میانمار کا ماڈل
پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان امریکا کی محبت کے اسیر ہوئے تھے
کیا 1947میں آزاد ہونے والے ملک کو سیاسی استحکام میسر آئے گا؟ وفاقی حکومت کی تحریک انصاف پر پابندی لگانے کی تجویز سے یہ سوال بہت اہمیت کا حامل ہوگیا ہے۔ بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سیاسی لڑائی کے نتیجے میں ایسے حربے استعمال کرنے پر نون لیگ کی حکومت مجبور ہوگئی ہے، مگر تاریخ کے مطالعے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جب بھی کسی حکومت نے غیر جمہوری حربوں کا سہارا لیا تو وہ خود بھی کمزور ہوگئی اور ملک کا سیاسی بحران مزید گھمبیر ہوگیا۔
جب 40کی دہائی میں آل انڈیا مسلم لیگ کا آزاد وطن قائم کرنے کا نعرہ مسلمانوں میں مقبول ہوا، تو اس کے اثرات باقی جماعتوں پر بھی آئے۔ کمیونسٹ پارٹی بھی ان کے اثرات سے متاثر ہوئی،کمیونسٹ پارٹی نے بھی پاکستان کی حمایت کرنے کا اعلان کیا۔ کمیونسٹ پارٹی کے اس فیصلے کی بنیاد پر اس کے حامی مسلمان رہنما کانگریس میں کام کررہے تھے، انھوں نے مسلم لیگ میں شمولیت کا اعلان کیا، جن میں ایک نمایاں نام ترقی پسند جاگیردار میاں افتخار الدین کا تھا۔
وہ پنجاب کے کانگریس کے اہم رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے اورکانگریس کے اہم ترین رہنماؤں گاندھی، نہرو اور مولانا ابو الکلام آزاد سے ذاتی تعلقات تھے، مگر انھوں نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ انیس ہاشمی کا شمار بھی دہلی کے نوجوان کمیونسٹوں میں ہوتا تھا، وہ بھی مسلم لیگ میں شامل ہوگئے اور دہلی مسلم لیگ کے سیکریٹری کا عہدہ سنبھال لیا۔ پاکستان کے قیام کے بعد کمیونسٹ پارٹی کا مطالبہ تھا کہ جاگیرداری کو ختم کیا جائے، بنگال کی اکثریت کو تسلیم کیا جائے اور غیر جانبدار خارجہ پالیسی اختیار کی جائے۔
پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان امریکا کی محبت کے اسیر ہوئے تھے، انھوں نے کمیونسٹ پارٹی کے خلاف آپریشن کیا۔ 1954 میں کمیونسٹ پارٹی اور اس کی ذیلی تنظیموں پر پابندی لگا دی گئی اور پاکستان سویت یونین کے خلاف فرنٹ اسٹیٹ بن گیا، مگرکمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگانے کے باوجود سیاسی بحران مزید شدید ہوا اور 1958 میں جنرل ایوب خان نے ملک کا پہلا مارشل لاء لگا دیا۔
جس دن ملک میں پہلا مارشل لاء لگا، تو مشرقی پاکستان کے دانشوروں نے اس کو ناپسند کیا اور مارشل لا کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں، تاریخ نے کمیونسٹ پارٹی کا موقف درست ثابت کیا۔ امریکا کا اتحادی ہونے کی وجہ سے ملک میں جمہوریت مستحکم نہ ہوسکی۔ ملک میں معیشت حقیقی بنیادوں پر استحکام پذیر نہ ہو سکی اور ایک مصنوعی معیشت وجود میں آئی، پھر 1968 میں عوامی تحریک کے نتیجے میں جنرل ایوب خان رخصت ہوئے اور جنرل یحییٰ خان نے اقتدار سنبھال لیا۔
ملک میں پہلی دفعہ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر عوام کو ووٹ کا حق ملا۔ مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ نے 95 فیصد نشستیں حاصل کرکے قطعی اکثریت حاصل کی۔ سندھ اور پنجاب سے پاکستان پیپلزپارٹی اور سرحد، بلوچستان سے نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علماء اسلام نے اکثریت حاصل کی، مگر جنرل یحییٰ خان نے عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہیں کیا۔جس سے عوام میں زبردست اشتعال پیدا ہوا اور عوامی لیگ نے بھرپور احتجاج شروع کر دیا۔
16دسمبر 1971 کو مشرقی پاکستان کے کمانڈر جنرل نیازی نے ڈھاکا کے ریس کورس گراؤنڈ میں اپنا پستول بھارتی فوج کے کمانڈر جنرل اڑوڑہ کے حوالے کیا اور80 ہزار پاکستانی فوجی بھارت کی قید میں چلے گئے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے جو نقصانات ہوئے، ان پرکبھی بحث نہیں ہوئی۔ پاکستان کے ایک بڑے سیکولر، متوسط طبقے کے علیحدہ ہونے سے اسٹیبلشمنٹ مزید مضبوط ہوگئی، انتہا پسندی کی جڑیں گہری ہوگئیں اور اس کا سارا نقصان ملک کے جمہوری نظام کو ہوا۔
یحییٰ خان نے نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگا دی۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم بن گئے اور انھوں نے آکر یہ پابندی ختم کی اور نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علماء اسلام کو سرحد اور بلوچستان میں اقتدار منتقل کر دیا۔ اس کے بعد ملک کا پہلا آئین بنایا گیا جس پر آج بھی سب کو اتفاق ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو، شہنشاہ ایران اور اسٹیبلشمنٹ سے ڈکٹیشن لینے لگے۔
نیشنل عوامی پارٹی کی بلوچستان میں حکومت کو توڑ دیا گیا، مفتی محمود جو سرحد کے وزیر اعلیٰ تھے، انھوں نے استعفیٰ دے دیا۔ بلوچستان میں آپریشن ہوا، نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگا دی گئی۔ بھٹو نے آئین کے انسانی حقوق کے باب کو معطل کردیا، حکومت مخالف سیاستدانوں پر پابندیاں لگا دی گئیں۔ مخالف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کوگرفتارکیا گیا۔ خصوصی عدالتیں قائم کی گئیں، انھوں نے سیاستدانوں کو طویل مدتی سزائیں سنائیں۔ نیشنل عوامی پارٹی اور پیپلزپارٹی کے منحرف رہنماؤں پر حیدرآباد میں مقدمات چلائے گئے ۔
ان اسیر رہنماؤں پر ملک دشمنی کے الزامات لگائے گئے ۔ ذوالفقارعلی بھٹو نے مارچ 1977 میں عام انتخابات کا اعلان کیا۔ تمام حکومت مخالف جماعتیں پی این اے میں متحد ہوگئیں، جنرل ضیاالحق نے اس کی خفیہ طور پر سر پرستی کی۔ 5جولائی 1977 کو جنرل ضیا نے ملک میں مارشل لاء لگا دیا۔ ذوالفقارعلی بھٹوکو پھانسی دے دی گئی، جنرل ضیا ء الحق نے بلوچستان آپریشن ختم کیا اور تمام اسیر رہنماؤں کو رہا کردیا۔
پیپلز پارٹی کے منحرف رہنما معراج محمد خان نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ '' بھٹو مئی 1977 میں ان سے اور باقی اسیر رہنماؤں سے ملاقات کرنا چاہتے تھے لیکن کوئی تیار نہیں ہوا۔'' جنرل ضیاء کے مارشل لاء کی حمایت کرنے والوں میں کچھ سیاستدان بھی شامل تھے، ضیاء الحق کی پالیسیوں نے صرف ملک میں نہیں بلکہ پورے خطے میں امن کو تہس نہس کرنے میں کردار ادا کیا۔ آج بھی خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں جو دہشت گردی جاری ہے، وہ ان کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔
کچھ قوتوں نے نواز شریف کو جیل بھجوا دیا اور 2018میں تحریک انصاف کی حکومت کو مسلط کردیا۔ اس دوران بعض قوتوں کو انسانی حقوق کی پامالی کرنے کا کھلا موقع دیا گیا۔ عمران خان کی حکومت نے میڈیا کی معیشت کو تباہ کیا۔ گمشدہ افراد کا مسئلہ مزید گمبھیر ہوگیا۔
بین الاقوامی اداروں کے کہنے پر پارلیمنٹ میں گمشدہ افرادکے متعلق بل پیش کیا گیا جس میں افراد کو لاپتہ کرنے کو فوجداری جرم قرار دیا گیا تھا، شیریں مزاری کے مطابق سینیٹ میں جب یہ بل زیر بحث تھا تو یہ بل وہاں سے لاپتہ ہوگیا اور یوں یہ مسئلہ جوں کا توں رہ گیا، مگر پی ڈی ایم کی حکومت جب آئی تو یہی پالیسی برقرار رہی اور میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔
وزیراعظم شہباز شریف اسلام آباد ہائی کورٹ میں گمشدہ افراد کے کیس میں پیش ہوئے اور ججزکو یقین دلایا کہ وہ اس مسئلے کا حل تلاش کریں گے، مگر آج تک یہ نہ ہو سکا۔ سونے پر سہاگہ کہ موجودہ حکومت نے عوام کی ڈیجیٹل پرائیویسی کو پامال کرنے اور خفیہ اداروں کوکالز سننے کا اختیار دے دیا۔ حکومت کی معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوگی۔
تاریخ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اگر حکومت تحریک انصاف پر پابندی لگاتی ہے تو اسے عدلیہ اور میڈیا پر مزید پابندیاں لگانا ہوں گی۔ انسانی حقوق کی پامالی بڑھ جائے گی اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں میانمار جیسا ماڈل نافذکیا جائے گا اور ظاہر ہے کہ پھر اس ماڈل میں مسلم لیگ نون اور دوسری جماعتوں کے لیے بھی جگہ نہیں بنے گی۔ تمام جمہوری جماعتوں نے تحریک انصاف پر پابندی کی مخالفت کی ہے اور اب شاید مسلم لیگ نون کی حکومت یہ معاملہ پارلیمنٹ میں لے جانا چاہتی ہے مگر بہتر یہ ہے کہ اس تجویزکو داخل دفتر کردیا جائے۔
جب 40کی دہائی میں آل انڈیا مسلم لیگ کا آزاد وطن قائم کرنے کا نعرہ مسلمانوں میں مقبول ہوا، تو اس کے اثرات باقی جماعتوں پر بھی آئے۔ کمیونسٹ پارٹی بھی ان کے اثرات سے متاثر ہوئی،کمیونسٹ پارٹی نے بھی پاکستان کی حمایت کرنے کا اعلان کیا۔ کمیونسٹ پارٹی کے اس فیصلے کی بنیاد پر اس کے حامی مسلمان رہنما کانگریس میں کام کررہے تھے، انھوں نے مسلم لیگ میں شمولیت کا اعلان کیا، جن میں ایک نمایاں نام ترقی پسند جاگیردار میاں افتخار الدین کا تھا۔
وہ پنجاب کے کانگریس کے اہم رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے اورکانگریس کے اہم ترین رہنماؤں گاندھی، نہرو اور مولانا ابو الکلام آزاد سے ذاتی تعلقات تھے، مگر انھوں نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ انیس ہاشمی کا شمار بھی دہلی کے نوجوان کمیونسٹوں میں ہوتا تھا، وہ بھی مسلم لیگ میں شامل ہوگئے اور دہلی مسلم لیگ کے سیکریٹری کا عہدہ سنبھال لیا۔ پاکستان کے قیام کے بعد کمیونسٹ پارٹی کا مطالبہ تھا کہ جاگیرداری کو ختم کیا جائے، بنگال کی اکثریت کو تسلیم کیا جائے اور غیر جانبدار خارجہ پالیسی اختیار کی جائے۔
پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان امریکا کی محبت کے اسیر ہوئے تھے، انھوں نے کمیونسٹ پارٹی کے خلاف آپریشن کیا۔ 1954 میں کمیونسٹ پارٹی اور اس کی ذیلی تنظیموں پر پابندی لگا دی گئی اور پاکستان سویت یونین کے خلاف فرنٹ اسٹیٹ بن گیا، مگرکمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگانے کے باوجود سیاسی بحران مزید شدید ہوا اور 1958 میں جنرل ایوب خان نے ملک کا پہلا مارشل لاء لگا دیا۔
جس دن ملک میں پہلا مارشل لاء لگا، تو مشرقی پاکستان کے دانشوروں نے اس کو ناپسند کیا اور مارشل لا کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں، تاریخ نے کمیونسٹ پارٹی کا موقف درست ثابت کیا۔ امریکا کا اتحادی ہونے کی وجہ سے ملک میں جمہوریت مستحکم نہ ہوسکی۔ ملک میں معیشت حقیقی بنیادوں پر استحکام پذیر نہ ہو سکی اور ایک مصنوعی معیشت وجود میں آئی، پھر 1968 میں عوامی تحریک کے نتیجے میں جنرل ایوب خان رخصت ہوئے اور جنرل یحییٰ خان نے اقتدار سنبھال لیا۔
ملک میں پہلی دفعہ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر عوام کو ووٹ کا حق ملا۔ مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ نے 95 فیصد نشستیں حاصل کرکے قطعی اکثریت حاصل کی۔ سندھ اور پنجاب سے پاکستان پیپلزپارٹی اور سرحد، بلوچستان سے نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علماء اسلام نے اکثریت حاصل کی، مگر جنرل یحییٰ خان نے عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہیں کیا۔جس سے عوام میں زبردست اشتعال پیدا ہوا اور عوامی لیگ نے بھرپور احتجاج شروع کر دیا۔
16دسمبر 1971 کو مشرقی پاکستان کے کمانڈر جنرل نیازی نے ڈھاکا کے ریس کورس گراؤنڈ میں اپنا پستول بھارتی فوج کے کمانڈر جنرل اڑوڑہ کے حوالے کیا اور80 ہزار پاکستانی فوجی بھارت کی قید میں چلے گئے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے جو نقصانات ہوئے، ان پرکبھی بحث نہیں ہوئی۔ پاکستان کے ایک بڑے سیکولر، متوسط طبقے کے علیحدہ ہونے سے اسٹیبلشمنٹ مزید مضبوط ہوگئی، انتہا پسندی کی جڑیں گہری ہوگئیں اور اس کا سارا نقصان ملک کے جمہوری نظام کو ہوا۔
یحییٰ خان نے نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگا دی۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم بن گئے اور انھوں نے آکر یہ پابندی ختم کی اور نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علماء اسلام کو سرحد اور بلوچستان میں اقتدار منتقل کر دیا۔ اس کے بعد ملک کا پہلا آئین بنایا گیا جس پر آج بھی سب کو اتفاق ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو، شہنشاہ ایران اور اسٹیبلشمنٹ سے ڈکٹیشن لینے لگے۔
نیشنل عوامی پارٹی کی بلوچستان میں حکومت کو توڑ دیا گیا، مفتی محمود جو سرحد کے وزیر اعلیٰ تھے، انھوں نے استعفیٰ دے دیا۔ بلوچستان میں آپریشن ہوا، نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگا دی گئی۔ بھٹو نے آئین کے انسانی حقوق کے باب کو معطل کردیا، حکومت مخالف سیاستدانوں پر پابندیاں لگا دی گئیں۔ مخالف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کوگرفتارکیا گیا۔ خصوصی عدالتیں قائم کی گئیں، انھوں نے سیاستدانوں کو طویل مدتی سزائیں سنائیں۔ نیشنل عوامی پارٹی اور پیپلزپارٹی کے منحرف رہنماؤں پر حیدرآباد میں مقدمات چلائے گئے ۔
ان اسیر رہنماؤں پر ملک دشمنی کے الزامات لگائے گئے ۔ ذوالفقارعلی بھٹو نے مارچ 1977 میں عام انتخابات کا اعلان کیا۔ تمام حکومت مخالف جماعتیں پی این اے میں متحد ہوگئیں، جنرل ضیاالحق نے اس کی خفیہ طور پر سر پرستی کی۔ 5جولائی 1977 کو جنرل ضیا نے ملک میں مارشل لاء لگا دیا۔ ذوالفقارعلی بھٹوکو پھانسی دے دی گئی، جنرل ضیا ء الحق نے بلوچستان آپریشن ختم کیا اور تمام اسیر رہنماؤں کو رہا کردیا۔
پیپلز پارٹی کے منحرف رہنما معراج محمد خان نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ '' بھٹو مئی 1977 میں ان سے اور باقی اسیر رہنماؤں سے ملاقات کرنا چاہتے تھے لیکن کوئی تیار نہیں ہوا۔'' جنرل ضیاء کے مارشل لاء کی حمایت کرنے والوں میں کچھ سیاستدان بھی شامل تھے، ضیاء الحق کی پالیسیوں نے صرف ملک میں نہیں بلکہ پورے خطے میں امن کو تہس نہس کرنے میں کردار ادا کیا۔ آج بھی خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں جو دہشت گردی جاری ہے، وہ ان کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔
کچھ قوتوں نے نواز شریف کو جیل بھجوا دیا اور 2018میں تحریک انصاف کی حکومت کو مسلط کردیا۔ اس دوران بعض قوتوں کو انسانی حقوق کی پامالی کرنے کا کھلا موقع دیا گیا۔ عمران خان کی حکومت نے میڈیا کی معیشت کو تباہ کیا۔ گمشدہ افراد کا مسئلہ مزید گمبھیر ہوگیا۔
بین الاقوامی اداروں کے کہنے پر پارلیمنٹ میں گمشدہ افرادکے متعلق بل پیش کیا گیا جس میں افراد کو لاپتہ کرنے کو فوجداری جرم قرار دیا گیا تھا، شیریں مزاری کے مطابق سینیٹ میں جب یہ بل زیر بحث تھا تو یہ بل وہاں سے لاپتہ ہوگیا اور یوں یہ مسئلہ جوں کا توں رہ گیا، مگر پی ڈی ایم کی حکومت جب آئی تو یہی پالیسی برقرار رہی اور میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔
وزیراعظم شہباز شریف اسلام آباد ہائی کورٹ میں گمشدہ افراد کے کیس میں پیش ہوئے اور ججزکو یقین دلایا کہ وہ اس مسئلے کا حل تلاش کریں گے، مگر آج تک یہ نہ ہو سکا۔ سونے پر سہاگہ کہ موجودہ حکومت نے عوام کی ڈیجیٹل پرائیویسی کو پامال کرنے اور خفیہ اداروں کوکالز سننے کا اختیار دے دیا۔ حکومت کی معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوگی۔
تاریخ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اگر حکومت تحریک انصاف پر پابندی لگاتی ہے تو اسے عدلیہ اور میڈیا پر مزید پابندیاں لگانا ہوں گی۔ انسانی حقوق کی پامالی بڑھ جائے گی اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں میانمار جیسا ماڈل نافذکیا جائے گا اور ظاہر ہے کہ پھر اس ماڈل میں مسلم لیگ نون اور دوسری جماعتوں کے لیے بھی جگہ نہیں بنے گی۔ تمام جمہوری جماعتوں نے تحریک انصاف پر پابندی کی مخالفت کی ہے اور اب شاید مسلم لیگ نون کی حکومت یہ معاملہ پارلیمنٹ میں لے جانا چاہتی ہے مگر بہتر یہ ہے کہ اس تجویزکو داخل دفتر کردیا جائے۔