پلیئرز پاور کو حقیقت میں ختم کریں
ماضی کے چیئرمین رمیز راجہ بھی بابر اعظم کے پیچھے چھپ جاتے تھے مگر نقوی ایسے نہیں ہیں
'' سر بعض کھلاڑی ہمیں ڈھکے چھپے الفاظ میں دھمکی دے رہے ہیں کہ بھارت میں ورلڈکپ کے دوران آئی سی سی کی تشہیری سرگرمیوں میں شرکت نہیں کریں گے، میڈیا انٹرویوز سے تو صاف انکار ہو چکا،کمرشل شوٹس کے لیے بھی بڑی منت سماجت کرنا پڑتی ہے''
میٹنگ میں جب ایک آفیشل نے پی سی بی کی اعلیٰ شخصیات سے یہ کہا تو سب کے ماتھے پر تشویش کی لکیریں نمایاں ہو گئیں، ایک نے پلیئرز ایجنٹ کا نام لیتے ہوئے کہا کہ اس سے بات کرنا چاہیے، دوسرے افسر کا کہنا تھا کہ معاوضے بڑھانے میں تو کوئی مسئلہ نہیں لیکن آئی سی سی سے ملنے والی رقم میں سے حصہ کیسے دے دیں''
یہ گذشتہ برس ورلڈکپ سے قبل بورڈ کی ایک میٹنگ کا احوال ہے جب سینٹرل کنٹریکٹ کے معاملے پر اختلافات زوروں پر تھے، اس وقت کے چیف سلیکٹر انضمام الحق درمیان میں پڑے،انھوں نے پی سی بی کو مسئلہ حل کرانے کا یقین دلایا لیکن کھلاڑیوں کو منہ مانگی رقم اور آئی سی سی کا شیئر بھی دلا دیا، تب انضمام اور اسٹار کرکٹرز کے ایجنٹ ایک ہی تھے، اب اس بات کو ایک برس ہی گذرا ہو گا لیکن حالات نے پلٹا کھایا، کل کے ہیروز آج چھپے بیٹھے ہیں، میڈیا کیا عام لوگوں کے سامنے بھی نہیں آ رہے، رواں برس ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں غیرمعیاری کارکردگی نے شائقین کی آنکھیں کھول دیں، انھوں نے جنھیں سر پر بٹھایا تھا اب واپس زمین پر پٹخ دیا۔
پی سی بی بھی اس صورتحال سے واقف ہے، وہ بھی فرنٹ فٹ پر آ گیا،موجودہ چیئرمین محسن نقوی وزیر داخلہ بھی ہیں،اگر نہ بھی ہوتے تووہ خاصی طاقتور شخصیت کے مالک ہیں، وہ بولڈ فیصلے کرنے کی مکمل اہلیت رکھتے ہیں، ماضی کے چیئرمین رمیز راجہ بھی بابر اعظم کے پیچھے چھپ جاتے تھے مگر نقوی ایسے نہیں ہیں، انھوں نے پلیئرز پاور ختم کرنے کا کہا تو اسے عملی جامہ پہنانے کے اقدامات بھی شروع کر دیے، چند ماہ قبل کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ بابر اعظم، شاہین آفریدی اور محمد رضوان کو کسی لیگ کیلیے این او سی نہیں دیا جائے گا مگر اب ایسا ہو چکا، تینوں کو کینیڈا جانے کی اجازت نہ ملی، یقینا وہ اس سے خوش نہیں ہوں گے لیکن اب کارکردگی ایسی نہیں کہ کوئی دھمکی کام کر جائے، بورڈ اگر صرف نسیم شاہ کو لیگ کھیلنے کی اجازت نہ دیتا تو لوگ سوال اٹھاتے کہ الگ پلیئرز کے لیے الگ قانون ہے لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ پالیسی کا سب پر یکساں اطلاق ہوگا، کرکٹ ایسا ہی بے رحم کھیل ہے، جب تک آپ اچھا پرفارم کریں لوگ آگے پیچھے گھومتے ہیں۔
کنگ، شیر فلاں مختلف ٹائٹلز سے نوازتے ہیں لیکن جیسے ہی شکست ہو سب نظریں پھیر لیتے ہیں، اسی لیے کہتے ہیں کہ اچھے وقت میں قدم زمین پر رکھو تاکہ برے وقت میں آسمان سے زمین پر پٹخے جانے سے تکلیف نہ ہو، اب کھلاڑی اس پوزیشن میں نہیں کہ اپنے مطالبات منوا سکیں، سینٹرل کنٹریکٹ میں معاوضے کی رقم کم کرنے کا فیصلہ قانونی مسائل کی وجہ سے بدل دیا گیا لیکن اب بھی پرفارم نہ کیا تو مستقبل میں مزید مسائل ہوں گے، نیوزی لینڈ اور انگلینڈ سمیت دنیا کے کئی ممالک میں اسٹار کرکٹرز سینٹرل کنٹریکٹ لینے سے انکار کر رہے ہیں، وہ بطور فری لانس کھیلیں گے،جب لیگز میں مصروف ہوئے تو قومی ٹیم کی نمائندگی سے انکار اور فراغت کے دنوں میں دستیابی ظاہر کر دی جائے گی، پاکستان میں بھی کھلاڑی گذشتہ برس تک ایسی دھمکیاں دیتے رہتے تھے کہ وہ کنٹریکٹ ہی نہیں لیں گے۔
اب پھر ایسی باتیں اڑائی جا رہی ہیں، البتہ موجودہ بورڈ کے سامنے شاید ایسی دھمکیاں نہ چلیں، ویسے بھی یہ نیوزی لینڈ یا انگلینڈ نہیں جہاں پلیئرز کے پیچھے ایسوسی ایشنز کھڑی ہوں، یہاں تو مطلب نکلنے پر کوئی کسی کو نہیں پوچھتا، قریبی دوست بھی قیادت کی لالچ میں ایک دوسرے کو دھوکا دے دیتے ہیں،اگر کسی پاکستانی کرکٹر نے کنٹریکٹ لینے سے انکار کر دیا اور اس سے بورڈ ناراض ہو گیا تو وہ لیگز بھی نہیں کھیل سکے گا کیونکہ اسے این او سی تو لینا ہی پڑے گا، لہذا محاذ آرائی سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، کھلاڑیوں کو بھی جان لینا چاہیے کہ اب وقت بدل چکا ہے، ہاں اگر اگلے سال ہوم گرائونڈ پر چیمپئنز ٹرافی جیت لی تو شاید پھر سے پہلے والی پوزیشن واپس مل جائے، اس وقت توجہ کارکردگی پر دیناچاہیے، بھارت میں ون ڈے ورلڈکپ سے قبل بھی کھلاڑی پرفارمنس سے زیادہ کنٹریکٹ کے معاوضے کی فکر کر رہے تھے۔
اب بھی یہ دکھ نہیں کہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں بدترین کھیل پیش کیا بلکہ معاوضے کی رقم نہ کٹ جائے،این او سی نہ ملنے سے اتنے کروڑ کا نقصان ہو گیا، ان باتوں پر افسوس ہے، خیر پی سی بی نے اب اگر سختی دکھائی ہے تو کسی دبائو میں آ کر پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے، کوئی بھی کرکٹر ناگزیر نہیں ہے، ایک جائے تو کئی سامنے آ جاتے ہیں،کھیل سے بڑا کسی کو نہ بننے دیں، انھیں احساس دلائیں کہ آپ پاکستان کی نمائندگی کر کے کوئی کسی پر احسان نہیں کر رہے، اس کے عوض کروڑوں روپے، فائیو اسٹار لائیو اسٹائل اور سیلیبریٹی اسٹیٹس بھی مل رہا ہے لہذا ملکی وقار کو اہمیت دیں، بورڈ کو سب سے زیادہ سلیکشن معاملات پر نظر رکھنی چاہیے، نوجوان بیٹرز کو جان بوجھ کر آگے نہیں آنے دیا گیا، اب انھیں مواقع دیں، آغاز بنگلہ دیش کے خلاف ٹیسٹ سیریز سے کریں۔
اس میں ڈومیسٹک کرکٹ کے پرفارمرز اور شاہینز کی جانب سے اچھا کھیل پیش کرنے والوں کو موقع دیں، اگر ہار بھی گئے تو کوئی غم نہیں ہوگا، ویسے بھی ''سپراسٹارز'' کی موجودگی میں زمبابوے، افغانستان، آئرلینڈ اور امریکا تک سے تو ہار چکے ہیں، گروپنگ ایسے ہی ختم ہو گی، کسی کھلاڑی کو اتنا پاور فل نہ بنائیں کہ وہ آپ کو ڈکٹیشن دے، بھارتی ٹیم سے آپ کوہلی اور روہت کو نکال دیں وہ پھر بھی جیتے گی، پاکستانی اسکواڈ کو بھی ایسا ہی ہونا چاہیے یہ دو،تین کرکٹرز نہیں پورے 11 کھلاڑیوں کی ٹیم لگے، جس دن ایسا ہوا گرین شرٹس عالمی ٹائٹلز دوبارہ سے جیتنے لگیں گے، دیکھتے ہیں بورڈ تگڑا رہتا ہے یا چند دن بعد پھر بیک فٹ پر آ جاتا ہے، مستقبل کا انحصار اسی پر ہوگا۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
میٹنگ میں جب ایک آفیشل نے پی سی بی کی اعلیٰ شخصیات سے یہ کہا تو سب کے ماتھے پر تشویش کی لکیریں نمایاں ہو گئیں، ایک نے پلیئرز ایجنٹ کا نام لیتے ہوئے کہا کہ اس سے بات کرنا چاہیے، دوسرے افسر کا کہنا تھا کہ معاوضے بڑھانے میں تو کوئی مسئلہ نہیں لیکن آئی سی سی سے ملنے والی رقم میں سے حصہ کیسے دے دیں''
یہ گذشتہ برس ورلڈکپ سے قبل بورڈ کی ایک میٹنگ کا احوال ہے جب سینٹرل کنٹریکٹ کے معاملے پر اختلافات زوروں پر تھے، اس وقت کے چیف سلیکٹر انضمام الحق درمیان میں پڑے،انھوں نے پی سی بی کو مسئلہ حل کرانے کا یقین دلایا لیکن کھلاڑیوں کو منہ مانگی رقم اور آئی سی سی کا شیئر بھی دلا دیا، تب انضمام اور اسٹار کرکٹرز کے ایجنٹ ایک ہی تھے، اب اس بات کو ایک برس ہی گذرا ہو گا لیکن حالات نے پلٹا کھایا، کل کے ہیروز آج چھپے بیٹھے ہیں، میڈیا کیا عام لوگوں کے سامنے بھی نہیں آ رہے، رواں برس ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں غیرمعیاری کارکردگی نے شائقین کی آنکھیں کھول دیں، انھوں نے جنھیں سر پر بٹھایا تھا اب واپس زمین پر پٹخ دیا۔
پی سی بی بھی اس صورتحال سے واقف ہے، وہ بھی فرنٹ فٹ پر آ گیا،موجودہ چیئرمین محسن نقوی وزیر داخلہ بھی ہیں،اگر نہ بھی ہوتے تووہ خاصی طاقتور شخصیت کے مالک ہیں، وہ بولڈ فیصلے کرنے کی مکمل اہلیت رکھتے ہیں، ماضی کے چیئرمین رمیز راجہ بھی بابر اعظم کے پیچھے چھپ جاتے تھے مگر نقوی ایسے نہیں ہیں، انھوں نے پلیئرز پاور ختم کرنے کا کہا تو اسے عملی جامہ پہنانے کے اقدامات بھی شروع کر دیے، چند ماہ قبل کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ بابر اعظم، شاہین آفریدی اور محمد رضوان کو کسی لیگ کیلیے این او سی نہیں دیا جائے گا مگر اب ایسا ہو چکا، تینوں کو کینیڈا جانے کی اجازت نہ ملی، یقینا وہ اس سے خوش نہیں ہوں گے لیکن اب کارکردگی ایسی نہیں کہ کوئی دھمکی کام کر جائے، بورڈ اگر صرف نسیم شاہ کو لیگ کھیلنے کی اجازت نہ دیتا تو لوگ سوال اٹھاتے کہ الگ پلیئرز کے لیے الگ قانون ہے لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ پالیسی کا سب پر یکساں اطلاق ہوگا، کرکٹ ایسا ہی بے رحم کھیل ہے، جب تک آپ اچھا پرفارم کریں لوگ آگے پیچھے گھومتے ہیں۔
کنگ، شیر فلاں مختلف ٹائٹلز سے نوازتے ہیں لیکن جیسے ہی شکست ہو سب نظریں پھیر لیتے ہیں، اسی لیے کہتے ہیں کہ اچھے وقت میں قدم زمین پر رکھو تاکہ برے وقت میں آسمان سے زمین پر پٹخے جانے سے تکلیف نہ ہو، اب کھلاڑی اس پوزیشن میں نہیں کہ اپنے مطالبات منوا سکیں، سینٹرل کنٹریکٹ میں معاوضے کی رقم کم کرنے کا فیصلہ قانونی مسائل کی وجہ سے بدل دیا گیا لیکن اب بھی پرفارم نہ کیا تو مستقبل میں مزید مسائل ہوں گے، نیوزی لینڈ اور انگلینڈ سمیت دنیا کے کئی ممالک میں اسٹار کرکٹرز سینٹرل کنٹریکٹ لینے سے انکار کر رہے ہیں، وہ بطور فری لانس کھیلیں گے،جب لیگز میں مصروف ہوئے تو قومی ٹیم کی نمائندگی سے انکار اور فراغت کے دنوں میں دستیابی ظاہر کر دی جائے گی، پاکستان میں بھی کھلاڑی گذشتہ برس تک ایسی دھمکیاں دیتے رہتے تھے کہ وہ کنٹریکٹ ہی نہیں لیں گے۔
اب پھر ایسی باتیں اڑائی جا رہی ہیں، البتہ موجودہ بورڈ کے سامنے شاید ایسی دھمکیاں نہ چلیں، ویسے بھی یہ نیوزی لینڈ یا انگلینڈ نہیں جہاں پلیئرز کے پیچھے ایسوسی ایشنز کھڑی ہوں، یہاں تو مطلب نکلنے پر کوئی کسی کو نہیں پوچھتا، قریبی دوست بھی قیادت کی لالچ میں ایک دوسرے کو دھوکا دے دیتے ہیں،اگر کسی پاکستانی کرکٹر نے کنٹریکٹ لینے سے انکار کر دیا اور اس سے بورڈ ناراض ہو گیا تو وہ لیگز بھی نہیں کھیل سکے گا کیونکہ اسے این او سی تو لینا ہی پڑے گا، لہذا محاذ آرائی سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، کھلاڑیوں کو بھی جان لینا چاہیے کہ اب وقت بدل چکا ہے، ہاں اگر اگلے سال ہوم گرائونڈ پر چیمپئنز ٹرافی جیت لی تو شاید پھر سے پہلے والی پوزیشن واپس مل جائے، اس وقت توجہ کارکردگی پر دیناچاہیے، بھارت میں ون ڈے ورلڈکپ سے قبل بھی کھلاڑی پرفارمنس سے زیادہ کنٹریکٹ کے معاوضے کی فکر کر رہے تھے۔
اب بھی یہ دکھ نہیں کہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں بدترین کھیل پیش کیا بلکہ معاوضے کی رقم نہ کٹ جائے،این او سی نہ ملنے سے اتنے کروڑ کا نقصان ہو گیا، ان باتوں پر افسوس ہے، خیر پی سی بی نے اب اگر سختی دکھائی ہے تو کسی دبائو میں آ کر پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے، کوئی بھی کرکٹر ناگزیر نہیں ہے، ایک جائے تو کئی سامنے آ جاتے ہیں،کھیل سے بڑا کسی کو نہ بننے دیں، انھیں احساس دلائیں کہ آپ پاکستان کی نمائندگی کر کے کوئی کسی پر احسان نہیں کر رہے، اس کے عوض کروڑوں روپے، فائیو اسٹار لائیو اسٹائل اور سیلیبریٹی اسٹیٹس بھی مل رہا ہے لہذا ملکی وقار کو اہمیت دیں، بورڈ کو سب سے زیادہ سلیکشن معاملات پر نظر رکھنی چاہیے، نوجوان بیٹرز کو جان بوجھ کر آگے نہیں آنے دیا گیا، اب انھیں مواقع دیں، آغاز بنگلہ دیش کے خلاف ٹیسٹ سیریز سے کریں۔
اس میں ڈومیسٹک کرکٹ کے پرفارمرز اور شاہینز کی جانب سے اچھا کھیل پیش کرنے والوں کو موقع دیں، اگر ہار بھی گئے تو کوئی غم نہیں ہوگا، ویسے بھی ''سپراسٹارز'' کی موجودگی میں زمبابوے، افغانستان، آئرلینڈ اور امریکا تک سے تو ہار چکے ہیں، گروپنگ ایسے ہی ختم ہو گی، کسی کھلاڑی کو اتنا پاور فل نہ بنائیں کہ وہ آپ کو ڈکٹیشن دے، بھارتی ٹیم سے آپ کوہلی اور روہت کو نکال دیں وہ پھر بھی جیتے گی، پاکستانی اسکواڈ کو بھی ایسا ہی ہونا چاہیے یہ دو،تین کرکٹرز نہیں پورے 11 کھلاڑیوں کی ٹیم لگے، جس دن ایسا ہوا گرین شرٹس عالمی ٹائٹلز دوبارہ سے جیتنے لگیں گے، دیکھتے ہیں بورڈ تگڑا رہتا ہے یا چند دن بعد پھر بیک فٹ پر آ جاتا ہے، مستقبل کا انحصار اسی پر ہوگا۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)