی، اس کا بچپن بہت محرومیوں اور پریشانیوں میں گزرا۔ اس کے ماں باپ آپس میں ہر وقت لڑتے رہتے تھے جس کا اثر اس کی زندگی پر پڑا۔ ماں باپ کی ناچاقی کی وجہ یہ تھی کہ وکٹوریہ کا افیئر ولیم رابرٹ کے دوست خورشید سے ہوگیا تھا، جو ایک امیر زادہ تھا۔ طلاق کے بعد وکٹوریہ اپنی بیٹی کو لے کرکلکتہ آگئی اور وہاں اسلام قبول کرنے کے بعد خورشید سے شادی کر لی اور پھر وہ بڑی ملکہ جان کہلانے لگی اور بیٹی ہوگئی گوہر جان۔ بڑی ملکہ جان کہلوانے کی وجہ یہ تھی کہ وہاں پہلے سے دو اورگانے والیاں تھیں جن کے نام ملکہ جان تھے۔
اس لیے وکٹوریہ نے اپنے نام کے ساتھ ''بڑی'' کا اضافہ کر لیا۔ وہ جب کلکتہ آئی، وہ ایک گائیکہ اورکتھک ڈانسرکے روپ میں پہچانی جاتی تھی ملکہ جان نے پٹیالہ گھرانے کے استادکالے خاں سے کلاسیکل موسیقی کی تعلیم حاصل کی اور بیٹی گوہر جان کو بھی کالے خان کی شاگردی میںدیدیا۔ استاد کالے خان کے علاوہ گوہر جان نے پٹیالہ کے استاد علی بخش رام پورکے وزیر خاںکلکتہ کے پیارے صاحب اور لکھنؤ کے گریٹ مہاراج بندابین سے کلاسیکل سنگیت اورکتھک کی تعلیم حاصل کی۔
تین سال میں ملکہ جان نے چالیس ہزار میں کلکتہ میں ایک بلڈنگ خریدی جہاں وہ محفلیں سجایا کرتی تھی کچھ ہی دنوں میں گوہر جان کے کتھک رقص اورگائیکی کے چرچے ہونے لگے۔ ملکہ جان کا تعلق بنارس سے تھا لیکن برٹش دور میں کلکتہ کی ایک خاص اہمیت تھی ملکہ جان جب کلکتے میں محفلیں سجانے لگی تو اس کی اور اس کی بیٹی کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔
1889میں گوہر جان نواب واجد علی شاہ کے دربار سے وابستہ ہوگئیں۔ ہندوستان میں ابتداء ہی سے کلاسیکل موسیقی پر مسلمانوں کا راج رہا ہے۔ متذکرہ بالا موسیقاروں کے ناموں کے علاوہ آج بھی استاد بڑے غلام علی خاں، چھوٹے غلام علی خاں، استاد برکت علی کے نام سر فہرست ہیں۔ موسیقی میں گھرانے ہوا کرتے تھے جن میں مشہورگھرانے پٹیالہ گھرانہ، شام چوراسی گھرانہ وغیرہ، استاد فتح علی خان اور استاد امانت علی خان کا تعلق پٹیالہ گھرانے سے ہے۔ استاد نزاکت علی سلامت علی کا تعلق شام چوراسی گھرانے سے ہے۔
ہندوستان کے راجے، مہاراجے، نوابین اور بادشاہ فن اور فنکاروں کے بہت بڑے قدر دان تھے بڑے بڑے گویئے اور گائیک درباروں سے وابستہ ہوتی تھیں، اسی طرح دہلی گھرانہ، لکھنوگھرانہ اورجے پور گھرانے بھی ہوا کرتے تھے لکھنؤ گھرانے کے استاد برجو مہاراج کے نام اور فن سے موسیقی کے شیدائی بہت اچھی طرح واقف ہیں۔ گوہر جان جب نواب واجد علی شاہ کے دربار سے اپنی ماں کے ساتھ وابستہ ہوئی تو ان کا فن نکھرنے لگا کیونکہ نواب صاحب فن کے بہت بڑے قدر دان تھے، جب گوہر جان چودہ سال کی ہوئی تو اس نے نواب صاحب کے دربار ہال میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا، اس نے کتھک رقص بھی کیا اورگائیکی سے سب کے دل موہ لیے۔
1887 میں گوہر جان بہارکے در پھنگہ مہاراج رکش میشور سنگھ کے دربار سے وابستہ ہوگئی اور مہاراج کی زندگی تک نو برس تک دربار سے وابستہ رہی، یہ مدت 1898 تک کی ہے۔ مہاراجہ رکش میشور سنگھ کے دربار میں قسمت نے گوہر جان کے لیے دولت کے دروازے کھول دیے۔ مہاراجہ کی وفات کے بعد گوہر جان دوبارہ کلکتہ آگئی۔گوہر جان وہ پہلی فنکارہ تھی جو رقص کے ساتھ گانا بھی گاتی تھی۔ اس نے چودہ سالہ کی عمر میں مہاراجہ درپھنگہ کے دربار میں ایسا کتھک رقص پیش کیا کہ سب دنگ رہ گئے۔
ان کے فن کے اعتراف کے طور پر مہاراجہ نے انھیں قیمتی زیورات اور بہت سے تحائف بھی دیے۔ گوہر جان خیالی، دادرا، ٹھمری، کچری، غزل اور گیت گانے کے ماہر سمجھی جاتی تھی انھوں نے چھ سوگانے گائے جو ایک ریکارڈ ہے ۔ وہ پیدائشی فنکارہ تھی فن اسے اپنی ماں کی طرف سے ورثے میں ملا تھا پھر بڑے بڑے نامور موسیقاروں سے اس نے سنگیت اور رقص کی تعلیم حاصل کی۔ خاص طور پر وہ ٹھمری اور خیال گانے والی مشہورگائیکہ بن گئیں۔
گوہر جان راجوں، مہاراجوں اور نوابین کے دربارکی رونق تھیں، وہ کوئی عام گائیکہ نہیں تھیں وہ اپنی شرطوں پر محفلوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتی تھی، جب کسی دربار سے ان کا بلاوہ آتا تھا وہ ایک سو اشرفیاں وصول کرتیں، جب ان کے سازندے اشرفیوں کوگن لیتے اورگوہرکو یقین ہوجاتا کہ اشرفیاں پوری ایک سو ہیں تب وہ حامی بھرتیں۔ ان کی محفلوں میں شرکت کے لیے وہ ایک ہزار سے تین ہزار تک نذرانہ وصول کرتیں۔ عام آدمی ان کا گانا سن ہی نہیں سکتا تھا کیونکہ اس وقت تک گرامو فون نہیں تھا اور نہ ہی ریکارڈ جس زمانے میں سونا بیس (20) روپے تولہ بکتا تھا، تب وہ راجہ مہاراجوں سے منہ مانگی قیمت وصول کرتی تھیں۔
گوہر جان ایک ایسی گائیکہ تھی جسے اپنے فن سے پیار تھا بعض لوگ اسے طوائف بھی کہتے تھے لیکن یہ بات غلط ہے چونکہ اس کی ماں نے اسے زمانے کی اونچ نیچ اچھی طرح سمجھا دی تھی، اس لیے وہ بھٹکی نہیں یوں سمجھ لیجیے جیسے بیسویں صدی میں اختری بائی فیض آباد اور ملکہ پکھراج کا تعلق صرف گائیکی سے تھا، اسی طرح گوہر جان بھی صرف سنگیت پر چلتی تھی۔
(جاری ہے )
اس نے بگھی رکوائی خود اپنی گاڑی سے اترا سر پر سے ہیٹ اتارا اور حسینہ کی طرف دیکھ کر سر کو ہلا سا جھکایا۔ حسینہ نے ایک بے نیازی سے اس کی طرف دیکھا سرکو ہلایا اور بگھی رواں دواں ہوگئی۔ بعد میں اس انگریز افسرکو جب یہ پتہ چلا کہ وہ خاتون ہندوستان کی نامور مغنیہ گوہر جان ہے تو وہ بہت جز بز ہوا اور اس نے گوہر جان پر ایک ہزار روپیہ کا جرمانہ کردیا،کیونکہ چھ گھوڑوں کی گاڑی میں صرف شاہی خاندان کے لوگ ہی سفرکرسکتے تھے، لیکن گوہر جان کو اس سے کوئی فرق نہ پڑا وہ اسی شان سے چھ گھوڑوں کی بگھی میں سفرکرتی رہی اور روزانہ جرمانہ بھی ادا کرتی رہی۔
یہ وہ زمانہ تھا جب شملہ کی مال روڈ پر بورڈ لگا تھا کہ '' کتوں اورکالوں کا داخلہ ممنوع ہے'' گورے ہمارے ہی وطن میں آکر ہمیں ذلیل کرتے تھے، سونے کی چڑیا ہندوستان سے کوہ نور ہیرا بھی لے گئے اور مقامی لوگوں کو ذلیل کرنے میں کوئی کسر بھی نہ چھوڑی۔ گوہرجان کی مسلسل بگھی میں سواری اور روز جرمانہ ادا کرنے کی بات جب ملکۂ انگلستان تک پہنچی تو اس نے گوہر جان کو لندن بلوایا اور وہاں اس سے گانا سنا، گانا سننے کے بعد ملکہ نے کہا '' میں اپنے ملک کی ملکہ ہوں اورگوہر جان اپنے فن کی ملکہ ہے، اسے چھ گھوڑوں کی بگھی میں بیٹھنے کی اجازت ہے۔ ساتھ ہی ملکہ نے گوہرجان کو بیش قیمت تحائف بھی دیے اور اس کے فن کو سراہا۔
اپنے وقت کی ملکہ موسیقی گوہر جان 26 جنوری 1873 میں پٹنہ (انڈیا) میں پیدا ہوئی چونکہ اس کی زندگی زیادہ تر اعظم گڑھ میں گزری، اس لیے وہ اعظم گڑھ کی کہلائی،گوہر جان کے ماں باپ عیسائی تھے۔ اس کا اصل نام انجلینا تھا،اس کا باپ ولیم رابرٹ ایک آئس فیکٹری میں آفیسر تھا اور ماں وکٹوریہ ایک بہترین کتھک ڈانسر تھی۔
انجلینا جب چھ برس کی ہوئی تو اس کے والدین کے درمیان علیحدگی ہوگئی، اس کا بچپن بہت محرومیوں اور پریشانیوں میں گزرا۔ اس کے ماں باپ آپس میں ہر وقت لڑتے رہتے تھے جس کا اثر اس کی زندگی پر پڑا۔ ماں باپ کی ناچاقی کی وجہ یہ تھی کہ وکٹوریہ کا افیئر ولیم رابرٹ کے دوست خورشید سے ہوگیا تھا، جو ایک امیر زادہ تھا۔ طلاق کے بعد وکٹوریہ اپنی بیٹی کو لے کرکلکتہ آگئی اور وہاں اسلام قبول کرنے کے بعد خورشید سے شادی کر لی اور پھر وہ بڑی ملکہ جان کہلانے لگی اور بیٹی ہوگئی گوہر جان۔ بڑی ملکہ جان کہلوانے کی وجہ یہ تھی کہ وہاں پہلے سے دو اورگانے والیاں تھیں جن کے نام ملکہ جان تھے۔
اس لیے وکٹوریہ نے اپنے نام کے ساتھ ''بڑی'' کا اضافہ کر لیا۔ وہ جب کلکتہ آئی، وہ ایک گائیکہ اورکتھک ڈانسرکے روپ میں پہچانی جاتی تھی ملکہ جان نے پٹیالہ گھرانے کے استادکالے خاں سے کلاسیکل موسیقی کی تعلیم حاصل کی اور بیٹی گوہر جان کو بھی کالے خان کی شاگردی میںدیدیا۔ استاد کالے خان کے علاوہ گوہر جان نے پٹیالہ کے استاد علی بخش رام پورکے وزیر خاںکلکتہ کے پیارے صاحب اور لکھنؤ کے گریٹ مہاراج بندابین سے کلاسیکل سنگیت اورکتھک کی تعلیم حاصل کی۔
تین سال میں ملکہ جان نے چالیس ہزار میں کلکتہ میں ایک بلڈنگ خریدی جہاں وہ محفلیں سجایا کرتی تھی کچھ ہی دنوں میں گوہر جان کے کتھک رقص اورگائیکی کے چرچے ہونے لگے۔ ملکہ جان کا تعلق بنارس سے تھا لیکن برٹش دور میں کلکتہ کی ایک خاص اہمیت تھی ملکہ جان جب کلکتے میں محفلیں سجانے لگی تو اس کی اور اس کی بیٹی کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔
1889میں گوہر جان نواب واجد علی شاہ کے دربار سے وابستہ ہوگئیں۔ ہندوستان میں ابتداء ہی سے کلاسیکل موسیقی پر مسلمانوں کا راج رہا ہے۔ متذکرہ بالا موسیقاروں کے ناموں کے علاوہ آج بھی استاد بڑے غلام علی خاں، چھوٹے غلام علی خاں، استاد برکت علی کے نام سر فہرست ہیں۔ موسیقی میں گھرانے ہوا کرتے تھے جن میں مشہورگھرانے پٹیالہ گھرانہ، شام چوراسی گھرانہ وغیرہ، استاد فتح علی خان اور استاد امانت علی خان کا تعلق پٹیالہ گھرانے سے ہے۔ استاد نزاکت علی سلامت علی کا تعلق شام چوراسی گھرانے سے ہے۔
ہندوستان کے راجے، مہاراجے، نوابین اور بادشاہ فن اور فنکاروں کے بہت بڑے قدر دان تھے بڑے بڑے گویئے اور گائیک درباروں سے وابستہ ہوتی تھیں، اسی طرح دہلی گھرانہ، لکھنوگھرانہ اورجے پور گھرانے بھی ہوا کرتے تھے لکھنؤ گھرانے کے استاد برجو مہاراج کے نام اور فن سے موسیقی کے شیدائی بہت اچھی طرح واقف ہیں۔ گوہر جان جب نواب واجد علی شاہ کے دربار سے اپنی ماں کے ساتھ وابستہ ہوئی تو ان کا فن نکھرنے لگا کیونکہ نواب صاحب فن کے بہت بڑے قدر دان تھے، جب گوہر جان چودہ سال کی ہوئی تو اس نے نواب صاحب کے دربار ہال میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا، اس نے کتھک رقص بھی کیا اورگائیکی سے سب کے دل موہ لیے۔
1887 میں گوہر جان بہارکے در پھنگہ مہاراج رکش میشور سنگھ کے دربار سے وابستہ ہوگئی اور مہاراج کی زندگی تک نو برس تک دربار سے وابستہ رہی، یہ مدت 1898 تک کی ہے۔ مہاراجہ رکش میشور سنگھ کے دربار میں قسمت نے گوہر جان کے لیے دولت کے دروازے کھول دیے۔ مہاراجہ کی وفات کے بعد گوہر جان دوبارہ کلکتہ آگئی۔گوہر جان وہ پہلی فنکارہ تھی جو رقص کے ساتھ گانا بھی گاتی تھی۔ اس نے چودہ سالہ کی عمر میں مہاراجہ درپھنگہ کے دربار میں ایسا کتھک رقص پیش کیا کہ سب دنگ رہ گئے۔
ان کے فن کے اعتراف کے طور پر مہاراجہ نے انھیں قیمتی زیورات اور بہت سے تحائف بھی دیے۔ گوہر جان خیالی، دادرا، ٹھمری، کچری، غزل اور گیت گانے کے ماہر سمجھی جاتی تھی انھوں نے چھ سوگانے گائے جو ایک ریکارڈ ہے ۔ وہ پیدائشی فنکارہ تھی فن اسے اپنی ماں کی طرف سے ورثے میں ملا تھا پھر بڑے بڑے نامور موسیقاروں سے اس نے سنگیت اور رقص کی تعلیم حاصل کی۔ خاص طور پر وہ ٹھمری اور خیال گانے والی مشہورگائیکہ بن گئیں۔
گوہر جان راجوں، مہاراجوں اور نوابین کے دربارکی رونق تھیں، وہ کوئی عام گائیکہ نہیں تھیں وہ اپنی شرطوں پر محفلوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتی تھی، جب کسی دربار سے ان کا بلاوہ آتا تھا وہ ایک سو اشرفیاں وصول کرتیں، جب ان کے سازندے اشرفیوں کوگن لیتے اورگوہرکو یقین ہوجاتا کہ اشرفیاں پوری ایک سو ہیں تب وہ حامی بھرتیں۔ ان کی محفلوں میں شرکت کے لیے وہ ایک ہزار سے تین ہزار تک نذرانہ وصول کرتیں۔ عام آدمی ان کا گانا سن ہی نہیں سکتا تھا کیونکہ اس وقت تک گرامو فون نہیں تھا اور نہ ہی ریکارڈ جس زمانے میں سونا بیس (20) روپے تولہ بکتا تھا، تب وہ راجہ مہاراجوں سے منہ مانگی قیمت وصول کرتی تھیں۔
گوہر جان ایک ایسی گائیکہ تھی جسے اپنے فن سے پیار تھا بعض لوگ اسے طوائف بھی کہتے تھے لیکن یہ بات غلط ہے چونکہ اس کی ماں نے اسے زمانے کی اونچ نیچ اچھی طرح سمجھا دی تھی، اس لیے وہ بھٹکی نہیں یوں سمجھ لیجیے جیسے بیسویں صدی میں اختری بائی فیض آباد اور ملکہ پکھراج کا تعلق صرف گائیکی سے تھا، اسی طرح گوہر جان بھی صرف سنگیت پر چلتی تھی۔
(جاری ہے )