بہار آ چکی ہے

اس بار جون جولائی کے دہکتے اور سلگتے موسم میں اللہ کریم نے رمضان المبارک کی شکل میں ہمارے لیے بہار کا موسم بھیجا ہے۔

tanveer.qaisar@express.com.pk

GILGIT:
اس بار جون جولائی کے دہکتے اور سلگتے موسم میں اللہ کریم نے رمضان المبارک کی شکل میں ہمارے لیے بہار کا موسم بھیجا ہے۔ قلب و روح کی کلیوں کے کھلنے اور مہکتے شب و روز کا موسم۔ مبارک اور مسعود ہیں وہ انسان جو بہار کے اس متبرک لمحات سے پوری طرح مستفید ہو سکیں گے۔ اس موسم کے بارے میں اللہ کے آخری نبیؐ کے اتنے دلربا ارشاداتِ گرامی ہیں کہ انھیں پڑھ کر یہی خواہش ابھرتی ہے کہ ماہِ مقدس کے ماہتاب و آفتاب کبھی غروب نہ ہوں۔ رمضان شریف صدقات و خیرات کا موسم بھی ہے۔

یہ صدقات ہی تو ہیں جو' حضور نبی کریمؐ کے متعدد ارشاداتِ گرامی کی روشنی میں، ہماری زندگیوں میں فیوض و برکات اور حفاظت کا باعث بھی بنتے ہیں اور ہماری اخروی زندگی میں بھی ہماری بخشش کا موجب بنیں گے۔ انشاء اللہ۔ اس بارے میں ہمیں احکاماتِ ربانی اور ارشاداتِ رسولؐ پر دل کی گہرائیوں سے یقین رکھنا چاہیے۔ زکوٰۃ کا دینا کیوں لازم ہے، صدقات کی تقسیم ہمارے لیے ضروری کیوں ہے، ہم میں سے بیشتر ان معاملات سے پوری طرح آگاہ ہیں نہ یہ جانتے ہیں کہ زکوٰۃ اور صدقات و خیرات کو اللہ کی راہ میں کیسے خرچ کریں؟ اس سوال کا نہایت آسان جواب ہمارے دوست امجد رئوف خان نے دیا ہے۔

وہ تاریخ ساز ماہنامہ جریدے ''سیارہ ڈائجسٹ'' کے مدیر ہیں۔ انھوں نے رمضان المبارک کے فرحت افزا لمحات سے پوری طرح مستفید ہونے اور اللہ کی خوشنودی کے حصول کے لیے نہایت شاندار ''صدقات و خیرات نمبر'' شایع کیا ہے۔ مَیں نے اس کا مطالعہ کیا ہے تو دل مسرت و طمانیت سے بھر گیا ہے۔ روح بھی ایک نئی تازگی محسوس کر رہی ہے۔ ''صدقات و خیرات نمبر'' کا یہ خصوصی شمارہ پڑھ کر یہ احساس دل و دماغ میں جاگزیں ہو جاتا ہے کہ اگر ہمیں دنیاوی زندگی میں خود کو بلائوں اور وبائوں سے محفوظ رکھنا ہے تو پھر ہم سب کو صدقات و خیرات کا عملی مظاہرہ کرنا ہوگا۔

رمضان کریم کے مبارک لمحات میں زکوٰۃ کا صحیح تر مصرف بھی ہم ''سیارہ ڈائجسٹ'' کے اسی خصوصی نمبر کے مطالعہ سے جان سکتے ہیں۔ میں نے تو اس کے مطالعہ سے پہلی بار یہ جانا ہے کہ اگر ہمیں صدقہ دینا ہے تو پھر ہمیں اپنے مال کا بہترین حصہ اللہ کی راہ میں قربان کرنا ہو گا۔ یہی کئی احادیثِ مبارکہ کی اصل روح ہے جو خصوصی طور پر صدقات کے بارے میں حضورؐ نے ارشاد فرمائیں۔ اس سلسلے میں سب سے بہترین نمونہ رسول ؐاللہ کے محبوب صحابی سیدنا حضرت ابوذر غفاریؓ پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ ان سے منسوب یہ واقعہ ہمیں ایمانیات کی روح پرور دنیا میں لے جاتا ہے:

''قبیلہ بنی سُلیم کے ایک شخص کہتے ہیں کہ حضرت ابو ذر غفاریؓ ربذہ گائوں میں رہتے تھے۔ ان کے پاس اونٹ تھے اور ان کا چرانے والا ایک ضعیف آدمی تھا۔ میں بھی وہاں ان کے قریب ہی رہتا تھا۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ میں آپ کی خدمت میں رہنا چاہتا ہوں۔ آپ کے چرواہے کی مدد کروں گا اور آپ کے فیوض حاصل کروں گا۔ شاید اللہ تعالیٰ آپ کی برکات سے مجھے بھی نفع عطا فرمائیں۔ حضرت ابو ذرؓ نے فرمایا: میرا ساتھی وہ ہے جو میرا کہنا مانے۔ اگر تم اس کے لیے تیار ہو تو مضائقہ نہیں۔


میں نے پوچھا کہ آپ کس چیز میں میری اطاعت چاہتے ہیں؟ فرمایا کہ جب میں کوئی چیز کسی کو دینے کے لیے مانگوں تو سب سے بہترین چھانٹ کر دینا۔ میں نے قبول کر لیا اور ایک زمانہ تک ان کی خدمت میں رہا۔ ان کو معلوم ہوا کہ اس گھاٹ پر جو لوگ آباد ہیں، ان کو خوراک کی تنگی ہے۔ مجھ سے فرمایا کہ ایک اونٹ میرے اونٹوں میں سے لائو۔ میں نے حسب وعدہ تلاش کیا تو ان سب میں بہترین ایک اونٹ نر تھا جو بہت سدھا ہوا تھا، اس جیسا کوئی جانور اس ریوڑ میں نہیں تھا۔ میں نے وہی لے جانے کا ارادہ کیا، لیکن مجھے خیال ہو ا کہ اس کی خود یہاں بھی ضرورت رہتی ہے۔

اسے چھوڑ کر باقی اونٹوں میں جو سب سے افضل اور بہتر جانور تھا وہ ایک اونٹنی تھی، میں اسے لے گیا۔ اتفاق سے حضرت کی نظر اس اونٹ پر پڑ گئی جس کو میں مصلحت کی وجہ سے چھوڑ گیا تھا۔ مجھ سے فرمانے لگے: تم نے مجھ سے خیانت کی۔ میں سمجھ گیا اور اس اونٹنی کو واپس لا کر وہ اونٹ لے گیا۔ حاضرین مجلس سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ دو آدمی ایسے چاہئیں جو ایک ثواب کا کام کریں۔ دو افراد نے اپنے آپ کو پیش کیا کہ ہم حاضر ہیں۔ فرمایا کہ اگر تمہیں کوئی عذر نہ ہوتو اس اونٹ کو ذبح کر کے اس کے گوشت کے اتنے ٹکڑے کیے جائیں جتنے گھر اس گھاٹ پر آباد ہیں اور سب گھروں میں ایک ایک ٹکڑا اس گوشت کا پہنچا دیا جائے، اور میرا گھر بھی ان میں شمار کر لیا جائے، اور اس میں بھی اتنا ہی جائے جتنا جتنا اور گھروں میں جائے، زیادہ نہ جائے۔

ان دونوں نے قبول کر لیا اور تعمیل ارشاد کی۔ جب اس سے فارغ ہو گئے تو مجھے بلایا اور فرمایا کہ مجھے یہ معلوم نہ ہو سکا کہ تم میرے اس وعدہ کو جو شروع میں ہوا تھا، کیوں بھول گئے تھے؟ میں نے عرض کیا، مجھے وہ وعدہ خوب یاد تھا لیکن جب میں نے تلاش کیا اور یہ اونٹ سب سے افضل ملا تو مجھے آپ کی ضرورت کا خیال پیدا ہوا کہ آپ کو خود اس کی ضرورت ہے۔ فرمانے لگے کہ محض میری ضرورت کی وجہ سے چھوڑا تھا؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ فرمانے لگے کہ میں اپنی ضرورت کا وقت بتائوں؟ میری ضرورت کا وقت وہ ہے جب میں قبر کے گڑھے میں ڈال دیا جائوں گا۔ وہ دن میری محتاجی کا دن ہوگا۔

تیرے ہر مال میں تین شریک ہیں، معلوم نہیں کہ تقدیر اچھے مال کو لے جائے یا بُرے کو، وہ کسی چیز کا انتظار نہیں کرتی۔ دوسرا شریک وارث ہے، جو ہر وقت اس انتظار میں رہتا ہے کہ کب تُو قبر کے گڑھے میں جائے تا کہ وہ سارا مال وصول کرے۔ تیسرا تُو خود اس مال کا شریک ہے (کہ اپنے کام میں لا سکتا ہے) پس کوشش کر کہ تُو تینوں شریکوں میں کم حصہ پانے والا نہ ہو۔ ایسا نہ ہو کہ مقدر اس کو لے اڑے کہ وہ ضایع ہو جائے یا وارث لے اڑے۔ اس سے بہتر یہی ہے کہ تو اس کو جلدی سے اللہ تعالیٰ کے خزانہ میں جمع کر دے۔

تو کیوں نہ سب سے بہترین اور محبوب چیز کو اپنے لیے مخصوص کر کے محفوظ کر لوں اور (اللہ کی راہ میں) آگے بھیج دوں۔'' (صفحہ 47)صدقہ و خیرات کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہنا چاہیے۔ نبی کریمؐ فرماتے ہیں، صدقہ دو، خواہ یہ آدھی کھجور ہی کا کیوں نہ ہو۔ یہ جہنم کی آگ سے بچانے کا وسیلہ بنے گا۔ سچی بات ہے ماہنامہ ''سیارہ ڈائجسٹ'' نے ''صدقات و خیرات نمبر'' مرتب کر کے لاتعداد مسلمانوں پر بے پناہ احسان کیا ہے جو چاہے، وہ ''سیارہ ڈائجسٹ'' 240 مین مارکیٹ ریواز گارڈن لاہور پر خط لکھ کر یہ دل افروز اشاعت ''خیرات و صدقات نمبر'' حاصل کر سکتا ہے ۔
Load Next Story